سیکولر جمہوری ریاست کے فوائد
سیاسیات کے علم کے ماہرین برطانیہ کی جمہوریت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے ہیں۔
برطانیہ کے نئے وزیر داخلہ سجاد جاوید کا تعلق ایک پاکستانی خاندان سے ہے ان کے والد ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ وہ 60ء کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئے۔ جب وہ برطانیہ آئے تو ان کی جیب میں موجود کل رقم ایک پونڈ تھی۔ سجاد جاوید پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں اور ٹوری پارٹی کی جانب سے رکن پارلیمنٹ نامزد ہونے سے پہلے تک وہ Deutsche Bank میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔
جاوید برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے غربت کے ماحول میں آنکھ کھولی مگر اپنے باپ کی شکل میں ایک محنت کش کو پایا، یوں انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کنزرویٹو پارٹی میں شرکت اختیار کی۔ وہ وزیر اعظم تھریسامے کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے ۔ سابق وزیر داخلہ Amber Rudd امیگریشن پالیسی پر اختلافات کی بناء پر مستعفی ہوئے تھے۔ وزیراعظم تھریسامے نے اس اہم ترین ذمے داری کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے ۔
وزیرداخلہ سجاد جاوید کا پہلا چیلنج غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ ان سے پہلے سعیدہ وارثی کابینہ میں سینئر وزیرکے عہدے پر تعینات تھیں ۔ انھیں کنزرویٹو پارٹی کا چیئر پرسن مقرر کیا گیا تھا ۔ سعیدہ وارثی نے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے غیر انسانی رویے پر اختلافات کی بناء پر وزارت سے استعفیٰ دیا تھا ۔ دو سال قبل لندن کے میئر کے انتخابات میں صادق خان منتخب ہوئے ۔ ان کے مقابلے میں عمران خان کی سابق اہلیہ کے بھائی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
عمران خان نے اپنے سابق برادر نسبتی کے حق میں مہم چلائی تھی مگر لندن کے لوگوں نے صادق خان کو میئر منتخب کیا۔ پاکستانی نژاد سے قبل بھارت اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوچکے ہیں مگر وزیر داخلہ جیسے اہم عہدے پر ایک پاکستانی نژاد کی تعیناتی برطانیہ کی سیکولر جمہوری ریاست کی بناء پر ہی ممکن ہوئی۔
برطانیہ میں جمہوریت کا ارتقاء پرامن ماحول میں ہوا۔ صنعتی ترقی نے سب سے پہلے معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں۔ مزدور اور متوسط طبقہ وجود میں آیا، تعلیم عام ہوئی، کسانوں نے شہروں کا رخ کیا اور پیشہ تبدیل کر کے مزدور بن گئے، شہروں کی آبادی بڑھی اور نئے شہر آباد ہوئے، خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھی ، تعلیم عام ہونے اور صنعتی اداروں کے اشتہارات ملنے سے اخبارات کی پیداوار بڑھی اور دانشوروں میں انسانی حقوق کے تحفظ اور عوام کی ریاست پر بالادستی کا تصور عام ہوا مگر برطانیہ کا انتخابی نظام ابتدائی زمانے میں زبوں حالی کا شکار تھا۔
جب لوگوں میں مسائل کے حل کے لیے اجتماعی جدوجہد کا تصور اجاگر ہوا تو پہلے سیاسی جماعتیں پھر مزدور یونینیں،کسان، صحافیوں اور وکلاء کی انجمنیں قائم ہوئیں اور سول سوسائٹی کی موثر طاقت وجود میں آئی ۔ برطانیہ میں انتخابی نظام ہمیشہ سے آج کی طرح شفاف نہیں تھا ۔
