سعید امرت کی بیٹھک
سعید امرت کو میں ، صلاح الدین پراچہ سے ملنے سے بہت پہلے بحیثیت ایک افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے جانتا تھا۔
بندر روڈ سے ملحق اور برنس روڈ کے پچھواڑے دو ماہناموں کے دفاتر تھے، ان میں سے ایک ماہنامہ ''نقاد'' تھا اور دوسرا ماہنامہ ''رومان''، جسے ادب کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا میں بھی بڑی شہرت حاصل تھی۔ ماہنامہ ''رومان'' کے ایڈیٹر سعید امرت تھے جن کا ادبی دنیا میں بھی ایک بڑا نام تھا اور ایک زمانے میں ان کے افسانے پاکستان و ہندوستان کے مشہور ادبی رسائل میں شایع ہوتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی صلاح الدین پراچہ سے بھی میری نگار ویکلی کی وجہ سے بڑی اچھی دوستی رہی تھی۔
سعید امرت کو میں ، صلاح الدین پراچہ سے ملنے سے بہت پہلے بحیثیت ایک افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے جانتا تھا۔ سعادت حسن منٹو کے بعد جن کئی افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کی بے باک تحریروں کو فحش قرار دے کر بین کیا گیا، ان میں سعید امرت کا بھی نام شامل رہا ہے اور ان کا ایک مشہور ناول ''اور وہ آوارہ ہوگئی'' کو فحش قرار دے کر بین کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سعید امرت کو عدالت کی پیشیوں اور ہزیمت سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کے ایک دیرینہ دوست سمیع دہلوی نے ایک ماہنامہ ''رومان'' کا اجرا کیا اور پھر ماہنامے سعید امرت کے حوالے کر دیا تھا۔
فلمی خبروں کو باکس کی صورت میں نمایاں کر کے شایع کرنے کا آغاز ''رومان'' ہی نے کیا تھا اور وہ خبریں عام فلمی خبریں نہیں بلکہ خاص فلمی خبریں ہوا کرتی تھیں، وہ اندرکی خفیہ خبریں ہوتی تھیں، جن کی اشاعت پر پہلے فلمی فنکار بہت چراغ پا ہوتے ہوئے، انھیں من گھڑت اور جھوٹی قرار دیا کرتے تھے پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ خبریں سچی ثابت ہوتی تھیں تو ان فنکاروں کو شرمندگی ہوتی تھی اور رومان سے ناراضگی اور ناپسندیدگی کا ایک سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہتا تھا۔ بعض اوقات رومان کو فلمی اشتہارات بھی دینے بندکر دیے جاتے تھے، مگر ماہانہ رومان کے پبلشر سمیع دہلوی سعید امرت کو نہ کمزور ہونے دیتے تھے اور نہ ہی فلمی دنیا کے گھمنڈی لوگوں کے آگے جھکنے دیتے تھے۔
اب میں آتا ہوں سعید امرت کی بیٹھک کی طرف۔ رومان کے دفتر میں نہ صرف فلم آرٹسٹ، ٹی وی ریڈیو آرٹسٹ بلکہ اکثر و بیشتر مقامی صحافیوں کی بھی خوب آمد و رفت رہتی تھی۔ میری ڈھاکہ سے آئے ہوئے فنکاروں سے ملاقاتیں بھی اکثر و بیشتر رومان کے دفتر بلکہ سعید امرت کی بیٹھک میں ہوتی تھیں۔ ڈھاکہ کی اردو فلموں کے مشہور نغمہ نگار شاعر صدیقی سے پہلی بار میں سعید امرت کی بیٹھک ہی میں ملا تھا۔ شاعر صدیقی جن کا لکھا ہوا ایک لازوال گیت جسے شہناز بیگم نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:
کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے
