بدمزاجی اور تکبر دارا کو لے ڈوبا
لڑکپن ہی سے شہزادہ فلسفیوں اور صوفیوں کی محفلوں میں جانے لگا۔
PARIS:
پچھلے دنوں چند محترم کالم نگاروں کے کالموں میں مشہور مغل شہزادے، داراشکوہ کی شخصیت و کردار پر دلچسپ بحث پڑھنے کو ملی۔
ایک مکتب فکر کے نزدیک شہزادہ انسان دوست، غیر متعصب اور عالم فاضل ہستی تھا۔ دوسرے نظریاتی گروہ نے اسے نالائقی اور نااہلی کی علامت قرار دیا۔ علم تاریخ کا ادنیٰ طالب ہونے کے ناتے راقم نے یہ جائزہ لیا ہے کہ مورخین نے شہزادے کی بابت کیا خامہ فرسائی فرمائی۔
دارشکوہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا جو مارچ 1615ء میں پیدا ہوا۔ والدہ ممتاز محل نے چودہ بچوں کو جنم دیا جن میں سے سات چل بسے۔ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے وہ اپنے باپ کا لاڈلا تھا اور اس کی پرورش بڑے عیش و نعم میں ہوئی۔لڑکپن ہی سے شہزادہ فلسفیوں اور صوفیوں کی محفلوں میں جانے لگا۔ اسے حکومتی انتظام اور فن سپہ گری سے زیادہ علم و فضل سے لگاؤ تھا۔ وہ فنون لطیفہ کا بھی سرپرست تھا۔یہ امر عیاں کرتا ہے کہ صوفیوں اور علما کی قربت کے باعث شہزادے کو منکسر المزاج، حلیم الطبع اورہمدرد انسان ہونا چاہیے مگر جدید مورخین ایسا نہیں سمجھتے۔
پروفیسر ڈاکٹر علی ندیم رضوی بھارت کی علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ مشہور بھارتی مورخ ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں :''داراشکوہ بدمزاج، مغرور اور خود کو عقل کُل سمجھنے والا شہزادہ تھا۔ وہ دربار میں معززین کا سرعام مذاق اڑاتا اور انھیں گھٹیا سزا دینے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ اس نے راجا جے سنگھ کو ''دکنی بندر'' کا خطاب دیا تھا۔ علماء کو ''بے وقوف'' اور ''خچر'' کہہ کر پکارتا۔''
برصغیر کے ممتاز مصور، عبدالرحمن چغتائی کے فرزند عارف رحمن چغتائی نے حال ہی میں ایک انگریزی کتاب ''آئینہ خانہ لاہور آف پرنس داراشکوہ'' تحریر کی ہے۔ اس میں بھی وہ شہزادے کو متکبر، خود پرست اور گھمنڈی قرار دیتے ہیں۔مشہور ہندو مورخ، جادو ناتھ سرکار نے بھی اپنی کتاب ''تاریخ اورنگزیب'' میں لکھا ہے: ''شہزادہ دارشکوہ اپنے باپ کا گستاخ اور مغرور بیٹا تھا۔ باپ نے ہر معاملے میں اسے دوسرے بیٹوں پر ترجیح دی۔ اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ عیش و عشرت میں پڑنے کی وجہ سے اس کی قوت فیصلہ کمزور ہوگئی جو حکمران کی منفی خاصیت ہے۔''
دلچسپ بات یہ کہ شہزادہ داراشکوہ کے دو غیر ملکی طبیب البتہ اپنی کتب میں اس کی انسان دوستی اور علم و فضل میں تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔ فرانسیسی طبیب، فرانسوا برنیئر (Francois Bernier) اور اطالوی نیکولاؤ منوچی (Niccolao Manucci)، دونوں نے لکھا کہ شہزادہ اپنی علمی و جاہت اور انسان دوستی کے سبب عوام میں مشہور تھا۔شہزادے کے حالات زندگی خصوصاً آخری دور کے واقعات انہی دو یورپی باشندوں سے ماخوذ ہیں۔
دور جدید کے مورخین مگر دونوں یورپی طبیبوں کی کتب کو یکطرفہ قرار اور متنازع قرار دیتے ہیں۔ مثلاً نیکولائی منوچی کی رو سے تو داراشکوہ اخیر وقت میں عیسائی ہوگیا تھا۔ وہ لکھتا ہے ''جب تلوار سے شہزادے کا سر قلم کیا جانے لگا، تو وہ پکار اٹھا، میرے پیغمبر (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ اب اللہ کا بیٹا (یعنی حضرت عیسیٰؑ) ہی مجھے بچائے گا۔''
