ہم سمجھیں ہیں اُسے جس بھیس میں آئے
کیا ایک عام پاکستانی حکمرانوں کی ان عیاشیوں کو معاف کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور مالی سال 2018-19ء کا بجٹ پیش کرنے کا کسی اور کو فوری فائدہ ہُوایا نہیں، یہ تو ابھی سب پردئہ غیب میں ہے لیکن جس شخص کو زیادہ اور فوری فائدہ پہنچا ہے، اُس عظیم و خوش نصیب ہستی کانام مفتاح اسماعیل ہے۔
مانا کہ مفتاح اسماعیل صاحب ایک بڑے صنعتکار ہیں لیکن کیا اُنہوں نے کبھی پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا وزیر خزانہ بننے کا خواب بھی دیکھا ہوگا؟ مفتاح جی کی تو مفت میں لاٹری نکل آئی ہے۔ یہ لاٹری صرف موجودہ حکومت ہی میں نکل سکتی ہے، جہاں میرٹ اور اصول نام کی کسی شئے کا وجود شائد ہی کہیں پایا جاتا ہو۔ اگر میرٹ اور اصول کا ترازو نواز شریف نے بھی شائستگی اور متانت سے تھاما ہوتا تو شائدوہ آج بھی نسبتاً بہتر حالت میں ہوتے۔ میرٹ کا قتل ان کے دور میں جتنا ہوا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
نتائج جو برآمد ہُوئے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ سو، ہم دیکھتے ہیں کہ میرٹ کی جو دھجیاں نواز شریف نے بکھیریں، اب موقع ملنے پر اُسی راستے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی گامزن ہیں۔ یعنی یک نہ شد، دو شد۔ایک غیر منتخب شخص کو وزیر خزانہ متعین کرنا اور اُس سے ملک کا بجٹ بھی پیش کروا دینا، یہ کام کوئی ایسا وزیر اعظم ہی کر سکتا ہے جس نے اپنے قائدکو ایسے کام انجام دیتے ہُوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا وہ شخص جسے اس بات کی قطعی کوئی پروا نہ ہو کہ کوئی اُسے میرٹ اور ضوابط کی پامالی پر پوچھ بھی سکتا ہے۔
نواز شریف واویلا کررہے ہیں کہ ''ووٹ کو عزت نہیں دی جارہی''۔ لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان نے ایک ایسے شخص کو وزیر خزانہ بنا کر کیا ووٹ کی بے حرمتی نہیں کی جس نے کبھی زندگی میں ایک بار بھی کسی سے ووٹ نہیں مانگا اور نہ ہی کبھی انتخابات کے میدان میں اُترا ہے۔
ایسے میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا درست اور بالکل بجا ہے کہ ''ایک غیر منتخب شخص سے بجٹ پیش کرواکر پارلیمنٹ کی توہین بھی کی گئی ہے اور یوں نون لیگ نے خود اپنے ہاتھوں سے ووٹ کی عزت اور حرمت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔'' انہونیاں ہو رہی ہیں۔ اور یہ انہونیاں نون لیگ کی حکومت، اُس کے وزیر اعظم اور اُس کی کابینہ سے سر زد ہورہی ہیں۔
یوں لگتا ہے ملک اور قوم کو تماشہ بنا دیا گیا ہے۔ غیر سنجیدگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اب جب کہ اِس حکومت کے خاتمے میں صرف ایک مہینہ رہ گیا تھا، کئی وزرائے مملکت کو ہنگامی طور پر وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔ ملک نہ ہُوا بلکہ بازیچہ اطفال ہو گیا۔ غیر پھر ہمارا ٹھٹھہ کیوں نہ اُڑائیں؟دنیا انگشت بدنداں ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور نون لیگ کی حکومت ایک ماہ کی رہ گئی تھی لیکن اُنہوں نے کسی بھی سُودو زیاں کی پروا کیے بغیر پورے سال کا بجٹ پیش کر دیا۔
نون لیگ کی پانچ سال کی حکومت تھی لیکن اس نے چھ قومی بجٹ پیش کردیے۔ بس یہی ''اعزاز'' اور ''تاریخ ساز'' کارنامہ انجام دینے کے لیے 30دن کی حکومت نے365دن کا میزانیہ پیش کر دیا؟ دنیا میں شائد ہی کہیں یہ کارنامہ کسی منتخب حکومت نے انجام دیا ہو۔ حکومت منتخب لیکن بجٹ پیش کرنیوالا غیر منتخب۔ گویا پاکستان بھر کے ووٹروں کو ٹھینگا دکھا دیا گیا۔ پاکستانی عوام کا منہ چڑایا گیا ہے۔
میزانئے کی پیشکاری کے دوران پی ٹی آئی کے بعض ارکان جیسا کہ مراد سعید نے ایوان میں جو فِیل مچایا، وہ اپنی جگہ قابلِ اعتراض عمل تھا لیکن نون لیگ کے بعض ارکان جیسا کہ عابد شیر علی نے جس ناشائستگی اور غیر پارلیمانی حرکات کا ارتکاب کیا، وہ بھی ہمیشہ یاد رہیں گی۔ نون لیگیوں نے جاتے جاتے ایک''منفرد مثال'' قائم کر دی ہے۔ جب وزیر خزانہ ''ایسا'' تھا تو اُس کے سنگی ساتھی بھی''ایسے'' ہی ہونے چاہییں تھے۔
