صمدانی صاحب

یہ سارے کام ایسے تھے کہ خوامخواہ میرے ذہن میں ان کی تصویر ایک ہیوی ویٹ باکسر سے ملتی جلتی بن گئی تھی

Amjadislam@gmail.com

اب تک کی زندگی میں مجھے جن سچ مچ کے بڑے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے اگر میں ان کی پہلی صف پر نظر ڈالوں تو اُس میں مجھے ایک ایسا نام چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے جس کی وفات کی خبر کے لیے ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پاس اتنی Space اور گنجائش بھی نہیں نکل سکی کہ جس میں وہ کسی بے معنی اور انتہائی فضول اور بے مقصد بات کو اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچاتے ہیں۔ کسی بھی مہذب اور انسان شناس معاشرے کے لیے جسٹس ریٹائرڈ صمدانی کی رحلت ایک عظیم ترین اور تہذیبی نقصان سے کم نہ ہوتی مگر بد قسمتی سے ہمارا حال کچھ ایسا ہے کہ ہم ''اے فلک افسوس ہے، تجھ پر بہت افسوس ہے '' یا تفُو بر تو اے چرخِ گرداں تفُو'' کہہ کر ہر نوع کی ذمے داری سے فارغ ہو جاتے ہیں۔

صمدانی صاحب دیکھنے میں ایک دبلے پتلے ،پستہ قد، لاغر اندام اور عام سے نقوش کے حامل انسان تھے مگر جن لوگوں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے اور جو اُن کے کردار کی خوبیوں اور علمی اور پیشہ ورانہ قابلیت سے آگاہ ہیں ۔ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کا اصل قد ہمارے عہد کے قد آور ترین لوگوں میں بھی بلند تر اور نمایاں تھا وہ خیبر پختون خو اکے علاقے بونیر میں پیدا ہوئے اور ان کی خواہش کے مطابق انھیں وہیں دفن بھی کیا گیا۔

میری ان سے پہلی ملاقات 1984ء کے دسمبر میں لندن میں ہوئی جہاں وہ میرے دوستوں مکرم جاوید سیّد، صابر چوہدری اور افتخار احمد بٹ کے دفتر میں پارٹ ٹائم کام کر رہے تھے ۔اس وقت تک میں ان کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتا تھا کہ انھوں نے نہ صرف ضیاء الحق کے حکم پر بطور پی سی او جج حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا بلکہ بطور جج بھٹو صاحب کی ضمانت کی درخواست بھی منظور کی تھی اور بعد میں بطور فیڈرل سیکریٹری قانون جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روائت کو اس طرح تازہ کیا تھا کہ انھیں اس انتہائی طاقت ور اور پر کشش نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا۔

یہ سارے کام ایسے تھے کہ خوامخواہ میرے ذہن میں ان کی تصویر ایک ہیوی ویٹ باکسر سے ملتی جلتی بن گئی تھی سو جب احباب نے ان سے تعارف کروایا تو ایک جھٹکا سا لگا اور کچھ دیر تک اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ایسا دھان پان اور اس قدر مطمئن نظر آنے والا شخص ان تمام کارناموں کا مرکزی کردار ہو سکتا ہے جو ان کی ذات سے مربوط کیے گئے ہیں (کچھ اس طرح کی حیرت مجھے ایم ایم عالم مرحوم کو پہلی بار دیکھ کر بھی ہوئی تھی) اس پرمستزاد ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی وہ خوشگوار مسکراہٹ تھی جو ان کی موجودہ صورت حال سے بالکل میل نہیں کھا رہی تھی۔

ہم لوگ یعنی جمیل الدین عالی ، پروین شاکر (مرحومہ) اور میں امریکا اور کینیڈا کے ایک طویل مشاعراتی دورے سے واپسی پر چند دنوں کے لیے انگلینڈ گئے تھے اور چونکہ یہ میری اور پروین کی پہلی لندن یاترا تھی اس لیے خواہش اور کوشش تھی کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھ لیا جائے ۔صمدانی صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کچھ دیر ہماری گفتگو سنتے رہے اور پھر جیسے اپنی بات کا خود ہی مزہ لیتے ہوئے بولے''اگر آپ امریکن ٹورسٹوں کی طرح صرف قابلِ دید مقامات کی گنتی پوری کرنا چاہتے ہیں تو اور بات ہے ورنہ یہاں کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست والی صورت حال ہے کہ برٹش لائبریری ہو یا نیچرل ہسٹری میوزیم، شاہی قبرستان ہو یا مادام تسائو، بکنگھم پیلس یا ٹاورآف لندن یا اس طرح کی اور درجنوں جگہیں اور چیزیں یہ سب کی سب توجہ اور وقت مانگتی ہیں اور آپ کے پاس صرف دو دن ہیں سو پہلے تو ایک ترجیحی فہرست بنائیے اور پھر فاصلے اور جغرافیے کے حوالے سے اسے دو دنوں پر تقسیم کیجیئے ایک دن میں آپ کے ساتھ گائیڈ کے فرائض انجام دوں گا۔