دونوں یورپی ڈاکٹر شہزادہ دارشکوہ کے حمایتی تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی کتب میں مخالف شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کی کردار کشی کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اورنگزیب فرشتہ نہیں تھا، بشر ہونے کے ناتے اس سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ مگر یورپی اور بعض ہندو مورخین نے کئی ناکردہ جرائم اس کے سر تھوپ دیئے۔ اسی لیے خصوصاً آج ہندوعوام اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ شہزادہ داراشکوہ اپنی بدمزاجی اور غرور کے باعث ہی زوال پذیر ہوا۔ یہ داستان بڑی عبرتناک ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ جس حکمران نے بھی خود کو عقل کُل اور دوسروں کو ناقص سمجھا، وہ آخر کار ذلیل و خوار ہوکر رہتا ہے۔ کئی حکمران صرف اپنے غرور و گھمنڈ کے باعث حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
قصہ یہ ہے کہ 1657ء میں شاہجہاں کے مرنے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی۔تبھی چاروں شہزادوں نے بادشاہ بننے کی تیاری کر لی ۔شاہجہاں کو معلوم تھا کہ اقتدار کے لیے بیٹوں کے درمیان جنگ روکنا تقریباً ناممکن بات ہے۔ تاہم وہ کسی بھی قیمت پر جنگ کو روکنا چاہتے تھے۔ اسی لیے شاہجہاں نے اپنی سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ شاہ شجاع کو بنگال دیا گیا، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ ملا، مرادبخش کو گجرات دیا گیا اور دارا کے حصہ میں کابل اور ملتان آیا۔
دارا شکوہ کو چھوڑ کر سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن وہ بادشاہ کے پاس ہی رہا۔ شجاع ، مرادبخش اور اورنگ زیب فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے، دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔ طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔ دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے جس سے تینوں بھائی ان سے بدظن ہوگئے۔
دارا وقت کے ساتھ ساتھ اتنا مضبوط ہو گیاکہ اس نے شاہی دربار میں شاہجہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا۔ وہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا ۔ دارا کو سب سے زیادہ خوف اورنگزیب سے تھا۔ اس نے ایک نہیں کئی مرتبہ اورنگزیب کے خلاف فرمان صادر کیا۔اسی لیے دونوں کے درمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی۔دارا نے اپنے والد اور باقی بھائیوں کے درمیان نفرت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ بھائیوں کی طرف سے آئے پیغامات شاہجہاں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ تینوں سازش کر رہے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ کہ خود شاہجہاں کو دارا شکوہ پر اعتماد نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ دارا اسے زہر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
آخر 29مئی 1658ء کودارا شکوہ اور اورنگ زیب کے مابین سامو گڑھ پر جنگ کی نوبت آ پہنچی۔ یہ مقام آگرہ شہر سے دس میل دور ہے۔آج کل فتح آباد کہلاتا ہے۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی،مراد بخش سے اتحاد کر لیا تھا۔ دونوں کی افواج میں چالیس ہزار سپاہی شامل تھے۔دارا کی فوج ساٹھ ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔
