منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے پاکستان کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس قوانین پر عملدرآمد

ترمیم کامقصد پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچانے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معیار پر پورا اترنا ہے۔

نئی ترمیم میں فضائی عملے، مسافروں اوران کے فضائی سفرکے اخراجات کے ذرائع کے بارے میں معلومات مہیاکرنا لازم قراردیا گیا ، اممبرکسٹمز ایف بی آر۔ فوٹو : فائل

پاکستان نے فضائی عملے اور مسافروں اور ان کے فضائی سفر کے اخراجات کے ذرائع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے کسٹم قوانین میں ترمیم کی تجویز دی ہے تاکہ منی لانڈرنگ پر قابو پانے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قواعد پر عمل درآمد کیا جا سکے۔

پاکستان نے 1969کے کسٹم ایکٹ کی شق نمبر 42میں ترمیم کی تجویز دی ہے جو کنوینس کی آمد سے متعلق ہے۔ یہ ترمیم فنانس بل 2018کا حصہ ہے جس کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی گزشتہ روز توثیق کی ہے۔

ایف بی آر کے ممبر کسٹمز زاہد کھوکھر نے قائمہ کمیٹی کو اس ترمیم کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچانے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معیار پر پورا اترنا ہے۔

زاہد کھوکھر کا کہنا تھا کہ یہ منی لانڈرنگ کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دے گی خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب لوگ نقد رقم کی نقل و حرکت میں ملوث ہوں۔

ایف اے ٹی ایف نے جون سے پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی اعانت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پاکستان گرے لسٹ سے خارج ہونے کے لیے پرعزم ہے۔ اب سے پہلے ایف بی آر صرف عملے کے حوالے سے معلومات حاصل کرتا تھا، نئی ترمیم کے مطابق اب ہر کسی پر لازم ہو گا کہ وہ عملے اور مسافروں کی فہرست مہیا کرے۔ ایک اور مجوزہ ترمیم کے مطابق کنوینس معلومات کا ریکارڈ دینے کی پابند ہو گی۔


زاہد کھوکھر نے واضح کیا کہ ترمیم مسافروں کے ٹکٹ کی ادائیگی کے طریقہ کار کو جاننے میں مدد دے گی جس سے منی لانڈرنگ کرنے والوں کے ذرائع تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔

کمیٹی نے ایک اور تجویز کی توثیق کی جس کے مطابق پاکستان کسٹم کے آبی دائرہ کار کو ساحل سے 12ناٹیکل میلوں سے بڑھا کر 24 ناٹیکل میل کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متصادم اپنی سابقہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے حکومت نے وزیر خزانہ کے ٹیکس یا ڈیوٹیاں عائد یا ختم کرنے کے اختیار کو ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔

قائمہ کمیٹی نے حکومت کی اس تجویز کی حمایت کی ہے۔ اب یہ اختیار اپنے اصل مقام یعنی وفاقی کابینہ کے پاس واپس چلا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے اگست 2016کے تاریخی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ حکومت وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم پر مشتمل ہوتی ہے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے انحراف کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنا اختیار واپس لینے کے لیے گزشتہ سال جون میں چار ٹیکس قوانین میں ترامیم کر دی تھیں۔ فروری میں سندھ ہائی کورٹ نے وہ شقیں ختم کر دی تھیں جو وزیر خزانہ کو ٹیکس قوانین میں تبدیلی کرنے کا اختیار دیتی تھیں۔

اس سے ایف بی آر کے لیے سخت مشکلات پیدا ہو گئیں جس نے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بھاری ڈیوٹیاں عائد کی ہوئی تھیں۔ اسی سے متعلقہ ایک اور ترمیم میں حکومت نے ان اختیارات کے خاتمے کی بھی تجویز دی تھی جو ایف بی آر کو کابینہ کی اقتصادی تعاون کمیٹی کی منظوری کے بغیر صرف وزیر خزانہ کی منظوری سے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ ترمیم کے مطابق اب ایف بی آر صرف حکومت کی منظوری کے بعد ہی نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے جس سے مراد کابینہ ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایف بی آر کی طرف سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے معیار پر پورا اترنے کے لیے مختلف اقدامات کے اثرات کا اندازہ کیے بغیر قوانین میں ترامیم کرنے کے فیصلے پر بھی اعتراض کیا۔ ایف بی آر2014کے فیسلٹیشن ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت آتھورائزڈ اکنامک آپریٹرپروگرام کا تصور متعارف کرانے کے لیے قانون میں ایک نئی شق شامل کرنا چاہتا تھا۔
Load Next Story