اِس پیش منظر میں ہمیں پنجابی کی ایک ضرب المثل یاد آرہی ہے: ''جیسے ذبح کرنے والے، ویسے ہی کھانے والے۔''اللہ کے واسطے، اس شاندار ملک، مملکتِ خداداد کو تماشہ مت بنائیے۔ اِس نقار خانے میں مگر طُوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے؟نقار خانے کے اِس نہ سمجھ آنیوالے شور میں وطنِ عزیز کا تازہ اور سالانہ بجٹ پیش کر دیا گیا۔ 19کھرب روپے کے خسارے کا حامل59کھرب کا بجٹ۔ جیسی یہ حکومت رہ گئی ہے، ویسا ہی اِس نے بجٹ پیش کر دیا ہے۔
ویسے بھی سالانہ میزانئے کے اعدادو شمار اتنے گنجلک اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ عام آدمی اسے گورکھ دھندہ قرار دے کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ کسی ستم ظریف کا خوب کہنا ہے کہ ایک ہوتی ہے دھوکہ دہی اور ایک ہوتا ہے بجٹ، لیکن معنی دونوں کے ایک ہی ہیں۔بجٹ کی شکل میں ہمارے حکمران اور مفتاح اسماعیل ایسے وزیر خزانہ بیچارے معصوم عوام کو دائیں دکھا کر بائیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم ایسے بجٹ اور ایسے وزیر خزانہ کے پیش کردہ میزانئے پر کیسے یقین کر لیں؟ اور یقین کریں بھی کیوں؟ابھی تو صوبوں کے ضمنی بجٹ آنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ چکّی کے کئی پاٹ ہیں جس میں عوام کو پیسا اور رگیدا جانا ہے۔ سابق سمدھی وزیر خزانہ کے بارے میں اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ وہ جعلی اعدادوشمار کا دھندہ کرتے رہے ہیں۔ عوام کو تو وہ دھوکہ دینے میں کامیاب رہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں نے اُنکی جعلسازی اور چوری رنگے ہاتھوں پکڑ لی۔
اُنہیں مگر کچھ نہیں ہُوا؛ البتہ پاکستان کو اربوں روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا جو پاکستانی عوام کی ہڈیوں ہی سے پُراسرار ٹیکسوں کی شکل میں نکالا گیا۔ ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ اب مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی نے مل کر بجٹ کی شکل میں جو نئے گُل کھلائے ہیں، اِن کا راز ابھی نہیں کچھ عرصے بعد مزید افشا ہو گا۔ لیکن تب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا اور دُکھوں کے مارے غریب پاکستانی عوام کے لاتعداد آنسو مٹّی میں جذب ہو چکے ہونگے۔
ماہرینِ معیشت نے تو اس بجٹ کو نگران حکومت کے گلے کا پھندا قرار دیدیاہے۔اگلا پورا سال کیسے اور کیونکر گزرے گا، یہ تو ابھی سے ہولناک محسوس ہونے لگا ہے۔ملک پر90ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور ملکی خزانے میں صرف گیارہ ارب ڈالر رہ گئے ہیں اور وہ بھی تیزی سے گراوٹ کی نذر ہو رہے ہیں۔ کئی دشمن ہمارے سر پر کھڑے ہیں اور لُٹیروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔
شور اور کہانیاں تو بہت سنائی دے رہی ہیں لیکن نتیجہ؟حکمران مگر اپنے اللوں تللوں سے باز نہیں آرہے۔ بجٹ کو ہم نے ایک نظر دیکھا ہے تو ہمارے ہوش اُڑ گئے ہیں۔ ایک مثال ہی کافی ہے: مفتاح اسماعیل صاحب کے پیش کردہ تازہ بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران وزیر اعظم ہاؤس پر روزانہ27 لاکھ روپے خرچ ہُوا کرینگے۔
کیا یہ اسراف اور فضول خرچی نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کے مکین سونے کے نوالے حلق سے اتارتے ہیں؟جو ملک90ارب ڈالر کا مقروض ہو، کیا اُس ملک کے وزیر اعظم ہاؤس کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہاں روزانہ 27لاکھ روپے اُڑا دیے جائیں؟یعنی سالانہ 97کروڑ روپے سے زائد؟اِسے ہی اسراف کہا جاتا ہے اور اللہ کی آخری کتاب میں مسرفین کے لیے سخت سزائیں بتائی گئی ہیں۔
وزیر اعظم آفس پر جو اخراجات ہیں، وہ الگ ہیں۔بجٹ میں پی ایم آفس کے لیے 98کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔کیا ان حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کا بھی کوئی ڈر، کوئی خوف رہ گیا ہے یا نہیں؟ لگتا ہے یہ حکمران اقتدار کے نشے میں ہرقسم کے ڈر اور خوف سے آزاد ہو چکے ہیں۔ بجٹ دستاویزات انکشاف کرتی ہیں کہ نون لیگ کے اِن حکمرانوں نے پچھلے پانچ برسوں کے دوران اپنے بیرونِ ملک سیر سپاٹوں کے دوران صرف کرائے کی گاڑیوں پر دو ارب روپے، جی ہاں دو ارب روپے پھونک ڈالے۔