اس دوران شاہجہاں نے ایک کے بعد ایک کئی فرمان دارا کو بھیجے۔ سب میں ایک ہی پیغام تھا کہ وہ جلدبازی نہ کرے اور اپنے بیٹے،سلیمان شکوہ کا انتظار کرے جو کمک لے کر آ رہا تھا۔ والد کی فکر سے بے پرواہ دارا نے ایک ہی جواب لکھا''میں اورنگ زیب اور مراد بخش کو ہاتھ پاوں باندھ کر آپ کے سامنے جلد پیش کروں گا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔'' دارا نے بہرحال اورنگ زیب کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی منصوبہ بندی کی تھی۔
دارا نے پہلی قطار میں بھاری توپیں لگائیں جنہیں لوہے کی زنجیروں سے باندھ دیا گیا ۔اس کے پیچھے اونٹوں کی قطار تھی جن پر ہلکا بارود لدا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے شاہی فوج کے پیادہ پا دستے تھے۔ اورنگ زیب اور مراد بخش نے بھی تقریبا اسی طرح کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کچھ توپ خانے اورنگ زیب نے چھپا کر رکھے تھے۔
جنگ شروع ہوئی
دارا کی توپوں نے پہلے حملہ شروع کیا، جس کا جواب اورنگ زیب کی توپوں سے ہی دیا گیا۔لیکن کچھ ہی دیر میں تیز بارش ہونے کی وجہ سے توپیں خاموش ہو گئیں۔ بارش تھمتے ہی توپیں پھر گرجنے لگیں۔دارا جنگ کے دوران انتہائی فعال نظر آیا۔ وہ چاروں سمت گھوم کر اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جوش بڑھا رہا تھا۔ دارا اپنے خوبصورت ہاتھی پر سوار تھا۔وہ دشمنوں کی توپوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا ارادہ کسی بھی طرح اورنگ زیب کو قابو میں کرنے کا تھا۔
جلد ہی دارا کے ارد گرد لاشوں کا انبار لگ گیا۔اس کی فوج پر بار بار حملہ ہو رہا تھا ، لیکن وہ تب بھی بے خوف حکم دے رہا تھا۔ حملے میں شدت دیکھ کر توپ کو زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا، لیکن اس کی وجہ سے مخالف فوج پہلی قطار توڑنے میں کامیاب ہوگئی ۔ توپیں ہٹتے ہی دونوں جانب کی فوجیں آپس میں بھڑ گئیں اور جنگ خوفناک ہوتی چلی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ دارا جنگ کی مہارت میں اورنگ زیب سے کمزور تھا۔ جنگ کے دوران دارا کی فوج میں ہم آہنگی کا فقدان بھی نظر آیا۔
اس دوران آسمان سے تیر وں کی بوچھار ہونے لگی ، لیکن دس میں سے دو ہی تیر نشانے پر لگ رہے تھے۔ باقی زیادہ دور نہ پہنچ پاتے۔ تیروں کے بعد تلواریں نکال لی گئیں اور جنگ کا چہرہ مزید خوفناک ہو گیا۔جوش کے ساتھ آگے بڑھتے دارا نے آخر دشمن کی توپوں کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ دارا نے اورنگ زیب کو پکڑنے کی کافی کوششیں کیں ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔اورنگ زیب زیادہ دور نہیں تھا۔ دارا جانتا تھا کہ جنگ اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب وہ اورنگ زیب کو پکڑ لے یا اسے مار ڈالے۔ لیکن دارا کی بدقسمتی کہ اسے پہلی بری خبر بائیں جانب سے آئی۔ اس کے بائیں جانب کا مورچہ کمزور پڑ رہا تھا۔ تبھی اسے اپنے سرداروں سے پتہ چلا کہ بائیں جانب مامور فوج کے سالار،رستم خان اور راجا چھترسال مارے جا چکے ۔اس کے بعد ایک اور سالار،رام سنگھ روتیلا نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی گھیرا بندی کو توڑ دیا۔
