تن دھونے سے دل جو ہوتا پاک
علم سے آگے کی دنیابے حد خوبصورت اور پُرکشش ہے۔یہ عشق کی وادی ہے جہاں عقل کوشش کے باوجودنہیں پہنچ سکتی۔
سیاست،سماج اورروایات سے بڑے سوالات بھی ہیںاوراہم نکات بھی۔بالآخرزندگی ہے کیاچیز؟کیایہ مکمل ہے یا نامکمل۔انسان کے ہاتھ میں کچھ ہے بھی کہ نہیں۔ اگر کچھ ہے تودینے والے نے کن شرائط پراُدھاردیا ہوا ہے۔ کیا واقعی دنیاصرف اورصرف دلیل اورحواس پرقائم ہے۔"کُن فَیکُون"کااصل مطلب کیاہے۔کیاواقعی اس کامعنی تلاش کیا جاسکتاہے۔
دنیاوی اسباب ایک سطح پرآکرمشکلات میں کیسے تبدیل ہوجاتے ہیں۔جب زندگی کی تھوڑی سی سمجھ آنے لگتی ہے تو فی الفورموقع دیے بغیرختم کیوں ہوجاتی ہے۔ یہ سب گورکھ دھنداہے کیا!اسے سمجھنے کی ضرورت ہے یانامعلوم راستوں پرچل کراَزل کے پانی میں گم ہوجانااہم ہے۔کیاکسی سوال کاکوئی جواب ہے یادراصل جواب ہی سوال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھرہمارے اردگردعام سے نظرآنے والے بابے کون ہیں۔
تصوف کیوں آپ کوزمین اورآسمان کے درمیان معلق کردیتاہے۔یہ صوفیاء آپکوکتنے آرام سے تبدیل کردیتے ہیں۔ یہی وہ انسان ہیں جوروح کے تارچھیڑکرخودغائب ہوجاتے ہیں۔
چنددن پہلے،آئیرلینڈکے صوفی کافون آیا۔کہنے لگا، خبرکرنی تھی کہ میری والدہ انتقال کرگئی ہیں۔ہوسکے تودعا میں شامل ہوجائیے گا۔صوفی کی بات سنکرپورے جسم میں خون کی گردش تیزہوگئی۔وہ کہہ کیارہاتھا۔دوست،میری زندگی کاتمام سرمایہ،رزق خاک ہوگیاہے۔عجیب بات یہ تھی کہ آوازمیں کوئی گھبراہٹ نہیں تھی۔جب فون پربات ہوئی، سفرمیں تھا۔اگلے روزسپریم کورٹ پہنچناتھا۔
جہاں محترم چیف جسٹس ثاقب نثارنے پاکستان کے سب سے اہم موضوع یعنی ''پانی کی کمیابی''پرسوؤموٹونوٹس لے رکھا تھا۔ کلرکہارکی خوبصورت وادی بنجرہوچکی ہے،سیمنٹ فیکٹریاں بغیراجازت زیرِآب پانی نکال کراستعمال کرتی رہیں۔کسی روک ٹوک ، ڈر، خوف یاپشیمانی کے بغیر۔خیریہ روداد چند دنوں میں عرض کروںگا۔پانی کی اہمیت پربے تحاشا لکھ چکا ہوں۔
خدا،چیف جسٹس کوسلامت رکھے۔زمینی فرعونوں کو کانپتے دیکھا، طبیعت میں احساس جاگا، میراملک لاوارث نہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ حکومت گزشتہ بارہ سال سے کیوں سوئی رہی۔ اربوں روپے کی آبی چوری کی اجازت دی جاتی رہی۔
اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ صوفی کوبتاسکتاکہ آنے میں تاخیرہوگی۔بہرحال واپس آکرفون کیااوراس کے گھرپہنچ گیا۔ دعاکی اورصوفی سے والدہ کے متعلق باتیں شروع ہوگئیں۔ کمرے میں والدہ کی تصویرنمایاں جگہ پرلگی ہوئی تھی۔میری والدہ امرتسرکی تھیں۔اسکول کاکبھی رخ نہ کیا۔کہتی تھیں اَن پڑھ ضرورہوں مگرجاہل نہیں۔دیکھو،اپنی ساری اولادکوکتنی محنت سے پڑھایا لکھایا ہے۔
