اسلام اتحاد ِ انسانیت کا علم بردار

اسلام، انسان کا رشتہ خالق سے جوڑے رکھنے کے لیے عقائد و نظریات اور عبادات کا حکم دیتا ہے۔

اسلام، انسان کا رشتہ خالق سے جوڑے رکھنے کے لیے عقائد و نظریات اور عبادات کا حکم دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
اسلام، جینے سے پہلے اور مرنے کے بعد کے حالات کی جہاں خبر دیتا ہے وہاں دنیا میں زند گی گزارنے کے انسانی، فطری، اخلاقی، قومی و ملی قوانین بھی دیتا ہے۔

اسلام، اتحاد و اتفاق کاسب سے بڑا نہ صرف علم بردار بل کہ گزشتہ ادوار میں عملاً نافذالعمل مذہب بھی رہا ہے۔ اسلام، پو ری روئے زمین پر علمی، عملی، قومی اور ملی فسادات کو ختم کرکے امن و آشتی، انصاف و عدل، راحت و چین کے ساتھ مکمل آزادی کا حق دیتا ہے۔ یہ محض تجاویز پیش کرنے پر اکتفاء نہیں کرتا، بل کہ عملی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اسلام سابقہ اقوام کے عروج و زوال کی محض داستانیں ہی نہیں سناتا بل کہ ان سے سبق اور عبرت حاصل کرنے کے لیے دعوت ِ فکر دیتا ہے۔

اسلام، انسان کا رشتہ خالق سے جوڑے رکھنے کے لیے عقائد و نظریات اور عبادات کا حکم دیتا ہے۔ انسان کا رشتہ بہ حیثیت امتی نبی کریمؐ کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے ایمان بالنبی اور اطاعت نبویؐ کا حکم دیتا ہے۔ انسان کا رشتہ انسان سے صحیح طور پر جوڑے رکھنے کے لیے اخلاقیات اور حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ انسان کا رشتہ معاشرے سے جوڑے رکھنے کے لیے عمدہ معاشرت کا حکم دیتا ہے۔ انسان کا رشتہ ضروریات زندگی سے جوڑے رکھنے کے لیے صاف شفاف معاملات کا حکم دیتا ہے۔

اگر مذکورہ بالا تمام فطری او ر انسانی اقدار کو اسلام کے احکام کے مطابق تسلیم کرکے عمل کیا جائے تو کرۂ ارض پر انسانوں کا نہیں ''انسانیت'' کا راج ہوگا۔

زمینی حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ جب تک اسلامی دستور العمل عملاً نافذ رہا تب تک تو یہ دنیا امن کا گہوارہ تھی اور جب خدا تعالیٰ کے آفاقی احکامات کے بہ جائے انسانوں کی تدبیر پر اصول ہائے جہاں بانی کی بنیاد رکھی گئی تو بے امنی، لاقانونیت، فتنے، معاصی، خود سری، خود غرضی اور دیگر شیطانی محرکات نے جنم لیا۔ نتیجہ آج انسان اتحاد کے بہ جائے اختلافات و افتراق کی دوزخ میں جل رہا ہے۔

مذہبی، سیاسی، قومی، خاندانی اور نسلی اختلافات نے اس کی روح ِآزادی کو نہ صرف زخمی کیا بل کہ اس کے سارے نظام کو عالمی سطح پر مفلوج اور بے کار کردیا ہے۔ محض انسانی تدابیر کی کوکھ سے جن سانحات و حادثات نے جنم لیا پھر اسی کو بار بار آزمانے کی مسلسل روش نے انسان کو آج تک امن و آزادی اور سکون و راحت نصیب نہیں ہونے دی۔


نظام عالم پر متعدد انسانی تجربات کو آزمایا گیا، قیام ِامن کی تجاویز و آراء پر سنجیدگی سے کئی بار غور کیا گیا، نئے قوانین بھی وضع کیے گئے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بنیادی خامیوں کو دور کیے بغیر امن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا خود ایک خواب بن گیا۔ جب کہ اسلام سارے عالم میں قیامِ امن کا محض مدعی ہی نہیں بل کہ حقیقتاً نظام ِ امن نافذ بھی کرچکا ہے۔ جس کے فوائد و ثمرات اپنے پرائے، دوست دشمن، مسلم و کافر سبھی کے ہاں تسلیم شدہ ہیں۔ انسانی تدابیر سے پیدا ہونے والے اس وقت جتنے بھی اختلافات ہیں بنیادی طور پر مندرجہ ذیل اختلافات میں منحصر ہیں۔ مذہبی، قومی، سیاسی، نسلی، علاقائی، خاندانی اختلافات، ان سب کا حل ہمیں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی سیرت ِطیبہ میں ملتا ہے۔