اب دارا شکوہ نے اورنگزیب کی توپوں کو پیچھے دھکیلنے کا خیال چھوڑ دیا۔وہ بائیں جانب بڑھا اور زبردست جنگ کے بعد دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس دوران راجا روتیلا نے زور دار جنگ کرتے ہوئے شہزادہ مراد بخش کو زخمی کر ڈالا۔مراد چاروں طرف سے شاہی فوج سے گھر گیا لیکن اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اس وقت ایک تیر براہ راست روتیلا کو لگی اور وہ وہیں چل بسا۔
خلیل اللہ خان کا بدلہ
اب جنگ جیتنے کی صرف یہ صورت تھی کہ کسی طرح اورنگ زیب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔لیکن ایک دھوکے کی وجہ سے دارا یہ کام بھی نہ کر سکا۔اس نے ایک ازبک سپہ سالار،خلیل اللہ خان کو دائیں جانب کے محاذ پر کھڑا کیا تھا۔تقریباً بیس ہزار سپاہی اس کے ماتحت تھے۔اس فوج نے اب تک جنگ میں سرگرم حصہ نہیں لیا تھا ۔خلیل اللہ دارا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وقت آنے پر وہ حملہ کریں گے مگر ایسا نہیںہوا۔وجہ یہ کہ وہ درپردہ شہزادہ اورنگ زیب سے جا ملا تھا۔
فرانسوا برنیئر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ چند سال پہلے داراشکوہ نے معمولی غلطی پر خلیل اللہ خان کی جوتوں سے پٹائی کرائی تھی۔ خلیل اللہ اپنی اس بے عزتی کو کبھی نہ بھول پایا۔اب اس نازک گھڑی میں خلیل اللہ نے اپنی بے عزتی کا بدلہ دھوکا دے کر لے لیا۔خلیل اللہ نے بہانہ بنایا کہ اس کی فوج بعد میں حملہ کرے گی۔اس کا انداز ایسا تھا کہ دارا کو بالکل شک نہ ہوا۔
دارا ویسے بھی خلیل اللہ کی فوج کے بغیر بھی جنگ جیت سکتا تھا۔خلیل اللہ کو بھی اس بات کا اندازہ تھا۔ اس واسطے دارا کی شکست یقینی بنانے کے لیے اس نے اپنے محاذکو چھوڑ کر کچھ ساتھیوں کو ساتھ لیا اور دارا کے قریب جا پہنچا۔ دارا اس وقت اپنی سپاہ سمیت مراد بخش کو پکڑنے آگے بڑھ رہا تھا۔
دارا کے قریب جا کر خلیل اللہ نے کہا''مبارک باد حضرت سلامت، الحمد للہ، آپ خوش رہیں، آپ کی صحت ٹھیک رہے۔ جیت آپ کی ہی ہوگی، لیکن میرے سرکار آپ اب بھی اس بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ خدا نہ کرے اتنے سارے تیروں میں سے کوئی تیر یا بارود کا گولہ آپ پر گرا تو کیا ہوگا؟ ''
خلیل اللہ نے کچھ توقف کے بعد دارا سے کہا '' سرکار جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوں اور محصور مراد بخش کو فرار ہونے سے قبل گرفتار کرلیں۔''
دارا خلیل اللہ کی باتوں میں آ گیا ۔وہ فوری طور پر جوتیاں پہنے بغیر ہی ننگے پاؤں ایک گھوڑے پر جا بیٹھا۔پندرہ منٹ بعد اس نے خلیل اللہ خان کے بارے میں معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو جا چکا۔اب دارا کو احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اس دوران ہاتھی پر دارا شکوہ کو نہ دیکھ کر شاہی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مارا گیا ہے۔اس افواہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
چند منٹ میں شاہی فوج کا ہر سپاہی اورنگزیب کے خوف سے بھاگنے لگا۔ اورنگ زیب اب بھی اپنے ہاتھی پر سوار تھا۔ اگلے چند لمحوں میں جنگ کا پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ دارا کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ بعد میں اسے پکڑ کے قتل کردیا گیا۔یوں بظاہر ایک عالم فاضل اور صوفی مزاج شہزادہ اپنے ٖغرور اور بدمزاجی کی وجہ سے نہ صرف تخت وتاج حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ اپنی زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
