ہزارہ برادری کا قتل عام

دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی ریاست کا ہتھیار ہے۔

tauceeph@gmail.com

راشد رحمٰن پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے ہراول دستے کے اہم ستون تھے۔ اپنے والد سے طالع آزما قوتوںکے خلاف مزاحمت اور مظلوم طبقات کی حمایت انھیں ورثے میں ملی تھی۔ راشد رحمٰن بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی شعبہ انگریزی کے اعانتی استاد جنید حفیظ کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ جنید حفیظ اپنے اوپر عائد الزامات کی صداقت سے انکار کرتے ہیں۔

راشد رحمٰن کا اس مقدمے میں مؤقف تھا کہ کسی فرد کو مجرم قرار دینے کا اختیار عدالت کو ہے اور پاکستان کا آئین ہر فرد کو عدالت میں مقدمہ لڑنے کا حق دیتا ہے۔ یوں ہر ملزم کو عدالت میں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے اور بھی کئی ملزموں کے مقدمات لڑے تھے۔ ان مظلوم لوگوں میں بھٹہ مزدور، خواتین مزدور اور سیاسی کارکن شامل تھے۔

شاید راشد کا وجود نامعلوم قوتوں کے لیے بوجھ بن گیا تھا ۔ یوں 7 مئی 2014ء کی شامل ڈھلنے کے بعد جب ملتان شہر اندھیرے کی آغوش میں جا رہا تھا نامعلوم افراد جنہوں نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے ، ملتان کینٹ کے علاقے میں واقع انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P ) کے دفتر میں داخل ہوئے۔ راشد پر اندھادھند گولیاں برسائیں اور اطمینان سے اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ہزاروں افراد دور دور سے آئے تھے۔

راشد رحمن کے قتل کی وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے مذمت کی تھی ۔ پاکستان بارکونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے احتجاجا پورے ملک میں ہڑتال کی تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور امریکا کی وزارت خارجہ نے بھی راشد رحمن کے قتل کی مذمت میں بیانات جاری کیے تھے۔ پنجاب پولیس کے افسروں نے قاتلوں کی فوری گرفتاری کی نوید دی تھی ، مگر قاتل پکڑے نہیں گئے۔

جلیلہ حیدر نے کوئٹہ میں تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردی ہے ۔ جلیلہ حیدر کے قریبی عزیز ، دوست ، رشتے دار اور ملنے والے روز کوئٹہ میں قتل ہورہے ہیں ۔ گزشتہ دو ماہ سے ہزارہ برادری نسل کشی کا شکار ہے۔ کوئٹہ کی سڑکوں پر نامعلوم افراد موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر آتے ہیں۔ ہزارہ برادری کے افراد کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر خاموشی سے اپنی کمین گاہوں میں محفوظ طریقے سے منتقل ہوجاتے ہیں۔

کوئٹہ میں یہ نامعلوم افراد پولیس کے افسروں اور سپاہیوں کو بھی کامیابی سے نشانہ بناتے ہیں ۔ چند سال پہلے تک کوئٹہ کا ہزارہ ٹاؤن خودکش حملوں کی لپیٹ میں تھا ۔ خودکش حملہ آور ہزارہ ٹاؤن اور دیگر علاقے میں جہاں آباد ہزارہ برادری کے افراد موجود ہوتے تھے خود کو بارود سے پھاڑ لیتے تھے۔

یہ خودکش حملہ آور محرم کے جلوسوں ، امام بارگاہوں میں ہونے والے مجالس اور زیارت کے لیے ایران جانے والے زائرین کی بسوں کو نشانہ بناتے تھے۔ ہزارہ برادری ان حملوں کی بناء پر اپنے گھروں میں مقید ہو کر رہ گئی۔ نوجوان تعلیم سے محروم ہوگئے۔ مردوں اور عورتوں کا روزگار ختم ہوگیا۔

نوجوان فرسٹریشن اور ڈیپریشن کے امراض میں مبتلا ہوئے ، ہزاروں لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں سے بہت سوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کی۔ انڈونیشیا سے لانچوں میں بیٹھ کر براعظم آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں سمندر میں لانچیں الٹنے سے اس برادری کے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ ہزارہ برادری نے کوئٹہ کی سڑکوں پر دھرنے دیے اور ہڑتالیں کیں ۔


جب یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے جرم میں سزا دی تو پرویز اشرف وزیر اعظم بنے، یہ 2012ء کے آخری مہینے تھے۔ دہشت گردوں نے پے درپے خودکش حملے کیے جس پر ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد نے کوئٹہ کے علمدار روڈ پر کئی دنوں تک دھرنا دیا، یہ دسمبر کے دن تھے۔ سخت سردی نے کوئٹہ کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی اپنی بیٹی کے داخلے کے لیے لندن میں مقیم تھے۔

