وہ جو تاریک کانوں میں مارے گئے
دنیا کے سب سے مشکل اور خطرناک پیشوں میں سے ایک ہونے کے سبب باقی دنیا میں کان مزدوروں کو کیا سہولیات میسر ہیں۔
خیبر پختون خوا کے ضلع شانگلہ بالخصوص غور بند کے علاقے میں پیدا ہونے والے مرد بھی باقی انسانوں کی طرح فانی ہیں مگر ان میں سے کم ہی ایسے ہیں جو بوڑھے ہو کر مرتے ہیں اور مرتے بھی ہیں تو اپنی زمین پر نہیں بلکہ کم ازکم گیارہ سو کلو میٹر پرے۔بلکہ یوں کہئے کہ جاتے تو روزگار کے لیے ہیں مگر آتے تابوت میں بند۔ان تابوتی لاشوں میں سے شائد ہی کوئی ایسی ہو جو پچاس برس کی عمر کا ہندسہ پار کر سکی ہو۔اکثر اٹھارہ سے پتنتیس چالیس تک کے ہی مر جاتے ہیں۔
اب آپ کو ثبوت بھی چاہیے ہوگا۔تو اس کے لیے یہ چار روز پرانی خبر حاضر ہے کہ بلوچستان میں دو روز میں کوئلے کی کانیں بیٹھنے کے یکے بعد دیگرے دو حادثات میں تئیس کان مزدور جاں بحق اور گیارہ زخمی ہو گئے۔ان تئیس مرنے والوں میں سے اکیس کا تعلق ضلع شانگلہ سے ہے۔
کوئٹہ سے ساٹھ کلو میٹر پرے سر کے علاقے میں مٹی کا تودہ گرنے سے پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ایک کان بیٹھ جانے سے سات مزدور دب کر جاں بحق ہوئے جب کہ ماروار کے علاقے میں ایک کان میں میتھین گیس بھرجانے سے دھماکے میں سولہ کانکن مارے گئے۔سن دو ہزار گیارہ میں سر کے علاقے میں ہی ایک کان میں گیس بھر جانے سے تینتالیس مزدور جاں بحق ہوئے تھے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ سالانہ ڈیڑھ سو سے دو سو کانکن مختلف حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔مگر یہ اموات معمول کی بات ہیں۔ان کی جگہ اور مزدور زیرِ زمین چودہ سو سے لے کر تین ہزار فٹ تک کے اندھیروں میں جانے اور قسمت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔یہ جو کوئلہ نکالتے ہیں اس کی قیمت بہرحال ان مزدوروں کی جان سے زیادہ ہے۔کان مالکان اور سرکاری ادارے اسی کوئلے کی فروخت اور محصولات کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے کما رہے ہوں تو مزدوروں کی بہبود پر لگانے کی کیا ضرورت۔
سر ، لورالائی کی تحصیل دکی ، ہرنائی ، مچھ ، سندھ میں جھمپیر اور پنجاب و خیبر پختون خوا تک زندگی اور موت کی ایک ہی کہانی تسلسل سے جاری ہے۔جو کانکن دب کے یا گیس سے نہیں مرتے وہ کوئلے کی خاک پھیپڑوں میں اتار کے ، دمے ، ٹی بی ، جلدی امراض کے سبب مر جاتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یورپ میں کانکنوں کی جیسی زندگی پانچ سو برس قبل تھی۔آج پاکستان میں کان مزدوروں کی زندگی ویسی ہی ہے۔اور یہ سارا جوا بارہ سو سے پندرہ سو روپے ہفتہ دھاڑی کے لیے کھیلا جاتا ہے۔
