خود کو مفلسی سے بچائیے

اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔  اپنی زبان کی حفاظت کریں۔

اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔  اپنی زبان کی حفاظت کریں۔ فوٹو: فائل

کسی بھی چیز کو بناتے وقت انسان کے ذہن میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ چھوٹی اور معمولی سی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں بنائی جاتی۔

شان دار اور مضبوط عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ اس میں رہا جاسکے، لباس بنائے جاتے ہیں تاکہ پہننے اوڑھنے کے ساتھ گرمی سردی سے بچاؤ کے کام آسکیں، برتن بنائے جاتے ہیں تاکہ کھانے پینے کے لیے استعمال ہوں، پیٹ بھرنے کے لیے کھانا بنایا جاتا ہے، اشیائے خور و نوش کے لیے کاشت کاری کی جاتی ہے۔ غرض کوئی بھی چیز بے مقصد وجود میں نہیں لائی جاتی۔ ہر شے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ضرورت پوشیدہ ہوتی ہے۔

اسی طرح اربوں کھربوں مخلوقات بھی بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اسے پیدا کرنے کے بعد دنیا میں بھیجنے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور وہ ہے اﷲ کی عبادت۔ قرآن حکیم میں فرمان باری کا مفہوم ہے کہ میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہمارا مقصد حیات یہی ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں، اس کی اطاعت کریں، اس کی رضا کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اور اسی کی عبادت کریں۔


عبادت صرف نماز روزہ کا نام نہیں بل کہ عبادت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں حقوق اﷲ داخل ہیں اور دوسری قسم حقوق العباد کو شامل ہے۔ اصل کام یابی ان دونوں کی ادائی میں ہے۔ کسی ایک پر چلنا اور دوسرے سے غفلت برتنا فلاح کا راستہ نہیں۔ ایک شخص اگر نماز روزے کا پابند ہے، کوئی نماز، کوئی روزہ اس سے قضا نہیں ہوتا ہر وقت ذکر الٰہی میں لگا رہتا ہے مگر اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ اور وہ بدزبان و بداخلاق ہو تو محض ان نماز روزوں سے اس کی نجات ممکن نہیں۔

اسی طرح کوئی شخص صدقے خیرات دیتا ہو مگر احسان بھی جتلاتا ہو تو اس کی یہ نیکی رائیگاں جائے گی۔ والدین و اساتذہ کی نافرمانی، ان سے زبان درازی کرنا، صلۂ رحمی سے غفلت، مسلمان بھائی سے قطع تعلقی رکھنا، کسی کو تکلیف پہنچانا یہ ساری باتیں قیامت کے روز آپ کی نماز روزہ قبول ہونے نہیں دیں گی۔ قیامت کے روز ہر چھوٹی بڑی بات کا حساب ہوگا۔ فرمان باری تعالی کا مفہوم ہے، جو کوئی ذرّہ بھر بھی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور ذرہّ بھر نیکی کا صلہ بھی دیا جائے گا۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے پوچھا مفلس کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز ایک شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس کے اچھے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے دنیا میں کوئی زیادتی کی ہوگی وہ آتے جائیں گے اور اپنے حق کے بہ قدر اس کی نیکیوں میں سے لیتے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے تمام اعمال ختم ہوجائیں گے مگر حق دار باقی ہوں گے۔ پھر ان تمام حق داروں پر ہوئے ظلم کے بہ قدر ان کے گناہ ان سے لے کر اس شخص کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی بداعمالیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اصل مفلس وہ شخص ہے۔

لہٰذا اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔ اپنی زبان اور اپنے تمام اعضاء کی حفاظت کریں، کسی کو آپ سے کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، کسی کی حق تلفی نہ ہو، ناپ تول میں کمی نہ کریں، جھوٹ، دھوکا، لوٹ مار، والدین کی نافرمانی، غیبت، بہتان، بغض، حسد، کینہ، لعن طعن، منافقت ان سب عیوب و گناہوں سے خود کو بچاتے ہوئے نماز روزے و دیگر عبادات کا اہتمام کریں۔ تاکہ آپ کی نیکیاں بہ روز قیامت بھی آپ کے پاس محفوظ رہیں۔ ان پر صرف آپ کا حق ہو کوئی اور حق دار نہ نکل آئے جو آپ کا پلڑا خالی کرکے آپ کی نیکیاں لے جائے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ زندگی کی ڈور ابھی ٹوٹی نہیں۔ خود کو مفلس ہونے سے بچا لیجیے۔
Load Next Story