دور حاضر میں باہمی اختلافات میں سے جو سب سے بڑا اختلاف، افتراق و انتشار بل کہ جنگ و جدال قتل و غارت اور منافر ت و دشمنی کا باعث ہے وہ یہی مذہبی اختلاف ہے۔ ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے تنگ دل بل کہ سخت دل ہیں۔ مذہب کے نام پر کئی خاندان، کئی نسلیں، کئی قومیں اور ملک صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ عدمِ برداشت، عدم رواداری و تحمل کی روش نے لاکھوں انسانوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس وقت بھی بین الاقوامی سطح پر باہمی مصالحت، اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے کئی ممالک، ادارے، جماعتیں اور تنظیمیں اپنا کردار دکھانے میں سرتوڑ محنت کر رہی ہیں۔ مذاکرات، مصالحت اور عسکری قوت کے زور پر ال غرض تمام اسباب کو بارہا بہ روئے کار لایا بھی گیا لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔

دنیا میں بسنے والی مختلف اقوام کے مزاجی اختلافات اسی گتھی کو مزید الجھا رہے ہیں۔ عقلی طور پر جتنی صورتیں بہ ظاہر ممکن نظر آرہی ہیں حقیقت میں مذہبی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ناممکن ہیں۔ مثلاً کسی فرد کے بارے میں یہ تصور کر لیا جائے کہ فلاں شخصیت پر تمام اقوام اور افراد متفق ہوجائیں اور اسی ایک کی بات مان کر اختلافات کو ختم کرلیا جائے۔ ایسے شخص کے لیے دو بنیادی خوبیوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کا علم وسیع تر ہو، وہ تمام اقوام کے فطری جذبات اور ضروریات اور اغراض سے واقف ہو اور لوگوں کے معاملات کی اصلاح بھی کرسکتا ہو۔

یہ صورت عقلاً تو ممکن ہوسکتی ہے لیکن فی الواقع بہ ہر طور ناممکن ہے کیوں کہ انسانوں کے مزاج میں تفاوت ہے۔ یہ تفاوت ان کو ایک مرکزی نقطے پر متحد نہیں ہونے دیتا۔ دوسری صورت یہ بھی عقلی طور پر ممکن ہے کہ کسی ادارے کو تمام اقوام متفقہ طور پر حاکمیت سونپ دیں پھر اس ادارے کے ہر حکم کو قبول بھی کریں، لیکن فی الواقع اس میں بھی عمل کر نا ناممکن ہے۔ کیوں کہ ادارے میں جس قوم کے افراد کی تعداد زیادہ ہوگی وہی قو م اس ادارے سے اپنے مفادات سمیٹے گی، باقی اقوام پھر محرومی اور ناانصافی کا شکار ہوکر رہ جائیں گی۔ اگر آپ اس کی جیتی جاگتی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وقت کی معروف تنظیم ''اقوام ِمتحدہ '' کو دیکھ لیں۔

اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات سیرت ِطیبہؐ کی روشنی میں یہ ہیں کہ کسی شخص یا ادارہ، جماعت یا تنظیم کی حاکمیت، تسلیم کرنے کے بہ حائے خالق ِحقیقی کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے۔ جس کے ہر فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے۔ کیوں کہ نوع انسانیت کا خالق وہی ہے، وہی ان کی تمام ضروریات کو بہ خوبی سن سکتا ہے، جان سکتا ہے اور ان کو حل بھی کرسکتا ہے۔ اس میں ظلم و جور کا شائبہ بھی نہیں اور مفاد پرستی کا تصور بھی نہیں۔ چوں کہ وہ تمام مخلوقات کا خالق ہے اس لیے عقل کا مقتضاء بھی یہی ہے کہ صرف اسی ہی کو حاکم تسلیم کیا جائے۔ اسی ممکنہ و مشترکہ پلیٹ فارم پر اﷲ کے آخر ی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل کتاب کو خطاب کیا۔

مفہوم : '' اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی مشترکہ بات پر جمع ہوجائیں کہ ہم اﷲ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے اور ہم اس کی ذات و صفات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اﷲ کے علاوہ کوئی کسی اور کو رب نہ مانے۔ اگر وہ اس عہد و پیمان سے پھرگئے تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو ماننے والے ہیں۔''

مفہوم : '' اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور باہم افتراق و انتشار کا شکار نہ بنو۔'' (سورۃ آل عمران )
Load Next Story