تحمل مزاجی کی فضیلت و اہمیت
اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر وتحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ۔۔۔
تحمل کا مفہوم
''تحمل'' کا لفظ ''حمل'' سے بنا ہے، جس کے معنیٰ ''بوجھ اٹھانا '' ، ''برداشت کرنا'' ، '' بُرد باری کا مظاہرہ کرنا'' اور ''نرمی اختیار کرنا'' کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں ناگوار باتوں میں برداشت سے کام لینا اور ناموافق حالات میں نرمی اور تواضع کا اظہار کرنا ''تحمل'' کہلاتا ہے۔ اسی معنیٰ میں ''حلم'' بمعنیٰ '' بُرد بار'' بھی استعمال کیا جا تا ہے۔
تحمل کی حقیقت
اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ گویا یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں بیک وقت کار فرما ہوتے ہیں۔ تحمل و برداشت کے سلسلے میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ انتقام کی قدرت نہ ہونے اور انتقام نہ لے سکنے کی مجبوری و کم زوری کا نام تحمل نہیں ہے بلکہ انتقام کی پوری طاقت رکھنے کے باوجود غصے کو پی جانا اور عفوودرگزر سے کام لینا ہی'' تحمل'' کہلاتا ہے۔
بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مطلب اور فائدے کی خاطر انسان کسی دوسرے کی سختی اور برائی کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور خاموشی اختیار کرلیتا ہے لیکن یہ تحمل نہیں ہے، کیوں کہ ایسا ایک وقتی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر کیا جاتا ہے، اپنی عادت اور صفت کے پیش نظر نہیں کیا، اس لیے اس عمل کو بھی تحمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تحمل کی اہمیت
اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت ''حلم'' بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور حلیم ہے اور اپنے بندوں کے گناہوں، خطائوں، لغزشوں اور غلطیوں سے صرفِ نظر فرما کر معاف فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی قوت و طاقت کا منبع ہے، جزا و سزا دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے لیکن اپنی شانِ کریمی کی وجہ سے وہ اپنے بندوں کو سزا نہیں دیتا بلکہ معاف فرما دیتا ہے اور اپنے بندوں کی غلطیوں، گناہوں اور کوتاہیوں پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت اور ڈھیل دے کر گناہوں اور غلطیوں سے باز آنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع عطا فرماتا ہے، یہ سب اس کی شانِ حلم کی وجہ سے ہے۔
رسول اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا تحمل
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور آپؐ کو صفت ''حلم '' سے بھی نوازا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے کبھی اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ اپنے جانی دشمن، اہل بیت اور صحابہ کرامؓ پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کو بھی معاف فرما دیا۔ ایسے کئی واقعات ہیں، جن میں سے ایک واقعہ فتح مکہ کا بھی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب پورا مکہ مکرمہ آپؐ کے رحم وکرم پر تھا اور تمام قریشِ مکہ عاجز و مجبور تھے لیکن اس کے باوجود بھی حضور اکرمؐ نے شان رحمت اور شانِ حلم کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خون کے پیاسوں، صحابہ کرامؓ پر سرزمین مکہ تنگ کرنے والوں، غلام صحابۂ کرامؓ کو ظلم وستم کا نشانہ بنانے اور انہیں بے دردی سے شہید کرنے والوں کو بھی یہ کہہ کر معاف فرما دیا کہ : ''جو ہتھیار ڈال دے اس کے لیے امان ہے، جو اپنے گھر کا درازہ بند کر لے اس کے لیے امان ہے، جو مسجد میں داخل ہو جائے اس کے لیے امان ہے اور جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لیے بھی امان ہے۔''
واقعۂ افک میں تحمل کی اعلیٰ مثال
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ: '' حضور نبی کریمؐ نے کبھی کسی سے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا، سوائے اس صورت کے کہ کسی نے احکامِ خداوندی کی نافرمانی کی ہو۔'' (بخاری ومسلم)
