مذہبی جماعتوں میں فکری تبدیلی
اس کلچر کے فروغ میں ہماری مذہبی جماعتوں کی فکری تبدیلی ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں ایک مثبت فکری تبدیلی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے، جو طاقتیں موقع بے موقع ہنود و نصاریٰ کی باتیں کرکے عام سادہ لوح مسلمانوں میں فرقہ وارانہ منافرت کی آبیاری کرتی رہتی تھیں وہ اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی باتیں بھی کررہی ہیں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی بھی نظر آرہی ہیں۔
خاص طور پر لاہور میں مسیحی بستی کو آگ لگانے کے بعد مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے مسیحی برادری کے ساتھ جو دوستانہ اور برادرانہ جذبات کا اظہار کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری مذہبی جماعتوں میں ایک مثبت فکری تبدیلی پیدا ہورہی ہے جو نہ صرف ایک حوصلہ افزا بات ہے بلکہ ہماری قومی یکجہتی میں ایک موثر کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔ اگرچہ کہ بعض حلقے اس رویے کو انتخابی ضرورت سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن اگر ایسا ہے بھی تو اس کے مثبت اثرات سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ فکری تبدیلی بلاشبہ قابل تحسین ہے بشرطیکہ یہ فکری تبدیلی سیاسی ضرورتوں سے پاک ہو ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی تفریق، مذہبی منافرت، مذہبی تعصبات کا ایک طویل پس منظر ہے ۔ اب ہم نفرتوں تعصبات کے مضبوط کلچر سے بہت آگے نکل آئے ہیں اب ہم مسجدوں، مندروں، گرجاؤں اور پگوڈوں کے ساتھ ہر مذہب کے اکابرین کا احترام کرنا سیکھ رہے ہیں۔ اب انسانیت کی آواز بازگشت اتنی تیز، اتنی دوررس بن رہی ہے کہ انسانوں کی تقسیم کا ہر حوالہ انسانوں کی شناخت تک محدود ہوتا جارہا ہے۔
اس کلچر کے فروغ میں ہماری مذہبی جماعتوں کی فکری تبدیلی ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ہم خلوص دل سے اس فکری تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ ایک ایسے راستے پر چل پڑے گی جو امن، محبت اور بھائی چارے کا راستہ ہوگا اور بتدریج گلوبل حیثیت اختیار کرتا چلا جائے گا لیکن اس فکری تبدیلی کو مستحکم اور ناقابل ریخت بنانے کے لیے بعض ایسے امور کو سمجھنا ہوگا جو مذہبی منافرت کی کسی چنگاری کو جہنم کے شعلوں میں بدل دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر سانحہ لاہور کو لے لیں، یہ سانحہ دو تین ایسے افراد کی کارستانی تھا جو نشے کی حالت میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ نشے کی حالت میں اگر کوئی فرد یا افراد کسی مذہبی شخصیت کے خلاف کوئی ہذیان بکتا ہے تو اس کی کوئی اہمیت یا مقصدیت اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ فرد یا افراد اس جرم کے ارتکاب کے وقت ہوش ہی سے بیگانہ ہوتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں یا کس قسم کے سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اصل مجرم وہ ہوتے ہیں جو مدہوشی کے اس جرم کو انسانوں یا فرقوں کے درمیان نفرتیں پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سانحہ بادامی باغ کی وجہ بھی وہ لوگ ہیں جو جرم کی نوعیت کو سمجھے بغیر بے گناہ انسانوں کے گھروں کو آگ کی نذر کرنے لگ گئے، ہوسکتا ہے اس سانحے میں کوئی گروہی مقاصد موجود ہوں اور اس کی ابتدا چند بدنیت لوگوں نے کی ہو لیکن اصل مسئلہ ان لوگوں کی اس گندے کھیل میں شرکت کا ہے جو مذہب سے محبت کی دھن میں ہوش سے اتنے عاری ہوگئے کہ جرم کی نوعیت کو سمجھے بغیر آگ لگانے پر تل گئے۔ اس حوالے سے جہاں ہماری مذہبی جماعتوں کا کردار قابل تعریف رہا وہیں ان مسیحی رہنماؤں کے مثبت کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنی برادری کو کسی شدید ردعمل کے اظہار سے روکے رکھا۔ اگر مسیحی برادری کی طرف سے بھی کسی شدید اور پرتشدد ردعمل کا اظہار کیا جاتا تو یہ آگ کس قدر نقصان دہ ثابت ہوتی اس کا اندازہ کوئی مشکل بات نہیں۔