ماں کی تربیت کاہررنگ صوفی میں بدرجہ اَتم موجودہے۔صوفی بولتارہا۔ میں خاموشی سے سنتارہا۔جب جوان تھاتوگھرمیں ہروقت دوستوں کامجمع لگا رہتاتھا۔ماں جی کہتی تھیں کہ گھرمیں جوبھی آئے بھرپور خاطر مدارت کرنی چاہیے۔چنانچہ صوفی اگرگھرمیں نہیں ہوتا تو، پھربھی دوست اس کے کمرے میں براجمان رہتے تھے۔ ماںجی کھانابناکربھیجتی رہتی تھیں۔
چائے کے وقت،تمام یار بیلی،ماں جی کے ہاتھوں سے بنی ہوئی چائے پیتے تھے۔ صوفی بتارہاتھاکہ دوستوں کی تواضع میں مرتے دم تک ماں جی نے کمی نہیں آنے دی۔خیراب اس میں تبدیلی آچکی ہے۔ دس بارہ سال سے گوشہِ تنہاہی کوترجیح دیتاہے۔
والدہ کی بیماری کے متعلق مختلف باتیں بتاتارہا۔صوفی کاایک بھائی لاہورکے ایک نجی اسپتال میں پروفیسر ہے۔ جب صحت جواب دینے لگی تووالدہ کوڈاکٹربھائی ساتھ لے گیا۔والدہ کی طبی لحاظ سے دیکھ بھال شروع ہوگئی۔انتقال سے چنددن پہلے کومہ میں چلی گئیں۔صوفی نے فورً درویش کو فون کیااوردعاکی استدعاکی۔درویش نے ہاتھ اُٹھائے اور بزرگ خاتون ہوش میں آگئیں۔یہ انہونی چارمرتبہ ہوئی۔
اسپتال کے آئی سی یو میں موجود مریضہ کے اردگرد ڈاکٹر اور نرسیں موجودتھیں۔مگرانھیں کوئی اُمیدنہ ہوتی تھی کہ زندگی میں واپس آجائیںگی۔مگرجب بھی آئیرلینڈ کا صوفی، درویش سے دعاکراتاتھا،والدہ کے حواس بحال ہوجاتے تھے۔یہ سب کیاہے،میری سمجھ سے باہر ہے۔بلکہ سوال تویہ بھی بنتاہے کہ یہ معاملہ کیونکرہے۔شائدہم لوگ خداکی قدرت سے آشنانھیں ہیں۔میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔مگرایک بات پریقین ہے کہ صوفی جھوٹ نہیں بولتا۔
آئرلینڈکا صوفی بتانے لگاکہ صبح فجرپڑھ کرسویاتوخواب میں اپنے مرحوم والد کودیکھا۔خواب میں صوفی کوحکم دیاکہ بس اب رہنے دو۔ والدہ کواب میرے پاس آنے دو۔اس میں تعطل مت ڈالو۔ والدکے حکم کے بعدصوفی خاموش ہوگیا۔پھر چندگھنٹے بعد والدہ نے اپنی بیٹی کوکہاکہ بس اب مجھے جانے دو۔وقت پورا ہوگیاہے۔ ماں نے تکیہ پرسررکھااوراَبدی نیندسوگئی۔
ایسی آرام دہ موت خوش قسمت لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس طالبعلم نے بیس بیس سال لوگوں کوسسکتے دیکھا ہے۔ موت کی دعائیں مانگتے سناہے۔مگرموت ہے کہ آتی ہی نہیں۔ آرام دہ موت تودنیاوی سفرکاخوبصورت ترین انجام ہے۔ کسی بہترین تصویرکی مانند یاشائد بے مثال۔
