طلبا اور مزدور یونینیں
قوم ان سے مستقبل کی توقعات اور امیدیں وابستہ رکھتی تھی۔
طلبا اور نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مبنی ہے اس لیے ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں طلبا کا بڑا کردار رہا اور قیام پاکستان کے بعد بھی طلبا ہر سطح پر جدوجہد اور قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ ملک میں چلنے والی اہم اور بڑی تحریکوں میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ طلبا اور مزدور یونینز لوگوں میں فکری، ذہنی، سیاسی و جمہوری تربیت کا فریضہ انجام دیتی رہی ہیں۔ ان یونینز نے شہریوں کی فکر کو جلا اور وسعت دے کر ان کی صلاحیتوں کو مثبت سمت مہیا کی۔
پابندیوں سے قبل تعلیمی ادارے نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے مرکز ہوتے تھے تو مزدور یونینز بھی لوگوں میں اپنے حقوق و فرائض کا شعور بیدار کر کے ان کی سیاسی بیداری میں موثر کردار ادا کرتی تھیں۔ مثبت سرگرمیوں کی وجہ سے مقابلہ اور مسابقت کی فضا رہتی تھی جس سے ذہنی، فکری شعور کی نشوونما اور سیاسی تربیت کا عمل جاری رہتا تھا۔ ریڈیو سے مزدوروں کے علاوہ طلبا کے لیے پروگرام اور یونینز کی سرگرمیوں سے تعلق کوریج ہوتی تھی، بزم طلبا جیسے مقبول پروگرام کو طلبا و طالبات کے علاوہ عام اور ان پڑھ افراد بھی سنا کرتے تھے، طالب علموں کو عزت و شفقت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، طلبا باادب و سعادت مند ہوا کرتے تھے اور معلم شفیق اور مخلص ہوتے تھے۔
قوم ان سے مستقبل کی توقعات اور امیدیں وابستہ رکھتی تھی۔ ان یونینز سے نامور، باصلاحیت اور مضبوط کردار کے سیاستدان پیدا ہوئے جنہوں نے ملکی معاملات کو بھرپور فہم و فراست سے چلایا کیونکہ ان کی سیاسی و ذہنی تربیت روایتی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ مزاج اور تسلط کے برعکس ہوئی تھی۔ معراج محمد خان، جاوید ہاشمی، حافظ سلیمان بٹ، حافظ تقی، لیاقت بلوچ، شفیع عقیل، شفیع نقی جامعی، دوست محمد فیضی اور اقبال حیدر جیسے لاتعداد نام ہیں جنہوں نے ملک و قوم کے لیے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں، جن سے نظریاتی اختلاف تو کیے گئے لیکن ان میں سے کسی کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکی اور ان کے قابلیت کے تمام لوگ معترف ہیں۔
طلبا یونینز کی وجہ سے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے اور آگے بڑھنے کے مواقع ملے، ان سے درمیانہ طبقے کی نمایندگی سامنے آئی۔ طلبا اور مزدور یونینز سرگرمیوں کی وجہ سے ان میں ووٹ دینے، ووٹ لینے، سیاسی عمل میں شرکت کرنے اور دلائل اور قانونی طریقے سے مسائل کو حل کرنے کا سلیقہ بیدار ہوا جس کے قومی سطح پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ جمہوریت اور تحریکوں کے ہر اول دستے کی یہ فعالیت و کردار جاگیردارانہ اور آمرانہ نظام خطرہ سمجھتے ہوئے طلبا اور مزدور یونینز کو ختم کرنے کی منظم اور مذمومانہ کوششیں شروع کر دی گئیں۔
ان یونینز میں سیاسی، لسانی و مذہبی عناصر نے غلبہ حاصل کرنا شروع کیا، اپنے عزائم کے حصول کے لیے سیاسی، مذہبی اور لسانی منافرت و تقسیم اور تشدد کو فروغ دے کر طلبا اور مزدور تحریک کو نقصان پہنچانے کی مربوط حکمت عملی کے تحت تعلیمی اداروں میں قتل، اغوا، تشدد، املاک کی تباہی اور اساتذہ سے بدسلوکی کے واقعات رونما کرائے گئے۔ پاکٹ یونینز، سیاسی گروہوں اور زرخرید مزدور لیڈروں سے صنعتی امن اور ادارے برباد کرنے کا کھیل کھیلا گیا جس کی وجہ سے آمریت، مطلق العنانیت اور غلط قسم کے اقدامات کے خلاف سینہ سپر رہنے اور تحریک چلانے والی یونینز کو سیاسی مداخلت، باہمی رسہ کشی اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر خود اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیمی اداروں میں تشدد اور تعلیمی امور میں تعطل کو جواز بناکر 1984ء اس وقت کی فوجی حکومت میں طلبا یونینز پر پابندی عائد کر دی، خلاف ورزی پر 5 سال تک قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی ساتھ ہی صنعتی بدامنی کو جواز بنا کر مزدور یونینز کا ناطقہ بھی بند کر دیا گیا، مزدوروں کے حقوق کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ یہ سلسلہ بعد کی حکومتوں میں بھی جاری رہا، ایک کے بعد ایک خلاف مفاد قانون سازی نے مزدور تحریک کو عملاً تقریباً ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ضیاء آمریت کے خاتمے کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی طلبا اور مزدور یونینز کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جس طرح آمرانہ حکومتیں ان تحریکوں کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتی تھیں اسی طرح نام نہاد جمہوری حکومتوں پر مسلط جاگیردار اور سرمایہ دار بھی ان کے وجود سے خائف تھے۔
کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں میں شعور بیدار ہو، درمیانہ قیادت سامنے آئے اور کوئی منظم مزاحمت کار تحریک ان کے غلط اقدامات اور غلط کاریوں کو فاش کرنے اور تحریک چلانے کے لیے عوام کو مجتمع کرنے کی پوزیشن میں ہو جو ان کی موروثیت کے لیے خطرہ ثابت ہو۔ درمیانے درجے کی قیادت، اہل اور باصلاحیت نوجوانوں کے استحصال کے لیے آمریت، جمہوریت کے دعویدار جاگیردار اور سرمایہ داروں کے مفادات ایک ہیں۔ طلبا اور نوجوانوں کے سامنے کوئی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے وہ سیاسی جماعتوں کا ایندھن بننے ان کی ڈگڈگی پر ناچنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اس لیے یہ ورک فورس کسی اچھے کی امید پر سیاسی شعبدے بازوں کے پیچھے ہو لیتی ہے یہی جاگیرداروں اور استحصالیوں کی کامیابی اور حکمت عملی ہے۔
ماضی میں سندھ اسمبلی نے طلبا یونینز کی بحالی کے لیے بل منظور کیا تھا لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا۔ پنجاب حکومت نے بھی مختصر مدت کے لیے طلبا یونینز کے انتخابات کی اجازت دی تھی۔ گیلانی صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی ان یونینز کی بحالی کا وعدہ کیا تھا مگر عملاً کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس دور میں جامعات کے چانسلرز نے یونینز سے پابندی اٹھانے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس کوئی ایسی فورس نہیں ہے جس سے وہ طلبا پر قابو پا سکیں۔ ان کے یہ خدشات بالکل برحق تھے۔
ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جہاں پولیس اور رینجرز تک ناکام یا بے بس نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے ایم ایس پر ڈاکٹروں کا تشدد اور داؤد انجینئرنگ کالج کے دو پرنسپلز کا یکے بعد دیگرے قتل کے واقعات، یونیورسٹیز اور کالجز میں اساتذہ کو زد و کوب، خوفزدہ اور بلیک میل کرنے کے واقعات عام ہیں، ہاسٹلز منفی سرگرمیوں، غیر متعلقہ، ناپسندیدہ عناصر اور مجرموں کے ٹھکانے بنے ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے سنگین نوعیت کے واقعات بغیر حکومتی اور سیاسی آشیرباد اور جاگیرداروں کی معاونت اور تاکید کے بغیر طلبا اپنے تئیں کسی طور پر نہیں کر سکتے ہیں۔
خراب اور پرتشدد تعلیمی ماحول کی وجہ سے طلبا کالجز کے بجائے ٹیوشن سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں جو ان کے والدین کے لیے معاشی بوجھ بن گیا ہے۔ غریب اور اہل طلبا کے لیے تعلیم و ترقی کی راہیں اور مواقع ختم ہو کر رہ گئے ہیں، ان کی صلاحیتیں پس پشت ڈال کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے ملک پر تسلط قائم کر لیا ہے۔ طلبا اور مزدور یونینز پر تین عشروں سے مسلط پابندی نے معاشرے کو فکری انحطاط کا شکار کر دیا ہے۔ سیاسی نظام کو جو نقصان پہنچا ہے عاقبت نااندیش حکمراں اور سیاستداں اس سے بے نیاز و بے خبر صرف اپنے ذاتی مفادات میں لگے ہوئے ہیں۔ سامراجی طبقے نے مفادات اور خوشنودی کے لیے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کی وجہ سے اہل و دیانتدار قیادت کا فقدان ہے اور اس کی سزا عوام ہی نہیں ملک بھی بھگت رہا ہے۔