وہ ایک دن مجھے آج تک نہیں بھولا اُن کے مشورے پر ہم نے کار کے بجائے بس اور میٹرو کے ذریعے سفر کیا اور دنیا بھر کے موضوعات پر خوب خوب باتیں کیں لیکن اس سارے سفر کا حاصل صمدانی صاحب کا اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر اعتماد اور اطمینان کا وہ رویہ تھا جس نے بلا شبہ ہم سب کو بے حد متاثر کیا۔ وہ سول سروس سے عدلیہ کی طرف گئے تھے اور دونوں ملازمتوں کے دوران اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے تھے وہ چاہتے تو اس سمجھوتے سے با آسانی کام لے سکتے تھے جس کا مظاہرہ دونوں شعبوں میں ان کے ہم عصر ساتھیوں نے کیا اور چونکہ اس حمام میں سب ننگے تھے اس لیے کوئی ان کو ٹوکنے والا بھی نہ ہوتا مگر جس طرح انھوں نے اپنے ضمیر اور اصول کی آواز پر لبیک کہا وہ اب ہمارا ایک عظیم اور قیمتی ثقافتی اور قومی ورثہ ہے، اپنی حق گوئی پر وہ ایک تخلیئے میں کہی گئی Sorryکی وجہ سے ان تمام مشکلات سے بچ سکتے تھے جو انکار کی صورت میں ان کے سامنے قطار باندھے کھڑی تھیں لیکن انھوں نے جس اصول پسندی اور ثابت قدمی سے کام لیا اسے دیکھ کر علامہ اقبال کا ایک مصرعہ با ر بار ذہن میں گونجتا ہے :

''بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں ''


پروین نے استفسار کیا کہ اتنے بڑے عہدے اور آسائشوں کی ریل پیل کو چھوڑ کر یہاں اس حال میں رہنا کہ جسے سفید پوشی کی زندگی کہنا بھی مشکل ہے آپ کو کیسا لگتا ہے اتنی قابلیت اور اعلیٰ پوسٹوں کے بعد یہ گونا گوں مسائل سے پُر زندگی اور بیوی بچوں کی سہولت اور تعلیم سے متعلق معاملات آپ کو یہ احساس تو نہیں دلاتے کہ ایک معمولی سا سمجھوتہ اس ساری صورتِ حال کو بدل سکتا تھا ۔ اس پر وہ مسکرائے اور بولے۔

دیکھو بی بی ۔ پچھتاوا ہمیشہ غلط فیصلوں پر ہوتا ہے ۔ صحیح وقت پر کیا گیا صحیح فیصلہ اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ اس کا نتیجہ اور قیمت کیا ہوگی ۔ میں نے جو کچھ کہا اور کیا وہ میرے دل کی آواز تھی اور جب تک اس آواز کی بازگشت میری روح میں زندہ اور موجود ہے مجھے کوئی مشکل یا تکلیف نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ محسوس ہوتی ہے ۔

اس کے بعد وہ کب پاکستان آئے مجھے اس کا علم نہیں کہ میری ان سے اگلی ملاقات سلیم سہگل مرحوم کے لاء آفس میں ہوئی جہاں وہ کارپوریٹ سیکٹر کے انتہائی کامیاب اور محترم وکیل کی شکل میں اپنا کام کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ ان کی قانونی صلاحیتوں اور قابلیت کے پیش نظر اب انھیں عالمی سطح پر بہت سے کیسوں میں بطور وکیل لیا جاتا ہے اور ان کا بیشتر وقت سفر میں کٹتا ہے۔ انھی دنوں میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی یادداشتوں کو کتابی شکل میں تحریر کریں کہ اس سے انصاف اور وکالت کے شعبے کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھی سیکھنے کے لیے بہت سی باتیں ملیں گی۔ یہ ان کی محبت ہے کہ انھوں نے میری اس خواہش کو پذیرائی بخشی اور اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنی داستانِ حیات کو قلم بند کیا یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اس عمل میں اپنی ''میں'' کو جائز طور پر شامل کرنے کی جگہ پر گریز اور انکسار سے کام لیا۔ شائد اس کی وجہ ان کا تصوف کی طرف وہ رجحان ہو جس میں نفی ذات ہی ذات کا استعارہ بن جاتی ہے۔

کچھ برس قبل وہ ٹیک سوسائٹی لاہور میں قیام پذیر ہوگئے تھے ۔ اس دوران میں عزیزی زبیر شیخ اور کچھ دیگر احباب کی معرفت ان سے ملاقاتیں تو رہیں مگر وہ کچھ اسی نوع کی تھیں کہ :

آپس کی کسی بات کا ملتا نہیں وقت

ہر بار یہ کہتے ہیں کہ'' بیٹھیں گے کسی دن''

تو بات شروع ہوئی تھی ہمارے معاشرے اور میڈیا کے اس عمومی اور افسوسناک رویئے سے کہ ہم اپنے بڑے لوگوں کی نہ تو ان کی زندگی میں قرار واقعی عزت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے جانے کے بعد ان کی خدمات کو ڈھنگ سے یاد کرتے ہیں۔ میرے نزدیک صمدانی صاحب جیسے لوگ صحرائوں میں نخلستان کی طرح ہوتے ہیں اور یہی روشنی کی وہ کرنیں ہیں جو ہمیں حالات کے اندھے غار کے دوسرے سرے پر نظر آکر ہمارا حوصلہ بھی بڑھاتی ہیں اور سمت نمائی بھی کرتی ہیں۔ میری ذاتی رائے میں اگر چہ ہماری عدلیہ میں بہت بڑے بڑے روشن اور بے مثال نام ہر دور میں رہے ہیں مگر جن تین اشخاص کو اس قبیلے کا فخر کہا جا سکتا ہے ان میں جسٹس کار نیلس، جسٹس کیانی اور جسٹس صمدانی کے اسمائے گرامی سب سے اوپر اور جلی حروف میں لکھے جائیں گے۔
Load Next Story