سندھ بجٹ برائے 201819
اپوزیشن نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس کی تعریف کی جائے۔
سندھ حکومت نے مالی سال 19-2018 کے لیے23ارب روپے خسارے پر مشتمل 11 کھرب 44 ارب 44 کروڑ 88 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ کی موجودہ حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ پیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد، ہاؤس رینٹ میں50فیصد اضافے کا اعلان کیا جب کہ کم از کم پنشن کی حد بھی4ہزار سے بڑھا کر 10ہزار روپے مقرر کردی گئی۔
اپوزیشن نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس کی تعریف کی جائے، اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے 10 برسوں کا حساب لیں گے، بجٹ اجلاس اور تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج جاری رہا، اپوزیشن نے ایجنڈہ کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں ۔ بزنس، شہری اور دیہی حلقوں کا بجٹ کے حوالہ سے رد عمل ملاجلا تھا، یوں بھی اس بجٹ کی محدودات الیکشن موسم کے باعث قابل غور ہیں، اسے متوازن بجٹ کہنا بے جا نہ ہوگا، یہ جمہوری بریک تھرو اور سسٹم کے تسلسل کو رواں دواں رکھنے کی نیک تمنا ہے کہ حزب اختلاف اور حکومتی ارکان آخری بجٹ سیشن میں موجود رہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بجٹ میں مختص رقوم کے بروقت استعمال اور روبہ عمل لائے جانے والے نئے منصوبوں کی شفافیت کے ساتھ تکمیل کی مانیٹرنگ کس طرح ہوگی اور الیکشن کے بعد کی نئی صورتحال میں پالیسیوں اور منصوبوں کا تسلسل جمہوری عمل کے ساتھ کس درجہ ہم آہنگی کی صائب نظیر پیش کریگا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں 343 ارب 91 کروڑ 12 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، نگراں حکومت یکم جولائی سے30ستمبر تک بجٹ خرچ کرنے کی مجاز ہوگی، آیندہ منتخب حکومت کو مالی سال کے باقی عرصے کے اخراجات کی اسمبلی سے منظوری لینا ہوگی۔
صوبائی ترقیاتی پروگرام کے لیے بلاک ایلوکیشن کے ذریعے50ارب روپے بھی مختص کیے گئے ہیں جو نومنتخب حکومت اپنے پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرے گی۔ بجٹ میں صحت کے لیے 96ارب ، تعلیم کے لیے 208ارب روپے، امن وامان کے لیے ایک کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، مگر غربت اور مہنگائی ختم کرنے کی کوئی تدبیر بجٹ دستاویزات میں نہیں ملتی، اسی طرح سندھ فوڈ اتھارٹی کی بھی اشد ضرورت ہے، تعلیم و صحت کے لیے مختص رقم پوری توجہ سے متعلقہ شعبوں میں استعمال ہونی چاہیے، سندھ حکومت کو کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں اور دیہات کی ترقی کے منصوبوں اور زرعی ریلیف کے لیے گنا کاشتکاروں کے مسائل کے لیے ایک پائیدار میکنزم دینا چاہیے۔
اسی طرح تھر کا راگ الاپنے کے بجائے تھر کول منصوبہ کے قابل عمل روڈ میپ سے عوام کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہے، تھر میں بچوں کی غذائی کمی اور مسلسل ہلاکتوں کی روک تھام ، موروں کی نسلی معدومی کے خطرات کا سدباب کرنے کی ٹھوس اسکیمیں متعارف کرانی چاہئیں۔ سندھ کے بیشتر کھیلوں کے میدان ضروری سہولتوں سے محروم ہیں، اسپورٹس کی ترقی ، انٹرنیشنل سطح کے مقامی اسٹیڈیمز کی تعمیر، کھلاڑیوں ، فنکاروں کی مالی امداد میں اضافہ اور ادبی شعبے میں تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ پولیس میں11259اہلکاروں کی بھرتی، سی پیک منصوبوںکی سیکیورٹی کے لیے2782اہلکاروں کی بھرتی سمیت تربیت کی فراہمی کے لیے 2959 بھرتیوں کا اعلان کیا۔ سندھ پولیس اور تھانہ کلچر بدلنے کے لیے بجٹ میں دی گئی رقم معقول ہے تاہم بھرتیوں کا طریقہ کار فرسودہ ہے، جب کہ میرٹ کو تمام سرکاری شعبوں کے لیے ناگزیر قراردیا جانا چاہیے، سندھ میں تعلیم وصحت کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، بعض اسکول اور سرکاری اسپتال مذبح خانوں سے بدتر ہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی ، سکھر اور حیدرآباد جیل حساس قرار دیے گئے ہیں، کراچی جیل کی منتقلی بھی شہر سے دور تجویز کی گئی ہے،اس منصوبہ پر جلد سے جلد عمل کیا جائے، ٹرانسپورٹ کی سہولتوںکے لیے بسوں کے فلیٹ بلاتاخیر سڑکوں پر لائے جائیں۔
شہر میں تشدد، جرائم اور قانون شکنی کے واقعات تشویش ناک ہیں، اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے پولیس کی تربیت کے لیے مختص رقم کو تعلیم یافتہ لوکل پولیس کی تعیناتی سے مشروط کرنا وقت کا تقاضہ ہے، بجٹ میں بجلی کے شعبے کے لیے23ارب 90کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے سندھ حکومت کے اداروں اور محکموں پر واجبات کی ادائیگیوں کے لیے مختص20ارب روپے شامل ہیں۔
یہ ادائیگیاں کے الیکٹرک، حیدرآباد الیکٹرک اور سکھر الیکٹرک کمپنیوںکو کی جائیں گی لیکن اس سے پہلے بھی اربوں روپے بجلی محکموں کو سبسڈی کی شکل میں دیے جاتے رہے مگر ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری شہر اور ملکی اقتصادی انجن کی توانائی بحران سے جان نہیں چھوٹی ، سندھ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے حوالہ سے کے الیکٹرک کے بارے میں کسی قسم کا اعلان نہیں کیا، شہری بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔
آب پاشی کے لیے50 ارب روپے، سندھ پولیس کے لیے 89ارب90کروڑ روپے، زراعت کے لیے15ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بجٹ دستاویزکے مطابق آیندہ مالی سال وفاقی حکومت کے قابل تقسیم پول سے605 ارب 28 کروڑ 57 لاکھ، تیل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں 43 ارب 52 کروڑ 73 لاکھ روپے جب کہ آکٹرائے ٹیکس کے نقصانات کی مد میں16 ارب 27 کروڑ 24 لاکھ روپے حاصل ہوں گے۔
بجٹ کا مجموعی حجم11کھرب 44 ارب 44 کروڑ 88 لاکھ روپے ہوگا جس میں خسارے کا تخمینہ20 ارب 45 کروڑ 75 لاکھ روپے رکھا گیا ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی آخری بجٹ تقریر میں کہا کہ ہماری آمدنی کا تقریباً 75 فیصد وفاقی منتقلیوں، وفاقی قابل تقسیم پول میں سے حصہ، براہ راست منتقلیاں اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کی معطلی کے نتیجہ میں نقصان کو پورا کرنے کی مد میں گرانٹ پر انحصار ہے۔
جب کہ نویں این ایف سی ایوارڈ پر فیصلہ کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے، این ایف سی ایوارڈ نہ ملنے سے سندھ کو بڑے معاشی خسارے کا سامنا ہے ، سندھ حکومت نے تعلیم، صحت ، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی منصوبہ بندی کی ہے، کراچی میںBrits اورنج لائن اور ریڈ لائن کے ذریعے اربن ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی کی ہے، انھوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ کو اپنے بچوں میں کم غذائیت اور سوکھے کی بیماری کا چیلنج درپیش ہے۔
کسی شعبہ میں اپ لفٹ کے لیے کوئی پیکیج نہیں دیا گیا، سندھ حکومت اپنے آخری بجٹ میں مزدوروں کو بھول گئی، گزشتہ بجٹ میں کم از کم تنخواہ14 ہزار روپے سے بڑھاکر 15 ہزار روپے کی گئی تھی مگر وفاقی بجٹ کی طرح 19-2018 کے سندھ بجٹ میں بھی مزدوروں کی اجرت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ آیندہ مالی سال کے لیے نیا ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے بجٹ میں فنانس بل بوجوہ پیش نہیں کیا گیا۔
