میڈیااداروں کے بقایاجات کی الگ الگ فہرست سپریم کورٹ میں طلب

بتایاجائے کس طریقہ کاراورمعاہدے کے تحت ان اداروںکواشتہارات جاری کیے گئے،عدالت

سامنے آناچاہیے کس میڈیا گروپ کی کتنی رقم واجب الاداہے،جسٹس جوادایس خواجہ۔ فوٹو: فائل

لاہور:
()سپریم کورٹ نے سرکاری اشتہارات کیلیے رقوم جاری کرنے پرپابندی کیخلاف آل پاکستان نیوز پیپرزسوسائٹی اورپاکستان براڈکاسٹرزایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت23 اپریل منگل تک ملتوی کردی ہے۔

سپریم کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اے پی این ایس اور پاکستان براڈکاسٹرزایسوسی ایشن میںشامل ہرادارے کے واجب الادابقایاجات کی الگ الگ فہرست طلب کی ہے اور ہدایت کی ہے کہ عدالت کو آگاہ کیاجائے کہ کس طریقہ کاراورمعاہدے کے تحت ان اداروںکواشتہارات جاری کیے گئے،دوران سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس جوادایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اشتہارات کے بارے میںکیس ہم پہلے بھی سن چکے ہیںاوریہ جان چکے ہیںکہ حکومت کی طرف سے اشتہارات کس طرح جاری ہوتے ہیں،سادہ کیس ہے بس یہ سامنے آنا چاہیے کہ کس میڈیاگروپ کی کتنی رقم واجب الاداہ۔


، جسٹس جوادنے کہا تمام میڈیا گروپ سالہا سال سے چل رہے ہیں،کم ازکم عدالت کے دو ہفتے قبل کے آرڈر سے ملازمین کی تنخواہیں متاثر نہیں ہونی چاہئیں، فاضل جج نے کہا اس معاملے کا تعلق عوام کے فنڈز سے ہے اس لیے طریقہ کارکے مطابق چلیں گے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کوئی ادارہ یا آدمی اشتہار لینے کا اہل نہ ہو اور اسے بھی اشتہار دیا گیا ہے تو اس کی بھی نشاندہی کی جائے۔ قبل ازیں جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزارت اطلاعات نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام کل تک میں میزبان جاوید چوہدری کے ساتھ مہمان حامد میر اورابصارعالم کی گفتگو پراعتراض کیا۔

اس بارے میں وزارت اطلاعات کے وکیل نے پروگرام کی ریکارڈنگ کی سی ڈی اور متن پیش کیا۔ جسٹس جواد نے کہاعدالت کیخلاف بہت تحریکیں چلیں اور ہم نے دیکھ لیں، انھوں نے وزارت اطلاعات کے وکیل راجا عامر عباس کو ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں الگ سے درخواست دائرکریں پھرکھلی عدالت میں سب کے سامنے سماعت کی جائے گی۔ راجا عامر عباس نے شکایت کی کہ اس پروگرام میں انھیں براہ راست دھمکیاںدی گئی ہیں۔اے پی این ایس کے وکیل طارق سہیل نے کہاعدالت کے حکم کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں، انھوں نے کہا اے پی این ایس کے 362اور پی بی اے میں 69ارکان ہیں اور مجموعی طور پر ہزاروں لوگ ان اداروں سے وابستہ ہیں۔

وزارت اطلاعات کے نمائندے نے بتایا پی آئی ڈی کے پاس 1837اخبارات رجسٹرڈ ہیں، عدالت نے اس پر حیرانی کااظہارکیا ۔جسٹس جواد نے کہا یہ پوری دنیا کے اخبارات ہیں یا صرف ملک میں شائع ہوتے ہیں۔ایک موقع پر عدالت نے آبزرویشن دی کہ اگرکوئی ادارہ انفرادی حیثیت میں عدالت سے رجوع کرتا ہے تو پھر اس معاملے کو دیکھا جائے گا تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ اشتہارات کیلیے کسی انفرادی ادارے کے ساتھ معاہدہ نہیںکیا جا تا بلکہ اشتہاری ایجنسی کے ذریعے اشتہارات دیے جاتے ہیں۔
Load Next Story