ملکی حالات عوام جائیں تو کدھر جائیں
پھر قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم بچپن میں دعائیں کرکرکے تھک جاتے تھے کہ پاکستان کی ٹیم میچ جیت جائے
ملکی حالات کروٹ کروٹ بدل رہے ہیں، موجودہ حکومت ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں لیکن مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی، پھر تاحیات نااہلی، پھر وزیرخارجہ خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی، پھر ن لیگ کے بیشتراراکین اسمبلی کا دوسری جماعتوں میں جانا، پھر جنوبی پنجاب محاذ کا شروع ہونا، پھر چوہدری نثار جیسے سینئر رہنماؤں کا پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کرنااور اب وزیر خارجہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہونا (جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے) یہ سب کچھ ایک طرف مگر سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ حکمران جماعت مسلسل اداروں سے ٹکرا رہی ہے۔
اب جب کہ الیکشن کا سیزن شروع ہوچکا ہے، ہر جماعت، ہرکارکن، ہررہنما، ہراینکر، ہر صحافی، الغرض ہر میڈیا ہاؤس مکمل تیاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے لیکن اگر کوئی کنفیوز نظر آرہا ہے تو وہ عوام ہیں، پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں یہاں کے باسی 1954ء سے لے کر آج تک 13واں الیکشن دیکھنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ہر بار کنفیوز دکھائی دیتے ہیں، لیکن اس بار کنفیوژن کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ جب سب کچھ ''فکس'' ہے تو کون سا ووٹ، کیسا ووٹ، کیسی ووٹ کی عزت اور کہاں کی عزت؟ اور ویسے بھی پاکستان میں کل ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز میں سے 3.5کروڑ یعنی 42فیصد ووٹر ووٹ کاسٹ کرتا ہے، اس میں سے بھی 30، 40فیصد ووٹ جعلی ڈالے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی ہزاروں ووٹ ایسے ووٹ ہیں جو پچھلے الیکشن کی طرح سڑکوں اور کچرے میں پڑے ملتے ہیں۔
اس بار جیت اسی کی ہے وغیرہ وغیرہ ... آپ خود دیکھ لیں عمران خان کے بقول 2013ء کا الیکشن فکس تھا اور یہی بات پہلے زرداری اور پیرپگاڑا بھی کہہ چکے ہیں، چوہدری شجاعت حسین کے بقول 2008ء کا الیکشن فکس تھا اور امریکا بینظیر بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا تھا، ایک سینئرترین صحافی کے بقول عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا بھی فکس تھا۔ اس سے پہلے والے الیکشنز کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ سب فکس تھے تو ایسے میں پھر وہی بات کہ کیسا ووٹ کیسی عزت!
پھر قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم بچپن میں دعائیں کرکرکے تھک جاتے تھے کہ پاکستان کی ٹیم میچ جیت جائے، اب تھوڑا شعور آیا تو پتہ چلا ہے کہ میچ تو فکس ہوا کرتے تھے۔ پھر افغان جہاد میں ہم نے روس کو بددعائیں دیں، مجاہدین کو فنڈز بھی دیے، پتہ چلا وہ بھی فکس تھا، پیپلزپارٹی کے لیے جیالوں نے ماریں کھائیں، کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں، پھانسیاں لگیں، پتہ چلا کہ یہ لوگ حکومت کے ساتھ ملی بھگت کرتے رہے اور جیالے بے خبر ماریں کھاتے رہے۔
اب سنا ہے کہ فیض آباد دھرنا بھی فکس تھا جہاں لوگ مرے، گرفتار ہوئے اور وطن عزیز کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔عوام پریشان ہیں ، بھوک سے مررہے ہیں اور حکمران چہیتے کو سفیر واشنگٹن لگانا چاہتے تھے اور حکم بھی صادر فرما دیا، یہ تو بھلا ہوا اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہ حکم جاری ہوا کہ موصوف فی الحال یہیں رُکیں۔ جیبیں ٹٹولو تو ہرلیڈر کی جیب میں کسی غیرملک کا اقامہ پڑا ہے۔ یہ نون لیگی قیادت کا اعلیٰ اعزاز ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کررہے ہیں اور ورک پرمٹ کسی اور ملک کے بغل میں دبائے ہوئے ہیں۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