کیا ایک عام پاکستانی حکمرانوں کی ان عیاشیوں کو معاف کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اتنی رقم سے تو ایک اچھی بھلی نئی یونیورسٹی بنائی جا سکتی تھی۔ ایک نیا اسپتال تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ اور اب تازہ بجٹ میں ایک اور عذابناک خبر سنا دی گئی ہے کہ عوام پر 17کھرب روپے کے ٹیکس لگائے جائینگے۔
یہ ہیں ہمارے حکمران جو دن رات مالاجپتے رہتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا یہ ہے عوام کی خدمت؟ یہ عوام کی خدمت نہیں، عوام کا ستم ظریفانہ قتل ہے لیکن ذرا لباس بدلا گیا ہے۔ عوامی خدمت کے بھیس میں عوام کا قتل،عوام مگر ان کے چہرے خوب پہچانتے ہیں:
جلّاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھیں ہیں اُسے جس بھیس میں آئے
ابھی تو بجٹ کی لرزا دینے والی باز گشت تھمی بھی نہیں ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے عوام کے لیے یہ ''سناؤنی'' بھی آ گئی ہے کہ وفاقی حکومت 162ارب روپے کے قرضے فوری طور پر لینے جارہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بد خبری آگئی ہے کہ حکومت نے چین کے ایک معروف سرکاری بینک سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ وصول بھی کر لیا ہے۔ عوام کو ہمارے حکمران لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ بھاری شرحِ سُود پر لیے جانے والے یہ تازہ قرضے آخر کس مَد میں لیے جارہے ہیں؟
اِن کا مصرف کہاں ہو گا؟لیکن ڈھٹائی کی حد یہ بھی ہے کہ بجٹ پیش کرنیوالی ''ممتاز ترین اقتصادی ہستیاں'' ہمیں یہ بھی بتا رہی ہیں کہ پچھلے پانچ برسوں میں نون لیگی حکومت کے دوران اوسطاًپاکستان نے معاشی ترقی کے کئی مدارج طے کیے ہیں۔وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیواور وفاقی وزیر سینیٹر ہارون اخترنے بھی گُل افشانی کرتے ہُوئے کہا ہے کہ''مہنگائی میں کمی آئی ہے'' اور یہ کہ''گروتھ ریٹ یعنی شرحِ نموبڑھ کر5.78فیصد تک پہنچ گئی ہے۔''
کیایہ باتیں عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف نہیں ہیں؟ بڑھتی بھوک، آلودہ پانی،صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، بیروزگاری کے طوفان، لوڈ شیڈنگ کے عذاب، کمر شکن مہنگائی اور کرپشن کی لاتعداد داستانوں میں گھرے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام بجا طور پر استفسار کرتے ہیں کہ اگر ''پاکستان نے اوسطاً ترقی کے کئی مدارج '' طے کیے ہیں تو اس نام نہاد ترقی کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ پائے؟
کیا یہ ترقی محض مراعات یافتہ اورامرا طبقات تک محدود رکھی گئی ہے؟تاکہ اس ملک کے غریب غربا اس ترقی سے نہ مستفید ہو سکیں اور نہ ہی اس کے ثمرات سمیٹ سکیں؟ کیا یہ ترقی ڈبیا میں بند کوئی ایسی شئے ہے جسے دانستہ عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے؟ تاکہ غریبوں کی اِسے نظر نہ لگ جائے؟ کیا شرحِ نمو میں اضافہ صرف دکھاوے کے لیے ہے؟ عوام ان سے مستفید کیوں نہیں ہو رہے؟
مہنگائی میں اگر کمی آئی ہے تو پھر عوام مہنگائی میں اضافے کے ہاتھوں بلبلا کیوں رہے ہیں؟ مہنگائی میں کمی کا احساس اُن طبقات تک کیوں نہیں پہنچ پارہا جو مراعات یافتہ نہیں ہیں؟ کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اِسی لیے تو قومی اسمبلی کے فلور پر بجٹ کے خلاف سخت واویلا کیا ہے اور دھمکی بھی دی ہے کہ اِسے منظور نہیں کیا جائے گا۔
اِدھر بجٹ کے نام سے عوام کی جان نکال گئی ہے اور اُدھر تین دن بعد ہی پٹرول کی مصنوعات میں پھر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرول اب 88روپے میں مل رہا ہے۔ دیہات میں اس کی قیمت 90روپے وصول کی جارہی ہے اور کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ ''شاباش'' دینی چاہیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو۔ موصوف جب سے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے گئے ہیں، اُنہوں نے کرموں کے مارے پاکستانی عوام کی کمر توڑنے میں کوئی کسر باقی رہنے نہیں دی ہے۔