ان کی بیٹھک میں میری اکثر ملاقات کراچی کے نوجوان صحافیوں سے بھی ہو جایا کرتی تھی جن میں اسد جعفری، خورشید اختر، انور فرہاد، سلیم باسط، اقبال احمد خان اور نادرشاہ عادل بھی شامل ہوتے تھے ۔ احمد رشدی جب بھی ریڈیو اسٹیشن اپنی کسی ریکارڈنگ کی وجہ سے آتے تو وہ کبھی دوپہر یا کبھی شام کے وقت سعید امرت سے ملنے ضرور آتے تھے۔ ٹیلی ویژن آرٹسٹوں میں معین اختر اکثر وبیشتر سعید امرت کی بیٹھک میں اپنی دلچسپ گفتگو سے محفل کوگرمایا کرتا تھا۔ وہ جب بھی دوپہر کو آتا تو سعید امرت کے دستر خوان سے کھانا کھا کر ضرور جایا کرتا تھا۔
ایک دن احمد رشدی، استاد امیر احمد خان، میں اور معین اختر رومان کے دفتر میں موجود تھے میں اور استاد امیر احمد خان نے جیسے ہی اٹھنے کے لیے خدا حافظ کے الفاظ کہنا چاہے تو سعید امرت بولے ارے بھئی! احمد رشدی، معین اختر دوپہرکا کھانا کھائے بغیر ہماری جان نہ چھوڑیں گے پھر آپ دونوں بھی دوپہر کے کھانے کے بغیر کیسے جا سکتے ہو۔ سعید بھائی نے پھر رومان کے ایک ملازم سے کہا جاؤ بھئی! برنس روڈ کی نہاری، گولہ کباب دھاگے والے اور پٹھان کے ہوٹل سے چنے کی دال اور گرم گرم نان لے آؤ۔ احمد رشدی نے کہا۔ سعید بھائی! یہ گولہ کباب میں تو مزے لے لے کر کھا لوں گا مگر معین اختر اول تو یہ کباب کھائے گا نہیں یا پھر کھائے گا تو دیر تک مرچوں کی وجہ سے سی سی کرے گا۔
معین یہ سن کر مسکرایا تو سعید امرت بولے ارے بھئی! احمد رشدی کھل کر کہو نہ کہ دہی بڑے کھانے کو بھی دل چاہ رہا ہے تو احمد رشدی نے پھر لقمہ دیا سعید بھائی! یہ دہی بڑے مرچوں کی دف مار دیتے ہیں، پھر کمرے میں قہقہے بکھر گئے۔ کچھ دیر بعد دستر خوان سج گیا میں یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ سعید امرت کی بیٹھک میں کھانے کا باہر سے اہتمام دوستوں کے لیے کیا جاتا تھا، جب کہ سعید امرت کا کھانا نہایت کم مرچوں کا روزانہ ان کے گھر سے آیا کرتا تھا اور وہ اپنے گھر کی ایک روٹی اور گھر سے آیا ہوا سالن ہی کھاتے تھے کہ انھیں ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق پرہیزی کھانا کھانے کی عادت ہو گئی تھی، کبھی کبھی کراچی فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے کچھ عہدیدار جن میں صلاح الدین پراچہ، یوکملانی اور اے۔آر سلوٹ بھی ہوتے تھے رومان کے دفتر میں مشوروں کے لیے آ جایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور فلمی صحافی بھی تھا۔
ایک دن معین اختر بہت سارے کارڈز لے کر سعید امرت کے دفتر میں آیا اور پھر پتہ چلا کہ وہ کارڈز اس کی شادی کے کارڈز ہیں۔ معین اختر ہمارے دوستوں میں وہ واحد نوجوان ساتھی تھا جس کی شادی بہت جلدی ہو رہی تھی اور اس شادی کے لیے معین اختر کے والد نے معین اختر کو یہ کہہ کر پابند کر دیا تھا کہ بس اب تم شادی کے بندھن میں بندھ جاؤ ہم نہیں چاہتے کہ تم جس پروفیشن میں ہو اس پروفیشن میں تم راہ راست سے بھٹک جاؤ۔ معین اختر کے والد ایک سخت مزاج انسان ضرور تھے مگر وہ اپنے بچوں کی پرورش میں کسی قسم کی کوتاہی پسند نہیں کرتے تھے۔ معین اختر اتنی جلدی شادی کرنا تو نہیں چاہتا تھا مگر والد کے حکم کے آگے اس کی ایک نہیں چلی تھی۔
