فضائی آلودگی ایک عالمی مسئلہ
فضائی آلودگی کم کرنے کےلیے ضروری ہے کہ زراعت سے لے کر صنعت تک میں مضر گیسوں کا اخراج کم کیا جائے
صاف ستھری فضا ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے، اور یہ بنیادی حق یا بنیادی ضرورت دن بدن عمومی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ اس سب کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ اگر ہم گہرائی میں ان عوامل کے بارے میں بات کریں تو دو اقسام کے عوامل (فیکٹرز) نظر آتے ہیں۔ ایک قدرتی طور پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات جیسا کہ آسٹریلیا کے جنگلات میں اچانک آگ کا لگ جانا، جبکہ دوسری قسم میں وہ تمام انسانی سرگرمیاں ہیں جن میں ذاتی گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال، فیکٹریوں سے دھوئیں کا حد سے زیادہ اخراج شامل ہیں۔
اے کیو آئی (AQI) رپورٹ یعنی فضائی معیار کے انڈیکس کے مطابق گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گیسوں میں سب سے زیادہ شرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ہے، جو تقریباً 65 فیصد ہے؛ اور اس گیس کا بنیادی ماخذ فوسل فیولز اور قدرتی گیس کا بے تحاشا استعمال ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ افسوسناک بات شاید یہ ہوگی کہ عالمی ادارہِ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی شہری آبادی میں تقریباً اسی (80) فیصد افراد آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں اوراس فضا کا معیار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق نہیں۔
جس طرح ہر ہونے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہونی ضرور ہوتی ہے، بالکل اسی طرح فضائی آلودگی کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ، چاہے دنیا کا کوئی بھی کونا ہو، کوئی بھی جغرافیائی خطہ ہو، وجوہ تقریباً ایک ہی جیسی ہیں، جو ذیل میں دی گئی ہیں:
1۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں: اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی مشکلات اور فاصلے کسی حد تک ختم کردیئے ہیں، لیکن اگر ہم اس کا دوسرا پہلو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ در حقیقت ہم کس بڑی مشکل سے دوچار ہورہے ہیں۔ گاڑیوں کے دھوئیں سے نکلنے والی گیسیں، گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی گیسوں میں سے ایک، یعنی کاربن کے آکسائیڈز ہیں۔ ان کے علاوہ ہائیڈرو کاربنز، سلفر ڈائی آکسائیڈ وغیرہ شامل ہیں اور انسانی صحت پر ان کے مجموعی اثرات دردِ سر اور نزلہ زکام سے لے کر سانس کے مستقل مسائل تک جاسکتے ہیں۔
اگرچہ ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے پر بہت بحث کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیٹرول/ ڈیزل کی گاڑیوں کو دوسری ٹیکنالوجی والے انجن کی گاڑیوں سے تبدیل کیا جائے؛ اورکچھ ترقی یافتہ ممالک میں پیٹرول/ ڈیزل والی گاڑیوں پر پابندی لگ چکی ہے، جبکہ کچھ ممالک میں عنقریب ایسی گاڑیوں پر مکمل پابندی لگ جائے گی، جن میں سے ایک فرانس ہے۔ ہمارے ملک میں عوامی شعور کی وجہ سے ماحول دوست گاڑیاں استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور دن بدن اس رجحان میں واضح اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک بہت اچھی سوچ ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھایا جانا چاہئے اور ساتھ ساتھ اسی ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیوں کو پاکستان میں فروغ دینا چاہیے تاکہ ماحول دوست کلچر کو فروغ ملے۔
2۔ شعبہ ہائے صنعت: صنعتی شعبہ کسی بھی ملک کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے اور مختلف صنعتی شعبہ جات پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔
اگر اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا ایسی تمام صنعتیں کسی نہ کسی طور پر فضائی آلودگی کا اخراج کررہی ہیں۔ اخراج کا تناسب اس صنعت کی پیداواری صلاحیت اور وقوع پذیر ہونے والی مختلف سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ بظاہر ہم ان تمام عوامل کو ملحوظِ خاطر نہ رکھتے ہوئے صرف اپنی معیشت کو مدنظر رکھتے ہیں، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارا ایسا طرزِ عمل کسی نہ کسی نقطے پر آکر ہمارے اس قدرتی نظام میں دخل اندازی کرسکتا ہے؛ اور اس دخل اندازی کے نتیجے میں ہم اپنے ماحول اور اس سے حاصل ہونے والی نعمتوں سے محروم نہ سہی تو کم از کم دور ضرور ہوسکتے ہیں۔
صنعتوں سے نکلنے والی گیسوں میں زیادہ خطرناک گیسیں کاربن کے آکسائیڈز، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ و دیگر ہیں؛ اور یہ وہ گیسیں ہیں جنہیں ماہرینِ ماحولیات پہلے ہی خطرناک گیسیں قرار دے چکے ہیں، اور جو ہماری اس ماحولیاتی تبدیلی میں پیش پیش ہیں۔ جیسا کہ مختلف شواہد اس بات کو ظاہر کررہے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کا حصہ کل گرین ہاؤس گیسوں کے 80 فیصد سے زیادہ ہے۔
3۔ زراعت اورملحقہ سرگرمیاں: پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زراعت ہمارے ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 21 فیصد حصہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ معیشت کی مضبوطی میں زراعت کسی سے پیچھے نہیں، لیکن کچھ ایسے حقائق بھی ہیں کہ جن سے ہم کسی صورت صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ آئیے ان حقائق پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں:
زراعت اور اس سے ملحقہ دیگر سرگرمیاں جیسا کہ مختلف کیمیکلز کا استعمال، فصلوں کی کٹائی کے بعد ان کی باقیات کو جلادینا وغیرہ، یہ ایسے عوامل ہیں جن سے بہت خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹروس آکسائیڈ کہ جن کا ذکر شعبہ صنعت میں ہوچکا ہے۔ یہ وہی تمام گیسیں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہیں۔
4۔ فوسل فیولز کا استعمال: رکازی ایندھن یا فوسل فیولز کا استعمال بھی فضائی آلودگی کی ایک سب سے بڑی وجوہ میں سے ہے۔ فوسل فیولز میں کوئلہ، گیس، تیل بشمول پیٹرول، ڈیزل وغیرہ اور اسی طرح کے دیگر قدرتی مواد کا استعمال شامل ہے۔ ہم توانائی کے حصول کےلیے ان تمام نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں اور ہماری لاپرواہی یا بے دریغ استعمال کی وجہ سے یہ ایندھن کے ذرائع ایک طرف کرہ ارض سے ختم ہو رہے ہیں، وہیں تمام اول الذکر گیسوں (بشمول کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے اخراج کی وجہ بن رہے ہیں۔ تمام چیزوں سے بڑھ کر یہ کہ مذکورہ ذرائع توانائی ''ناقابلِ تجدید'' یا Non-Renewable ہیں۔
یہ چند اہم وجوہ ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جیسے کہ پاور پلانٹس اور گھروں میں استعمال ہونے والی اشیاء سے پیدا ہونے والی گرد وغیرہ، لیکن یہ سب ذیلی وجوہ ہیں جبکہ مرکزی عوامل وہی ہیں جو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔
اثرات: اگر ہم ان گیسوں سے ہونے والے اثرات کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسے تمام شہر یا ممالک جو فضائی آلودگی کا شکار ہیں، وہاں سانس کے امراض عام ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سر میں درد اور سانس کے امراض کی ابتدا سے لے کر پھیپھڑوں کا ناکارہ ہونا، اور اس سے ملحقہ مختلف امراض اور آخرِکار موت پر اختتام۔
یہ صرف انسانوں کےلیے ہی خطرناک نہیں بلکہ پودے اور جانور بھی اس فضائی آلودگی سے بچ نہیں سکے۔ یہ عمل تیزابی بارش کی وجہ سے بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تیزابی بارش یا Acid Rain ایسا عمل ہے جو کاربن اور سلفر کے آکسائیڈز کی فضا میں زیادہ مقدار کی وجہ سے کیمیائی تعامل سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تیزابی بارش پودوں کے پتوں کےلیے شدید نقصان دہ ہے جس کے نتیجے میں پودوں کی نشوونما رک جاتی ہے یا انتہائی سست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کے نتیجے میں پودوں کا مدافعتی نظام بھی درہم برہم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات کا حملہ آسان ہوجاتا ہے۔
