خاتمہ بالخیر مگر کیسے۔۔۔
دنیا ساری کی ساری جہالت ہے سوائے علمی مقامات کے، علم سارے کا سارا گفتار ہے سوائے اُس کے جس پر عمل کِیا جائے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا: '' دنیا ساری کی ساری جہالت ہے سوائے علمی مقامات کے، علم سارے کا سارا گفتار ہے سوائے اُس کے جس پر عمل کِیا جائے، عمل سارے کا سارا رِیا ہے سوائے اُس کے جو اِخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے اور اِخلاص اُس وقت تک خطرے میں ہے جب تک بندہ اپنے انجام کو نہ دیکھ لے۔''
حضرت آیت اﷲ محمدی ری شہری اپنی معروف تالیف ''میزان الحکمت'' جلد 3، صفحہ 40 پر کیا خوب دل نشین انداز میں رقم طراز ہیں:
قرآنِ مجید، فرقانِ حمید، سورۂ طٰہٰ، آیت 132میں ارشادِ ربّ العزت ہے:
'' اور پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے۔'' سورۂ قصص، آیت83 میں اﷲ رحمن و رحیم نے یوں راہ نمائی فرمائی: '' اور انجام تو پرہیز گاروں ہی کا ہے۔''حضرت امام جعفر صادق ؓ نے ایک شخص کی طرف تحریر فرمایا: '' اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارا خاتمہ خیر کے عمل پر ہو، حتیٰ کہ تمہاری رُوح ایسی حالت میں قبض کی جائے کہ تم افضل ترین عمل میں مصروف ہو، تو خدا کے حق کی عظمت کو جانتے ہوئے اُس کی نعمتوں کو اُس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے اجتناب کرو اور اپنے بارے میں اُس کے بُردبار رویّے سے دھوکا کھانے سے بچو اور جس جس شخص کو ہمارا ذکر کرتے یا ہماری مودّت کی طرف منسوب پاؤ، اُس کی عزت کرو۔'' (بحار الا نوار)
حضرت امام موسیٰ کاظمؓ کا فرمانِ عالی ہے : '' تمہارے اعمال کا انجام بخیر ہونا، ممکنہ حد تک تمہارے اپنے بھائیوں کی حاجتوں کو پورا کرنے اور اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے میں ہے۔ ورنہ تمہارا کوئی عمل قبول نہیں کِیا جائے گا۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ مہر بانی اور اُن پر رحم کرو تو ہم سب سے آملو گے۔''
جناب علی مرتضٰی کرم اﷲ وجہہٗ کے اِس ارشادِ گرامی میں بھی زبردست راہ نمائی اور ہدایت ہے : '' اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا تمہیں بُرے انجام سے بچائے رکھے تو تمہیں یاد رکھنا ہوگا کہ تم جو بھی نیک کام کرتے ہو وہ خدا کے فضل اور اُس کی توفیق سے کرتے ہو اور جو بھی بُرے اعمال انجام دیتے ہو تو یہ خدا کی چُھوٹ اور مہلت کی وجہ سے انجام پاتے ہیں۔ خدا کے درگزر کرنے سے ڈرتے رہو۔''حضرت امام جعفر صادق ؓ فرماتے ہیں: '' جو شخص عقل مند ہے، اِنشاء اﷲ اُس کا خاتمہ بھی بہشت پر ہے۔''حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے: '' اگر تمہارا خاتمہ سعادت پر ہو تو تم نعمتوں کی طرف بڑھو گے، تمہاری حالت فرماں روا اور بادشاہ جیسی ہوگی۔ امن میں ہوگے، ہر قسم کے خوف سے محفوظ، تمہارے گرد سفید موتیوں سے نوجوان لڑکے شفّاف سفید شراب کے جام لیے چکّر لگائیں گے، پینے والوں کو جس سے لذّت حاصل ہوگی۔''
آنحضرت محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مُبارکہ ہے: '' مومن ہمیشہ بُرے انجام سے خائف رہتا ہے، اُسے رضوانِ الہٰی تک پہنچنے کا یقین نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اُس کی یہ حالت اُس کی رُوح کے نکلنے اور اُس کے لیے ملک الموت کے ظاہر ہونے تک برقرار رہتی ہے۔''
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک اور حدیثِ مُبارکہ سے استفادہ کیجیے : '' سب سے بہترین امر وہ ہوتا ہے جس کا انجام خیر پر ہو۔''
ایک اور جگہ فرماتے ہیں : ''عمل کا معیار اُس کا انجام ہوتا ہے۔''