اس نے سر تسلیم خم کر دیا تھا اور پھر چند دنوں کے بعد معین اختر دولہا بنا، دوستوں کے درمیان موجود تھا۔ معین اختر کی شادی میں مقامی فنکاروں فلمی صحافیوں کے ساتھ ساتھ سعید امرت نے بھی خاص طور پر شرکت کی تھی۔پھر کچھ عرصے بعد میں بھی لاہور چلا گیا اور وہاں کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگیا تھا مگر جب بھی سال کے بعد عید یا بقر عید پر کراچی اپنے گھر والوں سے ملنے آتا تھا تو سعید امرت کی بیٹھک میں ضرور حاضری دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں جیسے ہی رومان کے دفتر میں داخل ہوا تو سعید امرت کہنے لگے یونس ہمدم! آدھا گھنٹہ پہلے اگر تم آتے تو تمہاری اداکار جلیل افغانی صاحب سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ پھر انھوں نے دلچسپ انداز میں بتایا کہ ہم نے آج جلیل افغانی سے کہا۔
افغانی صاحب! آپ جب بھی ہمارے دفتر میں آتے ہیں آپ کو جھک کر آنا پڑتا ہے ہمیں بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اپنے دفتر کے کمرے کی چوکھٹ اب کچھ بڑی کروا دیں تاکہ آیندہ آپ کو جھک کر نہ آنا پڑے تو جواب میں ان کا بلند قہقہہ اتنا گونجا تھا کہ شاید اوپر والی منزل پر رہنے والوں کو زلزلے کا گمان ہوا تھا۔ یہ سن کر میں بھی ہنس پڑا تھا۔ مجھے یہ ایک اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں جب پورے بارہ برس کے بعد لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آیا تو سعید امرت نے میرے بارے میں ایک باکس کی صورت میں بڑی سی خبر لگائی تھی جس کا عنوان تھا یونس ہمدم بارہ برس کے بن باس کے بعد واپس کراچی آگئے۔
اور پھر کراچی آتے ہی میرے والد صاحب نے اسی سال مجھے بھی شادی کی زنجیر میں باندھ کر دوبارہ لاہور نہ جانے کا اٹل فیصلہ سنا دیا تھا اور میری شادی میں بھی سعید امرت کے ساتھ کراچی کے تقریباً سارے ہی اہم فنکاروں نے شرکت کی تھی اور ولیمے کی رات ایک شاندار فنکشن کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں لاہور سے خاص طور پر اداکارہ سنگیتا، ہمایوں قریشی اور گلوکار اخلاق احمد نے خود شرکت کی تھی۔ بڑے عرصے کے بعد مجھے گزشتہ دنوں اس گلی سے گزرتے ہوئے فرید پبلشر کی طرف جانا تھا جس گلی میں رومان کا دفتر تھا تو میں بھی ماضی میں چلا گیا تھا اور سعید امرت کی بیٹھک یاد آ گئی تھی۔
سعید امرت کو میں ، صلاح الدین پراچہ سے ملنے سے بہت پہلے بحیثیت ایک افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے جانتا تھا۔ سعادت حسن منٹو کے بعد جن کئی افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کی بے باک تحریروں کو فحش قرار دے کر بین کیا گیا، ان میں سعید امرت کا بھی نام شامل رہا ہے اور ان کا ایک مشہور ناول ''اور وہ آوارہ ہوگئی'' کو فحش قرار دے کر بین کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سعید امرت کو عدالت کی پیشیوں اور ہزیمت سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کے ایک دیرینہ دوست سمیع دہلوی نے ایک ماہنامہ ''رومان'' کا اجرا کیا اور پھر ماہنامے سعید امرت کے حوالے کر دیا تھا۔
