مادیت اور عینیت…
تجربیت اور مادیت کا تعلق خارجی دنیا کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں عینیت یا ماورائیت پسندوں نے محض باطنیت کی اولیت اور اسے واحد سچائی کے طور پر پیش کرنے کے لیے مغربی فلسفے کے حوالے سے گمراہ کن خیالات پیش کیے ہیں، جب کہ فلسفے کی تاریخ بتاتی ہے کہ یونان میں مادیت کی روایت کم از کم 26 سو برس پرانے Milesian School کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جس کے اہم ترین فلسفیوں میں تھیلس، انیکسی مینڈر اور انیکسی مینز وغیرہ کے نام شامل رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کسی مافوق الفطرت ہستی کی تخلیق نہیں ہے بلکہ فطرت از خود زندگی کی حامل ہے۔ فلسفیوں کا کام فطرتی اشیا کی اپنی حرکت میں، ان اصولوں اور قوانین کو دریافت کرنا ہے جو ان کے اپنے عناصر سے جنم لیتے ہیں۔
برٹرینڈ رسل نے وضاحت کی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ان سوالات پر غور کرنے کا آغاز یونان سے ہوا تھا کہ کائنات کا مادہ کن اشیا سے مل کر بنا ہے۔ اس سے قبل یہ جانا جاتا تھا کہ کائنات کو کس نے بنایا ہے! یہ فلسفی اشیا کی اپنی فطرت میں یعنی اشیا کی باطنی حرکت کو جاننا چاہتے تھے۔ انیکسی مینڈر نے مادے کو ہر ''تخلیق'' سے قبل ایک لامتناہی اور لامحدود شے کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ ہیگل اپنی 'منطق' میں ہیراکلیٹس کو پہلے ماہرِ جدلیات کے طور پر تسلیم کرتا ہے کیونکہ ہیراکلیٹس نے کائنات میں عمل آرا حرکت اور تغیر کا ایک ازلی اور ابدی قانون دریافت کر لیا تھا۔ ہراکلیٹس کا یہ قول مشہور ہے کہ ''ہر شے مستقل حرکت میں ہے۔'' ہر شے وجود میں آتی ہے اور فنا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح "Becoming" کا فلسفہ ہیراکلیٹس سے منسوب ہے۔
Milesian School کے علاوہ یونان کے Atomist School کے لیوسیپس اور ڈیموکریٹس کا شمار فلسفہ مادیت کے اہم علم برداروں میں ہوتا ہے۔ لیوسیپس اور ڈیموکریٹس کو جدید طبیعات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ فلسفی مادے کو کل سچائی گردانتے تھے اور اس کی ازلی و ابدی حیثیت پر کامل یقین رکھتے تھے۔ ''باطن'' کے نام نہاد فلسفے کی دروغ گوئیوں سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ ان کا فطرت یا مادے پر کامل یقین ہی تھا جس کی وجہ سے انھوں نے مادے کی سب سے مختصر اکائی یا یونٹ کو دریافت کر لیا تھا۔ لیوسیپس اور ڈیموکریٹس نے Being اور Nothing کا فلسفہ متعارف کرایا تھا۔
ان کے نزدیک ایٹم وجود رکھتا ہے، جو زماں کے مماثل ہے، جب کہ عدم وجود کے طور پر یہ فلسفی خلا یعنی Void کو متعارف کراتے ہیں۔ ان کے باہمی اشتراک سے Change اور Variety جیسے اوصاف جنم لیتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں تو ہیگل سے قبل ہیراکلیٹس، لیوسیپس، اور ڈیموکریٹس وغیرہ آئن اسٹائن کے حقیقی پیش روئوں میں شمار ہوتے ہیں۔ قدیم فلسفیوں کے متعلق اس مختصر بحث کا مطلب صرف اس حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ فلسفی کا رخ محض اندر کی جانب نہیں ہوتا، خارجی دنیا کی حقیقت کو تسلیم کرنا باطنیت کی نفی سے عبارت ہے۔