اِلّا، ماشاء اللہ!! پاکستان کی ایک نجی ائر لائن کے مالک یہ صاحب پچھلے دس ماہ سے پاکستان کے مجبور عوام کی گردن پر سوار ہیں اور دس مرتبہ ہی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر چکے ہیں۔ مجال ہے عوام کو انھوں نے سُکھ کا کوئی سانس لینے دیا ہو۔جب سے یہ صاحب وزیر اعظم بنائے گئے ہیں، اب تک پٹرول کی قیمتوں میں 38فیصد اضافہ فرما چکے ہیں۔ موصوف نے ساتھ ہی اسلام آباد کے نئے ائر پورٹ کی ''نقاب کشائی'' کرتے ہُوئے بَڑ ماری ہے کہ ''اگلی حکومت بھی نون لیگ کی ہو گی۔''
یعنی: ہُوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوںہو؟وزیر اعظم ہو کر ''کسی'' کو وزیر اعظم ماننے والے اِن صاحب کا خیال ہے کہ پاکستان کے عوام عقل و خرد سے اتنے عاری اور پیدل ہیں کہ جنھوں نے اُن کا گھر لُوٹا اور جنھوں نے متنوع مظالم سے اُن کے کندھے توڑ ڈالے، اُنہیں ہی چوتھی بار اپنے کندھوں پر بٹھا لیں گے؟کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان اِنہیں بیع میں ملا ہے؟
پی ٹی آئی کے عمران خان بھی تو جدو جہد کرتے اورکامیاب جلسے کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ حکومت کرنے کے اہل اور حقدار کیوں نہیں؟ سچ یہ ہے کہ لاہور میں اُن کے جلسے نے کامیابی اور حیرتوں کی ایک نئی داستان رقم کی ہے۔ لیکن نون لیگئے اور شین لیگئے یہی شور مچا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کا یہ جلسہ ''پہلے'' کی نسبت بڑا تھا نہ انتہائی کامیاب۔ فرسٹریشن میں وہ مینارِ پاکستان گراؤنڈ کے ''نہ بھرنے'' کا ذکر بھی کررہے ہیں۔ لیکن یہ دل جلے اپنے چاہنے والوں کو یہ نہیں بتا رہے کہ مینارِ پاکستان گراؤنڈ ''پہلے'' کی نسبت بہت فراخ اور وسیع بھی تو کی جا چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا یہ جلسہ ہر رُخ سے کامیاب و کامران تھا۔ اس میں لاتعداد لوگ شریک ہُوئے۔ شرکت کرنیوالوں کا جوش و خروش بھی حیران کُن تھا۔ جذبے بھی بیکراں اور بے کنار تھے۔ عمران کے پیش کردہ گیارہ نکات نے بھی سیاسی ہلچل پیدا کی ہے۔ بھٹو کے ''روٹی ،کپڑا اور مکان'' کے نعرے کے بعد عوام کے مفادات میں ایک نیا دلکش نعرہ معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔
کامیاب جلسے کی اور پہچان کیا ہُوا کرتی ہے؟نون لیگیوں کو اِس جلسے سے جو جلن محسوس ہو رہی ہے، وہ قابلِ فہم ہے۔ شائد درد اور حسد سے مغلوب ہو کر ہی رانا ثناء اللہ،عابد شیر علی اور طلال چوہدری نے پی ٹی آئی خواتین کے لیے ہذیان بک دیا ہے۔ اُنہوں نے جو الفاظ ادا کیے ہیں، اتنے معیوب اور غیر اخلاقی ہیں کہ انہیں دہرانا دراصل اِن تینوں دریدہ دہنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔
سارا ملک اُن کی بد تہذیبی اور بیہودگی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ نون لیگ کے نئے صدر صاحب نے گزشتہ روز اِس بارے معذرت تو کی ہے لیکن ہم سب حیران ہیں کہ ابھی تک نہ نواز شریف نے ان تینوں نون لیگیوں کے گندے الفاظ کی مذمت کی ہے اور نہ ہی مریم نواز شریف نے۔ مریم نواز شریف تو خود ایک خاتون ہیں۔
کم از کم اُنہیں خواتین کی مشترکہ حُرمت کا خیال کرتے ہُوئے رانا ثناء و دیگران کی ذاتی حیثیت میں مذمت اور درگت بنانی چاہیے تھی لیکن مریم نواز شریف حیران کُن حدتک نہ صرف خاموش ہیں بلکہ پاکستان بھر کی محترم خواتین کا منہ چڑانے کے لیے اُنہوں نے ایک جلسے میں رانا ثناء اللہ کو خصوصی طور پر اور جان بوجھ کر سٹیج پر نمایاں جگہ پر بٹھایا۔ تو کیا پھر یہ یقین کر لیا جائے، سمجھ لیا جائے کہ رانا ثناء اللہ، عابد شیر علی اور طلال چوہدری نے پی ٹی آئی خواتین کے لیے جو غیر اخلاقی الفاظ ادا کیے ہیں، وہ نون لیگ کی مرکزی پالیسی ہے؟