نبی اکرمؐ کو مکی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم متعدد بار آزمائشوں، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپؐ نے ہر موقع پر نہ صرف خود صبروتحمل، استقامت اور عفوودرگزر کا عظیم مظاہرہ کیا بلکہ صحابہ کرامؓ کو بھی صبر وتحمل کی تاکید و تلقین فرمائی۔ ''واقعہ افک'' میں آپؐ اور آپ کے گھرانے کو ایک سخت آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑا لیکن اس سخت ترین آزمائش کے موقع پر بھی آپؐ نے کمال صبروتحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ اس واقعے میں حضور نبی کریمؐ کے ساتھ ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور آپ کے والد گرامی امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بھی سخت آزمائش اور امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔
واقعہ افک ایک ایسا موقع تھا جہاں شاید صبروتحمل کے پیکر کا دامن بھی صبر و استقامت سے لبریز ہو جاتا۔ واقعہ افک سے مراد وہ واقعہ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دامن ِعفت و عزت کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی آیاتِ مبارکہ نازل فرما کر آپ کی پاک دامنی اور عفت و پاکیزگی کو روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح کر دیا۔
نبی اکرمؐ نے غصے پر قابو رکھنے کو اصل طاقت قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی (پہلوانی) میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے (نفس کے) اوپر قابو رکھتا ہے۔'' (صحیح بخاری)
جو شخص انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود دوسروں کو معاف کر دیتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ چناںچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : ''حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ''اے میرے رب آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا '' وہ بندہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔'' (مشکوٰۃ المصابیح)
صلح حدیبیہ میں صحابہ کرام کا تحمل
مسلمانوں اور قریش کے درمیان ایک تحریری معاہدہ 6 ہجری /628ء میں طے پایا تھا جس کے نتیجے میں رسول اکرمؐ نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قریش کی جانبدارانہ اور یک طرفہ مفادات پر مشتمل یہ معاہدہ منظور فرما لیا تھا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کر دکھایا کہ صلح حدیبیہ کا فائدہ مسلمانوں کو ہوا، کیوںکہ رسول اکرمؐ نے نگاہِ نبوت سے دیکھ لیا تھا کہ کفار قریش اس معاہدے کی پاسداری نہیں کر سکیں گے۔
رسول اکرمؐ نے صلح کی شرائط تحریر کرنے کی ذمہ داری حضرت علیؓ کو دی۔ حضرت علیؓ نے شرائط لکھنے سے قبل ''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم'' لکھا لیکن سہیل بن عمرو نے کہا کہ عرب دستور کے مطابق ''باسمک اللھم'' لکھا جائے۔ حضوراکرمؐ نے حضرت علیؓ کو یہی لکھنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد یہ لکھا جانا تھا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ ﷺ اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے پایا اور جب ''محمد رسول اللہ'' لکھا گیا تو سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا کہ'' محمد بن عبداللہ'' لکھا جائے ۔ حضور اکرمؐ نے اس شرط کو بھی منظور کر لیا۔
اس طرح یک طرفہ مفادات، مسلمانوں کے نکتہ نظر سے سخت شرائط اور قریش کی من مانیوں نے مسلمان کو شدید اضطراب سے دوچار کر دیا لیکن مسلمانوں نے اس کڑے وقت میں بڑے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس معاہدہ کی پاسداری پر عمل درآمد کیا۔
صلح حدیبیہ کے بعد ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے قریش کی طاقت کو مزید کم زور کردیا اور بالآخر قریش نے خود ہی بدعہدی کر کے صلح حدیبیہ توڑ دیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ واپس لوٹ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح نازل فرمائی اور اس میں مسلمانوں کو فتح مبین کی نوید سنائی۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' بے شک ہم نے آپ کو روشن فتح عطا فرما دی تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے تمہارے اگلوں اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دے اور تم کو سیدھے راستے پر چلائے اور اللہ تمہاری زبردست مدد فرمائے، وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر اطمینان نازل فرمایا تاکہ ان کے ایمان کی حالت کو مزید بڑھا دے اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے۔'' (الفتح:۴۔۱)
حضور اکرمؐ نے جب یہ خوش خبری اہل ایمان کو سنائی تو مسلمانوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ صلح حدیبیہ سے جو کسی حد تک مایوسی کی فضا قائم تھی اس کیفیت کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمان ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ مصروفِ عمل ہو گئے۔
