ہر ایک کا اپنا صحرا
سندھ میں تصوف کی تحریک زندگی بخش تحریک نہ بن سکی اسے حکومتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
تصوف نے سندھ کی سماجی و ثقافتی زندگی پر واضح اثرات مرتب کیے۔ جن میں محبت، مہمان نوازی، روا داری، بھائی چارے و رابطوں کی روشنی وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ کے علمائے کرام کی تعلیمات کا اثر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ابتدائی دورکے سندھی مسلم علما، مشائخ و مبلغین کا ذکر ملتا ہے۔ جن میں ابو اسحاق ابراہیم بن سندھی، احمد بن سندھی رازی، عبداﷲ بن حسن بن سندھی اندلسی، اسماعیل بن موسیٰ، ابو علی سندھی بغدادی، علی بن عبداﷲ سندھی کے نام قابل ذکر ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ خاندان غلامان و خلجی کے دور میں سلطنت میں توسیع کے ساتھ اسلام کا دائرہ وسیع ہوا ، مگر حکومت وقت ان علما و مشائخ کی اہمیت سے غافل رہی۔ اس دور کے اہم بزرگان دین میں خواجہ غریب نواز، بہاؤالدین زکریا ملتانی، مخدوم جہانیاں جہاں گشت، مخدوم لعل شہباز قلندر ودیگر علما کرام شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں تصوف کی تحریک زندگی بخش تحریک نہ بن سکی اسے حکومتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور شارح بھی دربار کے زیر اثر ملے۔ باوجود اس کے اس طرز فکر نے عوام کے دلوں میں شاعری کی توسط سے جگہ بنالی۔ شعر و موسیقی کا انوکھا رنگ، سندھ کی سماجی زندگی سے جھلکتا ہے۔ کتاب ہر ایک کے دسترس میں نہیں آتی مگر شاعری سروں میں ڈھل کر ذہن و روح کو گرمادیتی ہے۔
حضرت قلندر لعل شہباز کی سوچ کے اعجاز سے، سندھ نے صوفی فکر کے جلالی رنگ دیکھے۔ مستی و بے خودی میں ڈوبے احساس نے چار سو ہلچل برپا کردی، حضرت شہباز جب سندھ تشریف لائے تو ان کی ملاقات حضرت غوث بہاؤالحقؒ، حضرت فرید الدین شکر گنج اور حضرت جلال الدین سرخ بخاری سے ہوئی۔ قلندر شہباز، آذر بائیجان مروند سے ایران، مکران و بلوچستان کے راستے سندھ میں داخل ہوئے اور اس خطے کو اپنا مستقبل آستان بنا لیا۔ ان کی سندھ آمد 649ھ بمطابق1251ء کے دوران ہوئی۔
قلندر لعل شہباز کی فارسی میں نثری اور نظموں پر مبنی تصانیف کا تذکرہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر مخمور بخاری کے مطابق رچرڈ برٹن نے قلندر لعل شہبازؒ کی فارسی تصانیف کا ذکر کیا ہے جو گرامر کی کتابیں بتائی جاتی ہیں۔ جو کافی عرصے تک سندھ کے دینی مدارس میں پڑھائی جاتی رہیں۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ میزان الصرف، قسم رویہ، عقہ (فارسی وعربی پر مشتمل) جن میں ''میزان الصرف'' آج بھی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ہرو مل سدارنگانی نے کتاب Persian Poets of Sindh میں قلندر شہباز کو سندھ کا پہلا فارسی شاعر تسلیم کیا ہے۔ ان کے اشعار ''وحدت الوجود'' کے فلسفے کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ایک صوفی شاعر ہونے کے ساتھ عالم و لسانیات کے ماہر بھی مانے جاتے ہیں۔
حضرت لعل شہباز قلندر سندھ کے قدیم شہر سیہون میں آباد ہوئے۔ یہ ایک خوبصورت شہر ہے جو بھگوٹوڑو، پہاڑوں کے درمیان سحر انگیز منظر پیش کرتا ہے۔ فضائیں ایک بامعنی خاموشی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ قریب ہی کلی شاہ صدر، شفایاب پانی کا چشمہ اور قدیم غار واقع ہیں۔