ہم میاں شہباز شریف سے عرض کریں گے کہ وہ ان کی جماعت کا بیڑہ غرق کرنیوالوں کو لگام دیں اگر ان کی جماعت کو انتخابات میں غیر معمولی نقصان ہوا تو یہی مہا کلاکار اس کے ذمے دار ہونگے جنھوں نے ''شرافت''کی علامت مسلم لیگ ن کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے نئی گالیاں اور اصول ایجاد کیے ہیں۔
مانا کہ مفتاح اسماعیل صاحب ایک بڑے صنعتکار ہیں لیکن کیا اُنہوں نے کبھی پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا وزیر خزانہ بننے کا خواب بھی دیکھا ہوگا؟ مفتاح جی کی تو مفت میں لاٹری نکل آئی ہے۔ یہ لاٹری صرف موجودہ حکومت ہی میں نکل سکتی ہے، جہاں میرٹ اور اصول نام کی کسی شئے کا وجود شائد ہی کہیں پایا جاتا ہو۔ اگر میرٹ اور اصول کا ترازو نواز شریف نے بھی شائستگی اور متانت سے تھاما ہوتا تو شائدوہ آج بھی نسبتاً بہتر حالت میں ہوتے۔ میرٹ کا قتل ان کے دور میں جتنا ہوا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
نتائج جو برآمد ہُوئے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ سو، ہم دیکھتے ہیں کہ میرٹ کی جو دھجیاں نواز شریف نے بکھیریں، اب موقع ملنے پر اُسی راستے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی گامزن ہیں۔ یعنی یک نہ شد، دو شد۔ایک غیر منتخب شخص کو وزیر خزانہ متعین کرنا اور اُس سے ملک کا بجٹ بھی پیش کروا دینا، یہ کام کوئی ایسا وزیر اعظم ہی کر سکتا ہے جس نے اپنے قائدکو ایسے کام انجام دیتے ہُوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا وہ شخص جسے اس بات کی قطعی کوئی پروا نہ ہو کہ کوئی اُسے میرٹ اور ضوابط کی پامالی پر پوچھ بھی سکتا ہے۔
نواز شریف واویلا کررہے ہیں کہ ''ووٹ کو عزت نہیں دی جارہی''۔ لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان نے ایک ایسے شخص کو وزیر خزانہ بنا کر کیا ووٹ کی بے حرمتی نہیں کی جس نے کبھی زندگی میں ایک بار بھی کسی سے ووٹ نہیں مانگا اور نہ ہی کبھی انتخابات کے میدان میں اُترا ہے۔
ایسے میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا درست اور بالکل بجا ہے کہ ''ایک غیر منتخب شخص سے بجٹ پیش کرواکر پارلیمنٹ کی توہین بھی کی گئی ہے اور یوں نون لیگ نے خود اپنے ہاتھوں سے ووٹ کی عزت اور حرمت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔'' انہونیاں ہو رہی ہیں۔ اور یہ انہونیاں نون لیگ کی حکومت، اُس کے وزیر اعظم اور اُس کی کابینہ سے سر زد ہورہی ہیں۔
یوں لگتا ہے ملک اور قوم کو تماشہ بنا دیا گیا ہے۔ غیر سنجیدگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اب جب کہ اِس حکومت کے خاتمے میں صرف ایک مہینہ رہ گیا تھا، کئی وزرائے مملکت کو ہنگامی طور پر وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔ ملک نہ ہُوا بلکہ بازیچہ اطفال ہو گیا۔ غیر پھر ہمارا ٹھٹھہ کیوں نہ اُڑائیں؟دنیا انگشت بدنداں ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور نون لیگ کی حکومت ایک ماہ کی رہ گئی تھی لیکن اُنہوں نے کسی بھی سُودو زیاں کی پروا کیے بغیر پورے سال کا بجٹ پیش کر دیا۔
نون لیگ کی پانچ سال کی حکومت تھی لیکن اس نے چھ قومی بجٹ پیش کردیے۔ بس یہی ''اعزاز'' اور ''تاریخ ساز'' کارنامہ انجام دینے کے لیے 30دن کی حکومت نے365دن کا میزانیہ پیش کر دیا؟ دنیا میں شائد ہی کہیں یہ کارنامہ کسی منتخب حکومت نے انجام دیا ہو۔ حکومت منتخب لیکن بجٹ پیش کرنیوالا غیر منتخب۔ گویا پاکستان بھر کے ووٹروں کو ٹھینگا دکھا دیا گیا۔ پاکستانی عوام کا منہ چڑایا گیا ہے۔
میزانئے کی پیشکاری کے دوران پی ٹی آئی کے بعض ارکان جیسا کہ مراد سعید نے ایوان میں جو فِیل مچایا، وہ اپنی جگہ قابلِ اعتراض عمل تھا لیکن نون لیگ کے بعض ارکان جیسا کہ عابد شیر علی نے جس ناشائستگی اور غیر پارلیمانی حرکات کا ارتکاب کیا، وہ بھی ہمیشہ یاد رہیں گی۔ نون لیگیوں نے جاتے جاتے ایک''منفرد مثال'' قائم کر دی ہے۔ جب وزیر خزانہ ''ایسا'' تھا تو اُس کے سنگی ساتھی بھی''ایسے'' ہی ہونے چاہییں تھے۔