بہر کیف سندھ حکومت نے اپنی کمٹمنٹ پوری کردی، بجٹ ہنگامی ضروریات کی مد میں شفافیت کے ساتھ عوام کے معیار زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرے تو الیکشن موسم کا یہ مثبت پیغام ہی ہوگا۔
اپوزیشن نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس کی تعریف کی جائے، اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے 10 برسوں کا حساب لیں گے، بجٹ اجلاس اور تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج جاری رہا، اپوزیشن نے ایجنڈہ کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں ۔ بزنس، شہری اور دیہی حلقوں کا بجٹ کے حوالہ سے رد عمل ملاجلا تھا، یوں بھی اس بجٹ کی محدودات الیکشن موسم کے باعث قابل غور ہیں، اسے متوازن بجٹ کہنا بے جا نہ ہوگا، یہ جمہوری بریک تھرو اور سسٹم کے تسلسل کو رواں دواں رکھنے کی نیک تمنا ہے کہ حزب اختلاف اور حکومتی ارکان آخری بجٹ سیشن میں موجود رہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بجٹ میں مختص رقوم کے بروقت استعمال اور روبہ عمل لائے جانے والے نئے منصوبوں کی شفافیت کے ساتھ تکمیل کی مانیٹرنگ کس طرح ہوگی اور الیکشن کے بعد کی نئی صورتحال میں پالیسیوں اور منصوبوں کا تسلسل جمہوری عمل کے ساتھ کس درجہ ہم آہنگی کی صائب نظیر پیش کریگا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں 343 ارب 91 کروڑ 12 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، نگراں حکومت یکم جولائی سے30ستمبر تک بجٹ خرچ کرنے کی مجاز ہوگی، آیندہ منتخب حکومت کو مالی سال کے باقی عرصے کے اخراجات کی اسمبلی سے منظوری لینا ہوگی۔
صوبائی ترقیاتی پروگرام کے لیے بلاک ایلوکیشن کے ذریعے50ارب روپے بھی مختص کیے گئے ہیں جو نومنتخب حکومت اپنے پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرے گی۔ بجٹ میں صحت کے لیے 96ارب ، تعلیم کے لیے 208ارب روپے، امن وامان کے لیے ایک کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، مگر غربت اور مہنگائی ختم کرنے کی کوئی تدبیر بجٹ دستاویزات میں نہیں ملتی، اسی طرح سندھ فوڈ اتھارٹی کی بھی اشد ضرورت ہے، تعلیم و صحت کے لیے مختص رقم پوری توجہ سے متعلقہ شعبوں میں استعمال ہونی چاہیے، سندھ حکومت کو کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں اور دیہات کی ترقی کے منصوبوں اور زرعی ریلیف کے لیے گنا کاشتکاروں کے مسائل کے لیے ایک پائیدار میکنزم دینا چاہیے۔
اسی طرح تھر کا راگ الاپنے کے بجائے تھر کول منصوبہ کے قابل عمل روڈ میپ سے عوام کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہے، تھر میں بچوں کی غذائی کمی اور مسلسل ہلاکتوں کی روک تھام ، موروں کی نسلی معدومی کے خطرات کا سدباب کرنے کی ٹھوس اسکیمیں متعارف کرانی چاہئیں۔ سندھ کے بیشتر کھیلوں کے میدان ضروری سہولتوں سے محروم ہیں، اسپورٹس کی ترقی ، انٹرنیشنل سطح کے مقامی اسٹیڈیمز کی تعمیر، کھلاڑیوں ، فنکاروں کی مالی امداد میں اضافہ اور ادبی شعبے میں تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ پولیس میں11259اہلکاروں کی بھرتی، سی پیک منصوبوںکی سیکیورٹی کے لیے2782اہلکاروں کی بھرتی سمیت تربیت کی فراہمی کے لیے 2959 بھرتیوں کا اعلان کیا۔ سندھ پولیس اور تھانہ کلچر بدلنے کے لیے بجٹ میں دی گئی رقم معقول ہے تاہم بھرتیوں کا طریقہ کار فرسودہ ہے، جب کہ میرٹ کو تمام سرکاری شعبوں کے لیے ناگزیر قراردیا جانا چاہیے، سندھ میں تعلیم وصحت کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، بعض اسکول اور سرکاری اسپتال مذبح خانوں سے بدتر ہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی ، سکھر اور حیدرآباد جیل حساس قرار دیے گئے ہیں، کراچی جیل کی منتقلی بھی شہر سے دور تجویز کی گئی ہے،اس منصوبہ پر جلد سے جلد عمل کیا جائے، ٹرانسپورٹ کی سہولتوںکے لیے بسوں کے فلیٹ بلاتاخیر سڑکوں پر لائے جائیں۔
