عوام ریلیف کے مستحق ہیں
ٹیکس کی وصولی و ادائیگی کے مابین بدعنوانی کے کئی سربفلک پہاڑ کھڑے نہیں ہیں تو قوم سوچنے پر مجبور ہوگی۔
BEIRUT:
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز اور ایزی لوڈ کے استعمال پر صارفین سے ہوشربا ٹیکس کٹوتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت، ایف بی آر اور موبائل کمپنیوں سے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ موبائل فون کا 100روپے کا کارڈ چارج کرنے پر تقریباً 40 روپے کاٹ لیے جاتے ہیں،جب کالز پر ٹیکس لیا جاتا ہے تو کارڈ خریدنے پر کٹوتی کیوں ہوتی ہے، بتایا جائے موبائل فون کارڈ پر کون کون سے ٹیکس لاگو ہوتے ہیں، یہ کٹوتیاں کس قانون کے تحت کی جاتی ہیں؟ اٹارنی جنرل حکومت کا موقف دیں۔ عدالت نے کیس 8 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے موبائل کارڈ پرکٹوتی کا نوٹس لے کر درحقیقت ملکی معیشت، تجارتی اور کاروباری ڈیلنگ، صارفین کے حقوق اور عوام کو مہنگائی اور ٹیکس کے پیچیدہ نظام کی ماہیت کا سراغ لگانے کے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں، جسے اگر مشتے نمونے از خروارے ''ٹپ آف این آئس برگ'' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، تاہم اس تلخ حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملکی معیشت عدم مساوات، استحصال، ناانصافی، مہنگائی، بیروزگاری، پسماندگی اور خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 5 کروڑ سے زائد ہے اور امیری و غریبی کے نمایاں فرق کے شانہ بشانہ حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، محلات نما بنگلے، پرتعیش لائف اسٹائل، قرضوں پر زندہ معیشت کی بیساکھیاں کمال مہارت سے عوام کی نظروں سے چھپی رہتی ہیں۔
حالانکہ ملکی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ''غریب'' ملک ہے جس کے حکمراں امیر ترین ہیں اور سیاست، طرز حکمرانی، بیوروکریسی، وزرا اور اشرافیہ کے اللے تللوں کا کوئی حساب نہیں، ہاں البتہ ایک ملازمت پیشہ شخص اور عام پاکستانی کو انکم ٹیکس سمیت بے شمار ٹیکسز مثلاً ڈیوٹیز ایڈجسٹمنٹ چارجز، کٹوتی اور لیوی کے علاوہ آمدنی، اثاثوں، منڈی معیشت کی مروجہ سروسز اور اشیا کی خریدوفروخت میں ادا کرنے پڑتے ہیں، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آدمی اس مملکت خداداد میں حادثہ یا موت سے کبھی کبھار بچ سکتا ہے مگر ٹیکس سسٹم کے شکنجہ سے نہیں بچ سکتا۔
اسکول کے معصوم پرائمری بچے بھی کتاب، قلم، پنسل، ڈرائنگ کلرز، کاپی اور اسکول کی فیسوں کی مد میں سیلز و جی ایس ٹی کے نام پر ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں، پھر بھی یہ الزام ہے کہ پاکستانی قوم ٹیکس نہیں دیتی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے پہلی تقریر میں یہی گلہ کیا کہ ہمارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے، جبکہ قوم کا ہر بچہ غیر ملکی اور ملکی بینکوں سے لیے گئے اربوں کے قرضوں کے باعث مقروض چلا آرہا ہے، چنانچہ ضرورت اسی تناظر میں چیف جسٹس کے استفسارات کو دیکھنے کی ہے جس میں انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ملک میں اس وقت کل کتنی موبائل کمپنیاں کام کررہی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں اس حوالے سے معلومات نہیں، وہ پوچھ کرعدالت کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ موبائل کمپنیاں صارفین سے بڑی رقم بطور ٹیکس کیوں کاٹتی ہیں اور یہ ٹیکس کس بنیاد پر لیا جا رہا ہے۔