صوفی نے ایک اورعجیب سی بات بتائی۔کہنے لگاکہ جنازے میں ایسے ایسے بزرگ بھی شامل تھے جوگوشہ نشین ہیں۔اس کے دوست،دھاڑیں مارمارکررورہے تھے۔ دوست اس لیے رورہے تھے کہ ان تمام نے والدہ کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے برسوں تک کھائے تھے۔انھیں اپنے گھرجیسی محبت نصیب ہوئی تھی۔بہرحال درویش مسلسل صوفی کے ساتھ رہے اورآج کل بھی اس کے گھرآتے رہتے ہیں۔
آج درویش کے متعلق کچھ نہیں لکھوںگا۔لکھوں بھی کیسے۔آج تک سمجھ ہی نہیں پایاکہ دراصل یہ صاحبِ کمال انسان ہے کیا۔اب تووہ نینداورغذا سے تقریباًمبراہوچکے ہیں۔ ذکرِالٰہی ہے اورعام لوگوں کی ہردم خدمت ہے۔ مگر درویش دراصل ایک ایسا ڈاکوہے جوآپ چین چراکراپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔اس کے بعداپنی مرضی سے واپس کرتا ہے۔ سو دسمیت۔ دوگنا تگناکرکے بلکہ کسی شمارکے بغیر۔
تقریباًایک ماہ پہلے صوفی کوفون کیاکہ ملاقات نہیں ہو رہی۔ صوفی اپنی روایتی ہنسی کے بعدکہنے لگاکہ آپ توہروقت میری دعاؤں میں ہیں۔ہاں اب ملاقات،کئی گھنٹوں پرمحیط ہوگی۔کسی بھی بات چیت اوربولے بغیر۔اصل دوستی اورتعلق ہے ہی یہی کہ ایک دوسرے کی خاموشی کی زبان سمجھی جائے۔ ویسے لوگ توالفاظ استعمال کرکے باتیں کرتے ہیں۔مگر اصل گویائی توسکوت ہے۔
خاموشی کرہِ اَرض اور افلاک کی سب سے بڑی،گہری اورمستندزبان ہے۔ مگر اسکو سمجھنے کے لیے جوہرقابل چاہیے۔دوسری نظر سے دیکھا جائے تومراقبہ کی اصل بنیادسکوت ہے۔بزرگ بتاتے ہیں کہ ایمان ہی کا ایک درجہ ہے جب صاحبِ دل،خیال کی پروازسے ہر چیز پرحاوی ہوجاتا ہے۔ علم پر،زمانے پر، وقت پر اورشائدزندگی پربھی۔تصوف کی راہ پرچلنے والے قافلے کے لوگ عشق کے دامن سے چمٹے رہتے ہیں۔
دنیا داری کے کام بھی انصاف سے کرتے ہیں۔ذمے داریاں بھی پوری ہوتی ہیں۔مگران تمام آلائشوں سے بچاکرصاف آگے نکل جاتے ہیں۔عشق کی آگ میں سلگتے ہوئے یہ لوگ انتہائی محترم ہوتے ہیں۔ آگ کی تپش کوچہرے پرنہیں آنے دیتے۔معلوم ہی نہیں ہونے دیتے کہ اندرکیاقیامت برپاہے۔روح کے اندرتہہ درتہہ لگی ہوئی آتش انھیں ہرچیزسے بے نیازکردیتی ہے۔
گوری سوئے سیج پرمُکھ پر ڈالے کیس
چل خسروگھرآپنے رہن بھئی چودیس
(حضرت امیرخسرو)
مسئلہ یہ ہے کہ راہِ سلوک کے مسافروں کی داخلی کیفیت کسی کی بھی سمجھ سے باہرہے۔ سادہ نظرآنے والے یہ لوگ قطعاًسادہ نہیں ہیں۔عجیب بات ہے کہ میں سائنس کی دنیا کا آدمی ہوں۔ان لوگوں سے کوسوں دوربھاگتا ہوں۔ مگرپھربھی کسی نہ کسی طرح یہ میرے سامنے آجاتے ہیں یا میں ان کی اَن دیکھی گرفت میں آجاتا ہوں۔ان سے ملتاہوں توکوئی بات نہیں پوچھتا۔اسلیے کہ علم توانسان کوہرجگہ نہیں پہنچا سکتا۔