ایک اور مقام پر فرمایا: '' تمام اُمور اپنی تکمیل کے ساتھ (مکمل) ہوتے ہیں اور تمام اعمال اپنے انجام کے ساتھ (پایۂ تکمیل کو پہنچتے ) ہیں۔''
آپؐ کی احادیثِ مُبارکہ میں یہ حدیثیں بھی دیگر احادیثِ مُبارکہ کی طرح بنی نوع انسان کے لیے یقیناً راہ نما ہیں: '' (ایسا بھی ہوتا ہے) ایک انسان لمبے عرصے تک اہلِ بہشت کے سے اعمال بجا لاتا ہے، لیکن اُس کا خاتمہ جہنمیوں جیسے اعمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی ایک طویل عرصے تک اہلِ جہنم کے سے اعمال بجا لاتا ہے لیکن اُس کا خاتمہ اہلِ بہشت جیسے اعمال کے ساتھ ہوتا ہے، کیوں کہ اعمال کا دار و مدار اُن کے انجام پر ہوتا ہے۔'' (کنز العمال)
'' تمہیں کسی کا عمل اُس وقت تک اچھا نہیں لگنا چاہیے جب تک تم اُس کے انجام کو نہ دیکھ لو، کیوں کہ اعمال بجا لانے والا اپنی زندگی کے طویل عرصے یا کافی زمانے تک نیک عمل بجا لاتا ہے کہ اگر اُس کی موت اُسی حالت میں واقع ہوجائے تو جنت میں چلا جائے، لیکن اُس میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے اور وہ بُرے اعمال بجا لاتا ہے۔'' (کنز العمال)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کا فرمانِ مُبارکہ ہے: '' تمام مخلوق اُدھر کو جارہی ہے جدھر (انجام) کا اُسے علم نہیں۔'' (غرر الحکم)
آپ ؓ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: '' ایسا ناپسندیدہ کام جس کا انجام قابلِ ستائش ہو، ایسے پسندیدہ فعل سے بہتر ہے جس کی عاقبت قابلِ مذمّت ہو۔'' (غرر الحکم)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ اِس ضمن میں مزید راہ نمائی فرماتے ہیں: ''حقیقی سعادت یہ ہے کہ انسان کے اعمال کا خاتمہ سعادت کے ساتھ ہو اور حقیقی شقاوت (بد بختی) یہ ہے کہ اُس کے اعمال کا خاتمہ شقاوت (بد بختی) کے ساتھ ہو۔'' (بحار)
'' دنیا ساری کی ساری جہالت ہے سوائے علمی مقامات کے، علم سارے کا سارا گفتار ہے سوائے اُس کے جس پر عمل کِیا جائے، عمل سارے کا سارا رِیا ہے سوائے اُس کے جو اِخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے اور اِخلاص اُس وقت تک خطرے میں ہے جب تک بندہ اپنے انجام کو نہ دیکھ لے۔'' (بحار)حضرت امام جعفر صادقؓ کا ارشادِ گرامی ہے: '' سعید اور نیک بخت انسان کو بدبختیوں کے راستے پر چلایا جاتا ہے، حتیٰ کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے کس قدر مشابہ ہے، بل کہ ان ہی میں سے ہے۔ پھر سعادت اور نیک بختی اُس کا سرمایہ بن جاتی ہے۔ کبھی شقی اور بدبخت انسان کو سعید اور نیک بخت انسانوں کی راہ پر چلایا جاتا ہے، حتیٰ کہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ یہ ان سے کس قدر مشابہ ہے، بل کہ ان ہی میں سے ایک ہے۔ پھر شقاوت اور بدبختی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یقیناً جسے خدا سعید اور نیک بخت جانتا ہے (جس کے بارے میں خدا کے علم میں ہوتا ہے کہ وہ سعید ہوگا) اُس کا خاتمہ سعادت پر ہوگا۔ خواہ اِس دنیا میں اُس کے لیے صرف اُونٹنی کے سانس نکلنے کی مقدار وقت باقی رہتا ہو۔'' (التوحید)
حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں: '' لوگ تو کہتے ہیں کہ عمارت کا دار و مدار اُس کی بنیاد پر ہوتا ہے، لیکن میں تمھیں ایسا نہیں کہتا۔''
لوگوں نے کہا: ''یا رُوح اﷲ! آپؑ کیا فرماتے ہیں؟'' فرمایا: ''میں تمہیں حقیقت بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عمارت کا آخری پتھر جسے بنانے والا رکھتا ہے، وہی اُس کی بنیاد ہوتا ہے۔'' (بحار)
اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دِلی اور رُوحی دُعا ہے کہ وہ اپنے حبیب ِ کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل ہم سب کا انجام بالخیر فرمائے اور اپنے بے پایاں لطف و کرم سے ہمیں اِس کے اسباب بھی فراہم فرمائے۔ آمین
حضرت آیت اﷲ محمدی ری شہری اپنی معروف تالیف ''میزان الحکمت'' جلد 3، صفحہ 40 پر کیا خوب دل نشین انداز میں رقم طراز ہیں:
قرآنِ مجید، فرقانِ حمید، سورۂ طٰہٰ، آیت 132میں ارشادِ ربّ العزت ہے:
'' اور پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے۔'' سورۂ قصص، آیت83 میں اﷲ رحمن و رحیم نے یوں راہ نمائی فرمائی: '' اور انجام تو پرہیز گاروں ہی کا ہے۔''حضرت امام جعفر صادق ؓ نے ایک شخص کی طرف تحریر فرمایا: '' اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارا خاتمہ خیر کے عمل پر ہو، حتیٰ کہ تمہاری رُوح ایسی حالت میں قبض کی جائے کہ تم افضل ترین عمل میں مصروف ہو، تو خدا کے حق کی عظمت کو جانتے ہوئے اُس کی نعمتوں کو اُس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے اجتناب کرو اور اپنے بارے میں اُس کے بُردبار رویّے سے دھوکا کھانے سے بچو اور جس جس شخص کو ہمارا ذکر کرتے یا ہماری مودّت کی طرف منسوب پاؤ، اُس کی عزت کرو۔'' (بحار الا نوار)
حضرت امام موسیٰ کاظمؓ کا فرمانِ عالی ہے : '' تمہارے اعمال کا انجام بخیر ہونا، ممکنہ حد تک تمہارے اپنے بھائیوں کی حاجتوں کو پورا کرنے اور اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے میں ہے۔ ورنہ تمہارا کوئی عمل قبول نہیں کِیا جائے گا۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ مہر بانی اور اُن پر رحم کرو تو ہم سب سے آملو گے۔''
جناب علی مرتضٰی کرم اﷲ وجہہٗ کے اِس ارشادِ گرامی میں بھی زبردست راہ نمائی اور ہدایت ہے : '' اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا تمہیں بُرے انجام سے بچائے رکھے تو تمہیں یاد رکھنا ہوگا کہ تم جو بھی نیک کام کرتے ہو وہ خدا کے فضل اور اُس کی توفیق سے کرتے ہو اور جو بھی بُرے اعمال انجام دیتے ہو تو یہ خدا کی چُھوٹ اور مہلت کی وجہ سے انجام پاتے ہیں۔ خدا کے درگزر کرنے سے ڈرتے رہو۔''حضرت امام جعفر صادق ؓ فرماتے ہیں: '' جو شخص عقل مند ہے، اِنشاء اﷲ اُس کا خاتمہ بھی بہشت پر ہے۔''حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے: '' اگر تمہارا خاتمہ سعادت پر ہو تو تم نعمتوں کی طرف بڑھو گے، تمہاری حالت فرماں روا اور بادشاہ جیسی ہوگی۔ امن میں ہوگے، ہر قسم کے خوف سے محفوظ، تمہارے گرد سفید موتیوں سے نوجوان لڑکے شفّاف سفید شراب کے جام لیے چکّر لگائیں گے، پینے والوں کو جس سے لذّت حاصل ہوگی۔''
آنحضرت محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مُبارکہ ہے: '' مومن ہمیشہ بُرے انجام سے خائف رہتا ہے، اُسے رضوانِ الہٰی تک پہنچنے کا یقین نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اُس کی یہ حالت اُس کی رُوح کے نکلنے اور اُس کے لیے ملک الموت کے ظاہر ہونے تک برقرار رہتی ہے۔''
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک اور حدیثِ مُبارکہ سے استفادہ کیجیے : '' سب سے بہترین امر وہ ہوتا ہے جس کا انجام خیر پر ہو۔''
ایک اور جگہ فرماتے ہیں : ''عمل کا معیار اُس کا انجام ہوتا ہے۔''
ایک اور مقام پر فرمایا: '' تمام اُمور اپنی تکمیل کے ساتھ (مکمل) ہوتے ہیں اور تمام اعمال اپنے انجام کے ساتھ (پایۂ تکمیل کو پہنچتے ) ہیں۔''