تجربیت اور مادیت کا تعلق خارجی دنیا کے ساتھ ہوتا ہے۔ علم کے حصول کا عمل حسیات اور خارجی دنیا کے درمیان ربط کا نتیجہ ہے۔ اس لیے نہ تو ہر فلسفہ ''اندر'' یا ''باطن'' کی عکاسی کرتا رہا ہے اور نہ ہر قسم کا فلسفہ 'وحدت' کا قائل ہی رہا ہے۔ مختلف فلسفیوں کے فلسفوں میں مختلف رجحانات غالب رہے ہیں۔ اگر کلاسیکی فلسفے کے بجائے کچھ دیر کے لیے جدید فلسفے کی جانب آئیں تو اس میں مختلف بلکہ متضاد فلسفیانہ رجحانات تشکیل پاتے رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی صدی مکمل طور پر کسی ایک رجحان کی نمایندہ کبھی نہیں رہی ہے۔ ہر فلسفی دوسروں فلسفیوںسے نہ صرف اختلافات رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے بلکہ اپنا ایک الگ نظام فکر تشکیل دیتا ہے۔
نیا فلسفیانہ نظام پرانے فکری نظاموں کی نفی سے عبارت ہوتا ہے۔ جدید فلسفے سے روشن خیالی کا آغا ہوا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی ردِ روشن خیال کے فلسفے بھی موجود رہے ہیں۔ سترھویں صدی میں ڈیکارٹ اگر عقلیت کا نمایندہ تھا تو روسو بلاشبہ غیر عقلیت یعنی روشن خیالی کو مسترد کرنے والا رومانوی مفکر تھا، جو سماج کی عقلی توجیحات کے برعکس فطرت سے ہم آہنگ ہونے کو ترجیح دیتا تھا۔ ڈیکارٹ 'دوئی' کے فلسفے کا قائل تھا تو سپائینوزا ''وحدت الوجود'' کا مبلغ تھا۔ ڈیکارٹ سے قبل فرانسس بیکن کو برطانوی مادیت اور تجربیت کا 'باپ' تصور کیا جاتا ہے۔
فرانسس بیکن جیسے فلسفیوں کے افکار میں فطرت کی تفہیم کے حوالے سے ''باطن'' کے اس رجحان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، جو ہمارے ہاں عام طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ بیکن کے خیالات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ فطرت الٰہیات سے الگ ایک سچائی ہے جسے حسیات و عقلیت کی بدولت ہی جانا جا سکتا ہے۔ بیکن کے نزدیک ''علتوں کے علم'' اور '' اشیا کی مخفی حرکت'' کو جاننا انسانی علم کو وسعت دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ سپائینوزا کا خیال تھا کہ فکر اور مادہ ایک ہی 'جوہر' کے دو مختلف پہلو ہیں۔ سپائینوزا کی فکر کے اس پہلو کی وجہ سے اس پر پر بعد ازاں "Pantheism" کا الزام لگا کر کفر کا فتویٰ لگا اور اسے یہودیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔
1785ء میں جیکوبی، مینڈلسن اور لیسنگ کے درمیان ایک دلچسپ بحث کا آغا ہوا تھا جس میں لیسنگ کو بھی سپائینوزا کے شاگرد یعنی ایک وحدت الوجودی فلسفی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ سترھویں صدی میں ہی برطانوی فلسفی جان لاک نے اپنی 'تجربیت' کی بنیادیں رکھی تھیں۔ لاک کی تجربیت خیالات کی وہبی (innate) اور ابدی حیثیت کو ان بنیادوں پر مسترد کرتی ہے کہ حسیات سے حاصل ہونے والے ادراکات سے الگ علم کے حصول کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ذہن اس کورے کاغذ کی مانند ہے جس پر تمام نقوش تجربے سے حاصل شدہ مواد کے ذریعے ثبت ہوتے ہیں۔ تجربیت بلاشبہ ''اندر'' کے رجحان کی نفی کرتی ہے۔
