نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ
کوئی نیا صوبہ معرض وجود میں آئے گا تو آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت اس کے نئے حکمرانوں کو زیادہ اختیارات حاصل ہوںگے۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور دانشور وقفے وقفے سے جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کئی ارکان اسمبلی نے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ کر یہ اعلان کردیا کہ جنوبی پنجاب صوبے کی بحالی ان کی آیندہ کی سیاست کا محور ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سیاسی جد وجہد اس حوالے سے کریںگے اور اسی پلیٹ فارم سے آیندہ انتخابات بھی لڑیںگے۔
ان ارکان اسمبلی نے جس دن ایک پریس کانفرنس بلاکر یہ اعلان کیا عین اسی روز بلاول بھٹو زرداری نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیاکہ حکومت میں آنے کے بعد وہ ''جنوبی پنجاب'' صوبہ ضرور بنائیںگے۔ انتظامی بنیاد پر مزید صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ملک کے موجودہ چار صوبوں کے بجائے خلوص نیت سے آٹھ صوبے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
اگر نیت نیک ہو تو نئے صوبے بنانے سے وفاق کبھی کمزور نہیں ہوگا۔ 1947 میں آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بن گئے۔ بھارت کے حکمرانوں نے عوامی مطالبات کی بنیاد پر نئے صوبے بنانے کا سلسلہ شروع کیا جو تا حال جاری ہے۔ آزادی کے وقت یوپی (اتر پردیش) ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہوا کرتا تھا جسے مزید صوبوں میں تقسیم کردیاگیا ہے لیکن اس سے بھارت کا وفاق کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوا ہے۔
دنیا کے چھوٹی آبادی والے ممالک میں 50 صوبے ہیں۔ خود ہمارے سب سے قریبی پڑوسی ملک افغانستان میں جس کی آبادی ہم سے بہت کم ہے 30 سے زائد صوبے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت کے 14 صوبے تھے جب کہ یہ تعداد بھی اب 34 سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس تعداد میں کچھ عرصے کے بعد مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر نئے صوبے کی اسمبلیاں بنتی ہیں اور وہاں عوام خوش ہوجاتے ہیں۔ اس سے کچھ انتظامی مسائل بھی کافی حد تک حل ہو جاتے ہیں۔ مقامی سیاست دانوں کو انتظام میں شراکت کے مواقعے میسر آتے ہیں اور وہ اپنے صوبوں کی ترقی کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنے صوبوں کے اضافے سے بھارت ٹوٹ گیا؟ یہ اس بھارت کی مثال ہے جو رقبے میں ہمارے ملک سے کئی گنا بڑا ہے اور جہاں 15 سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں جہاں 100 سے زیادہ زبانیں لکھی اور بولی جاتی ہیں اور ہر ایک کی بولی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ وطن عزیز میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ کم ہے اور ملک کی 95 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
موجودہ حالات میں نئے صوبوں کا قیام گزشتہ کئی سال سے ملک کی سیاست کا دلچسپ موضوع بنا ہوا ہے۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد جب صوبوں کی حیثیت ختم کر دی گئی تو ریاست بہاولپور ایک صوبے کی حیثیت سے وفاق میں شامل ہوگیا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد ون یونٹ کے خاتمے اور صوبائی خود مختاری کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ بد قسمتی سے مرکز کو مزید توانا بنانے کی پالیسی کے نتیجے میں ملک کا مشرقی بازو علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
2008کے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک آئینی ترمیم منظور کی جسے اٹھارویں ترمیم کا نام دیا گیا، اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو کافی زیادہ آزادی دے دی گئی اور وسائل پر ان کا حق تسلیم کرلیا گیا، اس کے علاوہ کئی وزارتیں بھی وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوگئیں۔
تعلیم کا شعبہ بھی صوبوں کے حوالے سے ہوگیا، تاہم ذاتی طور پر ہمارا خیال یہ ہے کہ صوبوں کو مناسب حد تک آزادی اور خود مختاری ضرور ملنی چاہیے لیکن نظام تعلیم مرکز کے پاس ہی ہونا چاہیے۔نئے صوبوں کے مطالبات کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب بھی کوئی نیا صوبہ معرض وجود میں آئے گا تو آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت اس کے نئے حکمرانوں کو زیادہ اختیارات حاصل ہوںگے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے بجائے بہاولپور کی صوبائی حیثیت کو بحال کیا جائے تو یہ ایک زیادہ بہتر اقدام ہوگا ۔ اس لیے کہ ون یونٹ کے قیام کے وقت ریاست بہاولپور کو صوبائی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا لیکن جب ون یونٹ ختم ہوگیا اور صوبوں کی صوبائی حیثیت بحال ہوگئی تو ریاست بہاولپور کی صوبائی حیثیت بھی بحال ہونی چاہیے۔
ریاست بہاولپور تین ڈویژن پر مشتمل تھی چنانچہ ان تینوں ڈویژنوں کو ملاکر بہاولپور کی صوبائی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو پنجاب میں ایک کے بجائے تین صوبے بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خیال رہے کہ بہاولپور کے علاقے کی اپنی ایک منفرد شناخت ہے جس میں اس کی روایات، ثقافت، معاشرتی اقدار، رسومات و رواج اور ریاستی زبان بھی شامل ہے۔
حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ جب کسی شہر کی آبادی دس ہزار نفوس سے تجاوز کر جائے تو نیا شہر آباد کردیا جائے۔ نیا شہر آباد کرنے کا مقصد اسے انتظامی طور پر زیادہ بہتر طریقے سے سنبھالنا ہے۔ وطن عزیز کے چارصوبے اتنے بڑے ہیں کہ کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ایک مرتبہ بھی دورہ کرکے اپنے عوام کی اصل صورتحال سے واقفیت حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ نئے صوبے لسانی یا عصبی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بہتری کے لحاظ سے بننے چاہئیں۔ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے ۔ تاہم نئے صوبوں کا قیام اس اعتبار سے ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے وفاق کی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔
ان ارکان اسمبلی نے جس دن ایک پریس کانفرنس بلاکر یہ اعلان کیا عین اسی روز بلاول بھٹو زرداری نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیاکہ حکومت میں آنے کے بعد وہ ''جنوبی پنجاب'' صوبہ ضرور بنائیںگے۔ انتظامی بنیاد پر مزید صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ملک کے موجودہ چار صوبوں کے بجائے خلوص نیت سے آٹھ صوبے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
اگر نیت نیک ہو تو نئے صوبے بنانے سے وفاق کبھی کمزور نہیں ہوگا۔ 1947 میں آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بن گئے۔ بھارت کے حکمرانوں نے عوامی مطالبات کی بنیاد پر نئے صوبے بنانے کا سلسلہ شروع کیا جو تا حال جاری ہے۔ آزادی کے وقت یوپی (اتر پردیش) ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہوا کرتا تھا جسے مزید صوبوں میں تقسیم کردیاگیا ہے لیکن اس سے بھارت کا وفاق کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوا ہے۔
دنیا کے چھوٹی آبادی والے ممالک میں 50 صوبے ہیں۔ خود ہمارے سب سے قریبی پڑوسی ملک افغانستان میں جس کی آبادی ہم سے بہت کم ہے 30 سے زائد صوبے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت کے 14 صوبے تھے جب کہ یہ تعداد بھی اب 34 سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس تعداد میں کچھ عرصے کے بعد مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر نئے صوبے کی اسمبلیاں بنتی ہیں اور وہاں عوام خوش ہوجاتے ہیں۔ اس سے کچھ انتظامی مسائل بھی کافی حد تک حل ہو جاتے ہیں۔ مقامی سیاست دانوں کو انتظام میں شراکت کے مواقعے میسر آتے ہیں اور وہ اپنے صوبوں کی ترقی کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنے صوبوں کے اضافے سے بھارت ٹوٹ گیا؟ یہ اس بھارت کی مثال ہے جو رقبے میں ہمارے ملک سے کئی گنا بڑا ہے اور جہاں 15 سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں جہاں 100 سے زیادہ زبانیں لکھی اور بولی جاتی ہیں اور ہر ایک کی بولی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ وطن عزیز میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ کم ہے اور ملک کی 95 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
موجودہ حالات میں نئے صوبوں کا قیام گزشتہ کئی سال سے ملک کی سیاست کا دلچسپ موضوع بنا ہوا ہے۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد جب صوبوں کی حیثیت ختم کر دی گئی تو ریاست بہاولپور ایک صوبے کی حیثیت سے وفاق میں شامل ہوگیا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد ون یونٹ کے خاتمے اور صوبائی خود مختاری کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ بد قسمتی سے مرکز کو مزید توانا بنانے کی پالیسی کے نتیجے میں ملک کا مشرقی بازو علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
2008کے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک آئینی ترمیم منظور کی جسے اٹھارویں ترمیم کا نام دیا گیا، اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو کافی زیادہ آزادی دے دی گئی اور وسائل پر ان کا حق تسلیم کرلیا گیا، اس کے علاوہ کئی وزارتیں بھی وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوگئیں۔
تعلیم کا شعبہ بھی صوبوں کے حوالے سے ہوگیا، تاہم ذاتی طور پر ہمارا خیال یہ ہے کہ صوبوں کو مناسب حد تک آزادی اور خود مختاری ضرور ملنی چاہیے لیکن نظام تعلیم مرکز کے پاس ہی ہونا چاہیے۔نئے صوبوں کے مطالبات کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب بھی کوئی نیا صوبہ معرض وجود میں آئے گا تو آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت اس کے نئے حکمرانوں کو زیادہ اختیارات حاصل ہوںگے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے بجائے بہاولپور کی صوبائی حیثیت کو بحال کیا جائے تو یہ ایک زیادہ بہتر اقدام ہوگا ۔ اس لیے کہ ون یونٹ کے قیام کے وقت ریاست بہاولپور کو صوبائی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا لیکن جب ون یونٹ ختم ہوگیا اور صوبوں کی صوبائی حیثیت بحال ہوگئی تو ریاست بہاولپور کی صوبائی حیثیت بھی بحال ہونی چاہیے۔
ریاست بہاولپور تین ڈویژن پر مشتمل تھی چنانچہ ان تینوں ڈویژنوں کو ملاکر بہاولپور کی صوبائی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو پنجاب میں ایک کے بجائے تین صوبے بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خیال رہے کہ بہاولپور کے علاقے کی اپنی ایک منفرد شناخت ہے جس میں اس کی روایات، ثقافت، معاشرتی اقدار، رسومات و رواج اور ریاستی زبان بھی شامل ہے۔
حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ جب کسی شہر کی آبادی دس ہزار نفوس سے تجاوز کر جائے تو نیا شہر آباد کردیا جائے۔ نیا شہر آباد کرنے کا مقصد اسے انتظامی طور پر زیادہ بہتر طریقے سے سنبھالنا ہے۔ وطن عزیز کے چارصوبے اتنے بڑے ہیں کہ کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ایک مرتبہ بھی دورہ کرکے اپنے عوام کی اصل صورتحال سے واقفیت حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ نئے صوبے لسانی یا عصبی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بہتری کے لحاظ سے بننے چاہئیں۔ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے ۔ تاہم نئے صوبوں کا قیام اس اعتبار سے ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے وفاق کی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