دنیا فانی ہے

خیبر سے کراچی تک سب اپنی تقدیر بدلنے میں لگے ہیں ملک کی تقدیر کا اللہ مالک ہے۔

GILGIT:
آپ نے بچپن میں کہانی سنی ہوگی کہ روٹی کی باہمی تقسیم پر دو جانداروں میں اختلاف ہوا تو ایک تیسرے نے تقسیم کا بیڑا اٹھایا اور اس ہنرمندی سے تقسیم کا سلسلہ شروع کیا کہ ہر بار کوئی ایک حصہ بڑھ جاتا اور وہ اضافی حصہ اپنے منہ سے اس طرح کاٹتا کہ آیندہ کے دو حصوں میں فرق موجود ہوتا اور پھر کارروائی نئے سرے سے شروع ہوجاتی ، یوں روٹی تقسیم کرنے والے کے پیٹ میں چلی گئی اور آیندہ کی روٹی کو درست تقسیم کرنے کے وعدے پر غالباً دونوں کو ٹال دیا گیا ہوگا۔

اس کہانی کا تعلق جنگل سے ہے اور قصہ جنگل کی بادشاہت کا ہے۔ اصول وہاں اس وقت یہ رہا جو مفاد پرست چالاک، فطرتی و بادشاہ، یہ کہانی پڑھ کر وہ بچے جوان ہوئے جن کے نام حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ بھی راجاؤں، برادروں، راناؤں، چوہدریوں، ملکوں کے نام شامل ہیں۔

ان سب کا کام یا تو عوام کی روٹی، ان کے حقوق کی تقسیم ہے، یا غلط تقسیم کی پرجوش حمایت زیادہ تر چھانگا مانگا اصول کے حامی ہیں مگر کوئی اور نہ کرے اس اصول پر عمل ورنہ جمہوریت خطرے میں، اسلام کے لیے خطرات کا ٹھیکہ اٹھانے والی کمپنی لمیٹڈ کمپنی الگ سے قائم ہوگئی ہے۔ آج کل اس کی انعامی اسکیم پر حکومتی کمیٹی کے فنڈ سے کام ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ کو احتساب عدالت کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ بلاامتیاز احتساب کی پالیسی پر قائم رہتے ہوئے حکومت کی قائم کردہ کمیٹیوں کے حسابات روز اول سے آج تک چیک کرے چند دنوں میں معلوم ہوجائے گا، پرمٹ چیک کرے 30 سال کے کم ازکم تو ایک اور ''مجھے بھی کیوں پکڑا'' کا دھرنا اور نعرہ سننے اور دیکھنے کو ملے گا۔ اگر مل جائے تو دو گز زمین اور اگر گورکن مہربان رہے تو طویل عرصے تک جسد خاکی قبر میں ہی سوکھتا رہے گا، بصورت دیگر وہی محاورہ ''خود کردہ اور کہنا اللہ جانے' کون لے گیا۔'' مگر نہ ملا نہ غازی، نہ سیاست دان اور چمچہ کفگیر کارکن کوئی اس پر توجہ دینے کو تیار ہے سب کو آج کی پڑی ہے، کل کی فکر کسی کو نہیں، اپنے ہی ڈبونے کے عمل میں روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں، مہمان اداکار بھی اپنے ہیں، خاندان کا ایک شخص وزارت اعلیٰ کی پریکٹس کر رہا ہے، تو دوسرا وزیر اعظم کی کرسی پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔

بلاول، شہباز پردے میں تو نواز آصف بے پردہ، جب یہ حجاب میں تو شہباز بلاول آپے سے باہر۔ بلاول جیسا بھی ہے آصف زرداری کے ہاتھوں اس کے ضایع ہونے کا افسوس ہے۔ یہ اس وقت ہی ہوسکتا تھا جب بے نظیر کو راستے سے ہٹا دیا جاتا اور ایسا ہی ہوا بے نظیر کا تربیت کردہ بلاول یہ نہ ہوتا جو سیاست کے نام پر اوروں کی طرح بد زبانی کر رہا ہے بے نظیر کی زبان سیاسی اور مہذب تھی۔

عمران خان اور نواز شریف جنگ کا فائدہ زرداری اٹھانے کا سوچ رہے ہیں اور مگر آپ کا اوپنر بہت کمزور ہے اور عمران نے سلپ میں اچھے فیلڈر کھڑے کیے ہیں اور لانگ آن پر بھی کیچ پکڑنے کا بندوبست ہے ''چھکا'' کیسے لگے گا اور زرداری تو سنگل رن بھی لینے کے لائق نہیں ہر چند کہ سینئر سیاستدانوں کا میچ ہو۔

