شعبان معظم کی فضیلت

شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزہ رکھنے کی علما نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں۔

شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزہ رکھنے کی علما نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں۔ فوٹو : فائل

رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار و برکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں رسول اکرمؐ شعبان کے مہینے میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنّتیں اور نفافل پڑھتے تھے، اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھے روزے رکھتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔

اللہ تعالی نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینے رجب، شعبان، رمضان اور محرم برگزیدہ فرمائے۔ شعبان معظم کو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مہینہ قرار دیا۔ لہذا شعبان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام بھلائیوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ آسمان سے برکتیں اتاری جاتی ہیں، گناہ گار بخشش پاتے ہیں اور برائیاں مٹادی جاتی ہیں۔ شب برأت اسی ماہ مبارک میں ہے۔ شعبان کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بننے والا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : شعبان کو شعبان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں احترام رمضان کی وجہ سے بہت سی نیکیاں پھیلتی ہیں اور رمضان کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں بہت سے گناہ جلا دیے جاتے ہیں۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: اس مہینے میں اللہ تعالی کی طرف سے بندے کو یہ چار چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور برکات کا نزول ہوتا ہے، گناہ گار چھوڑ دیے جاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کثرت سے ہدیۂ درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔

سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ تعالی کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اور مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا، مفہوم : '' یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں جو رجب اور رمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔'' ( صحیح النسائی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتے تو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینے کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔

(صحیح البخاری: رقم الحدیث:1969، صحیح مسلم: رقم الحدیث 1156)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مہینے میں شعبان کے مہینے سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔

جامع الترمذی: رقم الحدیث736، سنن النسائی: رقم الحدیث2180 )

نوٹ: یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، کیوں کہ بعض مرتبہ اکثر پر کُل کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔

شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزہ رکھنے کی علما نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں۔ چوں کہ اس مہینے میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے، اس لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت میں بھی موجود ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث)

رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار و برکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفافل پڑھتے تھے، اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھے روزے رکھتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔

مختلف احادیث سے اس ماہ مبارک میں روزے رکھنے کی فضیلت ثابت و واضح ہوچکی ہے اور اس ماہ مقدس کے مقصد اور اس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اور اس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزے کا مقصد اور ماحصل ہے۔

بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس ماہ معظم کی مبارک گھڑیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین
Load Next Story