انتخابات اور خلائی مخلوق کی منطق
پہلی بار پاکستان کی سیاست میں شریف خاندان کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
پاکستان میں انتخابی سیاست ، نتائج اور حکومت کی تشکیل کا معاملہ کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوا اوراس میں کسی نہ کسی شکل میں اسٹیبلیشمنٹ بھی فریق رہی ہے ۔مسئلہ محض مقامی اسٹیبلیشمنٹ کا ہی نہیں بلکہ اب تو انتخابی سیاست اور نتائج پر دنیا میں موجود عالمی اسٹیبلیشمنٹ بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مکمل منصفانہ اور شفاف انتخابات ہمارے جیسے ملکوں میں ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان کے طور پر موجود رہے ہیں ۔ہماری انتخابی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ انتخابات کو جیتنے والا شفاف اور ہارنے والا دھاندلی قرار دیتا ہے ، جو انتخابی ساکھ کو متاثر کرتا ہے ۔
2018کے انتخابات کے نتائج کے تناظر میں ابتدا ہی میں سب سے زیادہ تحفظات سابق وزیر اعظم نواز شریف پیش کررہے ہیں ۔ ان کے بقول پس پردہ قوتوں یا اسٹیبلیشمنٹ نے ان کا راستہ روکنے یا ان کو دیوار سے لگانے کے لیے مخالفین کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔
نواز شریف نے عوامی جلسوں میں نئی منطق دی ہے۔ ان کے بقول ان کا مقابلہ عمران خان یا آصف علی زرداری سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے ۔ یقینی طور پر نواز شریف پاکستان کی سیاست اور اقتدار کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات کا کھیل کیسے کسی کے حق میں او رکسی کی مخالفت میں سجایا جاتا ہے ،خود نواز شریف کی مجموعی سیاست بھی اسی پس پردہ قوتوں یا خلائی مخلوق کے کھیل سے جڑی رہی اور وہ اقتدار کا حصہ بنتے رہے ہیں۔
نواز شریف انتخابات سے قبل جو سیاسی بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں اس میں اب ان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اعلی کارکردگی سے زیادہ اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ ہے ۔وہ عوامی سطح پر ووٹروں اور رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں میں اسی نکتہ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں کہ اس وقت جو کچھ سیاسی اور قانونی محاذ پر ان کے خلاف ہورہا ہے وہ ایک منصوبہ بندی پر مبنی سازش ہے۔
بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی، سینیٹ کے انتخابات، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب اور جنوبی پنجاب میں نئے سیاسی دھڑے کی تشکیل کو وہ ان ہی پس پردہ قوتوں کے کھیل سے جوڑ کر عوامی سطح پر اپنے لیے ہمدردی کی لہر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مسئلہ پر اب نواز شریف تنہا نہیں بلکہ وزیر اعظم اور نواز شریف کے اہم ساتھی بھی یہ دہائی دے رہے ہیں کہ انتخابات خلائی مخلوق کرائے گی اور مرضی کے نتائج حاصل کرے گی۔
پہلی بار پاکستان کی سیاست میں شریف خاندان کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔عمومی طورپر ان کی مجموعی سیاست میں طاقت ور فریقین کے ساتھ سمجھوتے کی سیاست کو بالادستی حاصل رہی ہے ۔اس بار بھی ان کا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ نکال لیں گے ۔نواز شریف جس انداز سے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ بھی خود ان کی پیدا کردہ سیاسی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے ۔جب پارلیمنٹ اور سیاسی ادارے اپنا کام نہیں کریں گے تو کچھ اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے ۔نواز شریف نے خود اداروں کو یہ موقع دیا کہ وہ سیاسی فیصلوں میں شریک ہوں اورجب ادارے ان کی خواہش پر ان حساس معاملات پر حصہ دار بن کر ایسے فیصلے کرنے لگے جو نواز شریف کے لیے قابل قبول نہ تھے تو اداروں کی تضحیک کا عمل شروع کردیا گیا۔