علم سے آگے کی دنیابے حد خوبصورت اور پُرکشش ہے۔یہ عشق کی وادی ہے جہاں عقل کوشش کے باوجودنہیں پہنچ سکتی۔شائدعقل کوعشق کے سمندرکے کنارے پرکھڑے ہونے کی اجازت تک نہیں ہے۔ مگر میرااپنے آپ سے سوال ہے کہ میرے جیساعمل اورردِعمل کی دنیا کا آدمی خودبخود ان بابوں کے پاس کیسے پہنچ جاتا ہے۔ ہرطرف راز ہے، اَن کہی داستان ہے۔ اسرار ہے۔یہ سب کچھ پوشیدہ ہی رہے توسب سے بہتر۔
دنیاوی اسباب ایک سطح پرآکرمشکلات میں کیسے تبدیل ہوجاتے ہیں۔جب زندگی کی تھوڑی سی سمجھ آنے لگتی ہے تو فی الفورموقع دیے بغیرختم کیوں ہوجاتی ہے۔ یہ سب گورکھ دھنداہے کیا!اسے سمجھنے کی ضرورت ہے یانامعلوم راستوں پرچل کراَزل کے پانی میں گم ہوجانااہم ہے۔کیاکسی سوال کاکوئی جواب ہے یادراصل جواب ہی سوال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھرہمارے اردگردعام سے نظرآنے والے بابے کون ہیں۔
تصوف کیوں آپ کوزمین اورآسمان کے درمیان معلق کردیتاہے۔یہ صوفیاء آپکوکتنے آرام سے تبدیل کردیتے ہیں۔ یہی وہ انسان ہیں جوروح کے تارچھیڑکرخودغائب ہوجاتے ہیں۔
چنددن پہلے،آئیرلینڈکے صوفی کافون آیا۔کہنے لگا، خبرکرنی تھی کہ میری والدہ انتقال کرگئی ہیں۔ہوسکے تودعا میں شامل ہوجائیے گا۔صوفی کی بات سنکرپورے جسم میں خون کی گردش تیزہوگئی۔وہ کہہ کیارہاتھا۔دوست،میری زندگی کاتمام سرمایہ،رزق خاک ہوگیاہے۔عجیب بات یہ تھی کہ آوازمیں کوئی گھبراہٹ نہیں تھی۔جب فون پربات ہوئی، سفرمیں تھا۔اگلے روزسپریم کورٹ پہنچناتھا۔
جہاں محترم چیف جسٹس ثاقب نثارنے پاکستان کے سب سے اہم موضوع یعنی ''پانی کی کمیابی''پرسوؤموٹونوٹس لے رکھا تھا۔ کلرکہارکی خوبصورت وادی بنجرہوچکی ہے،سیمنٹ فیکٹریاں بغیراجازت زیرِآب پانی نکال کراستعمال کرتی رہیں۔کسی روک ٹوک ، ڈر، خوف یاپشیمانی کے بغیر۔خیریہ روداد چند دنوں میں عرض کروںگا۔پانی کی اہمیت پربے تحاشا لکھ چکا ہوں۔
خدا،چیف جسٹس کوسلامت رکھے۔زمینی فرعونوں کو کانپتے دیکھا، طبیعت میں احساس جاگا، میراملک لاوارث نہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ حکومت گزشتہ بارہ سال سے کیوں سوئی رہی۔ اربوں روپے کی آبی چوری کی اجازت دی جاتی رہی۔
اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ صوفی کوبتاسکتاکہ آنے میں تاخیرہوگی۔بہرحال واپس آکرفون کیااوراس کے گھرپہنچ گیا۔ دعاکی اورصوفی سے والدہ کے متعلق باتیں شروع ہوگئیں۔ کمرے میں والدہ کی تصویرنمایاں جگہ پرلگی ہوئی تھی۔میری والدہ امرتسرکی تھیں۔اسکول کاکبھی رخ نہ کیا۔کہتی تھیں اَن پڑھ ضرورہوں مگرجاہل نہیں۔دیکھو،اپنی ساری اولادکوکتنی محنت سے پڑھایا لکھایا ہے۔