چرچ اور بادشاہ کے اشتراک سے ایک آمرانہ نظام قائم تھا ۔ صنعتی دور میں مزدور طبقہ وجود میں آیا اور متوسط طبقے کا سائز بڑھا، یوں دانشوروں نے ریاست کی ہئیت کی تبدیلی اور ریاست پر عوام کی بالادستی کے لیے شعور پھیلانا شروع کیا، لوگوں نے بادشاہ اور چرچ کی آمریت کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ چرچ ایک رجعت پسند معاشرے کا علمبردار تھا۔ ایسا معاشرہ جس میں رجعت پسندی اور جہالت کو اولیت ہو اور روشن خیالی اور سائنسی طرز فکر کو سزا سمجھا جائے ، یوں پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 12ویں صدی میں ایک فیصلہ کن لڑائی ہوئی اور اس لڑائی میں بادشاہ اور چرچ کو شکست ہوئی ۔ برطانوی چرچ نے پاپائے روم سے تعلق ختم کیا ، یوں مذہب ایک ذاتی مسئلہ قرار پایا اور عوام کی بالادستی کے تصور کو تقویت ملی۔
برطانیہ میں چند سو سال قبل تک انتخابی نظام بدعنوانی اور تعصب کا مجموعہ تھا۔ ہر شخص کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، ووٹر کی اہلیت کے لیے 7 مختلف طریقے تھے مگر جائیداد نہ رکھنے والے ووٹ دینے کے اہل نہیں تھے ۔ اس زمانے میں بالغوں میں 95 فیصد کی آبادی جن میں خواتین بھی شامل تھیں ، ووٹ نہیں دے سکتی تھی، یوں House of Common میں نمایندگی محدود تھی۔ مختلف شہروں کی آبادی کی نمایندگی کا تناسب مختلف تھا۔
زیادہ آبادی والے علاقے کی نمایندگی کم اورکم آبادی والے علاقوں کی نمایندگی زیادہ تھی ، پھر ووٹر لسٹ میں آجروں کا تسلط تھا، ایک وقت تو ایسا تھا کہ ووٹروں کو اپنے نمایندوں کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے دہی کا حق حاصل نہیں تھا ۔ ووٹر اپنے نمایندوںکے عوام کے سامنے نام ظاہر کرنے کے پابند تھے تاکہ مزدور آجروں کے مفاد کے خلاف ووٹ نہ دے سکیں۔
1832ء تک پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستیں اسی طریقہ کار کے تحت پر ہوتی تھیں ۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی پارلیمانی اصلاحات کی تحریک زور پکڑ گئی۔ ایک رکن پارلیمنٹ Henry Hont نے پارلیمنٹ کے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کی، مختلف شہروں میں فسادات ہوئے۔ تین انتخابات کے بعد سیاست دانوں نے انتخابی اصلاحات کی اہمیت کو محسوس کیا، 1832ء میں عظیم اصلاحات کا قانون منظور ہوا۔ اس قانون کے نفاذ سے پہلے 10،10 بالغ افراد میں سے صرف ایک فرد ووٹ کا اہل تھا مگر وہ خفیہ رائے دہی کا حق استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ 1832ء کے قانون کے تحت یہ اصول طے ہوا کہ آبادی کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے گی۔
1834ء میں ٹوری رہنما سر رابرٹ پیل (Sir Robert Peel)نے Tamworth Manchestor کا اجراء کیا تو تاریخ میں (Statement of the new conservative reform principle) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح کنزرویٹو پارٹی کا نام دوبارہ رکھا گیا ۔ سر رابرٹ نے پورے ملک میں کلب قائم کیے تاکہ ان کلبوں کے ذریعے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ لبرل اراکین پارلیمنٹ نے Liberal Registration Association قائم کی تاکہ ٹوری پارٹی کی مخالفت کی جائے ۔ Urbanization کا تناسب بڑھنے سے مزدور طبقے کا حکم بڑھنے لگا ۔ مزدور ٹریڈ یونین کانگریس کی شکل میں ایک موثر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، سوشلزم کا نظریہ انقلابی نعرے کے طور پر مقبول ہونے لگا۔ برطانیہ میں 1838ء سے 1848ء کے دوران ہر سال انتخابات کا نعرہ زور پکڑ گیا۔ 1866ء میں ریفارم لیگ کا لندن کے ہائیڈ پارک میں اجتماع ہوا ۔ پولیس نے اس اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے طاقت استعمال کی۔ اب تک انتخابات میں اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں تھی، یوں انتخابی مہم کے دوران ووٹروں کو مختلف نوعیت کی ترغیبات دی جاتی تھیں۔