اب نواز شریف جس خلائی مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر ان پر طاقت ور اداروں کا خوف ہے ۔پہلے وہ اور ان کے ساتھی یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ دو اہم ادارے مل کر نواز شریف کی حکومت سمیت سیاسی نظام کی بساط کو لپیٹنا چاہتے ہیں ۔مگر سب نے دیکھا ایسا کچھ نہیں ہوا اورایک بار پھرہماری حکومت اور پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرکے انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں ۔اگر وہ خود اقتدار میں نہ ہوں، پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہوں تو ان کو لگتا ہے کہ سیاسی نظام کمزور اور کسی کے ہاتھوں میں یرغمال بن گیا ہے ۔ان کی جانب سے ایک اور نئی منطق بھی دی گئی ہے یعنی جو لوگ ان کو اور ان کی جماعت کو ووٹ دیں گے توو ہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونگے ، جب کہ جو لوگ عمران خان ، زرداری سمیت دیگر جماعتوں کو ووٹ دیں گے تو وہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھی ہونگے ۔یعنی ان کو پڑنیوالا ووٹ جمہوریت اور مخالف کا ووٹ اسٹیبلیشمنٹ کے حق میں سمجھا جائے گا۔
اس امکان کو اب یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ2013کے انتخابات کے نتائج کو قبول نہ کرنے کا جو فیصلہ عمران خان نے کیا تھا آیندہ یہ کام شریف برادران کر رہے ہونگے ۔اس کی ایک جھلک نواز شریف کی جانب سے پری پول رگنگ، ان کی جماعت کے لوگوں کی وفاداریوں کو تبدیل کرنا اور پس پردہ قوتوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت کے تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے ۔آج جب نواز شریف خلائی مخلوق کے کردار کو بہت زیادہ مضبوط بنا کرپیش کررہے ہیں تو یہ ان کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سمیت سیاسی قوتوں نے جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی بجائے ساری توجہ ذاتیات پر مبنی سیاست کو طاقت دینے میں لگائی تھی ۔
اس لیے اسٹیبلیشمنٹ کا طاقت ور ہونا خود سیاسی جماعتوں کی کمزور سیاست کا نتیجہ ہے ۔نواز شریف اور ان کا خاندان کیونکہ اس وقت قانونی محاذ پر نیب میں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ کچھ عرصہ میں ان مقدمات کا فیصلہ ہونا ہے ۔نواز شریف محسوس کررہے ہیں جو اس وقت جوڈیشل ایکٹوازم ہے اور جس انداز سے نیب سمیت دیگر ادارے فعال ہوئے ہیں تو ان کا بچنا مشکل ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ عوامی سطح پر اپنی بے گناہی ثابت کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ خلائی مخلوق ان کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اپنے خلاف لگائے گئے الزامات پر ایسے ثبوت پیش نہیں کرسکے جو ان کی بے گناہی کو ثابت کرسکیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف ایک طرف عدالتی جنگ سے پھنس کر رہ گئے ہیں اور دوسری جانب ان کی سیاست کے بنیادی گڑھ پنجاب میں ان کو اپنے شدید مخالف عمران خان کی بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے ۔ وہ لاکھ کہیں کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں خلائی مخلوق سے ہے ، لیکن سیاسی میدان میں ان کا اصل حریف عمران خان ہی ہے ۔ خود عمران خان نے بھی یہ ہی اعتراف کیا ہے کہ ان کا بھی اصل مقابلہ پنجاب میں نواز شریف سے ہے ۔بنیادی طور پر نواز شریف اپنے ووٹر کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان سے نہ ڈریں بلکہ اصل ہماری مخالف اسٹیبلیشمنٹ ہے ،لیکن ووٹر اور ان کے اپنے ارکان اسمبلی سمجھ رہے ہیں کہ حالات ان کے حق میں کم او رمخالفت میں زیادہ ہے۔