تصوف کے فلسفے میں صوفی ایک ایسی سوچ اور رویہ ہے جس کا مکمل انحصار عمل کی طاقت پر ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندر نے اپنی نثر وشاعری میں انا، خودی اور تکبر کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے منہ زورگھوڑے کو سدھائے بغیر ہستی کا عرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ بقول کبیر کے ''یہ شدید زہر کی پوٹلی کی مانند ہے اور گرو امت کی کان جیون دان دے گرو ملے تو یہ سودا سستا جان''
روحانیت کی رمز میں سفر کے دشوار گزار راستے، من مارنا، تپسیا، مراقبہ، دھیان و گیان اور انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف کرنا شامل ہے۔ بغیر تکلیف کے روحانی رہبر معرفت کی منزلیں حاصل نہیں کر پاتا۔ لہٰذا رہنما بھی ایسا ڈھونڈنا پڑتا ہے جو راستوں کے راز جانتا ہو۔ اپنے شعر میں کہتے ہیں ''اگر خدا کا قرب چاہتے ہو تو خاموش ہوکر زندگی گزارو، دکھ درد میں بھی برداشت طالب کے ظرف کو جلا بخشتی ہے۔ اس سال بھی حضرت لعل شہباز قلندر کا 766 واں عرس منایا گیا۔ اس موقعے پر پورے پاکستان سے عقیدت مندوں کا وسیع و عریض ہجوم شرکت کرتا ہے۔ پنجاب سے آئے ہوئے ایک خاندان نے بتایاکہ وہ پورا سال پیسے جمع کرتے ہیں جو وہ گلک میں ڈالتے جاتے ہیں۔ ان پیسوں سے وہ سندھ کا سفر کرتے ہیں، اگر پیسے زیادہ ہوں تو وہ بکرا وغیرہ خرید کر خیرات کرتے ہیں۔
ان لوگوں کے درمیان گھومتے اور ان سے باتیں کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ طلب کی پیاس کے پیمانے کیسے چھلکتے ہیں۔ ہر سو! ہر ایک کی اپنی پیاس، ہر ایک کا اپنا صحرا۔
آپ کسی بھی مزار پر چلے جائیں سندھ کی شاہ عنایت شہید، سچل سرمست، عبدالرحیم گروھڑی یا شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ ہو، آپ کو ہر طرف دکھ بھری کہانیاں ملیںگی۔ عجیب ہی لوگ ملیںگے۔ بہت گہرے لوگ جو باہر سے خالی مگر اندر سے سر تا پا لبریز! خاص طور پر صوفی شعرا کے مزارعات عشق و آگہی کی عجیب تصویر کشی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دور دراز سے لوگ راگ سننے آتے ہیں۔
صوفی شاعری پر مبنی راگ کا اپنا الگ ہی سرور ہے۔ یہ سرور کہیں نہ کہیں مثبت تبدیلی لے کر آتا ہے کیونکہ یہ پیغام انسانیت کی محبت سے سرشار ہے۔قلندر لعل شہباز کے نزدیک الوہی مستی و پرسوز خاموشی کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ ایک بے چینی جو کیف میں سمٹ جاتی ہے مستی کا روپ دھار لیتی ہے اور سکوت، الہامی کیفیت کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ نزول، غیر معمولی، احساس ہے۔ اس وقت تمام حسیں متحرک ہوتی ہیں اور سوچ ایک نکتے پر مرکوز ہوجاتی ہے لہٰذا راز منکشف ہونے لگتے ہیں۔ لعل شہباز فرماتے ہیں:
''خاموشی تانبے جیسے وجود کو خالص سونا بنادیتی ہے۔ اچھا اب منہ گھٹنوں میں دے کر خاموشی سے وقت گزار''
سکون و خوشی دل کو سخت بنادیتی ہیں جتنے سکھ ہوںگے اتنی دنیا کی محبت بڑھے گی اور ربط باہمی میں کمی ہونے لگے گی۔ فرماتے ہیں۔
''دل کی زمین میں محبت کا بیج بکھیردو اور آنکھ کے آنسوؤں سے اس کی آبیاری کر''
روحانی منزلیں آسانی سے ہاتھ نہیں آتیں کیونکہ اکثر پرکھ کے آئینے میں ظرف کھوٹا سکہ بن جاتا ہے۔ ظرف کو مہانتا، دنیا کی لا تعلقی سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ دنیا کی محبت، وجود کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے۔ عارضی محبت کے اس جال سے باہر نکلنے کے لیے سالک کو جد وجہد کرنی پڑتی ہے۔ حضرت لعل شہباز فرماتے ہیں:
''مفلسی ایک الٰہی خزانہ ہے۔ فقر پر فخر کرتا ہوں، اس سے کوئی عار نہیں ہے۔ عثمان عاشقوں کی راہ کی خاک ہے۔ اس لیے اس کا وجود فنا ہوچکا ہے۔''
دوام بھی فنا کو حاصل ہے مگر فنا کا ہونے کا سلیقہ ہر کوئی نہیں سیکھتا۔
