لاہورNA127 تینوں بڑی جماعتوں میں سخت مقابلے کی توقع

حلقہ کے 3 لاکھ 25 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو۔۔۔

حلقہ کے 3 لاکھ 25 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو امیدواروں کو منتخب کریں گے۔ فوٹو: فائل

لاہور کے حلقہ این اے 127 میں ن لیگ ،تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے درمیان اصل معرکہ ہوگا۔

حلقہ کے 3 لاکھ 25 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو امیدواروں کو منتخب کریں گے۔ پنجاب کی سیاست میں لاہو رکی سیاست کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔یہ حلقہ بنیادی طو رپر پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حلقہ عمومی طور پر غریب اور مزدور لوگوں پر مشتمل ہے اور چونکہ پیپلز پارٹی بنیادی طو رپر غریب اور مزدور لوگوں میں اپنی مقبولیت رکھتی تھی اس لیے یہاں سے پیپلز پارٹی کے حامی لوگ ماضی میں انتخابی کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں ۔

اس حلقہ میں بنیادی طور پرگرین ٹاون، ٹاون شپ، پیکو روڈ ، لنک روڈ، ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن، جنرل ہسپتال، چونگی امرسدھو، فیروز پور روڈ،روہی نالہ ،پنڈی راجپوتاں ، کوٹ لکھپت سمیت کئی علاقے شامل ہیں۔ اس بار 2013 کے انتخابات میں اس حلقہ میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ یہاں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(کے بعد متبادل اور تیسری قوت کے طو رپر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی میدان میں آگئی ہے ۔ اس حلقہ کے انتخابات کیلئے پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف نے حتمی امیدواروں کا اعلان کردیاہے جبکہ ن لیگ کے طرف سے حتمی امیدواروں کا اعلان تاحال نہیں کیا جاسکا۔

پیپلز پارٹی نے اس حلقہ سے سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کے بیٹے سردار خرم کھوسہ کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اسی حلقہ سے پیپلز پارٹی کے پرانے اور نظریاتی کارکن چوہدری اسلم گل پارٹی ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن پارٹی نے ان کے مقابلے میں سردار خرم کھوسہ کو نامزد کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اس حلقہ سے مسلم لیگ )ن(کے متوقع امیدوار چوہدری نصیر احمد بھٹہ ہیں۔ نصیر بھٹہ اسی حلقہ سے 2008کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔ لیکن اس بار کہا جارہا ہے کہ ان کو تبدیل کرکے یہاں سے خواجہ احمد حسان کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے یہاں سے نئے امیدوار نصراللہ مغل کو ٹکٹ دیاہے جبکہ اس سے پہلے اس حلقہ سے تحریک انصاف لاہو رکے صدر عبدالعلیم خان امیدوار کا نام سامنے آیاتھا لیکن آخری وقت میں پارٹی قیادت نے ان کا نام ڈراپ کرلیا ۔

اس حلقہ سے 2002ء کے انتخاب میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری منتخب ہوئے تھے اور انھوںنے یہاں سے عبدالعلیم خان اور چوہدری نصیر احمد بھٹہ کو شکست دی تھی ۔ لیکن اسمبلی اور سیاست سے کنارہ کشی کرنے والے علامہ طاہر القادری نے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔اس بنا پر ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ق) کے حمایت یافتہ امیدوار فاروق امجد میر کامیاب ہوئے تھے اور انھوںنے مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نصیر بھٹہ کو شکست دی تھی۔ 2008ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار نصیر بھٹہ نے کامیابی حاصل کی تھی انہوں نے 54 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ، دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ریاض تھے جنہوں نے ساڑھے پندرہ ہزار ووٹ حاصل کئے اور تیسرے نمبر پر عبدالعلیم خان آئے تھے۔




اس سے قبل ماضی میں یہاں سے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، پیپلز پارٹی کے خواجہ طارق رحیم، مسلم لیگ(ن) کے طارق بانڈے مرحوم اور اسحاق ڈار منتخب ہوتے رہے ہیں ۔اس مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127 سے50 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے جبکہ صرف ایک امیدوار چودھری اشفاق کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں جن امیدواروں کے کاغذات منظور کئے گئے ان میں محمد شکیل طاہر، سید محمد سردار علی، شاہد، صدیق خان، سر دار محمد عثما ن کھو سہ محمد شبیر ،نعیم الحق ،را نا شرا فت علی ،شا ہد جا وید انور ،عبدالعلیم خان ،ہمایوں اختر خان ، چوہدری محمد یاسین چیمہ، محمد حسنین عارف ،شفقت محمود ،ارشد علی، ظفر اقبال عبدالعزیز ،محمد شعیب خان نیازی ،محمد ابو بکر ،بسمہ آصف ،چوہدری نصیر احمد بھٹہ، ملک مقدس اسلم، میاں محمد سلیم ،سہراب اسلم خان ،فلک شیر جندران،عتیق علی ناصر ،عمر سہیل،وحید عالم خان ،طارق چوہدری، سہیل ضیاء بٹ ،سید احسان اللہ وقاص، نصراللہ مغل ،ڈینئل مسیح ،عبدالسلیم ، یاسمین راشد، ملک ظہیر عباس، نائلہ جوزف ڈیال ،خواجہ احمد زاہد اکرم ، سردار خرم لطیف خان کھوسہ شامل ہیں۔