اِس پیش منظر میں ہمیں پنجابی کی ایک ضرب المثل یاد آرہی ہے: ''جیسے ذبح کرنے والے، ویسے ہی کھانے والے۔''اللہ کے واسطے، اس شاندار ملک، مملکتِ خداداد کو تماشہ مت بنائیے۔ اِس نقار خانے میں مگر طُوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے؟نقار خانے کے اِس نہ سمجھ آنیوالے شور میں وطنِ عزیز کا تازہ اور سالانہ بجٹ پیش کر دیا گیا۔ 19کھرب روپے کے خسارے کا حامل59کھرب کا بجٹ۔ جیسی یہ حکومت رہ گئی ہے، ویسا ہی اِس نے بجٹ پیش کر دیا ہے۔
ویسے بھی سالانہ میزانئے کے اعدادو شمار اتنے گنجلک اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ عام آدمی اسے گورکھ دھندہ قرار دے کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ کسی ستم ظریف کا خوب کہنا ہے کہ ایک ہوتی ہے دھوکہ دہی اور ایک ہوتا ہے بجٹ، لیکن معنی دونوں کے ایک ہی ہیں۔بجٹ کی شکل میں ہمارے حکمران اور مفتاح اسماعیل ایسے وزیر خزانہ بیچارے معصوم عوام کو دائیں دکھا کر بائیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم ایسے بجٹ اور ایسے وزیر خزانہ کے پیش کردہ میزانئے پر کیسے یقین کر لیں؟ اور یقین کریں بھی کیوں؟ابھی تو صوبوں کے ضمنی بجٹ آنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ چکّی کے کئی پاٹ ہیں جس میں عوام کو پیسا اور رگیدا جانا ہے۔ سابق سمدھی وزیر خزانہ کے بارے میں اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ وہ جعلی اعدادوشمار کا دھندہ کرتے رہے ہیں۔ عوام کو تو وہ دھوکہ دینے میں کامیاب رہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں نے اُنکی جعلسازی اور چوری رنگے ہاتھوں پکڑ لی۔
اُنہیں مگر کچھ نہیں ہُوا؛ البتہ پاکستان کو اربوں روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا جو پاکستانی عوام کی ہڈیوں ہی سے پُراسرار ٹیکسوں کی شکل میں نکالا گیا۔ ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ اب مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی نے مل کر بجٹ کی شکل میں جو نئے گُل کھلائے ہیں، اِن کا راز ابھی نہیں کچھ عرصے بعد مزید افشا ہو گا۔ لیکن تب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا اور دُکھوں کے مارے غریب پاکستانی عوام کے لاتعداد آنسو مٹّی میں جذب ہو چکے ہونگے۔
ماہرینِ معیشت نے تو اس بجٹ کو نگران حکومت کے گلے کا پھندا قرار دیدیاہے۔اگلا پورا سال کیسے اور کیونکر گزرے گا، یہ تو ابھی سے ہولناک محسوس ہونے لگا ہے۔ملک پر90ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور ملکی خزانے میں صرف گیارہ ارب ڈالر رہ گئے ہیں اور وہ بھی تیزی سے گراوٹ کی نذر ہو رہے ہیں۔ کئی دشمن ہمارے سر پر کھڑے ہیں اور لُٹیروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔
شور اور کہانیاں تو بہت سنائی دے رہی ہیں لیکن نتیجہ؟حکمران مگر اپنے اللوں تللوں سے باز نہیں آرہے۔ بجٹ کو ہم نے ایک نظر دیکھا ہے تو ہمارے ہوش اُڑ گئے ہیں۔ ایک مثال ہی کافی ہے: مفتاح اسماعیل صاحب کے پیش کردہ تازہ بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران وزیر اعظم ہاؤس پر روزانہ27 لاکھ روپے خرچ ہُوا کرینگے۔
کیا یہ اسراف اور فضول خرچی نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کے مکین سونے کے نوالے حلق سے اتارتے ہیں؟جو ملک90ارب ڈالر کا مقروض ہو، کیا اُس ملک کے وزیر اعظم ہاؤس کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہاں روزانہ 27لاکھ روپے اُڑا دیے جائیں؟یعنی سالانہ 97کروڑ روپے سے زائد؟اِسے ہی اسراف کہا جاتا ہے اور اللہ کی آخری کتاب میں مسرفین کے لیے سخت سزائیں بتائی گئی ہیں۔
وزیر اعظم آفس پر جو اخراجات ہیں، وہ الگ ہیں۔بجٹ میں پی ایم آفس کے لیے 98کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔کیا ان حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کا بھی کوئی ڈر، کوئی خوف رہ گیا ہے یا نہیں؟ لگتا ہے یہ حکمران اقتدار کے نشے میں ہرقسم کے ڈر اور خوف سے آزاد ہو چکے ہیں۔ بجٹ دستاویزات انکشاف کرتی ہیں کہ نون لیگ کے اِن حکمرانوں نے پچھلے پانچ برسوں کے دوران اپنے بیرونِ ملک سیر سپاٹوں کے دوران صرف کرائے کی گاڑیوں پر دو ارب روپے، جی ہاں دو ارب روپے پھونک ڈالے۔