پابندیوں سے قبل تعلیمی ادارے نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے مرکز ہوتے تھے تو مزدور یونینز بھی لوگوں میں اپنے حقوق و فرائض کا شعور بیدار کر کے ان کی سیاسی بیداری میں موثر کردار ادا کرتی تھیں۔ مثبت سرگرمیوں کی وجہ سے مقابلہ اور مسابقت کی فضا رہتی تھی جس سے ذہنی، فکری شعور کی نشوونما اور سیاسی تربیت کا عمل جاری رہتا تھا۔ ریڈیو سے مزدوروں کے علاوہ طلبا کے لیے پروگرام اور یونینز کی سرگرمیوں سے تعلق کوریج ہوتی تھی، بزم طلبا جیسے مقبول پروگرام کو طلبا و طالبات کے علاوہ عام اور ان پڑھ افراد بھی سنا کرتے تھے، طالب علموں کو عزت و شفقت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، طلبا باادب و سعادت مند ہوا کرتے تھے اور معلم شفیق اور مخلص ہوتے تھے۔
قوم ان سے مستقبل کی توقعات اور امیدیں وابستہ رکھتی تھی۔ ان یونینز سے نامور، باصلاحیت اور مضبوط کردار کے سیاستدان پیدا ہوئے جنہوں نے ملکی معاملات کو بھرپور فہم و فراست سے چلایا کیونکہ ان کی سیاسی و ذہنی تربیت روایتی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ مزاج اور تسلط کے برعکس ہوئی تھی۔ معراج محمد خان، جاوید ہاشمی، حافظ سلیمان بٹ، حافظ تقی، لیاقت بلوچ، شفیع عقیل، شفیع نقی جامعی، دوست محمد فیضی اور اقبال حیدر جیسے لاتعداد نام ہیں جنہوں نے ملک و قوم کے لیے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں، جن سے نظریاتی اختلاف تو کیے گئے لیکن ان میں سے کسی کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکی اور ان کے قابلیت کے تمام لوگ معترف ہیں۔
طلبا یونینز کی وجہ سے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے اور آگے بڑھنے کے مواقع ملے، ان سے درمیانہ طبقے کی نمایندگی سامنے آئی۔ طلبا اور مزدور یونینز سرگرمیوں کی وجہ سے ان میں ووٹ دینے، ووٹ لینے، سیاسی عمل میں شرکت کرنے اور دلائل اور قانونی طریقے سے مسائل کو حل کرنے کا سلیقہ بیدار ہوا جس کے قومی سطح پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ جمہوریت اور تحریکوں کے ہر اول دستے کی یہ فعالیت و کردار جاگیردارانہ اور آمرانہ نظام خطرہ سمجھتے ہوئے طلبا اور مزدور یونینز کو ختم کرنے کی منظم اور مذمومانہ کوششیں شروع کر دی گئیں۔
ان یونینز میں سیاسی، لسانی و مذہبی عناصر نے غلبہ حاصل کرنا شروع کیا، اپنے عزائم کے حصول کے لیے سیاسی، مذہبی اور لسانی منافرت و تقسیم اور تشدد کو فروغ دے کر طلبا اور مزدور تحریک کو نقصان پہنچانے کی مربوط حکمت عملی کے تحت تعلیمی اداروں میں قتل، اغوا، تشدد، املاک کی تباہی اور اساتذہ سے بدسلوکی کے واقعات رونما کرائے گئے۔ پاکٹ یونینز، سیاسی گروہوں اور زرخرید مزدور لیڈروں سے صنعتی امن اور ادارے برباد کرنے کا کھیل کھیلا گیا جس کی وجہ سے آمریت، مطلق العنانیت اور غلط قسم کے اقدامات کے خلاف سینہ سپر رہنے اور تحریک چلانے والی یونینز کو سیاسی مداخلت، باہمی رسہ کشی اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر خود اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیمی اداروں میں تشدد اور تعلیمی امور میں تعطل کو جواز بناکر 1984ء اس وقت کی فوجی حکومت میں طلبا یونینز پر پابندی عائد کر دی، خلاف ورزی پر 5 سال تک قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی ساتھ ہی صنعتی بدامنی کو جواز بنا کر مزدور یونینز کا ناطقہ بھی بند کر دیا گیا، مزدوروں کے حقوق کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ یہ سلسلہ بعد کی حکومتوں میں بھی جاری رہا، ایک کے بعد ایک خلاف مفاد قانون سازی نے مزدور تحریک کو عملاً تقریباً ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ضیاء آمریت کے خاتمے کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی طلبا اور مزدور یونینز کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جس طرح آمرانہ حکومتیں ان تحریکوں کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتی تھیں اسی طرح نام نہاد جمہوری حکومتوں پر مسلط جاگیردار اور سرمایہ دار بھی ان کے وجود سے خائف تھے۔
کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں میں شعور بیدار ہو، درمیانہ قیادت سامنے آئے اور کوئی منظم مزاحمت کار تحریک ان کے غلط اقدامات اور غلط کاریوں کو فاش کرنے اور تحریک چلانے کے لیے عوام کو مجتمع کرنے کی پوزیشن میں ہو جو ان کی موروثیت کے لیے خطرہ ثابت ہو۔ درمیانے درجے کی قیادت، اہل اور باصلاحیت نوجوانوں کے استحصال کے لیے آمریت، جمہوریت کے دعویدار جاگیردار اور سرمایہ داروں کے مفادات ایک ہیں۔ طلبا اور نوجوانوں کے سامنے کوئی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے وہ سیاسی جماعتوں کا ایندھن بننے ان کی ڈگڈگی پر ناچنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اس لیے یہ ورک فورس کسی اچھے کی امید پر سیاسی شعبدے بازوں کے پیچھے ہو لیتی ہے یہی جاگیرداروں اور استحصالیوں کی کامیابی اور حکمت عملی ہے۔
ماضی میں سندھ اسمبلی نے طلبا یونینز کی بحالی کے لیے بل منظور کیا تھا لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا۔ پنجاب حکومت نے بھی مختصر مدت کے لیے طلبا یونینز کے انتخابات کی اجازت دی تھی۔ گیلانی صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی ان یونینز کی بحالی کا وعدہ کیا تھا مگر عملاً کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس دور میں جامعات کے چانسلرز نے یونینز سے پابندی اٹھانے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس کوئی ایسی فورس نہیں ہے جس سے وہ طلبا پر قابو پا سکیں۔ ان کے یہ خدشات بالکل برحق تھے۔
ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جہاں پولیس اور رینجرز تک ناکام یا بے بس نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے ایم ایس پر ڈاکٹروں کا تشدد اور داؤد انجینئرنگ کالج کے دو پرنسپلز کا یکے بعد دیگرے قتل کے واقعات، یونیورسٹیز اور کالجز میں اساتذہ کو زد و کوب، خوفزدہ اور بلیک میل کرنے کے واقعات عام ہیں، ہاسٹلز منفی سرگرمیوں، غیر متعلقہ، ناپسندیدہ عناصر اور مجرموں کے ٹھکانے بنے ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے سنگین نوعیت کے واقعات بغیر حکومتی اور سیاسی آشیرباد اور جاگیرداروں کی معاونت اور تاکید کے بغیر طلبا اپنے تئیں کسی طور پر نہیں کر سکتے ہیں۔
خراب اور پرتشدد تعلیمی ماحول کی وجہ سے طلبا کالجز کے بجائے ٹیوشن سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں جو ان کے والدین کے لیے معاشی بوجھ بن گیا ہے۔ غریب اور اہل طلبا کے لیے تعلیم و ترقی کی راہیں اور مواقع ختم ہو کر رہ گئے ہیں، ان کی صلاحیتیں پس پشت ڈال کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے ملک پر تسلط قائم کر لیا ہے۔ طلبا اور مزدور یونینز پر تین عشروں سے مسلط پابندی نے معاشرے کو فکری انحطاط کا شکار کر دیا ہے۔ سیاسی نظام کو جو نقصان پہنچا ہے عاقبت نااندیش حکمراں اور سیاستداں اس سے بے نیاز و بے خبر صرف اپنے ذاتی مفادات میں لگے ہوئے ہیں۔ سامراجی طبقے نے مفادات اور خوشنودی کے لیے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کی وجہ سے اہل و دیانتدار قیادت کا فقدان ہے اور اس کی سزا عوام ہی نہیں ملک بھی بھگت رہا ہے۔