بدقسمتی سے برصغیر کی تاریخ فرقہ وارانہ محاذ آرائیوں سے بھری ہوئی ہے خاص طور پر پری پارٹیشن سے تقسیم کے بعد کی تاریخ اس حوالے سے بہت دردناک رہی ہے۔ اقلیتیں خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے ہو اکثریت کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتناء اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ اکثریت کے مقابلے میں کمزور بلکہ بے دست و پا ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان اگرچہ ایک بڑی اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن 80 فیصد اکثریت کے مقابلے میں 20 فیصد اقلیت کی طاقت اور بے بسی کا اندازہ کرنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
اگر ہندوستان کی مسلم اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو پاکستان کے مسلمانوں میں ایک اضطراب پیدا ہونا فطری اور منطقی بات ہے لیکن اب دنیا راجہ داہر کے دور سے بہت آگے آگئی ہے، اب کسی بھی ردعمل سے پہلے ہر قوم اپنے نفع نقصان کے بارے میں دس بار سوچتی ہے اور پھر اب نئی تشکیل پانے والی دنیا میں مذہب کے حوالے سے نہ صلیبی جنگوں کی تاریخ دہرانا ممکن ہے نہ 1947 کی تاریخ دہرانا آسان ہے۔ کیونکہ انسانی شعور اب اس قابل ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے بلکہ سنگین مسئلے کو بات چیت کے میکنزم سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر ''قومی مفادات'' کے سحر سے انسان باہر نکل آئے تو نہ صرف مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین جیسے دیرینہ مسائل حل ہوسکتے ہیں بلکہ انسان اپنی دنیا کو جنت میں تبدیل کرسکتا ہے۔ میں یہاں امریکا، شمالی کوریا اور ایران کی مثال دینا چاہوں گا۔
امریکا ابھی دنیا کی ایک سپر پاور ہے اگر وہ چاہے تو ان دونوں ملکوں کے ساتھ اپنے بالواسطہ تنازعات کو حل کرنے میں طاقت کا استعمال کرسکتا ہے، شمالی کوریا اور ایران امریکا کے مقابلے میں بہت چھوٹے ممالک ہیں لیکن آج کی امریکی قیادت کو ماضی کی امریکی قیادت کے مقابلے میں جنگ کی تباہ کاریوں اور خود اپنے نفع نقصان کا خیال ہے اسی لیے وہ اپنے اسٹرٹیجکل دشمن چین سے درخواست کررہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری یا اضافے سے روکے۔ ان دونوں ملکوں کے حوالے سے امریکا کی پالیسی جانبدارانہ اور مفاد پرستانہ ہے لیکن وہ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں بات چیت سے مسائل کے حل کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہے، وہ بادامی باغ کے سانحے میں محمد بن قاسم کا کردار ادا کرنے کے مضمرات سے واقف ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ہماری مذہبی جماعتوں میں فکری تبدیلی سے اور صلیبی جنگوں 1947 سے ہوتی ہوئی شمالی کوریا، امریکا اور ایران کے تنازعات تک جاپہنچی۔ کیا ہم بادامی باغ، صلیبی جنگوں، 1947 کی خونریزی، کشمیر، فلسطین، بھارتی مسلمانوں، شمالی کوریا، ایران اور امریکا کے تنازعات میں کوئی رشتہ تلاش کرسکتے ہیں؟ اس موقع پر میری خواہش ہے کہ میں اپنی محترم مذہبی جماعتوں سے اس خواہش کا اظہار کروں کہ وہ اپنی فکری تبدیلی کا دائرہ ذرا اور وسیع کریں اور ان حلقوں کی انسانوں سے کمٹمنٹ کو سمجھنے کی کوشش کریں جنھیں وہ لبرل اور سیکولر کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کو اب تک مذہبی فریضہ سمجھ رہی ہیں۔ لبرل اور سیکولر کا مطلب لادینیت بتا کر انسانیت کے ان محسنوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا جو فرقوں، فقہوں اور مذہبی منافرتوں کی تباہ کاریوں سے انسانوں کو بچا کر ان کے درمیان محبت، اخوت، بھائی چارے کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔
خاص طور پر لاہور میں مسیحی بستی کو آگ لگانے کے بعد مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے مسیحی برادری کے ساتھ جو دوستانہ اور برادرانہ جذبات کا اظہار کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری مذہبی جماعتوں میں ایک مثبت فکری تبدیلی پیدا ہورہی ہے جو نہ صرف ایک حوصلہ افزا بات ہے بلکہ ہماری قومی یکجہتی میں ایک موثر کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔ اگرچہ کہ بعض حلقے اس رویے کو انتخابی ضرورت سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن اگر ایسا ہے بھی تو اس کے مثبت اثرات سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ فکری تبدیلی بلاشبہ قابل تحسین ہے بشرطیکہ یہ فکری تبدیلی سیاسی ضرورتوں سے پاک ہو ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی تفریق، مذہبی منافرت، مذہبی تعصبات کا ایک طویل پس منظر ہے ۔ اب ہم نفرتوں تعصبات کے مضبوط کلچر سے بہت آگے نکل آئے ہیں اب ہم مسجدوں، مندروں، گرجاؤں اور پگوڈوں کے ساتھ ہر مذہب کے اکابرین کا احترام کرنا سیکھ رہے ہیں۔ اب انسانیت کی آواز بازگشت اتنی تیز، اتنی دوررس بن رہی ہے کہ انسانوں کی تقسیم کا ہر حوالہ انسانوں کی شناخت تک محدود ہوتا جارہا ہے۔
اس کلچر کے فروغ میں ہماری مذہبی جماعتوں کی فکری تبدیلی ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ہم خلوص دل سے اس فکری تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ ایک ایسے راستے پر چل پڑے گی جو امن، محبت اور بھائی چارے کا راستہ ہوگا اور بتدریج گلوبل حیثیت اختیار کرتا چلا جائے گا لیکن اس فکری تبدیلی کو مستحکم اور ناقابل ریخت بنانے کے لیے بعض ایسے امور کو سمجھنا ہوگا جو مذہبی منافرت کی کسی چنگاری کو جہنم کے شعلوں میں بدل دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر سانحہ لاہور کو لے لیں، یہ سانحہ دو تین ایسے افراد کی کارستانی تھا جو نشے کی حالت میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ نشے کی حالت میں اگر کوئی فرد یا افراد کسی مذہبی شخصیت کے خلاف کوئی ہذیان بکتا ہے تو اس کی کوئی اہمیت یا مقصدیت اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ فرد یا افراد اس جرم کے ارتکاب کے وقت ہوش ہی سے بیگانہ ہوتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں یا کس قسم کے سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اصل مجرم وہ ہوتے ہیں جو مدہوشی کے اس جرم کو انسانوں یا فرقوں کے درمیان نفرتیں پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سانحہ بادامی باغ کی وجہ بھی وہ لوگ ہیں جو جرم کی نوعیت کو سمجھے بغیر بے گناہ انسانوں کے گھروں کو آگ کی نذر کرنے لگ گئے، ہوسکتا ہے اس سانحے میں کوئی گروہی مقاصد موجود ہوں اور اس کی ابتدا چند بدنیت لوگوں نے کی ہو لیکن اصل مسئلہ ان لوگوں کی اس گندے کھیل میں شرکت کا ہے جو مذہب سے محبت کی دھن میں ہوش سے اتنے عاری ہوگئے کہ جرم کی نوعیت کو سمجھے بغیر آگ لگانے پر تل گئے۔ اس حوالے سے جہاں ہماری مذہبی جماعتوں کا کردار قابل تعریف رہا وہیں ان مسیحی رہنماؤں کے مثبت کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنی برادری کو کسی شدید ردعمل کے اظہار سے روکے رکھا۔ اگر مسیحی برادری کی طرف سے بھی کسی شدید اور پرتشدد ردعمل کا اظہار کیا جاتا تو یہ آگ کس قدر نقصان دہ ثابت ہوتی اس کا اندازہ کوئی مشکل بات نہیں۔