کیا ایک عام پاکستانی حکمرانوں کی ان عیاشیوں کو معاف کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اتنی رقم سے تو ایک اچھی بھلی نئی یونیورسٹی بنائی جا سکتی تھی۔ ایک نیا اسپتال تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ اور اب تازہ بجٹ میں ایک اور عذابناک خبر سنا دی گئی ہے کہ عوام پر 17کھرب روپے کے ٹیکس لگائے جائینگے۔
یہ ہیں ہمارے حکمران جو دن رات مالاجپتے رہتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا یہ ہے عوام کی خدمت؟ یہ عوام کی خدمت نہیں، عوام کا ستم ظریفانہ قتل ہے لیکن ذرا لباس بدلا گیا ہے۔ عوامی خدمت کے بھیس میں عوام کا قتل،عوام مگر ان کے چہرے خوب پہچانتے ہیں:
جلّاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھیں ہیں اُسے جس بھیس میں آئے
ابھی تو بجٹ کی لرزا دینے والی باز گشت تھمی بھی نہیں ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے عوام کے لیے یہ ''سناؤنی'' بھی آ گئی ہے کہ وفاقی حکومت 162ارب روپے کے قرضے فوری طور پر لینے جارہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بد خبری آگئی ہے کہ حکومت نے چین کے ایک معروف سرکاری بینک سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ وصول بھی کر لیا ہے۔ عوام کو ہمارے حکمران لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ بھاری شرحِ سُود پر لیے جانے والے یہ تازہ قرضے آخر کس مَد میں لیے جارہے ہیں؟
اِن کا مصرف کہاں ہو گا؟لیکن ڈھٹائی کی حد یہ بھی ہے کہ بجٹ پیش کرنیوالی ''ممتاز ترین اقتصادی ہستیاں'' ہمیں یہ بھی بتا رہی ہیں کہ پچھلے پانچ برسوں میں نون لیگی حکومت کے دوران اوسطاًپاکستان نے معاشی ترقی کے کئی مدارج طے کیے ہیں۔وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیواور وفاقی وزیر سینیٹر ہارون اخترنے بھی گُل افشانی کرتے ہُوئے کہا ہے کہ''مہنگائی میں کمی آئی ہے'' اور یہ کہ''گروتھ ریٹ یعنی شرحِ نموبڑھ کر5.78فیصد تک پہنچ گئی ہے۔''
کیایہ باتیں عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف نہیں ہیں؟ بڑھتی بھوک، آلودہ پانی،صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، بیروزگاری کے طوفان، لوڈ شیڈنگ کے عذاب، کمر شکن مہنگائی اور کرپشن کی لاتعداد داستانوں میں گھرے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام بجا طور پر استفسار کرتے ہیں کہ اگر ''پاکستان نے اوسطاً ترقی کے کئی مدارج '' طے کیے ہیں تو اس نام نہاد ترقی کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ پائے؟
کیا یہ ترقی محض مراعات یافتہ اورامرا طبقات تک محدود رکھی گئی ہے؟تاکہ اس ملک کے غریب غربا اس ترقی سے نہ مستفید ہو سکیں اور نہ ہی اس کے ثمرات سمیٹ سکیں؟ کیا یہ ترقی ڈبیا میں بند کوئی ایسی شئے ہے جسے دانستہ عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے؟ تاکہ غریبوں کی اِسے نظر نہ لگ جائے؟ کیا شرحِ نمو میں اضافہ صرف دکھاوے کے لیے ہے؟ عوام ان سے مستفید کیوں نہیں ہو رہے؟
مہنگائی میں اگر کمی آئی ہے تو پھر عوام مہنگائی میں اضافے کے ہاتھوں بلبلا کیوں رہے ہیں؟ مہنگائی میں کمی کا احساس اُن طبقات تک کیوں نہیں پہنچ پارہا جو مراعات یافتہ نہیں ہیں؟ کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اِسی لیے تو قومی اسمبلی کے فلور پر بجٹ کے خلاف سخت واویلا کیا ہے اور دھمکی بھی دی ہے کہ اِسے منظور نہیں کیا جائے گا۔
اِدھر بجٹ کے نام سے عوام کی جان نکال گئی ہے اور اُدھر تین دن بعد ہی پٹرول کی مصنوعات میں پھر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرول اب 88روپے میں مل رہا ہے۔ دیہات میں اس کی قیمت 90روپے وصول کی جارہی ہے اور کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ ''شاباش'' دینی چاہیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو۔ موصوف جب سے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے گئے ہیں، اُنہوں نے کرموں کے مارے پاکستانی عوام کی کمر توڑنے میں کوئی کسر باقی رہنے نہیں دی ہے۔