کہنے کو پاکستان میں برطانوی نوآبادیاتی دور کا مائنز ایکٹ مجریہ انیس سو تئیس لاگو ہے۔جس میں کانکنوں کے اوقات ، جسمانی صحت ، جان کے تحفظ اور رہائش وغیرہ کے معیار کی بابت تمام بنیادی معاملات پر شق وار وضاحت ہے۔مگر اس ایکٹ میں ایک شق ایسی ہے جو سارے دیگر قوانین کو نگل لیتی ہے۔یعنی کانوں کے معائنے پر مامور چیف انسپکٹر حالاتِ کار و حادثات سے متعلق جو بھی رپورٹ تیار کرے گا، وہ چند متعلقہ افسران کے علم میں لانے کا مجاز ہے، اس رپورٹ کو عام کرنے کا مجاز نہیں۔چنانچہ بیشتر اموات اور حادثات کا یا تو ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور اگر رکھا بھی جاتا ہے تو ایٹمی راز کی طرح الماری میں بند ہوتا ہے۔ لہذا بہت کم حادثات ایسے ہیں جن میں ذمے داری یا غفلت کا تعین ہو سکا۔یوں موت کے کھیل سے دولت پیدا کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔
خود قانون کتنے موثر انداز میں حرکت میں آتا ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ مچھ میں انسپکٹر آف مائنز کے دفتر سے اب سے دو برس پہلے جو تفصیلات میسر آئیں ان کے مطابق کئی برس کے دوران بیس کانکن کمپنیوں کے خلاف مجرمانہ غفلت کی فردِ جرم ٹریبونل میں پیش کی گئی۔ان سب کمپنیوں کو صرف دس سے بیس ہزار روپے جرمانہ دینا پڑا۔ انھیں ایک عدد اضافی تنبیہہ تھمائی گئی اور کلین چٹ دے دی گئی۔
نظام ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔صوبائی حکومت چھوٹے چھوٹے علاقوں میں نجی مالکان کو کانیں لیز پر دیتی ہے۔ان مالکان کو مزدوروںکے اوقاتِ کار ، ہیلتھ اور سیفٹی کے معیارات سے زیادہ اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ کس طرح کانکنی کے انفرا اسٹرکچر پر کم سے کم پیسہ لگائے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹا جا سکے۔
صوبائی محکمہ لیبر کے پاس اگرچہ کانوں کی انسپکشن اور انھیں بہتر بنانے کے سلسلے میں وسیع اختیارات ہیں مگر اس کا عملی کام بس اتنا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو ایک رسمی رپورٹ تیار کر کے داخلِ دفتر کردے۔ویسے بھی کوئی کان مالک ایسا نہیں جس کے اوپر تک کنکشن نہ ہوں۔ان کے آگے ایک معمولی انسپکٹر کی حیثیت ہی کیا ہے۔دو ہزار تیرہ میں جو سرکاری منرل پالیسی سامنے آئی، ان میں کان مالکان اور ان کی سرمایہ کاری کے تحفظ کا تو ذکر ہے مگر مزدوروں کے تحفظ کا کوئی ذکر نہیں۔
چونکہ زیادہ تر کان مزدور ان پڑھ اور پردیسی ہیں لہذا انھیں سودے بازی کا بھی تجربہ نہیں ہوتا۔بنیادی طبی سہولتیں ان کا قانونی حق ہے مگر کبھی اگر کسی نے کانکنوں کے لیے مختص کسی فعال اسپتال کا تذکرہ سنا ہو تو مجھے بھی مطلع کرے۔ ان کانکنوں کا وجود سوشل سیکیورٹی کے رجسٹر پر بھی نہیں ہے۔چنانچہ جب کوئی کانکن حادثے میں زخمی ہوتا ہے یا مر جاتا ہے تو یہ مالک کی صوابدید ہے کہ وہ کتنا معاوضہِ ازالا دیتا ہے۔خدا ترس ہے تو پچاس ہزار تک دے دے گا۔نہیں ہے تو پچیس میں بھی ٹرخا دے گا اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں۔
یہ کانکن مزدوری کی جگہ کے قریب خود ہی پلاسٹک شیٹس ، گھانس پھونس یا کچی پکی اینٹیں جوڑ کر جھونپڑی یا کمرہ بنا کر مشترکہ طور پر رہتے ہیں ، ایک نل سے نہاتے ہیں اور آٹھ دس مل کے کھانا پکا لیتے ہیں ، کپڑے دھو لیتے ہیں۔ اورذرا ہی فاصلے پر کان مالک یا مینیجر کا شاندار ریسٹ ہاؤس ، اوطاق یا گھر ان کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ کانکنوں کے بچوں کے نام پر جو تعلیمی اسکالرشپس جاری ہوتی ہے وہ بھی راستے میں غتربود ہو جاتی ہیں۔