ماں کی تربیت کاہررنگ صوفی میں بدرجہ اَتم موجودہے۔صوفی بولتارہا۔ میں خاموشی سے سنتارہا۔جب جوان تھاتوگھرمیں ہروقت دوستوں کامجمع لگا رہتاتھا۔ماں جی کہتی تھیں کہ گھرمیں جوبھی آئے بھرپور خاطر مدارت کرنی چاہیے۔چنانچہ صوفی اگرگھرمیں نہیں ہوتا تو، پھربھی دوست اس کے کمرے میں براجمان رہتے تھے۔ ماںجی کھانابناکربھیجتی رہتی تھیں۔
چائے کے وقت،تمام یار بیلی،ماں جی کے ہاتھوں سے بنی ہوئی چائے پیتے تھے۔ صوفی بتارہاتھاکہ دوستوں کی تواضع میں مرتے دم تک ماں جی نے کمی نہیں آنے دی۔خیراب اس میں تبدیلی آچکی ہے۔ دس بارہ سال سے گوشہِ تنہاہی کوترجیح دیتاہے۔
والدہ کی بیماری کے متعلق مختلف باتیں بتاتارہا۔صوفی کاایک بھائی لاہورکے ایک نجی اسپتال میں پروفیسر ہے۔ جب صحت جواب دینے لگی تووالدہ کوڈاکٹربھائی ساتھ لے گیا۔والدہ کی طبی لحاظ سے دیکھ بھال شروع ہوگئی۔انتقال سے چنددن پہلے کومہ میں چلی گئیں۔صوفی نے فورً درویش کو فون کیااوردعاکی استدعاکی۔درویش نے ہاتھ اُٹھائے اور بزرگ خاتون ہوش میں آگئیں۔یہ انہونی چارمرتبہ ہوئی۔
اسپتال کے آئی سی یو میں موجود مریضہ کے اردگرد ڈاکٹر اور نرسیں موجودتھیں۔مگرانھیں کوئی اُمیدنہ ہوتی تھی کہ زندگی میں واپس آجائیںگی۔مگرجب بھی آئیرلینڈ کا صوفی، درویش سے دعاکراتاتھا،والدہ کے حواس بحال ہوجاتے تھے۔یہ سب کیاہے،میری سمجھ سے باہر ہے۔بلکہ سوال تویہ بھی بنتاہے کہ یہ معاملہ کیونکرہے۔شائدہم لوگ خداکی قدرت سے آشنانھیں ہیں۔میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔مگرایک بات پریقین ہے کہ صوفی جھوٹ نہیں بولتا۔
آئرلینڈکا صوفی بتانے لگاکہ صبح فجرپڑھ کرسویاتوخواب میں اپنے مرحوم والد کودیکھا۔خواب میں صوفی کوحکم دیاکہ بس اب رہنے دو۔ والدہ کواب میرے پاس آنے دو۔اس میں تعطل مت ڈالو۔ والدکے حکم کے بعدصوفی خاموش ہوگیا۔پھر چندگھنٹے بعد والدہ نے اپنی بیٹی کوکہاکہ بس اب مجھے جانے دو۔وقت پورا ہوگیاہے۔ ماں نے تکیہ پرسررکھااوراَبدی نیندسوگئی۔
ایسی آرام دہ موت خوش قسمت لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس طالبعلم نے بیس بیس سال لوگوں کوسسکتے دیکھا ہے۔ موت کی دعائیں مانگتے سناہے۔مگرموت ہے کہ آتی ہی نہیں۔ آرام دہ موت تودنیاوی سفرکاخوبصورت ترین انجام ہے۔ کسی بہترین تصویرکی مانند یاشائد بے مثال۔
صوفی نے ایک اورعجیب سی بات بتائی۔کہنے لگاکہ جنازے میں ایسے ایسے بزرگ بھی شامل تھے جوگوشہ نشین ہیں۔اس کے دوست،دھاڑیں مارمارکررورہے تھے۔ دوست اس لیے رورہے تھے کہ ان تمام نے والدہ کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے برسوں تک کھائے تھے۔انھیں اپنے گھرجیسی محبت نصیب ہوئی تھی۔بہرحال درویش مسلسل صوفی کے ساتھ رہے اورآج کل بھی اس کے گھرآتے رہتے ہیں۔