تیزابی بارش کی وجہ سے صرف پودے ہی نہیں بلکہ عمارات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ تیزابی بارش کی وجہ سے ہی بھارت کے تاج محل کا پتھر اپنی اصل رنگت اور خوبصورتی کھو رہا ہے؛ اور اسی بناء پر کہا جا رہا ہے کہ فضائی آلودگی صرف ایک عمل کا نام نہیں، بلکہ ایک عمل سے جڑے مختلف عوامل کا شاخسانہ ہے۔
فضائی آلودگی کم کرنے کی تدابیر: فضائی آلودگی کو ملکی یا سرکاری سطح پر کنٹرول کیا جانا چاہیے لیکن یہ کنٹرول یا تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خود سے تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس کےلیے چند اہم تدابیر ذیل میں درج ہیں:
ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں، جہاں تک ہوسکے ذاتی گاڑی کا استعمال اگر ترک نہ کرسکیں تو کم ضرور کر دیں۔ ماحول دوست ہائبریڈ ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیں، دوسروں کو بھی اس پر قائل کیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کریں جو ماحول دوست ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ ایسی ٹیکنالوجی کو عام کرنے کےلیے پالیسیاں بنائے اور سبسڈی دی جائے تا کہ ایسے اقدام سے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔ گلی، محلہ، گاؤں، شہر، سرکاری، پرائیویٹ غرض ہر سطح پر اس ضمن میں عمل درآمد کی کوشش کی جائے؛ اور فضائی آلودگی اور اس کے محرکات کے بارے میں عوامی شعور کو پروان چڑھایا جائے۔ زیادہ سے زیاد ہ درخت لگائی جائیں تاکہ خصوصی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس، بجائے ماحول میں شامل ہونے کے، درخت اپنے استعمال میں لائیں، نتیجتاً ایک طرف تو فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی، دوسری طرف گلوبل وارمنگ جیسے مسئلے کو قابو کرنے کےلیے اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ صنعتی علاقے، رہائشی آبادی سے دور ہونے چاہئیں تاکہ آلودہ فضا کا اثر کم سے کم کیا جاسکے۔ زیادہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں پر ہمیشہ کےلیے پابندی لگنی چاہیے، نہیں تو کم از کم اس دورانیے تک پابندی ضرور لگنی چاہیے کہ جب تک مسئلہ حل نہ ہو۔ یہ وہ تمام نکات ہیں جن کی مدد سے ہم فضائی آلودگی کو کم کرنے میں کم از کم اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اختتام میں شاید اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ اگر ہم اس چیز کا احساس کر لیں کہ ہم کتنے سنگین مسائل کا شکار ہونے جارہے ہیں، تو ہم فضائی آلودگی جیسے مسئلے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اے کیو آئی (AQI) رپورٹ یعنی فضائی معیار کے انڈیکس کے مطابق گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گیسوں میں سب سے زیادہ شرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ہے، جو تقریباً 65 فیصد ہے؛ اور اس گیس کا بنیادی ماخذ فوسل فیولز اور قدرتی گیس کا بے تحاشا استعمال ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ افسوسناک بات شاید یہ ہوگی کہ عالمی ادارہِ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی شہری آبادی میں تقریباً اسی (80) فیصد افراد آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں اوراس فضا کا معیار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق نہیں۔
جس طرح ہر ہونے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہونی ضرور ہوتی ہے، بالکل اسی طرح فضائی آلودگی کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ، چاہے دنیا کا کوئی بھی کونا ہو، کوئی بھی جغرافیائی خطہ ہو، وجوہ تقریباً ایک ہی جیسی ہیں، جو ذیل میں دی گئی ہیں:
1۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں: اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی مشکلات اور فاصلے کسی حد تک ختم کردیئے ہیں، لیکن اگر ہم اس کا دوسرا پہلو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ در حقیقت ہم کس بڑی مشکل سے دوچار ہورہے ہیں۔ گاڑیوں کے دھوئیں سے نکلنے والی گیسیں، گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی گیسوں میں سے ایک، یعنی کاربن کے آکسائیڈز ہیں۔ ان کے علاوہ ہائیڈرو کاربنز، سلفر ڈائی آکسائیڈ وغیرہ شامل ہیں اور انسانی صحت پر ان کے مجموعی اثرات دردِ سر اور نزلہ زکام سے لے کر سانس کے مستقل مسائل تک جاسکتے ہیں۔