پی پی 154 کے حلقہ میں ووٹوں کی تعداد1 لاکھ 39 ہزارچھ سو چوتیس ہے اور یہاں سے بھی ن لیگ ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے امیداروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے یہاں سے فیصل میر کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے پرانے نظریاتی کارکن ہیں اور زمانہ طالب علمی سے پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں وہ پروفیسر وارث میر مرحوم کے صاحبزادے ہیں اورکافی عرصے کوٹ لکھپت اور ٹاؤن شپ کے علاقے میں لیبر کیلئے کام بھی کر رہے ہیں۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک بدستور موجود ہے اور فیصل میر نے اپنے حلقہ میں الیکشن کے حوالہ سے باقاعدہ مہم شروع کردی ہے تحریک انصاف نے یہاں سے نئے امیدوار آصف رضابیگ کو موقع فراہم کیاہے جبکہ ن لیگ نے ابھی تک امیدوار کا فائنل نہیں کیا۔ اس صوبائی حلقہ سے جماعت اسلامی کے رہنما احسان اللہ وقاص نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

احسان اللہ وقاص اس سے پہلے اس حلقہ سے 2002ء کے انتخابات میںکامیابی بھی حاصل کرچکے ہیں۔وہ یہاں سے مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں۔2008ء کے الیکشن میں یہاں سے ن لیگ کے ا میدوار زعیم قادری کامیاب ہوئے تھے ۔ پی پی 154 سے آصف رضا بیگ، عرفان حیدر، سید محمد سردار علی ، میاں محمد حفیظ، نعیم الحق، محمد فیاض بھٹی، رانا شرافت علی ، انور سلطان، طارق محمود ،چودھری امام بخش ، فیصل میر، آصف ظہور، سید اجمل حسین نقوی، ،میاں محمد طاہر ندیم، ملک مقصود خالد، حضرت گل خان، پرویز اختر ، نسرین اختر، تنویر ناصر چودھری، چودھری بشیر احمد، سرفراز اصغر بھٹہ، محمد شفیع جوئیہ ، محمد شفیق، ثناء اسلم، شبیر احمد، مظہر رسول بخاری، سروش طاہر، ساجد سردار جویا، محمد اسلم پرویز، کاشف گلزار ، میاں عبد الوحید، محمد عامر بلوچ، آسیہ ناز ، خالد احمد، ملک مقدس اسلم، اسلم رزاق، سید عمران علیم شاہ ، میاں محمد سلیم، محمد طاہر، فرید احمد خان، رائے شہباز صدیق، رانا آفتاب ذاہد، نصر اللہ مغل ، محمد نعیم، عثمان رفیق، اسلم بھٹہ، میاں سہیل ستار، اصغر علی ،سید احسان اللہ وقاص، محمد طارق چودھری ، محمد انور طور ، محمد عابد، ارمغان صادق، نعیم انور، چودھری محمد آصف، سلمی نعیم، بوٹا مسیح ، یاسمین راشد ، محمد اقبال قریشی ، عامر سجاد، سید علی عباس بخاری، سجاد نعیم بٹ اور سید ضمیر حسین قادری کے کاغذات منظور ہوئے ہیں۔ پی پی 153کے حلقہ میں ووٹروں کی تعدادایک لاکھ پچاسی ہزار سے زائد ہے۔

پیپلز پارٹی نے یہاں سے پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل سینیٹرجہانگیر بدر کے بیٹے علی بدر سے ٹکٹ واپس لیکر میاں طارق عزیز کو ٹکٹ دیاہے،تحریک انصاف نے یہاں سے شبیر سیال کو ٹکٹ جاری کیاہے جبکہ ن لیگ نے یہاں سے ابھی تک امیدوار فائنل نہیں کیا۔ 2008ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے ن لیگ کے ا میدوار رمضان صدیق بھٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے رہنما عمر سہیل ضیاء بٹ نے بھی کاغذات جمع کرائے ہیں اور ان کے ٹکٹ کیلئے ن لیگ کے کارکن احتجاج بھی کررہے ہیں۔

یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس حلقہ سے ان کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیدیا جائے۔ پی پی 153سے محمد ذیشان خان شیروانی، سید محمد سردار علی ، محمد امجد خان، حافظ محمد اویس، محمد شبیر، عبدالمجید، طارق محمود کمبوہ، میاں غلام مصطفی ، منظور حسین، نصیر احمد، رائو اختر علی ، میاں محمد زاہد لطیف، محمد بابر، احمد یار، محمد اسلم، رمضان صدیق بھٹی، شفقت حسین پاندہ، محمد ارشد، عامر منظور ، نبیلہ طارق ، عبدالکریم راہی ، عبدالحمید ، محمد شعیب خان نیازی، زاہد اکرم، میاں طارق عزیز ، خالد پرویز، ملک شاہد اسلم، محمد اقبال قاسم، عامر برناڈ، الیاس اے خان، فرخ جاوید، ظہیر احمد بھٹہ، اختر حسین، میاں عبدالزاق ، حافظ لیاقت علی ، عمر سہیل ضیاء بٹ، ملک احسان اللہ ، نصر اللہ ملک، صبا صادق ، عثمان رفیق، نغمانہ خورشید، سہیل ضیاء بٹ، چودھری محمد طفیل، خالد اصرار، شرافت لیاقت بھٹی، محمد علی میاں ، رانا برانباس، سرفراز ارجن ،سید علی عباس شاہ ،مقدر رضا اور محمد انور طور کے کاغذات منظور ہوئے ہیں ۔ صوبائی حلقوں پی پی 153اور154 سے ماضی میں چوہدری اصغر، پرویز صالح، رمضان بھٹی، زعیم قادری،احسان اللہ وقاص کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے نصر اللہ مغل پہلی بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں اگر تحریک انصاف کی ہوا بن گئی تو وہ دوسرے امیدواروں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
Load Next Story