خواتین کی صحت مند سرگرمیاں

ورزش بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

ورزش بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ فوٹو : فائل

MIRPURKHAS:
سست یا غیر فعال رہنے والی خواتین میں زیادہ تیزی سے بڑھاپا آنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ اس تحقیق میں پندرہ سو خواتین نے حصہ لیا تھا۔ یہ وہ خواتین تھیں جو زیادہ تر وقت یا تو بیٹھ کر گزارتی تھیں یا پھر ہر روز چالیس منٹ سے کم وقت تک ورزش کیا کرتی تھیں۔

تحقیق کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ نکالا کہ ایسی خواتین کے خلیے فعال تو ہیں لیکن زیادہ ورزش کرنے والی خواتین کے مقابلے میں نامیاتی طور پر وہ اپنی عمر سے آٹھ سال بڑی دکھائی دیتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اگر صحت اچھی نہ ہو اور ہمارا طرز زندگی ٹھیک نہ ہو تو بڑھاپا تیزی سے آتا ہے، اس لیے بڑھاپے میں بھی انسان کو سست نہیں رہنا چاہیے اور دن میں دس گھنٹے سے زیا دہ بیٹھنے سے گریز کرنا چاہیے۔

خواتین گھر کے کام کاج سے اپنی کیلو ریز تو گھٹا سکتی ہیں، لیکن اسے ورزش کا متبادل ہرگز نہ سمجھا جائے، کیوں کہ ورزش کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور اس کے اپنے فوائد ہیں۔ ورزش کے دوران انسان کی سانسیں اور دل کی دھڑکن معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ جسم کا درجۂ حرارت بھی بڑھنے لگتا ہے اور پسینہ خوب آتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وزن مناسب رہتا ہے۔ اس طرح روزانہ ورزش کرنے والی خواتین موٹی جسامت سے نہ صرف بچی رہتی ہیں، بلکہ ایک اور فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ وہ دائمی اور موذی امراض سے بھی دور رہ سکتی ہیں ۔گھر کے کام کاج خود کرنے سے بھی جسمانی ورزش ہوجاتی ہے ۔فرش پر اچھے طریقے سے موپ (پونچھا) لگانے سے نہ صرف وہ چمک اٹھتا ہے، بلکہ اس کی وجہ سے جسمانی تن درستی بھی بھی برقرار رہتی ہے ۔ویکیوم کلینر سے قالین صاف کرنے سے کیلو ریز کی بڑی مقدار جل جاتی ہے ۔

لان کی صفائی مالی سے کروانے کے بجائے اگر خاتون خانہ خود کریں، پودوں کے گملے بھی خود ہی صاف کریں، انھیں پانی دیں اور سوکھے پتے اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور گھاس کاٹنے والی مشین استعمال کرنے سے بھی اچھی خاصی ورزش ہوجاتی ہے۔


ماضی کے مقابلے میں آج کی خواتین کو ورزش کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اس مشینی دور میں انھیں ویسی محنت نہیں کرنا پڑتی جو پہلے دور میں خواتین کیا کرتی تھیں۔ جس طر ح وہ ہاتھ سے کپڑے دھوتی تھیں اور پانی بھرنے کے لیے خود پیدل جاتی تھیں، ان کاموں سے بھی خواتین کی اچھی خاصی ورزش ہوجاتی تھی، لیکن آج کے اس جدید دور میں یہ سارے کام مشینیں بہ خوبی سر انجام دے رہی ہیں اور خواتین کا جسمانی کام یا محنت بہت کم ہوگئی ہے۔ لیکن آج کی خواتین جسمانی طور پر تو نہیں مگر ذہنی طور پر بہت تھکنے لگی ہیں۔ دماغی تھکاوٹ کی وجہ سے خواتین کے لیے اپنی تمام سر گرمیوں کو عمدگی سے انجام دینا کافی مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس لیے ورزش کرنا اچھی صحت کے لیے ناگزیر عمل ہے۔ ورزش سے ایک تو جسم توانا رہتا ہے اور دوسرے کاموں کی تکمیل میں بھی کوئی دقت یا پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔

آج کل خواتین کو مٹاپے، دل کی بیماریوں اور ذیابیطس سے بچنا بہت ضروری ہے، اسی مقصد کے لیے جسمانی توانائی کی اشد ضرورت ہے ۔ سیلز اور ٹشوز کی تعمیر و مرمت کے لیے ورزش کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف آپ کا وزن کم ہوگا بلکہ آپ کی سلم اور سمارٹ ہونے کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ ورزش کو جب معمول بنا لیا جائے تو کھانے، پینے کی عادات بھی بدل جاتی ہیں۔ غذائیت سے بھرپور خوراک آپ کی جسمانی توانائی کے لیے بہت مفید ہے۔ ورزش کرنے سے جسم مضبوط اور ذہن تروتازہ محسوس ہو تا ہے۔ قدرتی ماحول کی تازگی اور ٹھنڈک جسم پر حاوی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جسم سے ایسے ہارمون خارج ہو نے لگتے ہیں جو ذہنی تناؤ کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

ورزش سے دل کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔ جسم میں آکسیجن جذب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کا خیال ہے کہ بیماریوں کے بڑھتے ہوئے حجم کی دو بڑی وجوہ ہیں: ان میں سے ایک غذائی بد احتیاطی اور دوسری سہولت پسند طرز زندگی ہے جس میں جسمانی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہیں۔ خواتین میں ایک غلط خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سارا دن گھریلو کاموں کے دوران ورزش ہوتی رہتی ہے، چناں چہ ان کے خیال میں ورزش کے لیے الگ سے وقت نکالنا غیر ضروری ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کی فیزیو تھراپسٹ سے جب اس پر رائے مانگی گئی تو انھوں نے کہا:''جب ہم مسلسل کم ازکم بیس منٹ اپنے جسم کو حرکت دیں اور یہ عمل مخصوص وقت پر باقاعدگی سے کیا جائے تو اسے ورزش کا نام دیا جاتا ہے۔ گھریلو کام بھی فائدے مند ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس کے بعد ورزش کی ضرورت نہیں رہتی تو یہ غلط ہے۔ سارا دن ہم جو خوراک کھاتے ہیں، وہ کیلوریز کی صورت میں جمع ہوتی رہتی ہے پھر متحرک رہنے کی وجہ سے کیلوریز استعمال ہوجاتی ہے لیکن اس سے پٹھوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ گھریلو کاموں کو مخصوص انداز سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بعض اوقات یہ کام نقصان کی وجہ بھی بن جاتے ہیں، مثال کے طور پر خاتون خانہ لگاتار پانچ گھنٹے کپڑے دھوتی رہے تو یہ بھی غلط ہے، کیوں کہ ایک ہی پوزیشن میں زیادہ دیر رہنے کی وجہ سے کمر میں درد ہونے لگتا ہے، تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ طبیعت میں چڑچڑ ا پن بھی آجاتا ہے ۔''

خواتین ورزش کے لیے انتہائی بے پروائی کا مظاہرہ کرتی ہیں جو ان کی زندگی کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو رہی ہے۔ ایک اہم مطالعے کے نتیجے سے پتا چلتا ہے کہ ایسی نوجوان خواتین جن کی عمریں تیس سال کے آس پاس تھیں اور وہ غیر فعال زندگی گزار رہی تھیں، ان میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ فعال خواتین کی نسبت پچاس فی صد سے زیادہ تھا۔ آپ چوبیس گھنٹوں میں سے آدھا گھنٹہ ورزش کے لیے ضرور نکالیں، تاکہ جسمانی تن درستی حاصل ہو اور ذہنی خلفشار سے بھی چھٹکارا مل سکے۔

پہلے ہفتے میں دو سے تین دن ورزش کے لیے مقرر کرلیں پھر آہستہ آہستہ پانچ سے چھے دن تک آجائیں اور اس طرح روزانہ ورزش کرنا اپنا معمول بنالیجیے، تاکہ بیماریوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ خوش گوار زندگی سے بھی لطف اٹھا سکیں۔
Load Next Story