اگرچہ ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے پر بہت بحث کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیٹرول/ ڈیزل کی گاڑیوں کو دوسری ٹیکنالوجی والے انجن کی گاڑیوں سے تبدیل کیا جائے؛ اورکچھ ترقی یافتہ ممالک میں پیٹرول/ ڈیزل والی گاڑیوں پر پابندی لگ چکی ہے، جبکہ کچھ ممالک میں عنقریب ایسی گاڑیوں پر مکمل پابندی لگ جائے گی، جن میں سے ایک فرانس ہے۔ ہمارے ملک میں عوامی شعور کی وجہ سے ماحول دوست گاڑیاں استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور دن بدن اس رجحان میں واضح اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک بہت اچھی سوچ ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھایا جانا چاہئے اور ساتھ ساتھ اسی ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیوں کو پاکستان میں فروغ دینا چاہیے تاکہ ماحول دوست کلچر کو فروغ ملے۔
2۔ شعبہ ہائے صنعت: صنعتی شعبہ کسی بھی ملک کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے اور مختلف صنعتی شعبہ جات پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔
اگر اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا ایسی تمام صنعتیں کسی نہ کسی طور پر فضائی آلودگی کا اخراج کررہی ہیں۔ اخراج کا تناسب اس صنعت کی پیداواری صلاحیت اور وقوع پذیر ہونے والی مختلف سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ بظاہر ہم ان تمام عوامل کو ملحوظِ خاطر نہ رکھتے ہوئے صرف اپنی معیشت کو مدنظر رکھتے ہیں، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارا ایسا طرزِ عمل کسی نہ کسی نقطے پر آکر ہمارے اس قدرتی نظام میں دخل اندازی کرسکتا ہے؛ اور اس دخل اندازی کے نتیجے میں ہم اپنے ماحول اور اس سے حاصل ہونے والی نعمتوں سے محروم نہ سہی تو کم از کم دور ضرور ہوسکتے ہیں۔
صنعتوں سے نکلنے والی گیسوں میں زیادہ خطرناک گیسیں کاربن کے آکسائیڈز، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ و دیگر ہیں؛ اور یہ وہ گیسیں ہیں جنہیں ماہرینِ ماحولیات پہلے ہی خطرناک گیسیں قرار دے چکے ہیں، اور جو ہماری اس ماحولیاتی تبدیلی میں پیش پیش ہیں۔ جیسا کہ مختلف شواہد اس بات کو ظاہر کررہے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کا حصہ کل گرین ہاؤس گیسوں کے 80 فیصد سے زیادہ ہے۔
3۔ زراعت اورملحقہ سرگرمیاں: پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زراعت ہمارے ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 21 فیصد حصہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ معیشت کی مضبوطی میں زراعت کسی سے پیچھے نہیں، لیکن کچھ ایسے حقائق بھی ہیں کہ جن سے ہم کسی صورت صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ آئیے ان حقائق پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں:
زراعت اور اس سے ملحقہ دیگر سرگرمیاں جیسا کہ مختلف کیمیکلز کا استعمال، فصلوں کی کٹائی کے بعد ان کی باقیات کو جلادینا وغیرہ، یہ ایسے عوامل ہیں جن سے بہت خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹروس آکسائیڈ کہ جن کا ذکر شعبہ صنعت میں ہوچکا ہے۔ یہ وہی تمام گیسیں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہیں۔
4۔ فوسل فیولز کا استعمال: رکازی ایندھن یا فوسل فیولز کا استعمال بھی فضائی آلودگی کی ایک سب سے بڑی وجوہ میں سے ہے۔ فوسل فیولز میں کوئلہ، گیس، تیل بشمول پیٹرول، ڈیزل وغیرہ اور اسی طرح کے دیگر قدرتی مواد کا استعمال شامل ہے۔ ہم توانائی کے حصول کےلیے ان تمام نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں اور ہماری لاپرواہی یا بے دریغ استعمال کی وجہ سے یہ ایندھن کے ذرائع ایک طرف کرہ ارض سے ختم ہو رہے ہیں، وہیں تمام اول الذکر گیسوں (بشمول کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے اخراج کی وجہ بن رہے ہیں۔ تمام چیزوں سے بڑھ کر یہ کہ مذکورہ ذرائع توانائی ''ناقابلِ تجدید'' یا Non-Renewable ہیں۔