آپؐ کی احادیثِ مُبارکہ میں یہ حدیثیں بھی دیگر احادیثِ مُبارکہ کی طرح بنی نوع انسان کے لیے یقیناً راہ نما ہیں: '' (ایسا بھی ہوتا ہے) ایک انسان لمبے عرصے تک اہلِ بہشت کے سے اعمال بجا لاتا ہے، لیکن اُس کا خاتمہ جہنمیوں جیسے اعمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی ایک طویل عرصے تک اہلِ جہنم کے سے اعمال بجا لاتا ہے لیکن اُس کا خاتمہ اہلِ بہشت جیسے اعمال کے ساتھ ہوتا ہے، کیوں کہ اعمال کا دار و مدار اُن کے انجام پر ہوتا ہے۔'' (کنز العمال)
'' تمہیں کسی کا عمل اُس وقت تک اچھا نہیں لگنا چاہیے جب تک تم اُس کے انجام کو نہ دیکھ لو، کیوں کہ اعمال بجا لانے والا اپنی زندگی کے طویل عرصے یا کافی زمانے تک نیک عمل بجا لاتا ہے کہ اگر اُس کی موت اُسی حالت میں واقع ہوجائے تو جنت میں چلا جائے، لیکن اُس میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے اور وہ بُرے اعمال بجا لاتا ہے۔'' (کنز العمال)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کا فرمانِ مُبارکہ ہے: '' تمام مخلوق اُدھر کو جارہی ہے جدھر (انجام) کا اُسے علم نہیں۔'' (غرر الحکم)
آپ ؓ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: '' ایسا ناپسندیدہ کام جس کا انجام قابلِ ستائش ہو، ایسے پسندیدہ فعل سے بہتر ہے جس کی عاقبت قابلِ مذمّت ہو۔'' (غرر الحکم)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ اِس ضمن میں مزید راہ نمائی فرماتے ہیں: ''حقیقی سعادت یہ ہے کہ انسان کے اعمال کا خاتمہ سعادت کے ساتھ ہو اور حقیقی شقاوت (بد بختی) یہ ہے کہ اُس کے اعمال کا خاتمہ شقاوت (بد بختی) کے ساتھ ہو۔'' (بحار)
'' دنیا ساری کی ساری جہالت ہے سوائے علمی مقامات کے، علم سارے کا سارا گفتار ہے سوائے اُس کے جس پر عمل کِیا جائے، عمل سارے کا سارا رِیا ہے سوائے اُس کے جو اِخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے اور اِخلاص اُس وقت تک خطرے میں ہے جب تک بندہ اپنے انجام کو نہ دیکھ لے۔'' (بحار)حضرت امام جعفر صادقؓ کا ارشادِ گرامی ہے: '' سعید اور نیک بخت انسان کو بدبختیوں کے راستے پر چلایا جاتا ہے، حتیٰ کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے کس قدر مشابہ ہے، بل کہ ان ہی میں سے ہے۔ پھر سعادت اور نیک بختی اُس کا سرمایہ بن جاتی ہے۔ کبھی شقی اور بدبخت انسان کو سعید اور نیک بخت انسانوں کی راہ پر چلایا جاتا ہے، حتیٰ کہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ یہ ان سے کس قدر مشابہ ہے، بل کہ ان ہی میں سے ایک ہے۔ پھر شقاوت اور بدبختی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یقیناً جسے خدا سعید اور نیک بخت جانتا ہے (جس کے بارے میں خدا کے علم میں ہوتا ہے کہ وہ سعید ہوگا) اُس کا خاتمہ سعادت پر ہوگا۔ خواہ اِس دنیا میں اُس کے لیے صرف اُونٹنی کے سانس نکلنے کی مقدار وقت باقی رہتا ہو۔'' (التوحید)
حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں: '' لوگ تو کہتے ہیں کہ عمارت کا دار و مدار اُس کی بنیاد پر ہوتا ہے، لیکن میں تمھیں ایسا نہیں کہتا۔''
لوگوں نے کہا: ''یا رُوح اﷲ! آپؑ کیا فرماتے ہیں؟'' فرمایا: ''میں تمہیں حقیقت بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عمارت کا آخری پتھر جسے بنانے والا رکھتا ہے، وہی اُس کی بنیاد ہوتا ہے۔'' (بحار)
اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دِلی اور رُوحی دُعا ہے کہ وہ اپنے حبیب ِ کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل ہم سب کا انجام بالخیر فرمائے اور اپنے بے پایاں لطف و کرم سے ہمیں اِس کے اسباب بھی فراہم فرمائے۔ آمین