آج درویش کے متعلق کچھ نہیں لکھوںگا۔لکھوں بھی کیسے۔آج تک سمجھ ہی نہیں پایاکہ دراصل یہ صاحبِ کمال انسان ہے کیا۔اب تووہ نینداورغذا سے تقریباًمبراہوچکے ہیں۔ ذکرِالٰہی ہے اورعام لوگوں کی ہردم خدمت ہے۔ مگر درویش دراصل ایک ایسا ڈاکوہے جوآپ چین چراکراپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔اس کے بعداپنی مرضی سے واپس کرتا ہے۔ سو دسمیت۔ دوگنا تگناکرکے بلکہ کسی شمارکے بغیر۔
تقریباًایک ماہ پہلے صوفی کوفون کیاکہ ملاقات نہیں ہو رہی۔ صوفی اپنی روایتی ہنسی کے بعدکہنے لگاکہ آپ توہروقت میری دعاؤں میں ہیں۔ہاں اب ملاقات،کئی گھنٹوں پرمحیط ہوگی۔کسی بھی بات چیت اوربولے بغیر۔اصل دوستی اورتعلق ہے ہی یہی کہ ایک دوسرے کی خاموشی کی زبان سمجھی جائے۔ ویسے لوگ توالفاظ استعمال کرکے باتیں کرتے ہیں۔مگر اصل گویائی توسکوت ہے۔
خاموشی کرہِ اَرض اور افلاک کی سب سے بڑی،گہری اورمستندزبان ہے۔ مگر اسکو سمجھنے کے لیے جوہرقابل چاہیے۔دوسری نظر سے دیکھا جائے تومراقبہ کی اصل بنیادسکوت ہے۔بزرگ بتاتے ہیں کہ ایمان ہی کا ایک درجہ ہے جب صاحبِ دل،خیال کی پروازسے ہر چیز پرحاوی ہوجاتا ہے۔ علم پر،زمانے پر، وقت پر اورشائدزندگی پربھی۔تصوف کی راہ پرچلنے والے قافلے کے لوگ عشق کے دامن سے چمٹے رہتے ہیں۔
دنیا داری کے کام بھی انصاف سے کرتے ہیں۔ذمے داریاں بھی پوری ہوتی ہیں۔مگران تمام آلائشوں سے بچاکرصاف آگے نکل جاتے ہیں۔عشق کی آگ میں سلگتے ہوئے یہ لوگ انتہائی محترم ہوتے ہیں۔ آگ کی تپش کوچہرے پرنہیں آنے دیتے۔معلوم ہی نہیں ہونے دیتے کہ اندرکیاقیامت برپاہے۔روح کے اندرتہہ درتہہ لگی ہوئی آتش انھیں ہرچیزسے بے نیازکردیتی ہے۔
گوری سوئے سیج پرمُکھ پر ڈالے کیس
چل خسروگھرآپنے رہن بھئی چودیس
(حضرت امیرخسرو)
مسئلہ یہ ہے کہ راہِ سلوک کے مسافروں کی داخلی کیفیت کسی کی بھی سمجھ سے باہرہے۔ سادہ نظرآنے والے یہ لوگ قطعاًسادہ نہیں ہیں۔عجیب بات ہے کہ میں سائنس کی دنیا کا آدمی ہوں۔ان لوگوں سے کوسوں دوربھاگتا ہوں۔ مگرپھربھی کسی نہ کسی طرح یہ میرے سامنے آجاتے ہیں یا میں ان کی اَن دیکھی گرفت میں آجاتا ہوں۔ان سے ملتاہوں توکوئی بات نہیں پوچھتا۔اسلیے کہ علم توانسان کوہرجگہ نہیں پہنچا سکتا۔
علم سے آگے کی دنیابے حد خوبصورت اور پُرکشش ہے۔یہ عشق کی وادی ہے جہاں عقل کوشش کے باوجودنہیں پہنچ سکتی۔شائدعقل کوعشق کے سمندرکے کنارے پرکھڑے ہونے کی اجازت تک نہیں ہے۔ مگر میرااپنے آپ سے سوال ہے کہ میرے جیساعمل اورردِعمل کی دنیا کا آدمی خودبخود ان بابوں کے پاس کیسے پہنچ جاتا ہے۔ ہرطرف راز ہے، اَن کہی داستان ہے۔ اسرار ہے۔یہ سب کچھ پوشیدہ ہی رہے توسب سے بہتر۔