بی بی سی ورلڈ ہسٹری میگزین میں ڈاکٹر میٹ کول کے شایع ہونے والے ایک آرٹیکل میں تحریرکیا گیا تھا کہ 1868ء میں بیڈ فورڈ سے انتخابات میں حصہ لینے والے تین امیداروں نے ایک ہزار پونڈ (موجودہ 5 لاکھ پونڈ کی مالیت کے برابر)خر چ کیے ہیں ۔ برطانیہ میں 1872ء میں فیصلہ کیا گیا کہ ووٹ صرف بیلٹ بکس میں ہی ڈالے جائیں گے۔ 1880ء میں ووٹروں کو کسی قسم کی ترغیب دینے (رشوت دینے) کو فوجداری جرم قرار دیا گیا۔
1884ء ایکٹ کو برطانیہ کے انتخابی اصلاحات کا انقلابی قانون قرار دیا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی کے آغازکے ساتھ ہر رکن پارلیمنٹ کو 400 پونڈ تنخواہ ملنے لگے۔ 1906ء کے انتخابات میں لبرل گورنمنٹ میں شامل ریڈیکل عناصر نے نئی لیبر پالیسی کی حمایت کی۔ 1911ء میں House of Lords کا قانون سازی کے لیے ووٹ کا حق ختم کردیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خواتین کو ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ 1969ء میں 18 سال کے عمرکے نوجوانوں کے ووٹ کے حق کو تسلیم کرلیا گیا، اس طرح برطانیہ میں رہنے والے ہر فرد کو مذہب، جنس ، ذات اور رنگ کے امتیازکے بغیر امیدوار بننے اور ریاست کے کسی بھی عہدے پر فائز ہونے کا حق حاصل ہوا ۔ ان تمام امتیازات کے خاتمے کی بناء پر برطانوی نوآبادی میں غلاموں کی زندگی گزارنے والے افراد کے بچوں کو حکمرانی کا حق حاصل ہوا ۔
سیاسیات کے علم کے ماہرین برطانیہ کی جمہوریت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے ہیں مگر برطانیہ میں جمہوریت کا ارتقاء بغیر کسی رکاوٹ کے صدیوں پر محیط ہے۔ ہمارے ملک میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل نہیں ہیں ۔ مسلمان شہری تیس تیس سال تک کسی دوسرے اسلامی ملک میں محنت مزدوری کر کے زندگی گزارتے ہیں مگر انھیں اس ملک کی شہریت اور جائیداد خریدنے کا حق نہیں ہوتا ۔ ہم ایک ایسی سیکولر جمہوری ریاست قائم کرکے ہی ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں جس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں ۔
جاوید برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے غربت کے ماحول میں آنکھ کھولی مگر اپنے باپ کی شکل میں ایک محنت کش کو پایا، یوں انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کنزرویٹو پارٹی میں شرکت اختیار کی۔ وہ وزیر اعظم تھریسامے کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے ۔ سابق وزیر داخلہ Amber Rudd امیگریشن پالیسی پر اختلافات کی بناء پر مستعفی ہوئے تھے۔ وزیراعظم تھریسامے نے اس اہم ترین ذمے داری کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے ۔
وزیرداخلہ سجاد جاوید کا پہلا چیلنج غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ ان سے پہلے سعیدہ وارثی کابینہ میں سینئر وزیرکے عہدے پر تعینات تھیں ۔ انھیں کنزرویٹو پارٹی کا چیئر پرسن مقرر کیا گیا تھا ۔ سعیدہ وارثی نے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے غیر انسانی رویے پر اختلافات کی بناء پر وزارت سے استعفیٰ دیا تھا ۔ دو سال قبل لندن کے میئر کے انتخابات میں صادق خان منتخب ہوئے ۔ ان کے مقابلے میں عمران خان کی سابق اہلیہ کے بھائی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
عمران خان نے اپنے سابق برادر نسبتی کے حق میں مہم چلائی تھی مگر لندن کے لوگوں نے صادق خان کو میئر منتخب کیا۔ پاکستانی نژاد سے قبل بھارت اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوچکے ہیں مگر وزیر داخلہ جیسے اہم عہدے پر ایک پاکستانی نژاد کی تعیناتی برطانیہ کی سیکولر جمہوری ریاست کی بناء پر ہی ممکن ہوئی۔
