مدیحہ گوہر۔۔۔۔ اجوکا

مدیحہ گوہر جالب کے اس شعر کی مجسم شکل تھی۔ آسودہ حال گھر میں پیدا ہوئی۔

مدیحہ گوہر سے میں کبھی نہیں ملا لیکن وہ ہمیشہ میرے بہت قریب رہیں۔ مجھے کبھی خیال بھی نہیں آیا کہ اس سے ملا جائے، یقیناً دل میں یہی تھا کہ ملاقات ہوجائے گی! خیر ہے! مجھے پتا ہوتا کہ وہ جانے والی ہے تو میں ضرور اس سے ملاقات کرلیتا، مگر یہ ''آنے جانے'' کا اختیار صرف اوپر والے کے پاس ہے۔ 62 سال کی عمر میں مدیحہ بہت کام کر گئی۔ گزرے چھ ماہ میں اس کے ساتھ ٹیلی فون پر تین مرتبہ رابطہ ہوا۔

میں نے اسے اپنے افسانوں کی کتاب بھیجی، اور فون پر رسد کا پوچھا تو پتا چلا کہ کتاب مل گئی ہے۔ ایک بار فون پر بات ہوئی ، میں نے کہا ''عرفان کھوسٹ آپ کو میرا ایک اسکرپٹ دیں گے'' مدیحہ بولیں ''میں عرفان کھوسٹ سے ابھی بات کرلیتی ہوں۔'' بس یہی دو مختصر فون کالز تھیں اور تیسری فون کال انتہائی مختصر ترین تھی، میں نے فون کیا ''السلام علیکم میں سعید پرویز بول رہا ہوں'' مدیحہ گوہر نے مختصر یہ کہہ کر فون کاٹ دیا ''میں میٹنگ میں ہوں''۔

اس مختصر کو میں نے یوں ہی لیا کہ جیسے اکثر ''اہم لوگ'' میٹنگ کا کہہ کر فون بند کردیتے ہیں۔ مجھے مدیحہ کی یہ بات بری لگی۔ یہ آخری فون کال مدیحہ کے انتقال سے دو ماہ پہلے کی بات ہے۔ میں لاہور گیا، مگر مدیحہ سے نہیں ملا، آج اس کے چلے جانے پر مجھے اپنے آپ پر غصہ آرہا ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ مجھے اس سے ملاقات کرنا چاہیے تھی۔ دراصل مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ ''شاید وہ موذی مرض کی وجہ سے کیمو کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہی ہو۔''

خیر حقیقت یہ ہے کہ مدیحہ چلی گئی۔ عاصمہ جہانگیر کے بعد ایک اور ''بہادر'' (میں عورت نہیں لکھوں گا کیونکہ بہادر، صرف بہادر ہوتا ہے) رخصت ہوا۔

میں مدیحہ گوہر کے کام سے باخبر رہتا تھا، وہ انسان کی بھلائی چاہتی تھی، جالب کا شعر آگیا ہے۔

اور کیا اس کے سوا چاہتے ہیں

نوع انسان کا بھلا چاہتے ہیں

مدیحہ گوہر جالب کے اس شعر کی مجسم شکل تھی۔ آسودہ حال گھر میں پیدا ہوئی۔ والد سید علی گوہر فوج میں افسر تھے اور معاملہ یہاں خاص رخ اختیار کر بیٹھا کہ مدیحہ کی والدہ خدیجہ گوہر سوشلسٹ خیالات کی بے خوف لکھاری تھیں، وہ سماج کو بدلنا چاہتی تھیں اور میدان عمل میں موجود تھیں۔ مدیحہ گوہر اپنے ابا کی طرف تو نہیں گئیں اور والدہ کے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھل گئیں اور ایسی ڈھلیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نوع انسان کی بھلائی میں لگ گئیں۔


اپنے ملک پاکستان کے لیے وہ بہت تڑپتی تھیں، انھیں بھی یہ بات بہت کھلتی تھی کہ ہم ہندوستان اور پاکستان دونوں غربت زدہ ہیں۔ دونوں ملکوں میں انسان دکھی ہیں، بھوک ہے، اسپتالوں میں دوا دارو نہیں، تعلیم نہیں، لوگوں کو سر چھپانے کے لیے گھر میسر نہیں، لوگ فٹ پاتھوں پر پیدا ہوتے اور وہیں مر جاتے ہیں۔ ان سنگین حالات میں ہم دونوں جنگی جنون میں کیوں مبتلا ہیں، دونوں طرف بارود کے ڈھیر کیوں لگائے جاتے ہیں۔