نواز شریف بنیادی طور پر انتخابات کے نتائج کے تناظر میں اپنا مقدمہ تیار کررہے ہیں وہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر یہ نکتہ اجاگر کرکے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف یہ سارا کھیل اسٹیبلیشمنٹ کا پیدا کردہ ہے ۔ بہرحال وہ لاکھ خلائی مخلوق کا ذکر کریں ان کی بڑی ناکامیوں میں دوسروں سے زیادہ خود ان کی اپنی ضد اور سیاسی ہٹ دھرمی کا بھی قصور ہے جس کو وہ جانتے ہیں مگر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مکمل منصفانہ اور شفاف انتخابات ہمارے جیسے ملکوں میں ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان کے طور پر موجود رہے ہیں ۔ہماری انتخابی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ انتخابات کو جیتنے والا شفاف اور ہارنے والا دھاندلی قرار دیتا ہے ، جو انتخابی ساکھ کو متاثر کرتا ہے ۔
2018کے انتخابات کے نتائج کے تناظر میں ابتدا ہی میں سب سے زیادہ تحفظات سابق وزیر اعظم نواز شریف پیش کررہے ہیں ۔ ان کے بقول پس پردہ قوتوں یا اسٹیبلیشمنٹ نے ان کا راستہ روکنے یا ان کو دیوار سے لگانے کے لیے مخالفین کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔
نواز شریف نے عوامی جلسوں میں نئی منطق دی ہے۔ ان کے بقول ان کا مقابلہ عمران خان یا آصف علی زرداری سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے ۔ یقینی طور پر نواز شریف پاکستان کی سیاست اور اقتدار کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات کا کھیل کیسے کسی کے حق میں او رکسی کی مخالفت میں سجایا جاتا ہے ،خود نواز شریف کی مجموعی سیاست بھی اسی پس پردہ قوتوں یا خلائی مخلوق کے کھیل سے جڑی رہی اور وہ اقتدار کا حصہ بنتے رہے ہیں۔
نواز شریف انتخابات سے قبل جو سیاسی بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں اس میں اب ان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اعلی کارکردگی سے زیادہ اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ ہے ۔وہ عوامی سطح پر ووٹروں اور رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں میں اسی نکتہ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں کہ اس وقت جو کچھ سیاسی اور قانونی محاذ پر ان کے خلاف ہورہا ہے وہ ایک منصوبہ بندی پر مبنی سازش ہے۔
بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی، سینیٹ کے انتخابات، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب اور جنوبی پنجاب میں نئے سیاسی دھڑے کی تشکیل کو وہ ان ہی پس پردہ قوتوں کے کھیل سے جوڑ کر عوامی سطح پر اپنے لیے ہمدردی کی لہر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مسئلہ پر اب نواز شریف تنہا نہیں بلکہ وزیر اعظم اور نواز شریف کے اہم ساتھی بھی یہ دہائی دے رہے ہیں کہ انتخابات خلائی مخلوق کرائے گی اور مرضی کے نتائج حاصل کرے گی۔
پہلی بار پاکستان کی سیاست میں شریف خاندان کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔عمومی طورپر ان کی مجموعی سیاست میں طاقت ور فریقین کے ساتھ سمجھوتے کی سیاست کو بالادستی حاصل رہی ہے ۔اس بار بھی ان کا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ نکال لیں گے ۔نواز شریف جس انداز سے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ بھی خود ان کی پیدا کردہ سیاسی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے ۔جب پارلیمنٹ اور سیاسی ادارے اپنا کام نہیں کریں گے تو کچھ اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے ۔نواز شریف نے خود اداروں کو یہ موقع دیا کہ وہ سیاسی فیصلوں میں شریک ہوں اورجب ادارے ان کی خواہش پر ان حساس معاملات پر حصہ دار بن کر ایسے فیصلے کرنے لگے جو نواز شریف کے لیے قابل قبول نہ تھے تو اداروں کی تضحیک کا عمل شروع کردیا گیا۔