شہباز قلندر کے عرس کے موقعے پر روشنیوں کی کہکشاں زمین پر اتر آتی ہے۔ فضائیں گلاب و اگربتی سے مہکتی ہیں۔ دور دراز سے آنے والے دھرتی کی محبت سے سرشار، اس صوفی بزرگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو سیر و تفریح کی خاطر سندھ آیا مگر اس سرزمین کی پہچان بن گیا جس کے دروازے پر آکے من کے صحرا دریا بن جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ خاندان غلامان و خلجی کے دور میں سلطنت میں توسیع کے ساتھ اسلام کا دائرہ وسیع ہوا ، مگر حکومت وقت ان علما و مشائخ کی اہمیت سے غافل رہی۔ اس دور کے اہم بزرگان دین میں خواجہ غریب نواز، بہاؤالدین زکریا ملتانی، مخدوم جہانیاں جہاں گشت، مخدوم لعل شہباز قلندر ودیگر علما کرام شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں تصوف کی تحریک زندگی بخش تحریک نہ بن سکی اسے حکومتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور شارح بھی دربار کے زیر اثر ملے۔ باوجود اس کے اس طرز فکر نے عوام کے دلوں میں شاعری کی توسط سے جگہ بنالی۔ شعر و موسیقی کا انوکھا رنگ، سندھ کی سماجی زندگی سے جھلکتا ہے۔ کتاب ہر ایک کے دسترس میں نہیں آتی مگر شاعری سروں میں ڈھل کر ذہن و روح کو گرمادیتی ہے۔
حضرت قلندر لعل شہباز کی سوچ کے اعجاز سے، سندھ نے صوفی فکر کے جلالی رنگ دیکھے۔ مستی و بے خودی میں ڈوبے احساس نے چار سو ہلچل برپا کردی، حضرت شہباز جب سندھ تشریف لائے تو ان کی ملاقات حضرت غوث بہاؤالحقؒ، حضرت فرید الدین شکر گنج اور حضرت جلال الدین سرخ بخاری سے ہوئی۔ قلندر شہباز، آذر بائیجان مروند سے ایران، مکران و بلوچستان کے راستے سندھ میں داخل ہوئے اور اس خطے کو اپنا مستقبل آستان بنا لیا۔ ان کی سندھ آمد 649ھ بمطابق1251ء کے دوران ہوئی۔
قلندر لعل شہباز کی فارسی میں نثری اور نظموں پر مبنی تصانیف کا تذکرہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر مخمور بخاری کے مطابق رچرڈ برٹن نے قلندر لعل شہبازؒ کی فارسی تصانیف کا ذکر کیا ہے جو گرامر کی کتابیں بتائی جاتی ہیں۔ جو کافی عرصے تک سندھ کے دینی مدارس میں پڑھائی جاتی رہیں۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ میزان الصرف، قسم رویہ، عقہ (فارسی وعربی پر مشتمل) جن میں ''میزان الصرف'' آج بھی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ہرو مل سدارنگانی نے کتاب Persian Poets of Sindh میں قلندر شہباز کو سندھ کا پہلا فارسی شاعر تسلیم کیا ہے۔ ان کے اشعار ''وحدت الوجود'' کے فلسفے کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ایک صوفی شاعر ہونے کے ساتھ عالم و لسانیات کے ماہر بھی مانے جاتے ہیں۔
حضرت لعل شہباز قلندر سندھ کے قدیم شہر سیہون میں آباد ہوئے۔ یہ ایک خوبصورت شہر ہے جو بھگوٹوڑو، پہاڑوں کے درمیان سحر انگیز منظر پیش کرتا ہے۔ فضائیں ایک بامعنی خاموشی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ قریب ہی کلی شاہ صدر، شفایاب پانی کا چشمہ اور قدیم غار واقع ہیں۔
تصوف کے فلسفے میں صوفی ایک ایسی سوچ اور رویہ ہے جس کا مکمل انحصار عمل کی طاقت پر ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندر نے اپنی نثر وشاعری میں انا، خودی اور تکبر کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے منہ زورگھوڑے کو سدھائے بغیر ہستی کا عرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ بقول کبیر کے ''یہ شدید زہر کی پوٹلی کی مانند ہے اور گرو امت کی کان جیون دان دے گرو ملے تو یہ سودا سستا جان''