اس بارے میں تفصیلات لے کرعدالت کو آگاہ کریں۔ اب جو حقائق عدلیہ کے روبرو پیش ہوں گے وہ ٹیکس اور کٹوتی کے اسی سیاق و سباق میں سامنے آئیں گے۔ اس استدلال میں وزن ہے کہ کوئی ملک اور ریاستی نظام بغیر ٹیکسوں کے نہیں چل سکتا، مگر یہ ان ملکوں کا معاملہ ہے جہاں شفافیت کا معیار قابل رشک ہوتا ہے، جہاں کرپشن کے حوالہ سے حکمرانی زیرو ٹالرنس پر چلتی ہے، لوگ کشادہ دلی اور اس یقین کے ساتھ ٹیکس دیتے ہیں کہ یہی پیسہ ملکی سالمیت، دفاع، ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ، سیاحت، انفراسٹرکچر اور غربت و بیروزگاری کے خاتمہ اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
لیکن فرض بھی کرلیں کہ ٹیکس کی وصولی و ادائیگی کے مابین بدعنوانی کے کئی سربفلک پہاڑ کھڑے نہیں ہیں تو قوم سوچنے پر مجبور ہوگی، مگر صورتحال کرپشن کے عفریت، ہوس زر اور جوابدہی سے بے نیاز اشرافیائی طرز حکمرانی کی ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ فعالیت کے محاذ پر سرگرم نظر آتی ہے، ملک سے کرپشن، لوٹ کلچر اور بے ایمانی و دروغ گوئی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ ہوگا تب ہی جمہوریت کے ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں گے۔
بلاشبہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے موجودہ حکومت کی کاوشیں جاری ہیں، ملک کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک کمیٹی کی گرے فہرست سے بچنے کی کارگزاری بھی دکھانے کا چیلنج درپیش ہے۔ ادھر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ 184 ارب کی چھوٹ دے کر 400 ارب کے ٹیکس لگادیے۔
انھوں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کا ٹیکس تقابل پیش کرتے ہوئے کہا کہ 17 کروڑ آبادی والے بنگلہ دیش میں ٹیکس دہندگان 25 لاکھ جبکہ 21 کروڑ والے پاکستان میں صرف 7 لاکھ ہیں، بجٹ میں 300 ارب کا لیوی ٹیکس عائد ہوگیا، حکومت ٹیکس لگائے مگر عوام کی حالت پر بھی نظر ڈالے۔
حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے سے روکنے میں ناکامی کے باوجود اپوزیشن کی اکثریت والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے حکومت نے تجویز کی منظوری دے دی جس کے بعد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر ٹیکس رواں ماہ کی 15 تاریخ سے ہی لاگو ہوجائیں گے، اس فیصلے سے ہزاروں اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ 2015 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ایسا کیس آیا جس میں سگریٹ پر 115 ارب روپے ٹیکس وصول پائے، وہ 80 ارب ہوگئے، اب کہا جارہا ہے 93 ارب ہوجائیں گے، یعنی قومی خزانہ کو 30 ارب کا انجکشن لگادیا، یہ اپوزیشن کے معتبر لیڈر کی گفتگو ہے، ادھر نظر ڈالیے تو پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، سیمنٹ، سریا، ریت، بجری، لکڑی، بجلی، گیس، اشیائے صرف، کس کس چیز کی قیمتیں نہیں بڑھیں، عوام مہنگائی کا کتنا عذاب برداشت کرتے رہیں گے، ریلیف کس چڑیا کا نام ہے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تھے مگر کراچی سمیت ملک بھر میں لوڈشیڈنگ جاری ہے، گردشی قرضہ زرداری حکومت میں 480 ارب روپے تھا اب 500 ارب روپے ہے، سابق حکومت سرکاری اداروں کے قرضے 1400 چھوڑ کر گئی تھی وہ آج 1200 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
ایک اور تشویش ناک خبر بھی میڈیا میں گردش کررہی ہے کہ ایف بی آر کے 50 کھرب کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، پی اے سی نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ماتحت عدالتوں کو ان مقدمات کے جلد فیصلے کرنے اور حکم امتناعی ختم کرنے کی ہدایت کی جائے۔
ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تجاوزات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں ایک شخص نے 30 برس سے انتظامیہ کو یرغمال بنا رکھا ہے، کسی میں جرات نہیں اس کا تبادلہ کر سکے، اس میں عدالت عالیہ نے کمزور حکمرانی اور حکومتی رٹ پر سوال اٹھا دیا ہے۔ ارباب اختیار کے سامنے قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں کا دریا امڈ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ عوام کو حقیقی ریلیف کب ملے گا؟۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز اور ایزی لوڈ کے استعمال پر صارفین سے ہوشربا ٹیکس کٹوتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت، ایف بی آر اور موبائل کمپنیوں سے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ موبائل فون کا 100روپے کا کارڈ چارج کرنے پر تقریباً 40 روپے کاٹ لیے جاتے ہیں،جب کالز پر ٹیکس لیا جاتا ہے تو کارڈ خریدنے پر کٹوتی کیوں ہوتی ہے، بتایا جائے موبائل فون کارڈ پر کون کون سے ٹیکس لاگو ہوتے ہیں، یہ کٹوتیاں کس قانون کے تحت کی جاتی ہیں؟ اٹارنی جنرل حکومت کا موقف دیں۔ عدالت نے کیس 8 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے موبائل کارڈ پرکٹوتی کا نوٹس لے کر درحقیقت ملکی معیشت، تجارتی اور کاروباری ڈیلنگ، صارفین کے حقوق اور عوام کو مہنگائی اور ٹیکس کے پیچیدہ نظام کی ماہیت کا سراغ لگانے کے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں، جسے اگر مشتے نمونے از خروارے ''ٹپ آف این آئس برگ'' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، تاہم اس تلخ حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملکی معیشت عدم مساوات، استحصال، ناانصافی، مہنگائی، بیروزگاری، پسماندگی اور خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 5 کروڑ سے زائد ہے اور امیری و غریبی کے نمایاں فرق کے شانہ بشانہ حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، محلات نما بنگلے، پرتعیش لائف اسٹائل، قرضوں پر زندہ معیشت کی بیساکھیاں کمال مہارت سے عوام کی نظروں سے چھپی رہتی ہیں۔
حالانکہ ملکی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ''غریب'' ملک ہے جس کے حکمراں امیر ترین ہیں اور سیاست، طرز حکمرانی، بیوروکریسی، وزرا اور اشرافیہ کے اللے تللوں کا کوئی حساب نہیں، ہاں البتہ ایک ملازمت پیشہ شخص اور عام پاکستانی کو انکم ٹیکس سمیت بے شمار ٹیکسز مثلاً ڈیوٹیز ایڈجسٹمنٹ چارجز، کٹوتی اور لیوی کے علاوہ آمدنی، اثاثوں، منڈی معیشت کی مروجہ سروسز اور اشیا کی خریدوفروخت میں ادا کرنے پڑتے ہیں، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آدمی اس مملکت خداداد میں حادثہ یا موت سے کبھی کبھار بچ سکتا ہے مگر ٹیکس سسٹم کے شکنجہ سے نہیں بچ سکتا۔
اسکول کے معصوم پرائمری بچے بھی کتاب، قلم، پنسل، ڈرائنگ کلرز، کاپی اور اسکول کی فیسوں کی مد میں سیلز و جی ایس ٹی کے نام پر ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں، پھر بھی یہ الزام ہے کہ پاکستانی قوم ٹیکس نہیں دیتی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے پہلی تقریر میں یہی گلہ کیا کہ ہمارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے، جبکہ قوم کا ہر بچہ غیر ملکی اور ملکی بینکوں سے لیے گئے اربوں کے قرضوں کے باعث مقروض چلا آرہا ہے، چنانچہ ضرورت اسی تناظر میں چیف جسٹس کے استفسارات کو دیکھنے کی ہے جس میں انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ملک میں اس وقت کل کتنی موبائل کمپنیاں کام کررہی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں اس حوالے سے معلومات نہیں، وہ پوچھ کرعدالت کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ موبائل کمپنیاں صارفین سے بڑی رقم بطور ٹیکس کیوں کاٹتی ہیں اور یہ ٹیکس کس بنیاد پر لیا جا رہا ہے۔
اس بارے میں تفصیلات لے کرعدالت کو آگاہ کریں۔ اب جو حقائق عدلیہ کے روبرو پیش ہوں گے وہ ٹیکس اور کٹوتی کے اسی سیاق و سباق میں سامنے آئیں گے۔ اس استدلال میں وزن ہے کہ کوئی ملک اور ریاستی نظام بغیر ٹیکسوں کے نہیں چل سکتا، مگر یہ ان ملکوں کا معاملہ ہے جہاں شفافیت کا معیار قابل رشک ہوتا ہے، جہاں کرپشن کے حوالہ سے حکمرانی زیرو ٹالرنس پر چلتی ہے، لوگ کشادہ دلی اور اس یقین کے ساتھ ٹیکس دیتے ہیں کہ یہی پیسہ ملکی سالمیت، دفاع، ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ، سیاحت، انفراسٹرکچر اور غربت و بیروزگاری کے خاتمہ اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