''تحمل'' کا لفظ ''حمل'' سے بنا ہے، جس کے معنیٰ ''بوجھ اٹھانا '' ، ''برداشت کرنا'' ، '' بُرد باری کا مظاہرہ کرنا'' اور ''نرمی اختیار کرنا'' کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں ناگوار باتوں میں برداشت سے کام لینا اور ناموافق حالات میں نرمی اور تواضع کا اظہار کرنا ''تحمل'' کہلاتا ہے۔ اسی معنیٰ میں ''حلم'' بمعنیٰ '' بُرد بار'' بھی استعمال کیا جا تا ہے۔
تحمل کی حقیقت
اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ گویا یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں بیک وقت کار فرما ہوتے ہیں۔ تحمل و برداشت کے سلسلے میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ انتقام کی قدرت نہ ہونے اور انتقام نہ لے سکنے کی مجبوری و کم زوری کا نام تحمل نہیں ہے بلکہ انتقام کی پوری طاقت رکھنے کے باوجود غصے کو پی جانا اور عفوودرگزر سے کام لینا ہی'' تحمل'' کہلاتا ہے۔
بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مطلب اور فائدے کی خاطر انسان کسی دوسرے کی سختی اور برائی کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور خاموشی اختیار کرلیتا ہے لیکن یہ تحمل نہیں ہے، کیوں کہ ایسا ایک وقتی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر کیا جاتا ہے، اپنی عادت اور صفت کے پیش نظر نہیں کیا، اس لیے اس عمل کو بھی تحمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تحمل کی اہمیت
اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت ''حلم'' بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور حلیم ہے اور اپنے بندوں کے گناہوں، خطائوں، لغزشوں اور غلطیوں سے صرفِ نظر فرما کر معاف فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی قوت و طاقت کا منبع ہے، جزا و سزا دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے لیکن اپنی شانِ کریمی کی وجہ سے وہ اپنے بندوں کو سزا نہیں دیتا بلکہ معاف فرما دیتا ہے اور اپنے بندوں کی غلطیوں، گناہوں اور کوتاہیوں پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت اور ڈھیل دے کر گناہوں اور غلطیوں سے باز آنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع عطا فرماتا ہے، یہ سب اس کی شانِ حلم کی وجہ سے ہے۔
رسول اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا تحمل
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور آپؐ کو صفت ''حلم '' سے بھی نوازا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے کبھی اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ اپنے جانی دشمن، اہل بیت اور صحابہ کرامؓ پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کو بھی معاف فرما دیا۔ ایسے کئی واقعات ہیں، جن میں سے ایک واقعہ فتح مکہ کا بھی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب پورا مکہ مکرمہ آپؐ کے رحم وکرم پر تھا اور تمام قریشِ مکہ عاجز و مجبور تھے لیکن اس کے باوجود بھی حضور اکرمؐ نے شان رحمت اور شانِ حلم کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خون کے پیاسوں، صحابہ کرامؓ پر سرزمین مکہ تنگ کرنے والوں، غلام صحابۂ کرامؓ کو ظلم وستم کا نشانہ بنانے اور انہیں بے دردی سے شہید کرنے والوں کو بھی یہ کہہ کر معاف فرما دیا کہ : ''جو ہتھیار ڈال دے اس کے لیے امان ہے، جو اپنے گھر کا درازہ بند کر لے اس کے لیے امان ہے، جو مسجد میں داخل ہو جائے اس کے لیے امان ہے اور جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لیے بھی امان ہے۔''
واقعۂ افک میں تحمل کی اعلیٰ مثال
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ: '' حضور نبی کریمؐ نے کبھی کسی سے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا، سوائے اس صورت کے کہ کسی نے احکامِ خداوندی کی نافرمانی کی ہو۔'' (بخاری ومسلم)
نبی اکرمؐ کو مکی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم متعدد بار آزمائشوں، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپؐ نے ہر موقع پر نہ صرف خود صبروتحمل، استقامت اور عفوودرگزر کا عظیم مظاہرہ کیا بلکہ صحابہ کرامؓ کو بھی صبر وتحمل کی تاکید و تلقین فرمائی۔ ''واقعہ افک'' میں آپؐ اور آپ کے گھرانے کو ایک سخت آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑا لیکن اس سخت ترین آزمائش کے موقع پر بھی آپؐ نے کمال صبروتحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ اس واقعے میں حضور نبی کریمؐ کے ساتھ ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور آپ کے والد گرامی امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بھی سخت آزمائش اور امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔
واقعہ افک ایک ایسا موقع تھا جہاں شاید صبروتحمل کے پیکر کا دامن بھی صبر و استقامت سے لبریز ہو جاتا۔ واقعہ افک سے مراد وہ واقعہ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دامن ِعفت و عزت کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی آیاتِ مبارکہ نازل فرما کر آپ کی پاک دامنی اور عفت و پاکیزگی کو روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح کر دیا۔
نبی اکرمؐ نے غصے پر قابو رکھنے کو اصل طاقت قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی (پہلوانی) میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے (نفس کے) اوپر قابو رکھتا ہے۔'' (صحیح بخاری)
جو شخص انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود دوسروں کو معاف کر دیتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ چناںچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : ''حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ''اے میرے رب آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا '' وہ بندہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔'' (مشکوٰۃ المصابیح)
صلح حدیبیہ میں صحابہ کرام کا تحمل
مسلمانوں اور قریش کے درمیان ایک تحریری معاہدہ 6 ہجری /628ء میں طے پایا تھا جس کے نتیجے میں رسول اکرمؐ نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قریش کی جانبدارانہ اور یک طرفہ مفادات پر مشتمل یہ معاہدہ منظور فرما لیا تھا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کر دکھایا کہ صلح حدیبیہ کا فائدہ مسلمانوں کو ہوا، کیوںکہ رسول اکرمؐ نے نگاہِ نبوت سے دیکھ لیا تھا کہ کفار قریش اس معاہدے کی پاسداری نہیں کر سکیں گے۔
رسول اکرمؐ نے صلح کی شرائط تحریر کرنے کی ذمہ داری حضرت علیؓ کو دی۔ حضرت علیؓ نے شرائط لکھنے سے قبل ''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم'' لکھا لیکن سہیل بن عمرو نے کہا کہ عرب دستور کے مطابق ''باسمک اللھم'' لکھا جائے۔ حضوراکرمؐ نے حضرت علیؓ کو یہی لکھنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد یہ لکھا جانا تھا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ ﷺ اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے پایا اور جب ''محمد رسول اللہ'' لکھا گیا تو سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا کہ'' محمد بن عبداللہ'' لکھا جائے ۔ حضور اکرمؐ نے اس شرط کو بھی منظور کر لیا۔
اس طرح یک طرفہ مفادات، مسلمانوں کے نکتہ نظر سے سخت شرائط اور قریش کی من مانیوں نے مسلمان کو شدید اضطراب سے دوچار کر دیا لیکن مسلمانوں نے اس کڑے وقت میں بڑے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس معاہدہ کی پاسداری پر عمل درآمد کیا۔
صلح حدیبیہ کے بعد ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے قریش کی طاقت کو مزید کم زور کردیا اور بالآخر قریش نے خود ہی بدعہدی کر کے صلح حدیبیہ توڑ دیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ واپس لوٹ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح نازل فرمائی اور اس میں مسلمانوں کو فتح مبین کی نوید سنائی۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' بے شک ہم نے آپ کو روشن فتح عطا فرما دی تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے تمہارے اگلوں اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دے اور تم کو سیدھے راستے پر چلائے اور اللہ تمہاری زبردست مدد فرمائے، وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر اطمینان نازل فرمایا تاکہ ان کے ایمان کی حالت کو مزید بڑھا دے اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے۔'' (الفتح:۴۔۱)
حضور اکرمؐ نے جب یہ خوش خبری اہل ایمان کو سنائی تو مسلمانوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ صلح حدیبیہ سے جو کسی حد تک مایوسی کی فضا قائم تھی اس کیفیت کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمان ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ مصروفِ عمل ہو گئے۔