حکم کے غلام

سائیں سانگی نے مجھے ہر قسم کی درخواستوں اور دستاویزات کے نمونے بھی بنا کر دیے۔

JAKARTA:
چوہدری عبد اللہ ہمارے شہرکا وہ نو دولتیا تھا جو دھوپ سے اٹھ کر چھاؤں میں آنے کے بعد اپنی اوقات بھول گیا تھا۔ کہاں وہ غریب لڑکا جس کے پاس پہننے کو شلوار ہوتی تھی نہ جوتی اور جو دو وقت کی روٹی کے عوض سارا دن نواحی گاؤں بْہرو کے زمیندار چوہدری محمد حسین کی گائے چرایا کرتا تھا اور کہاں وہ فرعون جو صرف حکم چلانا جانتا تھا اور تعمیل نہ کرنے والوں کا جینا حرام کر دیا کرتا تھا۔

حالات نے جب مجھ سے عملی زندگی میں قدم رکھوایا تو میری عمرصرف چودہ سال تھی اور میں نے ابھی میٹرک بھی نہیں کیا تھا۔ نوکری مل نہیں سکتی تھی اور نہ کاروبارکرنے کے لیے وسائل تھے، سائیں خان محمد سانگی کے مشورے سے بطور اسٹیمپ وینڈر و عرضی نویس کام شروع کیا، وہ میرے نہایت شفیق اور مہربان اساتذہ میں سے تھے اور یہ انھی کا آئیڈیا تھا۔

لائسنس لینے کے لیے کم ازکم مڈل پاس ہونا ضروری تھا، انھوں نے اسکول سے میرا سرٹیفکیٹ نکلوایا اور ڈپٹی کلیکٹر کے روبرو پیش کرنے کے لیے مجھے لے کر ٹنڈو محمد خان پہنچے جو اس زمانے میں ہمارے شہر ٹنڈو غلام علی کا سب ڈویژنل ہیڈکوارٹر تھا۔ کوئی خشک صاحب ڈپٹی کلیکٹر تھے جن کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ گالیاں بہت بکتے تھے۔

مجھے دیکھ کر فرمایا یہ تو بچہ ہے، سائیں سانگی نے میرا اسکول سرٹیفکیٹ دکھایا اور بتایا کہ وہاں کوئی اسٹیمپ وینڈر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ماتلی اور ڈگری جانا پڑتا ہے، انھوں نے ذاتی طور پر میری نگرانی کرنے کی ضمانت بھی لی۔

ڈپٹی کلیکٹر مان گئے اور مجھے لائسنس مل گیا۔ سائیں سانگی نے مجھے ہر قسم کی درخواستوں اور دستاویزات کے نمونے بھی بنا کر دیے، تحصیل ہیڈ کوارٹر ماتلی کے خزانہ آفس سے چالان بھر کر کورٹ فیس اسٹیمپس اور اسٹیمپ پیپر لینے کا طریقہ سکھایا، کئی روز تک وقت نکال کر میرے ساتھ بیٹھ کر پریکٹس بھی کروائی تاکہ میری جھجھک دور ہو اور خود سے کام کرنے کا اعتماد پیدا ہو۔ وہ سب تو ہو گیا لوگ پھر بھی مجھ سے کتراتے تھے کہ بچہ ہے پتہ نہیں درخواست یا دستاویز ٹھیک سے لکھ پائے گا بھی یا نہیں، آہستہ آہستہ ان کی ہچکچاہٹ دور ہونے لگی اور میرے پاس کام آنے لگا۔

ایک روز جب میں ڈھل (لگان) کی معافی کی درخواستیں لکھنے میں مصروف تھا، چوہدری عبداللہ کا ایک ملازم جو ان کے شعبہ گڈز ٹرانسپورٹ میں بطور منشی کام کرتا تھا اور میرے ساتھ پرائمری اسکول میں پڑھ بھی چکا تھا، میرے پاس آیا اور کہا چوہدری عبداللہ نے کہا ہے کہ میں دس روپے کے اسٹیمپ پیپرکے ساتھ فوراً ان کے پاس پہنچوں کہ انھوں نے کوئی دستاویز لکھوانی ہے۔ اتفاق سے میرے پاس اسٹیمپ پیپر ختم ہو چکے تھے اور دو دن پہلے کی تاریخ میں یہ بات ان دونوں رجسٹروں میں درج تھی جو ان کے اجراء اور فروخت کا ریکارڈ رکھنے کے لیے مینٹین کرنے پڑتے تھے۔

مجھے ایک تو اس کو یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں تھی دوسرے وہ خود مجھے کام میں مصروف دیکھ رہا تھا لیکن بچپن کی دوستی اور بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اسے مذاقاً کہا کہ میں تمہاری طرح چوہدری عبداللہ کا نوکر نہیں ہوں، اسے جا کرکہو کہ کوئی کام ہے تو خود آئے، میں نہیں جاؤں گا۔ اس نے جاکرمیرا پیغام اسی طرح لفظ بہ لفظ اپنے مالک کو پہنچا دیا۔


اس کی بدقسمتی کہ اس وقت اس کے پاس دوستوں اور جی حضوریوں کی محفل جمی ہوئی تھی سو اپنے نوکرکی زبانی میرا پیغام سن کر اس نے اپنی سخت بے عزتی محسوس کی۔ بات آئی گئی ہوگئی، دوسرے روز جب میں گھر سے واپس آرہا تھا اس سے ٹکراتے ہوئے بال بال بچا، وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے۔

