انحراف کا اعتراف پہلے

نواز شریف تین بار اقتدار میں آئے مگر انھوں نے قومی اسمبلی کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔

PESHAWAR:
ووٹ کے احترام کو اہمیت دینے کا نیا سیاسی نعرہ میاں نواز شریف نے متعارف کرایا ہے جس کی حمایت مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے کی جا رہی ہے تو ان کے مخالفین کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ پہلے وہ خود ووٹ کو عزت دیں اور اپنے اقتدار میں ووٹ کو عزت نہ دینے کا اعتراف کریں اور معافی بھی مانگیں۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرنے والوں نے اپنی جاتی حکومت میں بھی ووٹوں سے منتخب اپنے کسی رکن پارلیمنٹ کی بجائے ایک غیر منتخب مشیرکو بجٹ والے روز ہی وزیر خزانہ کا حلف اٹھوا کر بجٹ پیش کرایا ہے جب کہ ایک منتخب وزیر مملکت برائے خزانہ بھی موجود تھے۔

خورشید شاہ کے جواب میں کہا گیا کہ کسی غیر منتخب کو آئین میں 6 ماہ کے لیے وزیر بنانے کی گنجائش موجود ہے اور بجٹ پر محنت کرنے والے شخص ہی کے ذریعے ایوان میں بجٹ پیش کرایا گیا ہے، اگر سینیٹر اسحق ڈار ملک سے باہر نہ ہوتے تو (ن) لیگی حکومت کے چھٹے بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈانھوں نے قائم کرنا تھا جن کے پیش کیے گئے ہر بجٹ کی تعریف پارٹی قیادت کا فرض اولین رہا ہے۔

اسحاق ڈار نے اپنے ایک بجٹ میں 50 ہزار روپے سے زائد رقم پر ٹیکس عائد کرکے جس طرح غریبوں کے لیے مسائل پیدا کیے تھے،اس ظلم کا حساب بھی حکومت نے دینا ہے کہ غریبوں نے مکان بنانے یا خریدنے، بچوں کی تعلیم، صحت اور شادیوں کے لیے جو رقم جمع کی تھی اس کو بھی ظالم بجٹ کی نظر لگ گئی تھی جو قوم اب تک بھگت رہی ہے اور یہ حکومتی بھتہ ٹیکس اب تک برقرار ہے جب کہ 50 ہزار روپے کی کوئی ویلیو ہی نہیں ہے کیونکہ ایک متوسط خاندان 50 ہزار روپے میں ایک ماہ گزارا بھی نہیں کرسکتا۔

اس جبری ٹیکس سے بینکوں کے ذریعے لین دین بری طرح متاثر ہوا ہے اور لوگ نقد لین دین پر مجبور ہیں مگر اسحق ڈار تو اس قدر زیادہ اہم ہیں جنھیں ملک سے باہر ہونے کے باوجود بھی سینیٹر بنایا گیا، جس نے کبھی کونسلر کا الیکشن تک نہیں لڑا تو وہ ووٹ دینے والوں کی کیا قدر کرتا۔


نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے جواب میں ہی پی ایس پی کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ووٹ نہیں ووٹر کو عزت دی جائے ۔ یہ جواب بھی درست ہے کیونکہ ووٹ ووٹر دیتا آیا ہے جس کو کبھی منتخب ہونے والوں ہی نے عزت تو کیا اہمیت ہی نہیں دی، جس کی وجہ سے ووٹروں نے ووٹ دینا ہی چھوڑ رکھے ہیں اور ووٹر الیکشن والے روز ووٹ دینے سے گھر میں موجود رہ کر ووٹ نہ دینا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ ووٹر کے ووٹ دینے نہ دینے سے ویسے ہی کوئی فرق نہیں پڑتا اور بوگس ووٹنگ کے ذریعے بیلٹ بکس خود ہی بھروا لیے جاتے ہیں جس کا الزام اس پارٹی پر لگتا ہے جس کا علاقے میں زیادہ اثر بلکہ رعب و خوف ہوتا ہے ۔

ووٹروں سے ووٹ لے کر پانچ سال تک غائب ہوجانا جب ارکان اسمبلی نے اصول بنا رکھا ہے تو اس قومی اسمبلی سے منتخب ہوجانے والا وزیر اعظم خود کیوں باقاعدگی سے پارلیمنٹ میں آئے گا اور ایک سال بعد سینیٹ کے اجلاس میں آنے کا احسان کرے گا۔ اپنے وزیر اعظم کی تقلید میں اس کے وزیر اور حکومتی ارکان بھی کیوں پارلیمنٹ کے ایوانوں میں آنا گوارا کریں گے جن کا وزیر اعظم ہی پارلیمنٹ آنا گوارا نہ کرتا ہو۔

نواز شریف تین بار اقتدار میں آئے مگر انھوں نے قومی اسمبلی کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ اپنے آخری اقتدار کے چار سالوں میں وزیر اعظم صرف 2-3 دن قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آئے اور وہ 23 روز آنے کے احسان میں ان کے قومی اسمبلی میں روز آنے کے وہ دن بھی شامل تھے جب اسلام آباد میں دھرنے چل رہے تھے وگرنہ ان کا یہی اصول رہا کہ قومی اسمبلی سے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اس ایوان میں آنا ہی بھول جاتے تھے اور مطلب یا کسی ضرورت پر ہی وہ ایوان میں آیا کرتے تھے۔

وزیر اعظم رہتے ہوئے تو کیا وہ موجودہ چار سالوں میں لاہور عمران خان کی وجہ سے نواز شریف کے ہاتھوں سے نکل سکتا ہے اور پی ٹی آئی لاہور میں اپنے قدم مضبوط کرچکی ہے ۔نواز شریف لاہور کے حلقہ این اے 120 میں کبھی نہیں آئے کبھی اپنے ووٹروں پر جاتی امرا کے دروازے نہیں کھولے اور یہی وجہ ہے کہ خوبصورتی اور تعلیم و ترقی کو نظرانداز کرکے لاہوریے عمران خان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں۔

ووٹ کو عزت دینے کی بات کرنے والے نواز شریف کو ابتدا پہلے اپنے حلقہ انتخاب سے کرنی اور انھیں مسلسل ووٹ دینے والوں کے پاس آکر اپنی طویل غیر حاضری کی معافی مانگنی چاہیے تھی۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نواز شریف اب نااہلی کے باعث الیکشن تو لڑ نہیں سکتے اور اپنا حلقہ خالی بھی نہیں چھوڑ سکتے اور انھیں اپنے حلقے سے (ن) لیگ کا امیدوار بھی نامزد کرنا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ نواز شریف اپنے حلقہ انتخاب سے ملنے والے ووٹوں اور ووٹروں کو عزت دیں ، ان کے پاس جاکر اپنے ماضی کے رویے پر معذرت کریں اور آیندہ ملک بھر سے (ن) لیگ کو ملنے والے ووٹوں کی قدر کرتے ہوئے ان ووٹروں کے بھی پاس جائیں جو ان سے محبت کرتے آئے ہیں ۔ ان ووٹروں کو پرمٹ یا لائسنس نہیں بلکہ اپنے علاقوں میں بنیادی مسائل کا صرف حل چاہیے۔
Load Next Story