پچھلے دنوں چند محترم کالم نگاروں کے کالموں میں مشہور مغل شہزادے، داراشکوہ کی شخصیت و کردار پر دلچسپ بحث پڑھنے کو ملی۔
ایک مکتب فکر کے نزدیک شہزادہ انسان دوست، غیر متعصب اور عالم فاضل ہستی تھا۔ دوسرے نظریاتی گروہ نے اسے نالائقی اور نااہلی کی علامت قرار دیا۔ علم تاریخ کا ادنیٰ طالب ہونے کے ناتے راقم نے یہ جائزہ لیا ہے کہ مورخین نے شہزادے کی بابت کیا خامہ فرسائی فرمائی۔
دارشکوہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا جو مارچ 1615ء میں پیدا ہوا۔ والدہ ممتاز محل نے چودہ بچوں کو جنم دیا جن میں سے سات چل بسے۔ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے وہ اپنے باپ کا لاڈلا تھا اور اس کی پرورش بڑے عیش و نعم میں ہوئی۔لڑکپن ہی سے شہزادہ فلسفیوں اور صوفیوں کی محفلوں میں جانے لگا۔ اسے حکومتی انتظام اور فن سپہ گری سے زیادہ علم و فضل سے لگاؤ تھا۔ وہ فنون لطیفہ کا بھی سرپرست تھا۔یہ امر عیاں کرتا ہے کہ صوفیوں اور علما کی قربت کے باعث شہزادے کو منکسر المزاج، حلیم الطبع اورہمدرد انسان ہونا چاہیے مگر جدید مورخین ایسا نہیں سمجھتے۔
پروفیسر ڈاکٹر علی ندیم رضوی بھارت کی علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ مشہور بھارتی مورخ ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں :''داراشکوہ بدمزاج، مغرور اور خود کو عقل کُل سمجھنے والا شہزادہ تھا۔ وہ دربار میں معززین کا سرعام مذاق اڑاتا اور انھیں گھٹیا سزا دینے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ اس نے راجا جے سنگھ کو ''دکنی بندر'' کا خطاب دیا تھا۔ علماء کو ''بے وقوف'' اور ''خچر'' کہہ کر پکارتا۔''
برصغیر کے ممتاز مصور، عبدالرحمن چغتائی کے فرزند عارف رحمن چغتائی نے حال ہی میں ایک انگریزی کتاب ''آئینہ خانہ لاہور آف پرنس داراشکوہ'' تحریر کی ہے۔ اس میں بھی وہ شہزادے کو متکبر، خود پرست اور گھمنڈی قرار دیتے ہیں۔مشہور ہندو مورخ، جادو ناتھ سرکار نے بھی اپنی کتاب ''تاریخ اورنگزیب'' میں لکھا ہے: ''شہزادہ دارشکوہ اپنے باپ کا گستاخ اور مغرور بیٹا تھا۔ باپ نے ہر معاملے میں اسے دوسرے بیٹوں پر ترجیح دی۔ اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ عیش و عشرت میں پڑنے کی وجہ سے اس کی قوت فیصلہ کمزور ہوگئی جو حکمران کی منفی خاصیت ہے۔''
دلچسپ بات یہ کہ شہزادہ داراشکوہ کے دو غیر ملکی طبیب البتہ اپنی کتب میں اس کی انسان دوستی اور علم و فضل میں تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔ فرانسیسی طبیب، فرانسوا برنیئر (Francois Bernier) اور اطالوی نیکولاؤ منوچی (Niccolao Manucci)، دونوں نے لکھا کہ شہزادہ اپنی علمی و جاہت اور انسان دوستی کے سبب عوام میں مشہور تھا۔شہزادے کے حالات زندگی خصوصاً آخری دور کے واقعات انہی دو یورپی باشندوں سے ماخوذ ہیں۔
دور جدید کے مورخین مگر دونوں یورپی طبیبوں کی کتب کو یکطرفہ قرار اور متنازع قرار دیتے ہیں۔ مثلاً نیکولائی منوچی کی رو سے تو داراشکوہ اخیر وقت میں عیسائی ہوگیا تھا۔ وہ لکھتا ہے ''جب تلوار سے شہزادے کا سر قلم کیا جانے لگا، تو وہ پکار اٹھا، میرے پیغمبر (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ اب اللہ کا بیٹا (یعنی حضرت عیسیٰؑ) ہی مجھے بچائے گا۔''