لیکن فرض بھی کرلیں کہ ٹیکس کی وصولی و ادائیگی کے مابین بدعنوانی کے کئی سربفلک پہاڑ کھڑے نہیں ہیں تو قوم سوچنے پر مجبور ہوگی، مگر صورتحال کرپشن کے عفریت، ہوس زر اور جوابدہی سے بے نیاز اشرافیائی طرز حکمرانی کی ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ فعالیت کے محاذ پر سرگرم نظر آتی ہے، ملک سے کرپشن، لوٹ کلچر اور بے ایمانی و دروغ گوئی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ ہوگا تب ہی جمہوریت کے ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں گے۔
بلاشبہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے موجودہ حکومت کی کاوشیں جاری ہیں، ملک کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک کمیٹی کی گرے فہرست سے بچنے کی کارگزاری بھی دکھانے کا چیلنج درپیش ہے۔ ادھر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ 184 ارب کی چھوٹ دے کر 400 ارب کے ٹیکس لگادیے۔
انھوں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کا ٹیکس تقابل پیش کرتے ہوئے کہا کہ 17 کروڑ آبادی والے بنگلہ دیش میں ٹیکس دہندگان 25 لاکھ جبکہ 21 کروڑ والے پاکستان میں صرف 7 لاکھ ہیں، بجٹ میں 300 ارب کا لیوی ٹیکس عائد ہوگیا، حکومت ٹیکس لگائے مگر عوام کی حالت پر بھی نظر ڈالے۔
حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے سے روکنے میں ناکامی کے باوجود اپوزیشن کی اکثریت والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے حکومت نے تجویز کی منظوری دے دی جس کے بعد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر ٹیکس رواں ماہ کی 15 تاریخ سے ہی لاگو ہوجائیں گے، اس فیصلے سے ہزاروں اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ 2015 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ایسا کیس آیا جس میں سگریٹ پر 115 ارب روپے ٹیکس وصول پائے، وہ 80 ارب ہوگئے، اب کہا جارہا ہے 93 ارب ہوجائیں گے، یعنی قومی خزانہ کو 30 ارب کا انجکشن لگادیا، یہ اپوزیشن کے معتبر لیڈر کی گفتگو ہے، ادھر نظر ڈالیے تو پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، سیمنٹ، سریا، ریت، بجری، لکڑی، بجلی، گیس، اشیائے صرف، کس کس چیز کی قیمتیں نہیں بڑھیں، عوام مہنگائی کا کتنا عذاب برداشت کرتے رہیں گے، ریلیف کس چڑیا کا نام ہے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تھے مگر کراچی سمیت ملک بھر میں لوڈشیڈنگ جاری ہے، گردشی قرضہ زرداری حکومت میں 480 ارب روپے تھا اب 500 ارب روپے ہے، سابق حکومت سرکاری اداروں کے قرضے 1400 چھوڑ کر گئی تھی وہ آج 1200 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
ایک اور تشویش ناک خبر بھی میڈیا میں گردش کررہی ہے کہ ایف بی آر کے 50 کھرب کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، پی اے سی نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ماتحت عدالتوں کو ان مقدمات کے جلد فیصلے کرنے اور حکم امتناعی ختم کرنے کی ہدایت کی جائے۔
ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تجاوزات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں ایک شخص نے 30 برس سے انتظامیہ کو یرغمال بنا رکھا ہے، کسی میں جرات نہیں اس کا تبادلہ کر سکے، اس میں عدالت عالیہ نے کمزور حکمرانی اور حکومتی رٹ پر سوال اٹھا دیا ہے۔ ارباب اختیار کے سامنے قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں کا دریا امڈ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ عوام کو حقیقی ریلیف کب ملے گا؟۔