سلطان راہی کی طرح ٹانگیں پھیلا کر راستہ روکے کھڑا تھا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو بڑی رعونت سے بولا تم لوگوں نے شہر میں رہنا ہے کہ نہیں؟ میرے منہ سے بھی غیر ارادی طور نکل گیا کہ کیوں یہ شہر تیرے باپ کا ہے؟ مجھے یہ کہنا اس لیے بھی آسان لگا کہ میں اسے کبھی چوہدری محمد حسین کے گھر کے آگے گندے بدبودار پانی کی ہودی (ٹینک) کے پاس ہتھیلی پر رکھ کر روٹی کھاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا اورمجھے اس کی فرعونیت کے آگے سر جھکانا کسی طور منظور نہ تھا۔

خیر یہ لمبی کہانی ہے جس کا مفصل ذکر میں پہلے بھی اپنے کسی کالم میں کرچکا ہوں، اس لیے یہاں نہیں دہراؤں گا، چوہدری عبداللہ کی جوابی کارروائی کا احوال البتہ سنا دیتا ہوں جو شاید آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہو۔ ایک دن جب میں حسب معمول کام میں مصروف تھا، ٹاؤن کمیٹی کے چپراسی نے آکر اطلاع دی کہ ماتلی سے مختیار کار (تحصیلدار) میرے خلاف انکوائری کرنے آئے ہیں، میر بندہ علی خان تالپور سمیت (جو ان دنوں کمیٹی کے چیئرمین تھے) سارے بی ڈی ممبرز ٹاؤن آفیس میں موجود ہیں جو اس زمانے میں ہمارے استاد اور جامعہ مسجد کے خطیب مولوی عسکری صاحب کے گھر کے عقب میں ہوا کرتا تھا، میرے لیے حکم تھا آمد اور روانگی کے رجسٹروں سمیت (جن میں اسٹیمپس کا اندراج کیا جاتا تھا) انکوائری کا سامنا کرنے پہنچوں۔

میں نے اسی وقت دونوں رجسٹر چپراسی کے حوالے کیے اور اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ مختیارکار مسٹر الہ ڈنو میمن نے چھوٹتے ہی پوچھا خزانہ آفس سے اسٹیمپس لیتے وقت 15 فیصد کمیشن ملتا ہے کہ نہیں، میں نے کہا ملتا ہے، بولے پھر بلیک کیوں کرتے ہو۔ میں نے کہا یہ محض الزام ہے جس کی میں سختی سے تردید کرتا ہوں۔

انھوں نے چپراسی سے باہر بیٹھے ہوئے دونوں آدمیوں کو بلانے کے لیے کہا، میں نے دیکھا چوہدری عبداللہ کی بیٹھک کے سامنے والی بڈھو گاہو کی دکان پر کام کرنے والا اس کا نوکر حاجی بھٹی اور حکیم نور محمد مرزائی کا منجھلا بیٹا جمیل چک اٹھا کر اندر داخل ہوئے، مختیارکار کے پوچھنے پر حاجی بھٹی نے اپنی شکایت دہرائی کہ وہ فلاں دن دس روپے کا اسٹیمپ پیپر لینے میرے پاس گیا تھا اور میں نے اس کے بیس روپے طلب کیے تھے، جمیل مرزائی نے گواہی دی کہ وہ سچ کہتا ہے اور یہ کہ وہ اس کے ساتھ تھا۔

میرے پاس اس کے سوا کہنے کو کچھ نہیں تھا کہ دونوں جھوٹ کہتے ہیں اور وہ کبھی میرے پاس آئے ہی نہیں تھے۔ ''ابھی پتہ چل جائے گا" کہتے ہوئے مختیارکار نے میرے دونوں رجسٹر کھول کر دیکھے اور ان دونوں سے پوچھا تم کس دن اسٹیمپ پیپر لینے گئے تھے، انھوں نے پہلے بتایا ہوا دن دہرایا تو مختیارکار نے رجسٹر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ''اس دن تو اس کے پاس کوئی اسٹیمپ پیپر تھا ہی نہیں، یہ تمہیں بلیک میں بیس روپے کا کہاں سے لا کر دیتا۔

اتنا سننا تھا کہ اجلاس مچھلی منڈی بن گیا، چوہدری عبداللہ خود بھی بی ڈی ممبر تھا اور گردن جھکائے بیٹھا تھا۔ اس کے مخالف اراکین رئیس میر محمد، حاجی غلام حسین میمن اور کرمن میگھواڑ بھی اجلاس میں شریک تھے، ان کے اصرار پر مختیار کار نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہیں چوہدری عبداللہ سے کوئی شکایت ہے، میں نے ساری کہانی کہہ سنائی تو بات ان کی سمجھ میں آگئی۔

انھوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور وہ جلی کٹی سنائیں کہ کوئی شرم حیا والا آدمی ہوتا تو ڈوب مرتا، پھر کھڑے ہوکر مجھ سے ہاتھ ملایا اور رجسٹر واپس دیتے ہوئے بولے تمہیں زحمت ہوئی، سوری۔ انھوں نے مدعی اور گواہ کی طرف دیکھ کر کہا تم دونوں کوتو میں ابھی پولیس کے حوالے کرتا ہوں، حاجی بھٹی ڈرگیا اور رونے لگا، حاجی غلام حسین کے پوچھنے پر اس نے اعتراف کیا کہ انھوں نے چوہدری عبداللہ کے کہنے پر یہ ڈراما رچایا تھا، میر صاحب نے اس کی طرف دیکھ کر انگریزی میں کہا شیم آن یو، میں نے جاتے وقت سلام کیا تو انھوں نے اپنے مخصوص اور دلکش انداز میں مسکرا کر جواب دیا۔ رئیس میر محمد نے حاجی بھٹی اور جمیل مرزائی کی سفارش کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ انہیں معاف کردو، بیچارے حکم کے غلام ہیں۔
Load Next Story