دونوں یورپی ڈاکٹر شہزادہ دارشکوہ کے حمایتی تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی کتب میں مخالف شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کی کردار کشی کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اورنگزیب فرشتہ نہیں تھا، بشر ہونے کے ناتے اس سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ مگر یورپی اور بعض ہندو مورخین نے کئی ناکردہ جرائم اس کے سر تھوپ دیئے۔ اسی لیے خصوصاً آج ہندوعوام اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ شہزادہ داراشکوہ اپنی بدمزاجی اور غرور کے باعث ہی زوال پذیر ہوا۔ یہ داستان بڑی عبرتناک ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ جس حکمران نے بھی خود کو عقل کُل اور دوسروں کو ناقص سمجھا، وہ آخر کار ذلیل و خوار ہوکر رہتا ہے۔ کئی حکمران صرف اپنے غرور و گھمنڈ کے باعث حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
قصہ یہ ہے کہ 1657ء میں شاہجہاں کے مرنے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی۔تبھی چاروں شہزادوں نے بادشاہ بننے کی تیاری کر لی ۔شاہجہاں کو معلوم تھا کہ اقتدار کے لیے بیٹوں کے درمیان جنگ روکنا تقریباً ناممکن بات ہے۔ تاہم وہ کسی بھی قیمت پر جنگ کو روکنا چاہتے تھے۔ اسی لیے شاہجہاں نے اپنی سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ شاہ شجاع کو بنگال دیا گیا، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ ملا، مرادبخش کو گجرات دیا گیا اور دارا کے حصہ میں کابل اور ملتان آیا۔
دارا شکوہ کو چھوڑ کر سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن وہ بادشاہ کے پاس ہی رہا۔ شجاع ، مرادبخش اور اورنگ زیب فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے، دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔ طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔ دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے جس سے تینوں بھائی ان سے بدظن ہوگئے۔
دارا وقت کے ساتھ ساتھ اتنا مضبوط ہو گیاکہ اس نے شاہی دربار میں شاہجہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا۔ وہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا ۔ دارا کو سب سے زیادہ خوف اورنگزیب سے تھا۔ اس نے ایک نہیں کئی مرتبہ اورنگزیب کے خلاف فرمان صادر کیا۔اسی لیے دونوں کے درمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی۔دارا نے اپنے والد اور باقی بھائیوں کے درمیان نفرت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ بھائیوں کی طرف سے آئے پیغامات شاہجہاں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ تینوں سازش کر رہے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ کہ خود شاہجہاں کو دارا شکوہ پر اعتماد نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ دارا اسے زہر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
آخر 29مئی 1658ء کودارا شکوہ اور اورنگ زیب کے مابین سامو گڑھ پر جنگ کی نوبت آ پہنچی۔ یہ مقام آگرہ شہر سے دس میل دور ہے۔آج کل فتح آباد کہلاتا ہے۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی،مراد بخش سے اتحاد کر لیا تھا۔ دونوں کی افواج میں چالیس ہزار سپاہی شامل تھے۔دارا کی فوج ساٹھ ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔
اس دوران شاہجہاں نے ایک کے بعد ایک کئی فرمان دارا کو بھیجے۔ سب میں ایک ہی پیغام تھا کہ وہ جلدبازی نہ کرے اور اپنے بیٹے،سلیمان شکوہ کا انتظار کرے جو کمک لے کر آ رہا تھا۔ والد کی فکر سے بے پرواہ دارا نے ایک ہی جواب لکھا''میں اورنگ زیب اور مراد بخش کو ہاتھ پاوں باندھ کر آپ کے سامنے جلد پیش کروں گا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔'' دارا نے بہرحال اورنگ زیب کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی منصوبہ بندی کی تھی۔
دارا نے پہلی قطار میں بھاری توپیں لگائیں جنہیں لوہے کی زنجیروں سے باندھ دیا گیا ۔اس کے پیچھے اونٹوں کی قطار تھی جن پر ہلکا بارود لدا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے شاہی فوج کے پیادہ پا دستے تھے۔ اورنگ زیب اور مراد بخش نے بھی تقریبا اسی طرح کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کچھ توپ خانے اورنگ زیب نے چھپا کر رکھے تھے۔
جنگ شروع ہوئی
دارا کی توپوں نے پہلے حملہ شروع کیا، جس کا جواب اورنگ زیب کی توپوں سے ہی دیا گیا۔لیکن کچھ ہی دیر میں تیز بارش ہونے کی وجہ سے توپیں خاموش ہو گئیں۔ بارش تھمتے ہی توپیں پھر گرجنے لگیں۔دارا جنگ کے دوران انتہائی فعال نظر آیا۔ وہ چاروں سمت گھوم کر اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جوش بڑھا رہا تھا۔ دارا اپنے خوبصورت ہاتھی پر سوار تھا۔وہ دشمنوں کی توپوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا ارادہ کسی بھی طرح اورنگ زیب کو قابو میں کرنے کا تھا۔
جلد ہی دارا کے ارد گرد لاشوں کا انبار لگ گیا۔اس کی فوج پر بار بار حملہ ہو رہا تھا ، لیکن وہ تب بھی بے خوف حکم دے رہا تھا۔ حملے میں شدت دیکھ کر توپ کو زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا، لیکن اس کی وجہ سے مخالف فوج پہلی قطار توڑنے میں کامیاب ہوگئی ۔ توپیں ہٹتے ہی دونوں جانب کی فوجیں آپس میں بھڑ گئیں اور جنگ خوفناک ہوتی چلی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ دارا جنگ کی مہارت میں اورنگ زیب سے کمزور تھا۔ جنگ کے دوران دارا کی فوج میں ہم آہنگی کا فقدان بھی نظر آیا۔
اس دوران آسمان سے تیر وں کی بوچھار ہونے لگی ، لیکن دس میں سے دو ہی تیر نشانے پر لگ رہے تھے۔ باقی زیادہ دور نہ پہنچ پاتے۔ تیروں کے بعد تلواریں نکال لی گئیں اور جنگ کا چہرہ مزید خوفناک ہو گیا۔جوش کے ساتھ آگے بڑھتے دارا نے آخر دشمن کی توپوں کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ دارا نے اورنگ زیب کو پکڑنے کی کافی کوششیں کیں ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔اورنگ زیب زیادہ دور نہیں تھا۔ دارا جانتا تھا کہ جنگ اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب وہ اورنگ زیب کو پکڑ لے یا اسے مار ڈالے۔ لیکن دارا کی بدقسمتی کہ اسے پہلی بری خبر بائیں جانب سے آئی۔ اس کے بائیں جانب کا مورچہ کمزور پڑ رہا تھا۔ تبھی اسے اپنے سرداروں سے پتہ چلا کہ بائیں جانب مامور فوج کے سالار،رستم خان اور راجا چھترسال مارے جا چکے ۔اس کے بعد ایک اور سالار،رام سنگھ روتیلا نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی گھیرا بندی کو توڑ دیا۔