برطانیہ میں جمہوریت کا ارتقاء پرامن ماحول میں ہوا۔ صنعتی ترقی نے سب سے پہلے معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں۔ مزدور اور متوسط طبقہ وجود میں آیا، تعلیم عام ہوئی، کسانوں نے شہروں کا رخ کیا اور پیشہ تبدیل کر کے مزدور بن گئے، شہروں کی آبادی بڑھی اور نئے شہر آباد ہوئے، خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھی ، تعلیم عام ہونے اور صنعتی اداروں کے اشتہارات ملنے سے اخبارات کی پیداوار بڑھی اور دانشوروں میں انسانی حقوق کے تحفظ اور عوام کی ریاست پر بالادستی کا تصور عام ہوا مگر برطانیہ کا انتخابی نظام ابتدائی زمانے میں زبوں حالی کا شکار تھا۔
جب لوگوں میں مسائل کے حل کے لیے اجتماعی جدوجہد کا تصور اجاگر ہوا تو پہلے سیاسی جماعتیں پھر مزدور یونینیں،کسان، صحافیوں اور وکلاء کی انجمنیں قائم ہوئیں اور سول سوسائٹی کی موثر طاقت وجود میں آئی ۔ برطانیہ میں انتخابی نظام ہمیشہ سے آج کی طرح شفاف نہیں تھا ۔
چرچ اور بادشاہ کے اشتراک سے ایک آمرانہ نظام قائم تھا ۔ صنعتی دور میں مزدور طبقہ وجود میں آیا اور متوسط طبقے کا سائز بڑھا، یوں دانشوروں نے ریاست کی ہئیت کی تبدیلی اور ریاست پر عوام کی بالادستی کے لیے شعور پھیلانا شروع کیا، لوگوں نے بادشاہ اور چرچ کی آمریت کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ چرچ ایک رجعت پسند معاشرے کا علمبردار تھا۔ ایسا معاشرہ جس میں رجعت پسندی اور جہالت کو اولیت ہو اور روشن خیالی اور سائنسی طرز فکر کو سزا سمجھا جائے ، یوں پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 12ویں صدی میں ایک فیصلہ کن لڑائی ہوئی اور اس لڑائی میں بادشاہ اور چرچ کو شکست ہوئی ۔ برطانوی چرچ نے پاپائے روم سے تعلق ختم کیا ، یوں مذہب ایک ذاتی مسئلہ قرار پایا اور عوام کی بالادستی کے تصور کو تقویت ملی۔
برطانیہ میں چند سو سال قبل تک انتخابی نظام بدعنوانی اور تعصب کا مجموعہ تھا۔ ہر شخص کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، ووٹر کی اہلیت کے لیے 7 مختلف طریقے تھے مگر جائیداد نہ رکھنے والے ووٹ دینے کے اہل نہیں تھے ۔ اس زمانے میں بالغوں میں 95 فیصد کی آبادی جن میں خواتین بھی شامل تھیں ، ووٹ نہیں دے سکتی تھی، یوں House of Common میں نمایندگی محدود تھی۔ مختلف شہروں کی آبادی کی نمایندگی کا تناسب مختلف تھا۔
زیادہ آبادی والے علاقے کی نمایندگی کم اورکم آبادی والے علاقوں کی نمایندگی زیادہ تھی ، پھر ووٹر لسٹ میں آجروں کا تسلط تھا، ایک وقت تو ایسا تھا کہ ووٹروں کو اپنے نمایندوں کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے دہی کا حق حاصل نہیں تھا ۔ ووٹر اپنے نمایندوںکے عوام کے سامنے نام ظاہر کرنے کے پابند تھے تاکہ مزدور آجروں کے مفاد کے خلاف ووٹ نہ دے سکیں۔
1832ء تک پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستیں اسی طریقہ کار کے تحت پر ہوتی تھیں ۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی پارلیمانی اصلاحات کی تحریک زور پکڑ گئی۔ ایک رکن پارلیمنٹ Henry Hont نے پارلیمنٹ کے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کی، مختلف شہروں میں فسادات ہوئے۔ تین انتخابات کے بعد سیاست دانوں نے انتخابی اصلاحات کی اہمیت کو محسوس کیا، 1832ء میں عظیم اصلاحات کا قانون منظور ہوا۔ اس قانون کے نفاذ سے پہلے 10،10 بالغ افراد میں سے صرف ایک فرد ووٹ کا اہل تھا مگر وہ خفیہ رائے دہی کا حق استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ 1832ء کے قانون کے تحت یہ اصول طے ہوا کہ آبادی کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے گی۔