شہر میں تشدد، جرائم اور قانون شکنی کے واقعات تشویش ناک ہیں، اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے پولیس کی تربیت کے لیے مختص رقم کو تعلیم یافتہ لوکل پولیس کی تعیناتی سے مشروط کرنا وقت کا تقاضہ ہے، بجٹ میں بجلی کے شعبے کے لیے23ارب 90کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے سندھ حکومت کے اداروں اور محکموں پر واجبات کی ادائیگیوں کے لیے مختص20ارب روپے شامل ہیں۔
یہ ادائیگیاں کے الیکٹرک، حیدرآباد الیکٹرک اور سکھر الیکٹرک کمپنیوںکو کی جائیں گی لیکن اس سے پہلے بھی اربوں روپے بجلی محکموں کو سبسڈی کی شکل میں دیے جاتے رہے مگر ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری شہر اور ملکی اقتصادی انجن کی توانائی بحران سے جان نہیں چھوٹی ، سندھ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے حوالہ سے کے الیکٹرک کے بارے میں کسی قسم کا اعلان نہیں کیا، شہری بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔
آب پاشی کے لیے50 ارب روپے، سندھ پولیس کے لیے 89ارب90کروڑ روپے، زراعت کے لیے15ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بجٹ دستاویزکے مطابق آیندہ مالی سال وفاقی حکومت کے قابل تقسیم پول سے605 ارب 28 کروڑ 57 لاکھ، تیل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں 43 ارب 52 کروڑ 73 لاکھ روپے جب کہ آکٹرائے ٹیکس کے نقصانات کی مد میں16 ارب 27 کروڑ 24 لاکھ روپے حاصل ہوں گے۔
بجٹ کا مجموعی حجم11کھرب 44 ارب 44 کروڑ 88 لاکھ روپے ہوگا جس میں خسارے کا تخمینہ20 ارب 45 کروڑ 75 لاکھ روپے رکھا گیا ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی آخری بجٹ تقریر میں کہا کہ ہماری آمدنی کا تقریباً 75 فیصد وفاقی منتقلیوں، وفاقی قابل تقسیم پول میں سے حصہ، براہ راست منتقلیاں اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کی معطلی کے نتیجہ میں نقصان کو پورا کرنے کی مد میں گرانٹ پر انحصار ہے۔
جب کہ نویں این ایف سی ایوارڈ پر فیصلہ کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے، این ایف سی ایوارڈ نہ ملنے سے سندھ کو بڑے معاشی خسارے کا سامنا ہے ، سندھ حکومت نے تعلیم، صحت ، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی منصوبہ بندی کی ہے، کراچی میںBrits اورنج لائن اور ریڈ لائن کے ذریعے اربن ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی کی ہے، انھوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ کو اپنے بچوں میں کم غذائیت اور سوکھے کی بیماری کا چیلنج درپیش ہے۔
کسی شعبہ میں اپ لفٹ کے لیے کوئی پیکیج نہیں دیا گیا، سندھ حکومت اپنے آخری بجٹ میں مزدوروں کو بھول گئی، گزشتہ بجٹ میں کم از کم تنخواہ14 ہزار روپے سے بڑھاکر 15 ہزار روپے کی گئی تھی مگر وفاقی بجٹ کی طرح 19-2018 کے سندھ بجٹ میں بھی مزدوروں کی اجرت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ آیندہ مالی سال کے لیے نیا ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے بجٹ میں فنانس بل بوجوہ پیش نہیں کیا گیا۔
بہر کیف سندھ حکومت نے اپنی کمٹمنٹ پوری کردی، بجٹ ہنگامی ضروریات کی مد میں شفافیت کے ساتھ عوام کے معیار زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرے تو الیکشن موسم کا یہ مثبت پیغام ہی ہوگا۔