ایسا تماشا یورپ کے کسی ملک میں لگے، وہاں کوئی وزیر یا مشیر امارات کا سعودیہ کا ورک پرمٹ رکھے تو نہ صرف اُس کی سیاسی موت واقع ہو جائے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ شرم تو دُور کی بات ہے دندناتے پھر رہے ہیں کہ ''ہمارا قصور کیا ہے'' اور ''ہمیں کیوں نکالا''۔ ادھر جمہوریت جمہوریت کا نعرہ لگانے والے کروڑوں کی گاڑیوںمیں گھومتے اور لاکھوں کے کپڑے اور زیورات پہنتے ہیں۔ ان کی چھینک کا علاج بھی ملک سے باہر ہوتا ہے۔ چاہے منتخب ہونے کے بعد ان کے نمایندے باقی پورے پانچ سال شکل بھی نہ دکھائیں۔
بہرکیف! خدارا اپنے ووٹ کی اتنی کم قیمت نہ لگائیں۔ اس مرتبہ وقتی فائدہ کے بجائے دائمی اور اجتماعی فائدہ کے لیے ووٹ دیجیے اور اگر اب کوئی نعرہ لگاتا ہے ''ووٹ کو عزت دو'' تو عوام کا نعرہ ہونا چاہیے ''پانی دو، بجلی دو، تعلیم دو، روزگار دو، صحت دو، پارکس دو، لائبریری دو، صفائی دو، آگے بڑھنے کے یکساں مواقعے دو، امن دو، ووٹر کو عزت دو'' جب کہ ان حکمرانوں کے نزدیک یہی نعرے مختلف اشکال میں یکسر بدل چکے ہیں کہ ''ووٹ کو عزت دو، ووٹر کو ذلت دو، ووٹر سے سب کچھ چھین لو، ووٹر کو جہالت دو، ووٹر کو فریب دو''۔
حد تو یہ ہے کہ عوام یہ بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، راقم اکثردوست احباب سے کہتا ہے کہ پاکستان کے حالات جس طرح خراب کردیے گئے ہیں، انھیں کوئی معجزہ ہی ٹھیک کرسکتا ہے اور یہ معجزہ انقلاب کی صورت میں ہی آسکتا ہے جب حکمران جماعتیں سسٹم کو بچانے کے بجائے شخصیات کو بچانے کی جنگیں لڑرہی ہوتی ہیں، فرانس کا انقلاب بھی اسی طرح کا انقلاب تھا جس میں غریب آدمی نے محلات سے نکال نکال کر سرمایہ داروں کے گلے کاٹ دیے تھے۔ تبھی فرانس ''فرانس'' بن گیا اور وہ دن دُور نہیں جب پاکستان بھی ''پاکستان'' بن جائے گا۔
اب جب کہ الیکشن کا سیزن شروع ہوچکا ہے، ہر جماعت، ہرکارکن، ہررہنما، ہراینکر، ہر صحافی، الغرض ہر میڈیا ہاؤس مکمل تیاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے لیکن اگر کوئی کنفیوز نظر آرہا ہے تو وہ عوام ہیں، پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں یہاں کے باسی 1954ء سے لے کر آج تک 13واں الیکشن دیکھنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ہر بار کنفیوز دکھائی دیتے ہیں، لیکن اس بار کنفیوژن کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ جب سب کچھ ''فکس'' ہے تو کون سا ووٹ، کیسا ووٹ، کیسی ووٹ کی عزت اور کہاں کی عزت؟ اور ویسے بھی پاکستان میں کل ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز میں سے 3.5کروڑ یعنی 42فیصد ووٹر ووٹ کاسٹ کرتا ہے، اس میں سے بھی 30، 40فیصد ووٹ جعلی ڈالے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی ہزاروں ووٹ ایسے ووٹ ہیں جو پچھلے الیکشن کی طرح سڑکوں اور کچرے میں پڑے ملتے ہیں۔
اس بار جیت اسی کی ہے وغیرہ وغیرہ ... آپ خود دیکھ لیں عمران خان کے بقول 2013ء کا الیکشن فکس تھا اور یہی بات پہلے زرداری اور پیرپگاڑا بھی کہہ چکے ہیں، چوہدری شجاعت حسین کے بقول 2008ء کا الیکشن فکس تھا اور امریکا بینظیر بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا تھا، ایک سینئرترین صحافی کے بقول عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا بھی فکس تھا۔ اس سے پہلے والے الیکشنز کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ سب فکس تھے تو ایسے میں پھر وہی بات کہ کیسا ووٹ کیسی عزت!