کہنے کو پاکستان کوئلے کی کانکنی ، پیداوار اور ذخائر کے اعتبار سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہے۔کل قومی پیداوار میں کانکنی کا حصہ تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔مگر کانکنوں کے لیے سہولتوں ، حفاظتی آلات کے اعتبار سے جس نمبر پر چاہیں رکھ لیں۔ان بے چاروں کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ دنیا کے سب سے مشکل اور خطرناک پیشوں میں سے ایک ہونے کے سبب باقی دنیا میں کان مزدوروں کو کیا سہولیات میسر ہیں۔
شائد اسی لیے ریاستِ پاکستان نے بین الاقوامی لیبر فیڈریشن کے سیفٹی اینڈ ہیلتھ ان مائنز کنونشن مجریہ انیس سو پچانوے کی آج تک توثیق نہیں کی۔تاکہ مزدوروں کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ امریکا ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے معدنی دولت سے مالا مال ممالک میں بہت جدوجہد کے بعد کانکنوں کی تنخواہ مراعات ان کے پیشے کی خطرناکی کے اعتبار سے اوسط قومی اجرت سے کم ازکم ڈیڑھ گنا زائد ہیں۔
اس وقت اس خطرناک پیشے میں کام کرنے والے ستر فیصد مزدوروں کا تعلق شانگلہ سے اور تیس فیصد کا تعلق افغان ہزارہ قبائل سے ہے۔غربت اتنی ہے کہ ایک مرتا ہے تو اس کی جگہ دو لینے کے لیے آ جاتے ہیں۔ ایک آدھ مر جائے تو پتہ بھی نہیں چلتا۔سنگل کالم اخباری خبر یا چینل کی پٹی بننے کے لیے ضروری ہے کہ کم ازکم پانچ سات کانکن ایک ساتھ مریں۔
میں بھی کہاں یہ مضمون لکھتا اگر ایک ساتھ تئیس کے مرنے کی خبر نہ آتی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
اب آپ کو ثبوت بھی چاہیے ہوگا۔تو اس کے لیے یہ چار روز پرانی خبر حاضر ہے کہ بلوچستان میں دو روز میں کوئلے کی کانیں بیٹھنے کے یکے بعد دیگرے دو حادثات میں تئیس کان مزدور جاں بحق اور گیارہ زخمی ہو گئے۔ان تئیس مرنے والوں میں سے اکیس کا تعلق ضلع شانگلہ سے ہے۔
کوئٹہ سے ساٹھ کلو میٹر پرے سر کے علاقے میں مٹی کا تودہ گرنے سے پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ایک کان بیٹھ جانے سے سات مزدور دب کر جاں بحق ہوئے جب کہ ماروار کے علاقے میں ایک کان میں میتھین گیس بھرجانے سے دھماکے میں سولہ کانکن مارے گئے۔سن دو ہزار گیارہ میں سر کے علاقے میں ہی ایک کان میں گیس بھر جانے سے تینتالیس مزدور جاں بحق ہوئے تھے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ سالانہ ڈیڑھ سو سے دو سو کانکن مختلف حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔مگر یہ اموات معمول کی بات ہیں۔ان کی جگہ اور مزدور زیرِ زمین چودہ سو سے لے کر تین ہزار فٹ تک کے اندھیروں میں جانے اور قسمت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔یہ جو کوئلہ نکالتے ہیں اس کی قیمت بہرحال ان مزدوروں کی جان سے زیادہ ہے۔کان مالکان اور سرکاری ادارے اسی کوئلے کی فروخت اور محصولات کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے کما رہے ہوں تو مزدوروں کی بہبود پر لگانے کی کیا ضرورت۔