غریبوں کا نوالہ چھین کر جنگ و جدل کا میدان کیوں سجایا جاتا ہے۔ مدیحہ گوہر کی یہی سوچ اسے بارڈر پار لے جاتی تھی۔ مدیحہ ہندوستان جاکر بھی ''انسان'' کی ہی بات کرتی تھی اور ہندوستان کے بھی لاکھوں کروڑوں عوام مدیحہ سے محبت کرتے تھے۔ اجوکا کے نام سے مدیحہ کا تھیٹر تھا۔ 1983 میں اجوکا قائم ہوا۔ یہ پاکستان میں بدترین آمریت کا دور تھا۔ جنرل ضیا الحق صحافیوں پر کوڑے برسا رہا تھا۔

انسانی حقوق پامال کر رہا تھا۔ اسی سال 1983 میں خواتین نے آدھی گواہی کے خلاف مال روڈ پر جلوس نکالا، مگر ضیا الحق کے حاشیہ برداروں نے بدترین تشدد کرکے خواتین کے جلوس کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ عاصمہ جہانگیر، بشریٰ اعتزاز، شاہدہ جبیں، مہناز رفیع ودیگر خواتین اس جلوس کو لے کر لاہور ہائی کورٹ جانا چاہتی تھیں جہاں علامہ اقبال کے فرزند چیف جسٹس جاوید اقبال کو ایک ریزولوشن پیش کرنا تھا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اور پولیس والوں نے عورتوں کو اٹھا اٹھا کر ٹرکوں میں پھینکا، عوام کے شاعر حبیب جالب پر بھی بدترین تشدد کیا گیا۔

مدیحہ گوہر نے خواتین کی آدھی گواہی کے خلاف نکلنے والے اس جلوس سے متاثر ہوکر اپنا پہلا اسٹیج ڈرامہ ''جلوس'' لکھا، مگر ضیا دور کے رکھوالوں نے مدیحہ کو یہ ڈرامہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پورے شہر لاہور میں کوئی بھی مدیحہ کے اسٹیج ڈرامے کے لیے جگہ دینے کو تیار نہیں تھا اور پھر مدیحہ نے اپنا ڈرامہ ''جلوس'' اپنی والدہ کے گھر کے لان میں پیش کیا۔ مگر انتظامیہ نے پتا چلنے پر ڈرامے کو روک دیا۔

جنون اسے کہتے ہیں۔ ڈرامے کے لیے کہیں جگہ نہ ملی تو مدیحہ نے ایک لان میں ڈرامہ اسٹیج کرلیا۔ مدیحہ گوہر کی جدوجہد سب کے سامنے ہے۔ اس نے اپنے ڈرامے، نان کمرشل بنیاد پر کیے۔ نامساعد حالات، رسپانسر کا نہ ملنا، مدیحہ نے ان مشکلات کی پرواہ نہیں کی۔ وہ گلیوں، کوچوں، بازاروں میں اپنے ڈرامے اسٹیج کرنے کی روایت کی قائل نہیں۔ مدیحہ ایک فریڈم فائٹر تھیں۔

مدیحہ نے مصنوعی پن کو کبھی قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ وہ بلا کی حقیقت پسند انسان تھیں۔ مدیحہ نے جنرل ضیا الحق کے دور میں جیلیں بھی کاٹیں۔ مدیحہ گوہر کو جیون ساتھی بھی ملا تو اسی جیسا۔ جنرل ضیا کے دور میں شاہد محمود ندیم نے بھی جیل کاٹی۔ شاہد محمود ندیم نے بھی نوع انسان کی بھلائی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ وہ بھی اپنی شریک زندگی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔

شاہد محمود ندیم کے کاندھوں میں دوگنا بوجھ آن پڑا ہے۔ مگر ''مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہوگئیں'' شاہد محمود ندیم اس قبیلے کا مرد ہے، جہاں تھکن لفظ موجود ہی نہیں ہے۔ یہ قبیلہ ان لوگوں کا ہے جو تھکے نہیں اور جدوجہد جاری رکھی۔ یہ جو اس صبح کے منتظر ہیں یہ جو اس سورج کے متلاشی ہیں جو صبح اپنے ساتھ وہ سورج لے کر آئے گی کہ جس کی روشنی کچی گھروں کو بھی جگمگا دے گی۔

مدیحہ گوہر! تم اپنے حصے کا کام کر گئیں اور حق ادا کرگئیں، ہم تمہارے بعد تمہارا مشن جاری رکھیں گے۔ تم یاد تھیں، تم یاد ہو، تم یاد رہو گی۔
Load Next Story