اِلّا، ماشاء اللہ!! پاکستان کی ایک نجی ائر لائن کے مالک یہ صاحب پچھلے دس ماہ سے پاکستان کے مجبور عوام کی گردن پر سوار ہیں اور دس مرتبہ ہی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر چکے ہیں۔ مجال ہے عوام کو انھوں نے سُکھ کا کوئی سانس لینے دیا ہو۔جب سے یہ صاحب وزیر اعظم بنائے گئے ہیں، اب تک پٹرول کی قیمتوں میں 38فیصد اضافہ فرما چکے ہیں۔ موصوف نے ساتھ ہی اسلام آباد کے نئے ائر پورٹ کی ''نقاب کشائی'' کرتے ہُوئے بَڑ ماری ہے کہ ''اگلی حکومت بھی نون لیگ کی ہو گی۔''
یعنی: ہُوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوںہو؟وزیر اعظم ہو کر ''کسی'' کو وزیر اعظم ماننے والے اِن صاحب کا خیال ہے کہ پاکستان کے عوام عقل و خرد سے اتنے عاری اور پیدل ہیں کہ جنھوں نے اُن کا گھر لُوٹا اور جنھوں نے متنوع مظالم سے اُن کے کندھے توڑ ڈالے، اُنہیں ہی چوتھی بار اپنے کندھوں پر بٹھا لیں گے؟کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان اِنہیں بیع میں ملا ہے؟
پی ٹی آئی کے عمران خان بھی تو جدو جہد کرتے اورکامیاب جلسے کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ حکومت کرنے کے اہل اور حقدار کیوں نہیں؟ سچ یہ ہے کہ لاہور میں اُن کے جلسے نے کامیابی اور حیرتوں کی ایک نئی داستان رقم کی ہے۔ لیکن نون لیگئے اور شین لیگئے یہی شور مچا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کا یہ جلسہ ''پہلے'' کی نسبت بڑا تھا نہ انتہائی کامیاب۔ فرسٹریشن میں وہ مینارِ پاکستان گراؤنڈ کے ''نہ بھرنے'' کا ذکر بھی کررہے ہیں۔ لیکن یہ دل جلے اپنے چاہنے والوں کو یہ نہیں بتا رہے کہ مینارِ پاکستان گراؤنڈ ''پہلے'' کی نسبت بہت فراخ اور وسیع بھی تو کی جا چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا یہ جلسہ ہر رُخ سے کامیاب و کامران تھا۔ اس میں لاتعداد لوگ شریک ہُوئے۔ شرکت کرنیوالوں کا جوش و خروش بھی حیران کُن تھا۔ جذبے بھی بیکراں اور بے کنار تھے۔ عمران کے پیش کردہ گیارہ نکات نے بھی سیاسی ہلچل پیدا کی ہے۔ بھٹو کے ''روٹی ،کپڑا اور مکان'' کے نعرے کے بعد عوام کے مفادات میں ایک نیا دلکش نعرہ معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔
کامیاب جلسے کی اور پہچان کیا ہُوا کرتی ہے؟نون لیگیوں کو اِس جلسے سے جو جلن محسوس ہو رہی ہے، وہ قابلِ فہم ہے۔ شائد درد اور حسد سے مغلوب ہو کر ہی رانا ثناء اللہ،عابد شیر علی اور طلال چوہدری نے پی ٹی آئی خواتین کے لیے ہذیان بک دیا ہے۔ اُنہوں نے جو الفاظ ادا کیے ہیں، اتنے معیوب اور غیر اخلاقی ہیں کہ انہیں دہرانا دراصل اِن تینوں دریدہ دہنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔
سارا ملک اُن کی بد تہذیبی اور بیہودگی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ نون لیگ کے نئے صدر صاحب نے گزشتہ روز اِس بارے معذرت تو کی ہے لیکن ہم سب حیران ہیں کہ ابھی تک نہ نواز شریف نے ان تینوں نون لیگیوں کے گندے الفاظ کی مذمت کی ہے اور نہ ہی مریم نواز شریف نے۔ مریم نواز شریف تو خود ایک خاتون ہیں۔
کم از کم اُنہیں خواتین کی مشترکہ حُرمت کا خیال کرتے ہُوئے رانا ثناء و دیگران کی ذاتی حیثیت میں مذمت اور درگت بنانی چاہیے تھی لیکن مریم نواز شریف حیران کُن حدتک نہ صرف خاموش ہیں بلکہ پاکستان بھر کی محترم خواتین کا منہ چڑانے کے لیے اُنہوں نے ایک جلسے میں رانا ثناء اللہ کو خصوصی طور پر اور جان بوجھ کر سٹیج پر نمایاں جگہ پر بٹھایا۔ تو کیا پھر یہ یقین کر لیا جائے، سمجھ لیا جائے کہ رانا ثناء اللہ، عابد شیر علی اور طلال چوہدری نے پی ٹی آئی خواتین کے لیے جو غیر اخلاقی الفاظ ادا کیے ہیں، وہ نون لیگ کی مرکزی پالیسی ہے؟
ہم میاں شہباز شریف سے عرض کریں گے کہ وہ ان کی جماعت کا بیڑہ غرق کرنیوالوں کو لگام دیں اگر ان کی جماعت کو انتخابات میں غیر معمولی نقصان ہوا تو یہی مہا کلاکار اس کے ذمے دار ہونگے جنھوں نے ''شرافت''کی علامت مسلم لیگ ن کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے نئی گالیاں اور اصول ایجاد کیے ہیں۔