روحانیت کی رمز میں سفر کے دشوار گزار راستے، من مارنا، تپسیا، مراقبہ، دھیان و گیان اور انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف کرنا شامل ہے۔ بغیر تکلیف کے روحانی رہبر معرفت کی منزلیں حاصل نہیں کر پاتا۔ لہٰذا رہنما بھی ایسا ڈھونڈنا پڑتا ہے جو راستوں کے راز جانتا ہو۔ اپنے شعر میں کہتے ہیں ''اگر خدا کا قرب چاہتے ہو تو خاموش ہوکر زندگی گزارو، دکھ درد میں بھی برداشت طالب کے ظرف کو جلا بخشتی ہے۔ اس سال بھی حضرت لعل شہباز قلندر کا 766 واں عرس منایا گیا۔ اس موقعے پر پورے پاکستان سے عقیدت مندوں کا وسیع و عریض ہجوم شرکت کرتا ہے۔ پنجاب سے آئے ہوئے ایک خاندان نے بتایاکہ وہ پورا سال پیسے جمع کرتے ہیں جو وہ گلک میں ڈالتے جاتے ہیں۔ ان پیسوں سے وہ سندھ کا سفر کرتے ہیں، اگر پیسے زیادہ ہوں تو وہ بکرا وغیرہ خرید کر خیرات کرتے ہیں۔
ان لوگوں کے درمیان گھومتے اور ان سے باتیں کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ طلب کی پیاس کے پیمانے کیسے چھلکتے ہیں۔ ہر سو! ہر ایک کی اپنی پیاس، ہر ایک کا اپنا صحرا۔
آپ کسی بھی مزار پر چلے جائیں سندھ کی شاہ عنایت شہید، سچل سرمست، عبدالرحیم گروھڑی یا شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ ہو، آپ کو ہر طرف دکھ بھری کہانیاں ملیںگی۔ عجیب ہی لوگ ملیںگے۔ بہت گہرے لوگ جو باہر سے خالی مگر اندر سے سر تا پا لبریز! خاص طور پر صوفی شعرا کے مزارعات عشق و آگہی کی عجیب تصویر کشی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دور دراز سے لوگ راگ سننے آتے ہیں۔
صوفی شاعری پر مبنی راگ کا اپنا الگ ہی سرور ہے۔ یہ سرور کہیں نہ کہیں مثبت تبدیلی لے کر آتا ہے کیونکہ یہ پیغام انسانیت کی محبت سے سرشار ہے۔قلندر لعل شہباز کے نزدیک الوہی مستی و پرسوز خاموشی کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ ایک بے چینی جو کیف میں سمٹ جاتی ہے مستی کا روپ دھار لیتی ہے اور سکوت، الہامی کیفیت کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ نزول، غیر معمولی، احساس ہے۔ اس وقت تمام حسیں متحرک ہوتی ہیں اور سوچ ایک نکتے پر مرکوز ہوجاتی ہے لہٰذا راز منکشف ہونے لگتے ہیں۔ لعل شہباز فرماتے ہیں:
''خاموشی تانبے جیسے وجود کو خالص سونا بنادیتی ہے۔ اچھا اب منہ گھٹنوں میں دے کر خاموشی سے وقت گزار''
سکون و خوشی دل کو سخت بنادیتی ہیں جتنے سکھ ہوںگے اتنی دنیا کی محبت بڑھے گی اور ربط باہمی میں کمی ہونے لگے گی۔ فرماتے ہیں۔
''دل کی زمین میں محبت کا بیج بکھیردو اور آنکھ کے آنسوؤں سے اس کی آبیاری کر''
روحانی منزلیں آسانی سے ہاتھ نہیں آتیں کیونکہ اکثر پرکھ کے آئینے میں ظرف کھوٹا سکہ بن جاتا ہے۔ ظرف کو مہانتا، دنیا کی لا تعلقی سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ دنیا کی محبت، وجود کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے۔ عارضی محبت کے اس جال سے باہر نکلنے کے لیے سالک کو جد وجہد کرنی پڑتی ہے۔ حضرت لعل شہباز فرماتے ہیں:
''مفلسی ایک الٰہی خزانہ ہے۔ فقر پر فخر کرتا ہوں، اس سے کوئی عار نہیں ہے۔ عثمان عاشقوں کی راہ کی خاک ہے۔ اس لیے اس کا وجود فنا ہوچکا ہے۔''
دوام بھی فنا کو حاصل ہے مگر فنا کا ہونے کا سلیقہ ہر کوئی نہیں سیکھتا۔
شہباز قلندر کے عرس کے موقعے پر روشنیوں کی کہکشاں زمین پر اتر آتی ہے۔ فضائیں گلاب و اگربتی سے مہکتی ہیں۔ دور دراز سے آنے والے دھرتی کی محبت سے سرشار، اس صوفی بزرگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو سیر و تفریح کی خاطر سندھ آیا مگر اس سرزمین کی پہچان بن گیا جس کے دروازے پر آکے من کے صحرا دریا بن جاتے ہیں۔