سترھویں صدی میں ہی لارڈ ہوبس کی مادیت سامنے آتی ہے۔ ہوبس نہ صرف حسیات کو علم کے حصول کا وسیلہ قرار دیتا ہے، وہ اپنی کتاب "Leviathan" میں یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ''حسیات ہی علم کے ہر اصول کا بنیادی اصول ہے۔ تمام سائنس صرف اس ایک ہی ذریعے سے اخذ کی جاتی ہے۔'' اس طرح جدید برطانوی فلسفے کی تاریخ کے سرسری جائزے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مجموعی طور پر فلسفہ تجربیت علم الوجود سے جنم لینے والے ''اندرونی'' رجحان کو مسترد کرتا ہوا اس علمیات کو اہمیت دیتا ہے جو معروضی اور موضوعی ارتباط سے عبارت ہے۔ خارجی دنیا کی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب ایک بھیانک التباس میں الجھنا ہے۔ ہمارے پُراسراریت پسند اس الجھائو میں جکڑے رہے ہیں۔
اسی طرح اگر برطانیہ سے نکل کر سترھویں اور اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفے کی طرف آئیں تو اس صورتحال کو مزید مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیبائنز حسیات کے ذریعے سے معروضات سے حاصل شدہ علم کو اشیائے حقیقی کی خصوصیات قرار دیتا تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ حسیات سے موصول ہونے والے اشیائے حقیقی کے علم کو قوتِ فہم کے ہیئتی تصورات کے مقابلے میں رکھ کر جانچنے سے حقیقی علم حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کی عقل جو اس کے ''اندر'' کی نمایندہ ہے وہ صرف ان ادراکات سے نبرد آذما ہوتی ہے جو اسے تجربے میں دیے جاتے ہیں۔ عقل خود سے تصورات کی تشکیل نہیں کرتی۔
اس سے بھی 'اندر' کے مقولے کی نفی ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں فتوئوں اور مفروضوں کا انبار لگانے کا رجحان بہت عام ہے۔ جب کہ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ پہلے اس تمام پسِ منظر کا شعور حاصل کر لیا جائے کہ ''اندر'' سے تصورات کی تشکیل متصوفانہ فکر کی خصوصیات تو ہو سکتی ہے، تاہم اسے فلسفے کا غالب رجحان قرار دینا ایک سنگین نوعیت کی غلطی ہے۔
برٹرینڈ رسل نے وضاحت کی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ان سوالات پر غور کرنے کا آغاز یونان سے ہوا تھا کہ کائنات کا مادہ کن اشیا سے مل کر بنا ہے۔ اس سے قبل یہ جانا جاتا تھا کہ کائنات کو کس نے بنایا ہے! یہ فلسفی اشیا کی اپنی فطرت میں یعنی اشیا کی باطنی حرکت کو جاننا چاہتے تھے۔ انیکسی مینڈر نے مادے کو ہر ''تخلیق'' سے قبل ایک لامتناہی اور لامحدود شے کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ ہیگل اپنی 'منطق' میں ہیراکلیٹس کو پہلے ماہرِ جدلیات کے طور پر تسلیم کرتا ہے کیونکہ ہیراکلیٹس نے کائنات میں عمل آرا حرکت اور تغیر کا ایک ازلی اور ابدی قانون دریافت کر لیا تھا۔ ہراکلیٹس کا یہ قول مشہور ہے کہ ''ہر شے مستقل حرکت میں ہے۔'' ہر شے وجود میں آتی ہے اور فنا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح "Becoming" کا فلسفہ ہیراکلیٹس سے منسوب ہے۔