اب نواز شریف جس خلائی مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر ان پر طاقت ور اداروں کا خوف ہے ۔پہلے وہ اور ان کے ساتھی یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ دو اہم ادارے مل کر نواز شریف کی حکومت سمیت سیاسی نظام کی بساط کو لپیٹنا چاہتے ہیں ۔مگر سب نے دیکھا ایسا کچھ نہیں ہوا اورایک بار پھرہماری حکومت اور پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرکے انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں ۔اگر وہ خود اقتدار میں نہ ہوں، پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہوں تو ان کو لگتا ہے کہ سیاسی نظام کمزور اور کسی کے ہاتھوں میں یرغمال بن گیا ہے ۔ان کی جانب سے ایک اور نئی منطق بھی دی گئی ہے یعنی جو لوگ ان کو اور ان کی جماعت کو ووٹ دیں گے توو ہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونگے ، جب کہ جو لوگ عمران خان ، زرداری سمیت دیگر جماعتوں کو ووٹ دیں گے تو وہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھی ہونگے ۔یعنی ان کو پڑنیوالا ووٹ جمہوریت اور مخالف کا ووٹ اسٹیبلیشمنٹ کے حق میں سمجھا جائے گا۔
اس امکان کو اب یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ2013کے انتخابات کے نتائج کو قبول نہ کرنے کا جو فیصلہ عمران خان نے کیا تھا آیندہ یہ کام شریف برادران کر رہے ہونگے ۔اس کی ایک جھلک نواز شریف کی جانب سے پری پول رگنگ، ان کی جماعت کے لوگوں کی وفاداریوں کو تبدیل کرنا اور پس پردہ قوتوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت کے تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے ۔آج جب نواز شریف خلائی مخلوق کے کردار کو بہت زیادہ مضبوط بنا کرپیش کررہے ہیں تو یہ ان کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سمیت سیاسی قوتوں نے جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی بجائے ساری توجہ ذاتیات پر مبنی سیاست کو طاقت دینے میں لگائی تھی ۔
اس لیے اسٹیبلیشمنٹ کا طاقت ور ہونا خود سیاسی جماعتوں کی کمزور سیاست کا نتیجہ ہے ۔نواز شریف اور ان کا خاندان کیونکہ اس وقت قانونی محاذ پر نیب میں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ کچھ عرصہ میں ان مقدمات کا فیصلہ ہونا ہے ۔نواز شریف محسوس کررہے ہیں جو اس وقت جوڈیشل ایکٹوازم ہے اور جس انداز سے نیب سمیت دیگر ادارے فعال ہوئے ہیں تو ان کا بچنا مشکل ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ عوامی سطح پر اپنی بے گناہی ثابت کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ خلائی مخلوق ان کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اپنے خلاف لگائے گئے الزامات پر ایسے ثبوت پیش نہیں کرسکے جو ان کی بے گناہی کو ثابت کرسکیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف ایک طرف عدالتی جنگ سے پھنس کر رہ گئے ہیں اور دوسری جانب ان کی سیاست کے بنیادی گڑھ پنجاب میں ان کو اپنے شدید مخالف عمران خان کی بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے ۔ وہ لاکھ کہیں کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں خلائی مخلوق سے ہے ، لیکن سیاسی میدان میں ان کا اصل حریف عمران خان ہی ہے ۔ خود عمران خان نے بھی یہ ہی اعتراف کیا ہے کہ ان کا بھی اصل مقابلہ پنجاب میں نواز شریف سے ہے ۔بنیادی طور پر نواز شریف اپنے ووٹر کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان سے نہ ڈریں بلکہ اصل ہماری مخالف اسٹیبلیشمنٹ ہے ،لیکن ووٹر اور ان کے اپنے ارکان اسمبلی سمجھ رہے ہیں کہ حالات ان کے حق میں کم او رمخالفت میں زیادہ ہے۔
نواز شریف بنیادی طور پر انتخابات کے نتائج کے تناظر میں اپنا مقدمہ تیار کررہے ہیں وہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر یہ نکتہ اجاگر کرکے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف یہ سارا کھیل اسٹیبلیشمنٹ کا پیدا کردہ ہے ۔ بہرحال وہ لاکھ خلائی مخلوق کا ذکر کریں ان کی بڑی ناکامیوں میں دوسروں سے زیادہ خود ان کی اپنی ضد اور سیاسی ہٹ دھرمی کا بھی قصور ہے جس کو وہ جانتے ہیں مگر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