ایک اور قصہ آپ نے بچپن میں سنا ہوگا کہ والد کی وفات کے بعد اولادوں میں جائیداد کی تقسیم کا معاملہ عدالت میں گیا۔ ایک طویل عرصے تک معاملہ چلا اور جب فیصلہ ہوا تو مکان وکیل کی فیس میں چلا گیا اور ایک درخت وارثوں کے حصے میں آیا۔ ان سیاستدانوں نے پاکستان کا یہ حال کردیا ہے جو آیا عیش آرام، کاروں کے قافلے، جہازوں کو ساتھ رکھا ان کے بس میں نہیں تھا ورنہ بحری جہاز بھی گھر کے باہر کھڑے رکھتے۔

پاکستان کو قرضوں میں ڈبو دیا، جو بچے پیدا بھی نہیں ہوئے وہ بھی مقروض اور ابھی دل نہیں بھرا، مجرم قرار دیے جاچکے سزا ہوئی ''مجھے کیوں نکالا'' کہتے ہیں برابر کا موقع ملنا چاہیے۔ مجھے بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے تو مزہ ہے۔

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا


نہیں جینا تو مرنے کا مزہ کیا

ایک وہ جو بیوی کی وجہ سے صدر بن گئے، کیونکہ ہم جذباتی لوگ ہیں، قاتل مقتول کا فرق بھی بھول جاتے ہیں، یہ ہم نہیں کہتے پرویز مشرف کی انگلی اس جانب ہے، اب مرحومہ کے بیٹے کو ''ٹرمپ کارڈ'' بنالیا ہے۔ کہتے ہیں سب کچھ سکھادیا ہے، اب اسٹیئرنگ وہیل میں سنبھالوں گا۔ صدر کا لطف اٹھاچکے ''بریانی'' باقی ہے یعنی وزیر اعظم کی سیٹ جاتے جاتے اس کا بھی مزہ کیوں نہ لے لیا جائے۔

ایک نے فاٹا کو دبا رکھا ہے۔ یہاں دین ایمان بھی بازی ہار گئے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا کیا یہ پہلا معاملہ ہے ہمیشہ ایسا ہوا ہے، ہار گئے تو شرم آرہی ہے وہاں بیٹھتے۔

جب سے میں اپنا کالم ''گھر پانی پر'' لکھ رہا ہوں اور یہ شاید تیسرا سال پورا ہونے جا رہا ہے۔ ہر ماہ کم ازکم ایک بار ضرور میں نے مسائل کا حل پنجاب کی تقسیم کو قرار دیا ہے اور اس کا نام پنجاب ون اور ٹو تک تجویز کیا، لوگوں کو مشکل لگتا تھا اب وہ وقت آگیا ہے۔

اگر جنوبی پنجاب کے سیاستدان دیانتداری سے کھڑے رہے تو پنجاب اور پاکستان کے مسائل حل سمجھیے۔ ورنہ تاریک راہیں! خاندانی پنجاب سے پنجاب کو آزاد کرائیں، فاٹا کے ارکان بھی وہاں سے سرخ اور دوسرے رنگوں کی سیاست ختم کرکے جدید دور میں داخل ہوجائیں۔ حقوق حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں، پاکستان بھی تو حاصل کیا تھا، اب وہ ناانصافیاں نہ ہوں جو قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے اور بے گھر ہونے والوں کے ساتھ ہوئیں، یہ ایک تاریخی بات ہے اور حقیقت بھی! سندھ کو ہی لے لیں، سوائے چند، کوئی چار پانچ خاندانوں کے علاوہ سارے سندھ پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔

عمارتوں پر آج بھی ہندوؤں کے نام ہیں اور رہنے چاہئیں یہ تاریخ ہے اسے مسخ نہ کریں۔ اب 2018 میں ایسا لگتا ہے جیسے کہ سندھ میں صرف مسلمان تھے، بے شک تھے مگر وہ حیثیت نہیں تھی کہ آج بیٹا صوبائی اسمبلی میں اٹک اٹک کر کاغذ پڑھ رہا ہے۔ آج ہر تیسرا چوتھا ''وڈیرہ'' ہے یہ 47ء میں کہاں سو رہے تھے۔ ننگے پیروں کے نیچے سے اچانک کھیت، کھلیان، جائیداد کہاں سے نکل آئی ہندو مالکوں کی جائیدادوں پر پہلے قبضے کرنے والے آج اہل زر ہیں اور جدوجہد کرنے والے خانہ بدوش، تلخ حقیقت ہے مگر سچ ہے بے ایمان اور ایماندار دونوں قوموں میں ہیں۔

خیبر سے کراچی تک سب اپنی تقدیر بدلنے میں لگے ہیں ملک کی تقدیر کا اللہ مالک ہے۔ یہ تیرا ہے یہ میرا چل رہا ہے۔ میں لوٹوں گا، میں کھاؤں گا، اب میری باری ہے، اب موٹر جہاز میرے ہیں، میرا نام لکھو یہ میں نے بنایا ہے یہ سڑک میری ہے کوئی نہ گزرے یہاں سے۔

راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

اور موت کا فرشتہ دور کھڑا مسکرا رہا ہے۔ کل من علیھا فان۔
Load Next Story