سر ، لورالائی کی تحصیل دکی ، ہرنائی ، مچھ ، سندھ میں جھمپیر اور پنجاب و خیبر پختون خوا تک زندگی اور موت کی ایک ہی کہانی تسلسل سے جاری ہے۔جو کانکن دب کے یا گیس سے نہیں مرتے وہ کوئلے کی خاک پھیپڑوں میں اتار کے ، دمے ، ٹی بی ، جلدی امراض کے سبب مر جاتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یورپ میں کانکنوں کی جیسی زندگی پانچ سو برس قبل تھی۔آج پاکستان میں کان مزدوروں کی زندگی ویسی ہی ہے۔اور یہ سارا جوا بارہ سو سے پندرہ سو روپے ہفتہ دھاڑی کے لیے کھیلا جاتا ہے۔
کہنے کو پاکستان میں برطانوی نوآبادیاتی دور کا مائنز ایکٹ مجریہ انیس سو تئیس لاگو ہے۔جس میں کانکنوں کے اوقات ، جسمانی صحت ، جان کے تحفظ اور رہائش وغیرہ کے معیار کی بابت تمام بنیادی معاملات پر شق وار وضاحت ہے۔مگر اس ایکٹ میں ایک شق ایسی ہے جو سارے دیگر قوانین کو نگل لیتی ہے۔یعنی کانوں کے معائنے پر مامور چیف انسپکٹر حالاتِ کار و حادثات سے متعلق جو بھی رپورٹ تیار کرے گا، وہ چند متعلقہ افسران کے علم میں لانے کا مجاز ہے، اس رپورٹ کو عام کرنے کا مجاز نہیں۔چنانچہ بیشتر اموات اور حادثات کا یا تو ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور اگر رکھا بھی جاتا ہے تو ایٹمی راز کی طرح الماری میں بند ہوتا ہے۔ لہذا بہت کم حادثات ایسے ہیں جن میں ذمے داری یا غفلت کا تعین ہو سکا۔یوں موت کے کھیل سے دولت پیدا کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔
خود قانون کتنے موثر انداز میں حرکت میں آتا ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ مچھ میں انسپکٹر آف مائنز کے دفتر سے اب سے دو برس پہلے جو تفصیلات میسر آئیں ان کے مطابق کئی برس کے دوران بیس کانکن کمپنیوں کے خلاف مجرمانہ غفلت کی فردِ جرم ٹریبونل میں پیش کی گئی۔ان سب کمپنیوں کو صرف دس سے بیس ہزار روپے جرمانہ دینا پڑا۔ انھیں ایک عدد اضافی تنبیہہ تھمائی گئی اور کلین چٹ دے دی گئی۔
نظام ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔صوبائی حکومت چھوٹے چھوٹے علاقوں میں نجی مالکان کو کانیں لیز پر دیتی ہے۔ان مالکان کو مزدوروںکے اوقاتِ کار ، ہیلتھ اور سیفٹی کے معیارات سے زیادہ اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ کس طرح کانکنی کے انفرا اسٹرکچر پر کم سے کم پیسہ لگائے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹا جا سکے۔
صوبائی محکمہ لیبر کے پاس اگرچہ کانوں کی انسپکشن اور انھیں بہتر بنانے کے سلسلے میں وسیع اختیارات ہیں مگر اس کا عملی کام بس اتنا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو ایک رسمی رپورٹ تیار کر کے داخلِ دفتر کردے۔ویسے بھی کوئی کان مالک ایسا نہیں جس کے اوپر تک کنکشن نہ ہوں۔ان کے آگے ایک معمولی انسپکٹر کی حیثیت ہی کیا ہے۔دو ہزار تیرہ میں جو سرکاری منرل پالیسی سامنے آئی، ان میں کان مالکان اور ان کی سرمایہ کاری کے تحفظ کا تو ذکر ہے مگر مزدوروں کے تحفظ کا کوئی ذکر نہیں۔