وزیر اعظم پرویز اشرف اپنے وزیر اطلاعات کے ساتھ دھرنا دینے والے متاثرین کے پاس آئے۔ انھوں نے بلوچستان میں رئیسانی حکومت کی برطرفی، خودکش حملہ آوروں کا نیٹ ورک چلانے والے نیٹ ورک کے خاتمے اور ملزمان کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی ۔ پھر بلوچستان میں 2013ء کے انتخابات کے بعد نیشنل پارٹی کے کارکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ۔

ڈاکٹر مالک نے کوئٹہ کے اطراف کے علاقوں میں کالعدم مذہبی تنظیموں کے کیمپوں کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی کوششوں سے خضدار میں قائم مذہبی انتہا پسند قبائل کے لشکر کو وہاں سے منتقل ہونا پڑا۔ اس مقام سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔

اسی طرح ایران جانے والے زائرین کی بسوں کو پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے دو دستوں کی نگرانی میں سرحد تک بھیجا جانے لگا، یوں ہزارہ برادری کو کچھ سکون حاصل ہوا ۔ اس برادری کے افراد نے کوئٹہ میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں مگر ڈھائی سال بعد ڈاکٹر مالک حکومت ختم ہوگئی ۔ مسلم لیگ کے ثناء اﷲ زہری نئے وزیر اعلیٰ بنے، اب کالعدم تنظیموں کے افراد ، پولیس کے افسر اور جوانوں کے علاوہ مسیحی شہری بھی نشانہ بننے لگے۔

ایک دفعہ پھر کوئٹہ میں حالات بگڑگئے۔ کہا جاتا ہے کہ چند سال قبل کوئٹہ کے سول اسپتال کی ایمرجنسی میں وکلاء برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یوں وکلاء کی ایک پوری نسل اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے اس حملے کی ذمے داری وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور دیگر قانون ساز اداروں پر عائد کی تھی۔ مگر اس وقت کی وفاقی اور بلوچستان حکومت نے اس عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کی یقین دھانی تو کرائی تھی لیکن بعد میں سب کچھ بھلا دیا گیا۔

کوئٹہ کے محل وقوع کے بارے میں جاننے والے صحافیوں کو ہمیشہ اس بات پر حیرت رہی کہ کوئٹہ شہر دو بڑی سڑکوں اور درجن بھر گلیوں پر مشتمل ہے جب کہ انتظامیہ کے لیے پورے شہر میں چھپے ہوئے کیمرے نصب کرکے دہشت گردوں کو اپنے عزائم کی تکمیل سے پہلے قانون کی گرفت میں لیا جاسکتا ہے، مگر کوئٹہ پولیس کے حکام 10 سال گزرنے کے بعد بھی کوئٹہ شہر کو محفوظ نہ کرسکے۔ کوئٹہ شہر میں تادم مرگ بھوک ہڑتال ہوئی ، دھرنا دینے والے ہزارہ برادری کے افراد اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے ، مگر فوج کے سربراہ سے ملاقات کے بعد ہزارہ برادری کا احتجاج ختم ہوا، ملزمان کو قرار واقعی سزا کی یقین دہانی کرائی گئی۔ ایسا 2013ء میں بھی انتخابات سے قبل ہوا تھا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذہبی دہشت گرد خاص طور پر انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔

پچھلی دفعہ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے پورے ملک میں دھرنے دیے تھے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں زندگی مفلوج ہوگئی تھی۔ یوں اکثریتی فرقے میں موجود مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے مذموم عزاء پورا کرنے کا موقع دیا تھا اور کچھ عرصے بعد مذہبی دہشت گرد پھر دھماکوں میں لگ گئے تھے ۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں افراد قتل ہوگئے۔

راشد رحمن، سبین محمود، پروین رحمن، ڈاکٹر شکیل اوج ، ڈاکٹر یاسر رضوی اور پروفیسر شبیر شاہ سمیت ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد مذہبی دہشت گردی کا نشانہ بنے ۔ ملالہ یوسف زئی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئی۔ دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی ریاست کا ہتھیار ہے۔ بنیادی مسئلہ تمام قوتوں کا ریاست کے کردار کو سیکیولر بنانے کے لیے جدوجہد کرنا ہے جس سے پاکستانی ریاست کا بیانیہ تبدیل ہوجائے گا، ہر شہری کو تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔ ہر باشعور شخص کو جلیلہ حیدر کے مطالبات سے ہمدردی ہے مگر ایک سیکیولر جمہوری جدوجہد ہی صحیح راستہ ہے۔
Load Next Story