پرویز مشرف نے ججوں کو نظربند کیا جو دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے عدالتی فیصلہ

پولیس کل تک پرویز مشرف کو فرار کرانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں رپورٹ پیش کرے، عدالتی حکم

پرویز مشرف کمرہ عدالت سے سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ فوٹو: آئی این پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عبوری ضمانت منسوخ ہونے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے فرار کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت سے فرار ہونا اور اسے فرار کرانا ایک اور جرم ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے لکھا گیا تحریری فیصلہ 6 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججوں کو نظر بند کرنا دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے، پرویز مشرف کے فرار ہونے کی ذمہ دار پولیس ہے، عدالت نے پولیس سے کل تک پرویز مشرف کو فرار کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل یک رکنی بینچ نے ججز نظر بندی کیس میں سابق صدر پرویز کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ صرف غلط اقدام کو کالعدم قرار دینا کافی نہیں، غلط کام کے ذمے دار کو بھی منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس موقع پر جسٹس شوکت نے یہ مصرعہ پڑھا، ''میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں، تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے''۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نظر بند کیا جا سکتا ہے تو ان کی کیا حیثیت ہے، پرویز مشرف نے ملکی عدالتی نظام کو تباہ کیا اور ججز کو حبس بےجا میں رکھنے سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔


سابق صدر کے وکیل قمر افضل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اُن کے موکل نے 3نومبر 2007 کو ملک میں ذاتی حیثیت میں ایمرجنسی نہیں لگائی تھی بلکہ کابینہ اور وزیر اعظم کی ایڈوائس پر لگائی گئی تھی۔ 3 نومبر 2007 کو اعلی عدالتوں کے ججز کو حبس بےجا میں نہیں رکھا بلکہ اُن کی سیکورٹی کے لیے باڑ لگائی گئی تھی، جس پر جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ باڑ لگانے کا حکم نہیں دیا تو ہٹانے کا حکم تو دیا جاسکتا تھا۔

عدالت عالیہ نے سابق صدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا اُن کے موکل کبھی تفتیش کے لیے تھانے گئے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل جو اس مقدمے میں وفاق کی نمائندگی کر رہے ہیں کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود پرویز مشرف کبھی بھی متعلقہ تھانے یا تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اپنے خلاف مقدمات کا سامنے کرنے کی بجائے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آئے تھے۔عدالت علیہ نے عبوری ضمانت منسوخ کرتے ہوئے ججز کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کرنے کا حکم دیا تو پولیس کی موجودگی میں پرویز مشرف کی سیکیورٹی پر معمور اہلکار انہیں اپنی حفاظتی حصار میں لےکر کمرہ عدالت سے لے کر فرار ہوگئے۔

 

 
Load Next Story