چونکہ زیادہ تر کان مزدور ان پڑھ اور پردیسی ہیں لہذا انھیں سودے بازی کا بھی تجربہ نہیں ہوتا۔بنیادی طبی سہولتیں ان کا قانونی حق ہے مگر کبھی اگر کسی نے کانکنوں کے لیے مختص کسی فعال اسپتال کا تذکرہ سنا ہو تو مجھے بھی مطلع کرے۔ ان کانکنوں کا وجود سوشل سیکیورٹی کے رجسٹر پر بھی نہیں ہے۔چنانچہ جب کوئی کانکن حادثے میں زخمی ہوتا ہے یا مر جاتا ہے تو یہ مالک کی صوابدید ہے کہ وہ کتنا معاوضہِ ازالا دیتا ہے۔خدا ترس ہے تو پچاس ہزار تک دے دے گا۔نہیں ہے تو پچیس میں بھی ٹرخا دے گا اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں۔
یہ کانکن مزدوری کی جگہ کے قریب خود ہی پلاسٹک شیٹس ، گھانس پھونس یا کچی پکی اینٹیں جوڑ کر جھونپڑی یا کمرہ بنا کر مشترکہ طور پر رہتے ہیں ، ایک نل سے نہاتے ہیں اور آٹھ دس مل کے کھانا پکا لیتے ہیں ، کپڑے دھو لیتے ہیں۔ اورذرا ہی فاصلے پر کان مالک یا مینیجر کا شاندار ریسٹ ہاؤس ، اوطاق یا گھر ان کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ کانکنوں کے بچوں کے نام پر جو تعلیمی اسکالرشپس جاری ہوتی ہے وہ بھی راستے میں غتربود ہو جاتی ہیں۔
کہنے کو پاکستان کوئلے کی کانکنی ، پیداوار اور ذخائر کے اعتبار سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہے۔کل قومی پیداوار میں کانکنی کا حصہ تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔مگر کانکنوں کے لیے سہولتوں ، حفاظتی آلات کے اعتبار سے جس نمبر پر چاہیں رکھ لیں۔ان بے چاروں کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ دنیا کے سب سے مشکل اور خطرناک پیشوں میں سے ایک ہونے کے سبب باقی دنیا میں کان مزدوروں کو کیا سہولیات میسر ہیں۔
شائد اسی لیے ریاستِ پاکستان نے بین الاقوامی لیبر فیڈریشن کے سیفٹی اینڈ ہیلتھ ان مائنز کنونشن مجریہ انیس سو پچانوے کی آج تک توثیق نہیں کی۔تاکہ مزدوروں کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ امریکا ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے معدنی دولت سے مالا مال ممالک میں بہت جدوجہد کے بعد کانکنوں کی تنخواہ مراعات ان کے پیشے کی خطرناکی کے اعتبار سے اوسط قومی اجرت سے کم ازکم ڈیڑھ گنا زائد ہیں۔
اس وقت اس خطرناک پیشے میں کام کرنے والے ستر فیصد مزدوروں کا تعلق شانگلہ سے اور تیس فیصد کا تعلق افغان ہزارہ قبائل سے ہے۔غربت اتنی ہے کہ ایک مرتا ہے تو اس کی جگہ دو لینے کے لیے آ جاتے ہیں۔ ایک آدھ مر جائے تو پتہ بھی نہیں چلتا۔سنگل کالم اخباری خبر یا چینل کی پٹی بننے کے لیے ضروری ہے کہ کم ازکم پانچ سات کانکن ایک ساتھ مریں۔
میں بھی کہاں یہ مضمون لکھتا اگر ایک ساتھ تئیس کے مرنے کی خبر نہ آتی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)