بدقسمتی سے برصغیر کی تاریخ فرقہ وارانہ محاذ آرائیوں سے بھری ہوئی ہے خاص طور پر پری پارٹیشن سے تقسیم کے بعد کی تاریخ اس حوالے سے بہت دردناک رہی ہے۔ اقلیتیں خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے ہو اکثریت کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتناء اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ اکثریت کے مقابلے میں کمزور بلکہ بے دست و پا ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان اگرچہ ایک بڑی اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن 80 فیصد اکثریت کے مقابلے میں 20 فیصد اقلیت کی طاقت اور بے بسی کا اندازہ کرنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
اگر ہندوستان کی مسلم اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو پاکستان کے مسلمانوں میں ایک اضطراب پیدا ہونا فطری اور منطقی بات ہے لیکن اب دنیا راجہ داہر کے دور سے بہت آگے آگئی ہے، اب کسی بھی ردعمل سے پہلے ہر قوم اپنے نفع نقصان کے بارے میں دس بار سوچتی ہے اور پھر اب نئی تشکیل پانے والی دنیا میں مذہب کے حوالے سے نہ صلیبی جنگوں کی تاریخ دہرانا ممکن ہے نہ 1947 کی تاریخ دہرانا آسان ہے۔ کیونکہ انسانی شعور اب اس قابل ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے بلکہ سنگین مسئلے کو بات چیت کے میکنزم سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر ''قومی مفادات'' کے سحر سے انسان باہر نکل آئے تو نہ صرف مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین جیسے دیرینہ مسائل حل ہوسکتے ہیں بلکہ انسان اپنی دنیا کو جنت میں تبدیل کرسکتا ہے۔ میں یہاں امریکا، شمالی کوریا اور ایران کی مثال دینا چاہوں گا۔
امریکا ابھی دنیا کی ایک سپر پاور ہے اگر وہ چاہے تو ان دونوں ملکوں کے ساتھ اپنے بالواسطہ تنازعات کو حل کرنے میں طاقت کا استعمال کرسکتا ہے، شمالی کوریا اور ایران امریکا کے مقابلے میں بہت چھوٹے ممالک ہیں لیکن آج کی امریکی قیادت کو ماضی کی امریکی قیادت کے مقابلے میں جنگ کی تباہ کاریوں اور خود اپنے نفع نقصان کا خیال ہے اسی لیے وہ اپنے اسٹرٹیجکل دشمن چین سے درخواست کررہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری یا اضافے سے روکے۔ ان دونوں ملکوں کے حوالے سے امریکا کی پالیسی جانبدارانہ اور مفاد پرستانہ ہے لیکن وہ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں بات چیت سے مسائل کے حل کی ضرورت اور اہمیت سے واقف ہے، وہ بادامی باغ کے سانحے میں محمد بن قاسم کا کردار ادا کرنے کے مضمرات سے واقف ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ہماری مذہبی جماعتوں میں فکری تبدیلی سے اور صلیبی جنگوں 1947 سے ہوتی ہوئی شمالی کوریا، امریکا اور ایران کے تنازعات تک جاپہنچی۔ کیا ہم بادامی باغ، صلیبی جنگوں، 1947 کی خونریزی، کشمیر، فلسطین، بھارتی مسلمانوں، شمالی کوریا، ایران اور امریکا کے تنازعات میں کوئی رشتہ تلاش کرسکتے ہیں؟ اس موقع پر میری خواہش ہے کہ میں اپنی محترم مذہبی جماعتوں سے اس خواہش کا اظہار کروں کہ وہ اپنی فکری تبدیلی کا دائرہ ذرا اور وسیع کریں اور ان حلقوں کی انسانوں سے کمٹمنٹ کو سمجھنے کی کوشش کریں جنھیں وہ لبرل اور سیکولر کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کو اب تک مذہبی فریضہ سمجھ رہی ہیں۔ لبرل اور سیکولر کا مطلب لادینیت بتا کر انسانیت کے ان محسنوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا جو فرقوں، فقہوں اور مذہبی منافرتوں کی تباہ کاریوں سے انسانوں کو بچا کر ان کے درمیان محبت، اخوت، بھائی چارے کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