اب دارا شکوہ نے اورنگزیب کی توپوں کو پیچھے دھکیلنے کا خیال چھوڑ دیا۔وہ بائیں جانب بڑھا اور زبردست جنگ کے بعد دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس دوران راجا روتیلا نے زور دار جنگ کرتے ہوئے شہزادہ مراد بخش کو زخمی کر ڈالا۔مراد چاروں طرف سے شاہی فوج سے گھر گیا لیکن اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اس وقت ایک تیر براہ راست روتیلا کو لگی اور وہ وہیں چل بسا۔
خلیل اللہ خان کا بدلہ
اب جنگ جیتنے کی صرف یہ صورت تھی کہ کسی طرح اورنگ زیب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔لیکن ایک دھوکے کی وجہ سے دارا یہ کام بھی نہ کر سکا۔اس نے ایک ازبک سپہ سالار،خلیل اللہ خان کو دائیں جانب کے محاذ پر کھڑا کیا تھا۔تقریباً بیس ہزار سپاہی اس کے ماتحت تھے۔اس فوج نے اب تک جنگ میں سرگرم حصہ نہیں لیا تھا ۔خلیل اللہ دارا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وقت آنے پر وہ حملہ کریں گے مگر ایسا نہیںہوا۔وجہ یہ کہ وہ درپردہ شہزادہ اورنگ زیب سے جا ملا تھا۔
فرانسوا برنیئر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ چند سال پہلے داراشکوہ نے معمولی غلطی پر خلیل اللہ خان کی جوتوں سے پٹائی کرائی تھی۔ خلیل اللہ اپنی اس بے عزتی کو کبھی نہ بھول پایا۔اب اس نازک گھڑی میں خلیل اللہ نے اپنی بے عزتی کا بدلہ دھوکا دے کر لے لیا۔خلیل اللہ نے بہانہ بنایا کہ اس کی فوج بعد میں حملہ کرے گی۔اس کا انداز ایسا تھا کہ دارا کو بالکل شک نہ ہوا۔
دارا ویسے بھی خلیل اللہ کی فوج کے بغیر بھی جنگ جیت سکتا تھا۔خلیل اللہ کو بھی اس بات کا اندازہ تھا۔ اس واسطے دارا کی شکست یقینی بنانے کے لیے اس نے اپنے محاذکو چھوڑ کر کچھ ساتھیوں کو ساتھ لیا اور دارا کے قریب جا پہنچا۔ دارا اس وقت اپنی سپاہ سمیت مراد بخش کو پکڑنے آگے بڑھ رہا تھا۔
دارا کے قریب جا کر خلیل اللہ نے کہا''مبارک باد حضرت سلامت، الحمد للہ، آپ خوش رہیں، آپ کی صحت ٹھیک رہے۔ جیت آپ کی ہی ہوگی، لیکن میرے سرکار آپ اب بھی اس بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ خدا نہ کرے اتنے سارے تیروں میں سے کوئی تیر یا بارود کا گولہ آپ پر گرا تو کیا ہوگا؟ ''
خلیل اللہ نے کچھ توقف کے بعد دارا سے کہا '' سرکار جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوں اور محصور مراد بخش کو فرار ہونے سے قبل گرفتار کرلیں۔''
دارا خلیل اللہ کی باتوں میں آ گیا ۔وہ فوری طور پر جوتیاں پہنے بغیر ہی ننگے پاؤں ایک گھوڑے پر جا بیٹھا۔پندرہ منٹ بعد اس نے خلیل اللہ خان کے بارے میں معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو جا چکا۔اب دارا کو احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اس دوران ہاتھی پر دارا شکوہ کو نہ دیکھ کر شاہی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مارا گیا ہے۔اس افواہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
چند منٹ میں شاہی فوج کا ہر سپاہی اورنگزیب کے خوف سے بھاگنے لگا۔ اورنگ زیب اب بھی اپنے ہاتھی پر سوار تھا۔ اگلے چند لمحوں میں جنگ کا پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ دارا کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ بعد میں اسے پکڑ کے قتل کردیا گیا۔یوں بظاہر ایک عالم فاضل اور صوفی مزاج شہزادہ اپنے ٖغرور اور بدمزاجی کی وجہ سے نہ صرف تخت وتاج حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ اپنی زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