کارکردگی کی بے قدری

ریلوے تباہ ہوچکی تھی جو بڑی حد تک بحال ہوئی ہے جب کہ اور کوئی ایسا محکمہ نہیں ہے جس کی کارکردگی بہتر ہوئی ہو۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سندھ و پنجاب کے بعد بلوچستان اور کے پی کے کا دورہ کرکے چاروں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بھی دیکھ لی اور کسی بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی کی تعریف تو کیا کسی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار بھی نہیں کیا ۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی گڈ گورننس اور دیگر معاملات پر سخت برہمی ظاہرکی تو پنجاب حکومت کو محکمہ تعلیم کا بیڑا غرق کردینے کا ذمے دار ٹھہرایا ۔ بلوچستان حکومت کی کارکردگی کو سندھ سے بھی بد تر قرار دیا گیا اور ترقی و تبدیلی کے دعوے کرنے والے عمران خان کے دعوؤں کی بھی قلعی کھول دی اور وزیراعلیٰ کے پی کے کو طلب کرکے پوچھا کہ وہ ترقی کہاں ہے کہ جس کے دو سال سے دعوے کیے جا رہے ہیں ۔

پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت روتی رہی کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انھیں کام نہیں کرنے دیا حالانکہ اس وقت کے صدر نے غیر آئینی طور پر چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنادیا تھا، مگر کوئی عدالتی ایکشن نہیں لیا گیا تھا ۔

اے این پی کے وزیراعلیٰ ہوتی کو سب سے کرپٹ کہا گیا اور ان کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ٹرینیں گھنٹوں نہیں دنوں کی تاخیر اور جگہ جگہ ڈیزل ختم ہوجانے کے بعد منزل مقصود پر پہنچتی تھیں مگر اے این پی کو خوش رکھنے کے لیے کوئی ایکشن لیا نہ کبھی وزیر ریلوے کو طلب کرکے ان کی سرزنش کی گئی تھی ۔

وفاق سندھ اور بلوچستان کی کرپشن پر کبھی سوالات نہیں اٹھے تھے۔ اس لحاظ سے پی پی کی تین حکومتیں خوش قسمت تھیں کہ انھیں موجود چیف جسٹس جیسا فوری جوابدہی کرنے والا میاں ثاقب نثار نہیں ملا تھا۔ تب عدلیہ کے حکومتوں کے معاملات میں اتنی مداخلت نہیں تھی البتہ سوموٹو ایکشن لے کر بہتری ضرور نظر آئی تھی جس پر پی پی کی حکومت چیف جسٹس کے اقدامات سے ناراض تھی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال اب اپنی حکومت کے ختم ہونے پر کہہ رہے ہیں کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہوچکا ہے۔


سول افسران خوفزدہ ہیں۔ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں اور حکومت کلرکی کررہی ہے اگر ایسی ہی صورتحال ہے تو مسلم لیگ ن ایسی مفلوج حکومت چھوڑ کیوں نہیں رہی، ایک روز پہلے تک حکومت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور مدت مکمل پوری کرنا چاہ رہے ہیں موجودہ صورتحال میں حکومت کی شکایات کافی حد تک درست بھی ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا سفیر اور من پسند افسر نہیں لگا پا رہی۔

عمران خان اور شیخ رشید چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو سزا ہو اور وہ اڈیالہ جیل جائیں جہاں صفائی بھی شروع کرادی گئی ہے۔ کوئی ان دونوں سے نہیں پوچھ رہا کہ عدالت سے قبل یہ دونوں فیصلے کیوں سناکر معاملہ متنازعہ کررہے ہیں اور یہ اختیار دونوں نے کہاں سے حاصل کیا ۔ صورتحال تو یہ ہے کہ بہن کے قتل میں ملوث مبینہ قاتل بہن چند ہفتوں میں جیل سے باہر آجاتی ہے اور ماں باپ بھائی کے مبینہ قتل کی ملزمہ بیس سال جیل میں رہ کر عدالتی فیصلے پر رہا ہوجاتی ہے۔

نچلی عدالت کا فیصلہ کالعدم ہوجاتا ہے اور اسما نواب کو سپریم کورٹ سے انصاف مل جاتا ہے، اسما کو سزا دلانے والا پولیس افسر مرچکا۔ اسے سزا دینے والے کہاں ہیں جس کی جواب طلبی ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کہ کوئی بے گناہ انیس سال جیل میں رہا ہوا ،کسی کو اس کے مرنے کے بعد سپریم کورٹ سے بے گناہی کا پروانہ ملا اور دونوں اہم فیصلے سپریم کورٹ سے ہوئے۔

نواز شریف کا کہناہے کہ عدلیہ اپنے اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات نمٹائے جو زیر التوا ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فعال ہونے سے بقول وزیر داخلہ کہ سویلین افسر خوفزدہ ہیں ۔ مسلم لیگ ن لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اقتدار میں آئی تھی جس نے فوج کی مدد سے ملک سے دہشت گردی بڑی حد تک ختم کرائی جس کے بعد صرف ایک محکمہ ایسا ہے جس میں 5 سالوں میں نمایاں بہتری نظر آئی ، جس کا کریڈٹ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو جاتا ہے۔

جس نے اپنے ہی محکمے کی کارکردگی اپنے ہی افسروں سے بہتر بنائی ، جس کا ثبوت یہ ہے کہ بند ٹرینیں چلیں اور عوام کے اعتماد سے ٹرینوں میں جگہ نہیں مل رہی، نئی اور بند گاڑیاں چلیں اور تقریباً وقت پر پہنچ رہی ہیں۔ ریلوے تباہ ہوچکی تھی جو بڑی حد تک بحال ہوئی ہے جب کہ اور کوئی ایسا محکمہ نہیں ہے جس کی کارکردگی بہتر ہوئی ہو۔

وزیر ریلوے کا کہنا درست ہے کہ اچھے کام کی تعریف نہ کی جائے تو کام کرنے والوں کی دل شکنی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح چیف جسٹس عوام کے مسائل حل کرارہے ہیں تو سیاسی طور پر ان پر بھی اعتراضات ہو رہے ہیں۔ بلاول زرداری کا کہناہے کہ جج نہیں ان کے فیصلوں کو بدلنا چاہیے تو ججوں کے فیصلے ہی تو بول رہے ہیں ۔ سیاسی حکومتوں کے جھوٹ ججوں کے دوروں سے کھل رہے ہیں اور ہر ایک کی کارکردگی ظاہر ہو رہی ہے۔
Load Next Story