پھر قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم بچپن میں دعائیں کرکرکے تھک جاتے تھے کہ پاکستان کی ٹیم میچ جیت جائے، اب تھوڑا شعور آیا تو پتہ چلا ہے کہ میچ تو فکس ہوا کرتے تھے۔ پھر افغان جہاد میں ہم نے روس کو بددعائیں دیں، مجاہدین کو فنڈز بھی دیے، پتہ چلا وہ بھی فکس تھا، پیپلزپارٹی کے لیے جیالوں نے ماریں کھائیں، کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں، پھانسیاں لگیں، پتہ چلا کہ یہ لوگ حکومت کے ساتھ ملی بھگت کرتے رہے اور جیالے بے خبر ماریں کھاتے رہے۔
اب سنا ہے کہ فیض آباد دھرنا بھی فکس تھا جہاں لوگ مرے، گرفتار ہوئے اور وطن عزیز کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔عوام پریشان ہیں ، بھوک سے مررہے ہیں اور حکمران چہیتے کو سفیر واشنگٹن لگانا چاہتے تھے اور حکم بھی صادر فرما دیا، یہ تو بھلا ہوا اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہ حکم جاری ہوا کہ موصوف فی الحال یہیں رُکیں۔ جیبیں ٹٹولو تو ہرلیڈر کی جیب میں کسی غیرملک کا اقامہ پڑا ہے۔ یہ نون لیگی قیادت کا اعلیٰ اعزاز ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کررہے ہیں اور ورک پرمٹ کسی اور ملک کے بغل میں دبائے ہوئے ہیں۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
ایسا تماشا یورپ کے کسی ملک میں لگے، وہاں کوئی وزیر یا مشیر امارات کا سعودیہ کا ورک پرمٹ رکھے تو نہ صرف اُس کی سیاسی موت واقع ہو جائے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ شرم تو دُور کی بات ہے دندناتے پھر رہے ہیں کہ ''ہمارا قصور کیا ہے'' اور ''ہمیں کیوں نکالا''۔ ادھر جمہوریت جمہوریت کا نعرہ لگانے والے کروڑوں کی گاڑیوںمیں گھومتے اور لاکھوں کے کپڑے اور زیورات پہنتے ہیں۔ ان کی چھینک کا علاج بھی ملک سے باہر ہوتا ہے۔ چاہے منتخب ہونے کے بعد ان کے نمایندے باقی پورے پانچ سال شکل بھی نہ دکھائیں۔
بہرکیف! خدارا اپنے ووٹ کی اتنی کم قیمت نہ لگائیں۔ اس مرتبہ وقتی فائدہ کے بجائے دائمی اور اجتماعی فائدہ کے لیے ووٹ دیجیے اور اگر اب کوئی نعرہ لگاتا ہے ''ووٹ کو عزت دو'' تو عوام کا نعرہ ہونا چاہیے ''پانی دو، بجلی دو، تعلیم دو، روزگار دو، صحت دو، پارکس دو، لائبریری دو، صفائی دو، آگے بڑھنے کے یکساں مواقعے دو، امن دو، ووٹر کو عزت دو'' جب کہ ان حکمرانوں کے نزدیک یہی نعرے مختلف اشکال میں یکسر بدل چکے ہیں کہ ''ووٹ کو عزت دو، ووٹر کو ذلت دو، ووٹر سے سب کچھ چھین لو، ووٹر کو جہالت دو، ووٹر کو فریب دو''۔
حد تو یہ ہے کہ عوام یہ بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، راقم اکثردوست احباب سے کہتا ہے کہ پاکستان کے حالات جس طرح خراب کردیے گئے ہیں، انھیں کوئی معجزہ ہی ٹھیک کرسکتا ہے اور یہ معجزہ انقلاب کی صورت میں ہی آسکتا ہے جب حکمران جماعتیں سسٹم کو بچانے کے بجائے شخصیات کو بچانے کی جنگیں لڑرہی ہوتی ہیں، فرانس کا انقلاب بھی اسی طرح کا انقلاب تھا جس میں غریب آدمی نے محلات سے نکال نکال کر سرمایہ داروں کے گلے کاٹ دیے تھے۔ تبھی فرانس ''فرانس'' بن گیا اور وہ دن دُور نہیں جب پاکستان بھی ''پاکستان'' بن جائے گا۔