یہ چند اہم وجوہ ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جیسے کہ پاور پلانٹس اور گھروں میں استعمال ہونے والی اشیاء سے پیدا ہونے والی گرد وغیرہ، لیکن یہ سب ذیلی وجوہ ہیں جبکہ مرکزی عوامل وہی ہیں جو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔
اثرات: اگر ہم ان گیسوں سے ہونے والے اثرات کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسے تمام شہر یا ممالک جو فضائی آلودگی کا شکار ہیں، وہاں سانس کے امراض عام ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سر میں درد اور سانس کے امراض کی ابتدا سے لے کر پھیپھڑوں کا ناکارہ ہونا، اور اس سے ملحقہ مختلف امراض اور آخرِکار موت پر اختتام۔
یہ صرف انسانوں کےلیے ہی خطرناک نہیں بلکہ پودے اور جانور بھی اس فضائی آلودگی سے بچ نہیں سکے۔ یہ عمل تیزابی بارش کی وجہ سے بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تیزابی بارش یا Acid Rain ایسا عمل ہے جو کاربن اور سلفر کے آکسائیڈز کی فضا میں زیادہ مقدار کی وجہ سے کیمیائی تعامل سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تیزابی بارش پودوں کے پتوں کےلیے شدید نقصان دہ ہے جس کے نتیجے میں پودوں کی نشوونما رک جاتی ہے یا انتہائی سست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کے نتیجے میں پودوں کا مدافعتی نظام بھی درہم برہم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات کا حملہ آسان ہوجاتا ہے۔
تیزابی بارش کی وجہ سے صرف پودے ہی نہیں بلکہ عمارات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ تیزابی بارش کی وجہ سے ہی بھارت کے تاج محل کا پتھر اپنی اصل رنگت اور خوبصورتی کھو رہا ہے؛ اور اسی بناء پر کہا جا رہا ہے کہ فضائی آلودگی صرف ایک عمل کا نام نہیں، بلکہ ایک عمل سے جڑے مختلف عوامل کا شاخسانہ ہے۔
فضائی آلودگی کم کرنے کی تدابیر: فضائی آلودگی کو ملکی یا سرکاری سطح پر کنٹرول کیا جانا چاہیے لیکن یہ کنٹرول یا تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خود سے تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس کےلیے چند اہم تدابیر ذیل میں درج ہیں:
ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں، جہاں تک ہوسکے ذاتی گاڑی کا استعمال اگر ترک نہ کرسکیں تو کم ضرور کر دیں۔ ماحول دوست ہائبریڈ ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیں، دوسروں کو بھی اس پر قائل کیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کریں جو ماحول دوست ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ ایسی ٹیکنالوجی کو عام کرنے کےلیے پالیسیاں بنائے اور سبسڈی دی جائے تا کہ ایسے اقدام سے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔ گلی، محلہ، گاؤں، شہر، سرکاری، پرائیویٹ غرض ہر سطح پر اس ضمن میں عمل درآمد کی کوشش کی جائے؛ اور فضائی آلودگی اور اس کے محرکات کے بارے میں عوامی شعور کو پروان چڑھایا جائے۔ زیادہ سے زیاد ہ درخت لگائی جائیں تاکہ خصوصی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس، بجائے ماحول میں شامل ہونے کے، درخت اپنے استعمال میں لائیں، نتیجتاً ایک طرف تو فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی، دوسری طرف گلوبل وارمنگ جیسے مسئلے کو قابو کرنے کےلیے اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ صنعتی علاقے، رہائشی آبادی سے دور ہونے چاہئیں تاکہ آلودہ فضا کا اثر کم سے کم کیا جاسکے۔ زیادہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں پر ہمیشہ کےلیے پابندی لگنی چاہیے، نہیں تو کم از کم اس دورانیے تک پابندی ضرور لگنی چاہیے کہ جب تک مسئلہ حل نہ ہو۔ یہ وہ تمام نکات ہیں جن کی مدد سے ہم فضائی آلودگی کو کم کرنے میں کم از کم اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اختتام میں شاید اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ اگر ہم اس چیز کا احساس کر لیں کہ ہم کتنے سنگین مسائل کا شکار ہونے جارہے ہیں، تو ہم فضائی آلودگی جیسے مسئلے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