1834ء میں ٹوری رہنما سر رابرٹ پیل (Sir Robert Peel)نے Tamworth Manchestor کا اجراء کیا تو تاریخ میں (Statement of the new conservative reform principle) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح کنزرویٹو پارٹی کا نام دوبارہ رکھا گیا ۔ سر رابرٹ نے پورے ملک میں کلب قائم کیے تاکہ ان کلبوں کے ذریعے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ لبرل اراکین پارلیمنٹ نے Liberal Registration Association قائم کی تاکہ ٹوری پارٹی کی مخالفت کی جائے ۔ Urbanization کا تناسب بڑھنے سے مزدور طبقے کا حکم بڑھنے لگا ۔ مزدور ٹریڈ یونین کانگریس کی شکل میں ایک موثر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، سوشلزم کا نظریہ انقلابی نعرے کے طور پر مقبول ہونے لگا۔ برطانیہ میں 1838ء سے 1848ء کے دوران ہر سال انتخابات کا نعرہ زور پکڑ گیا۔ 1866ء میں ریفارم لیگ کا لندن کے ہائیڈ پارک میں اجتماع ہوا ۔ پولیس نے اس اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے طاقت استعمال کی۔ اب تک انتخابات میں اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں تھی، یوں انتخابی مہم کے دوران ووٹروں کو مختلف نوعیت کی ترغیبات دی جاتی تھیں۔
بی بی سی ورلڈ ہسٹری میگزین میں ڈاکٹر میٹ کول کے شایع ہونے والے ایک آرٹیکل میں تحریرکیا گیا تھا کہ 1868ء میں بیڈ فورڈ سے انتخابات میں حصہ لینے والے تین امیداروں نے ایک ہزار پونڈ (موجودہ 5 لاکھ پونڈ کی مالیت کے برابر)خر چ کیے ہیں ۔ برطانیہ میں 1872ء میں فیصلہ کیا گیا کہ ووٹ صرف بیلٹ بکس میں ہی ڈالے جائیں گے۔ 1880ء میں ووٹروں کو کسی قسم کی ترغیب دینے (رشوت دینے) کو فوجداری جرم قرار دیا گیا۔
1884ء ایکٹ کو برطانیہ کے انتخابی اصلاحات کا انقلابی قانون قرار دیا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی کے آغازکے ساتھ ہر رکن پارلیمنٹ کو 400 پونڈ تنخواہ ملنے لگے۔ 1906ء کے انتخابات میں لبرل گورنمنٹ میں شامل ریڈیکل عناصر نے نئی لیبر پالیسی کی حمایت کی۔ 1911ء میں House of Lords کا قانون سازی کے لیے ووٹ کا حق ختم کردیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خواتین کو ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ 1969ء میں 18 سال کے عمرکے نوجوانوں کے ووٹ کے حق کو تسلیم کرلیا گیا، اس طرح برطانیہ میں رہنے والے ہر فرد کو مذہب، جنس ، ذات اور رنگ کے امتیازکے بغیر امیدوار بننے اور ریاست کے کسی بھی عہدے پر فائز ہونے کا حق حاصل ہوا ۔ ان تمام امتیازات کے خاتمے کی بناء پر برطانوی نوآبادی میں غلاموں کی زندگی گزارنے والے افراد کے بچوں کو حکمرانی کا حق حاصل ہوا ۔
سیاسیات کے علم کے ماہرین برطانیہ کی جمہوریت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے ہیں مگر برطانیہ میں جمہوریت کا ارتقاء بغیر کسی رکاوٹ کے صدیوں پر محیط ہے۔ ہمارے ملک میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل نہیں ہیں ۔ مسلمان شہری تیس تیس سال تک کسی دوسرے اسلامی ملک میں محنت مزدوری کر کے زندگی گزارتے ہیں مگر انھیں اس ملک کی شہریت اور جائیداد خریدنے کا حق نہیں ہوتا ۔ ہم ایک ایسی سیکولر جمہوری ریاست قائم کرکے ہی ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں جس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں ۔