Milesian School کے علاوہ یونان کے Atomist School کے لیوسیپس اور ڈیموکریٹس کا شمار فلسفہ مادیت کے اہم علم برداروں میں ہوتا ہے۔ لیوسیپس اور ڈیموکریٹس کو جدید طبیعات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ فلسفی مادے کو کل سچائی گردانتے تھے اور اس کی ازلی و ابدی حیثیت پر کامل یقین رکھتے تھے۔ ''باطن'' کے نام نہاد فلسفے کی دروغ گوئیوں سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ ان کا فطرت یا مادے پر کامل یقین ہی تھا جس کی وجہ سے انھوں نے مادے کی سب سے مختصر اکائی یا یونٹ کو دریافت کر لیا تھا۔ لیوسیپس اور ڈیموکریٹس نے Being اور Nothing کا فلسفہ متعارف کرایا تھا۔
ان کے نزدیک ایٹم وجود رکھتا ہے، جو زماں کے مماثل ہے، جب کہ عدم وجود کے طور پر یہ فلسفی خلا یعنی Void کو متعارف کراتے ہیں۔ ان کے باہمی اشتراک سے Change اور Variety جیسے اوصاف جنم لیتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں تو ہیگل سے قبل ہیراکلیٹس، لیوسیپس، اور ڈیموکریٹس وغیرہ آئن اسٹائن کے حقیقی پیش روئوں میں شمار ہوتے ہیں۔ قدیم فلسفیوں کے متعلق اس مختصر بحث کا مطلب صرف اس حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ فلسفی کا رخ محض اندر کی جانب نہیں ہوتا، خارجی دنیا کی حقیقت کو تسلیم کرنا باطنیت کی نفی سے عبارت ہے۔
تجربیت اور مادیت کا تعلق خارجی دنیا کے ساتھ ہوتا ہے۔ علم کے حصول کا عمل حسیات اور خارجی دنیا کے درمیان ربط کا نتیجہ ہے۔ اس لیے نہ تو ہر فلسفہ ''اندر'' یا ''باطن'' کی عکاسی کرتا رہا ہے اور نہ ہر قسم کا فلسفہ 'وحدت' کا قائل ہی رہا ہے۔ مختلف فلسفیوں کے فلسفوں میں مختلف رجحانات غالب رہے ہیں۔ اگر کلاسیکی فلسفے کے بجائے کچھ دیر کے لیے جدید فلسفے کی جانب آئیں تو اس میں مختلف بلکہ متضاد فلسفیانہ رجحانات تشکیل پاتے رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی صدی مکمل طور پر کسی ایک رجحان کی نمایندہ کبھی نہیں رہی ہے۔ ہر فلسفی دوسروں فلسفیوںسے نہ صرف اختلافات رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے بلکہ اپنا ایک الگ نظام فکر تشکیل دیتا ہے۔
نیا فلسفیانہ نظام پرانے فکری نظاموں کی نفی سے عبارت ہوتا ہے۔ جدید فلسفے سے روشن خیالی کا آغا ہوا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی ردِ روشن خیال کے فلسفے بھی موجود رہے ہیں۔ سترھویں صدی میں ڈیکارٹ اگر عقلیت کا نمایندہ تھا تو روسو بلاشبہ غیر عقلیت یعنی روشن خیالی کو مسترد کرنے والا رومانوی مفکر تھا، جو سماج کی عقلی توجیحات کے برعکس فطرت سے ہم آہنگ ہونے کو ترجیح دیتا تھا۔ ڈیکارٹ 'دوئی' کے فلسفے کا قائل تھا تو سپائینوزا ''وحدت الوجود'' کا مبلغ تھا۔ ڈیکارٹ سے قبل فرانسس بیکن کو برطانوی مادیت اور تجربیت کا 'باپ' تصور کیا جاتا ہے۔
فرانسس بیکن جیسے فلسفیوں کے افکار میں فطرت کی تفہیم کے حوالے سے ''باطن'' کے اس رجحان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، جو ہمارے ہاں عام طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ بیکن کے خیالات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ فطرت الٰہیات سے الگ ایک سچائی ہے جسے حسیات و عقلیت کی بدولت ہی جانا جا سکتا ہے۔ بیکن کے نزدیک ''علتوں کے علم'' اور '' اشیا کی مخفی حرکت'' کو جاننا انسانی علم کو وسعت دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ سپائینوزا کا خیال تھا کہ فکر اور مادہ ایک ہی 'جوہر' کے دو مختلف پہلو ہیں۔ سپائینوزا کی فکر کے اس پہلو کی وجہ سے اس پر پر بعد ازاں "Pantheism" کا الزام لگا کر کفر کا فتویٰ لگا اور اسے یہودیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔
1785ء میں جیکوبی، مینڈلسن اور لیسنگ کے درمیان ایک دلچسپ بحث کا آغا ہوا تھا جس میں لیسنگ کو بھی سپائینوزا کے شاگرد یعنی ایک وحدت الوجودی فلسفی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ سترھویں صدی میں ہی برطانوی فلسفی جان لاک نے اپنی 'تجربیت' کی بنیادیں رکھی تھیں۔ لاک کی تجربیت خیالات کی وہبی (innate) اور ابدی حیثیت کو ان بنیادوں پر مسترد کرتی ہے کہ حسیات سے حاصل ہونے والے ادراکات سے الگ علم کے حصول کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ذہن اس کورے کاغذ کی مانند ہے جس پر تمام نقوش تجربے سے حاصل شدہ مواد کے ذریعے ثبت ہوتے ہیں۔ تجربیت بلاشبہ ''اندر'' کے رجحان کی نفی کرتی ہے۔
سترھویں صدی میں ہی لارڈ ہوبس کی مادیت سامنے آتی ہے۔ ہوبس نہ صرف حسیات کو علم کے حصول کا وسیلہ قرار دیتا ہے، وہ اپنی کتاب "Leviathan" میں یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ''حسیات ہی علم کے ہر اصول کا بنیادی اصول ہے۔ تمام سائنس صرف اس ایک ہی ذریعے سے اخذ کی جاتی ہے۔'' اس طرح جدید برطانوی فلسفے کی تاریخ کے سرسری جائزے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مجموعی طور پر فلسفہ تجربیت علم الوجود سے جنم لینے والے ''اندرونی'' رجحان کو مسترد کرتا ہوا اس علمیات کو اہمیت دیتا ہے جو معروضی اور موضوعی ارتباط سے عبارت ہے۔ خارجی دنیا کی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب ایک بھیانک التباس میں الجھنا ہے۔ ہمارے پُراسراریت پسند اس الجھائو میں جکڑے رہے ہیں۔
اسی طرح اگر برطانیہ سے نکل کر سترھویں اور اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفے کی طرف آئیں تو اس صورتحال کو مزید مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیبائنز حسیات کے ذریعے سے معروضات سے حاصل شدہ علم کو اشیائے حقیقی کی خصوصیات قرار دیتا تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ حسیات سے موصول ہونے والے اشیائے حقیقی کے علم کو قوتِ فہم کے ہیئتی تصورات کے مقابلے میں رکھ کر جانچنے سے حقیقی علم حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کی عقل جو اس کے ''اندر'' کی نمایندہ ہے وہ صرف ان ادراکات سے نبرد آذما ہوتی ہے جو اسے تجربے میں دیے جاتے ہیں۔ عقل خود سے تصورات کی تشکیل نہیں کرتی۔
اس سے بھی 'اندر' کے مقولے کی نفی ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں فتوئوں اور مفروضوں کا انبار لگانے کا رجحان بہت عام ہے۔ جب کہ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ پہلے اس تمام پسِ منظر کا شعور حاصل کر لیا جائے کہ ''اندر'' سے تصورات کی تشکیل متصوفانہ فکر کی خصوصیات تو ہو سکتی ہے، تاہم اسے فلسفے کا غالب رجحان قرار دینا ایک سنگین نوعیت کی غلطی ہے۔