فلمی خبروں کو باکس کی صورت میں نمایاں کر کے شایع کرنے کا آغاز ''رومان'' ہی نے کیا تھا اور وہ خبریں عام فلمی خبریں نہیں بلکہ خاص فلمی خبریں ہوا کرتی تھیں، وہ اندرکی خفیہ خبریں ہوتی تھیں، جن کی اشاعت پر پہلے فلمی فنکار بہت چراغ پا ہوتے ہوئے، انھیں من گھڑت اور جھوٹی قرار دیا کرتے تھے پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ خبریں سچی ثابت ہوتی تھیں تو ان فنکاروں کو شرمندگی ہوتی تھی اور رومان سے ناراضگی اور ناپسندیدگی کا ایک سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہتا تھا۔ بعض اوقات رومان کو فلمی اشتہارات بھی دینے بندکر دیے جاتے تھے، مگر ماہانہ رومان کے پبلشر سمیع دہلوی سعید امرت کو نہ کمزور ہونے دیتے تھے اور نہ ہی فلمی دنیا کے گھمنڈی لوگوں کے آگے جھکنے دیتے تھے۔
اب میں آتا ہوں سعید امرت کی بیٹھک کی طرف۔ رومان کے دفتر میں نہ صرف فلم آرٹسٹ، ٹی وی ریڈیو آرٹسٹ بلکہ اکثر و بیشتر مقامی صحافیوں کی بھی خوب آمد و رفت رہتی تھی۔ میری ڈھاکہ سے آئے ہوئے فنکاروں سے ملاقاتیں بھی اکثر و بیشتر رومان کے دفتر بلکہ سعید امرت کی بیٹھک میں ہوتی تھیں۔ ڈھاکہ کی اردو فلموں کے مشہور نغمہ نگار شاعر صدیقی سے پہلی بار میں سعید امرت کی بیٹھک ہی میں ملا تھا۔ شاعر صدیقی جن کا لکھا ہوا ایک لازوال گیت جسے شہناز بیگم نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:
کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے
ان کی بیٹھک میں میری اکثر ملاقات کراچی کے نوجوان صحافیوں سے بھی ہو جایا کرتی تھی جن میں اسد جعفری، خورشید اختر، انور فرہاد، سلیم باسط، اقبال احمد خان اور نادرشاہ عادل بھی شامل ہوتے تھے ۔ احمد رشدی جب بھی ریڈیو اسٹیشن اپنی کسی ریکارڈنگ کی وجہ سے آتے تو وہ کبھی دوپہر یا کبھی شام کے وقت سعید امرت سے ملنے ضرور آتے تھے۔ ٹیلی ویژن آرٹسٹوں میں معین اختر اکثر وبیشتر سعید امرت کی بیٹھک میں اپنی دلچسپ گفتگو سے محفل کوگرمایا کرتا تھا۔ وہ جب بھی دوپہر کو آتا تو سعید امرت کے دستر خوان سے کھانا کھا کر ضرور جایا کرتا تھا۔
ایک دن احمد رشدی، استاد امیر احمد خان، میں اور معین اختر رومان کے دفتر میں موجود تھے میں اور استاد امیر احمد خان نے جیسے ہی اٹھنے کے لیے خدا حافظ کے الفاظ کہنا چاہے تو سعید امرت بولے ارے بھئی! احمد رشدی، معین اختر دوپہرکا کھانا کھائے بغیر ہماری جان نہ چھوڑیں گے پھر آپ دونوں بھی دوپہر کے کھانے کے بغیر کیسے جا سکتے ہو۔ سعید بھائی نے پھر رومان کے ایک ملازم سے کہا جاؤ بھئی! برنس روڈ کی نہاری، گولہ کباب دھاگے والے اور پٹھان کے ہوٹل سے چنے کی دال اور گرم گرم نان لے آؤ۔ احمد رشدی نے کہا۔ سعید بھائی! یہ گولہ کباب میں تو مزے لے لے کر کھا لوں گا مگر معین اختر اول تو یہ کباب کھائے گا نہیں یا پھر کھائے گا تو دیر تک مرچوں کی وجہ سے سی سی کرے گا۔
معین یہ سن کر مسکرایا تو سعید امرت بولے ارے بھئی! احمد رشدی کھل کر کہو نہ کہ دہی بڑے کھانے کو بھی دل چاہ رہا ہے تو احمد رشدی نے پھر لقمہ دیا سعید بھائی! یہ دہی بڑے مرچوں کی دف مار دیتے ہیں، پھر کمرے میں قہقہے بکھر گئے۔ کچھ دیر بعد دستر خوان سج گیا میں یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ سعید امرت کی بیٹھک میں کھانے کا باہر سے اہتمام دوستوں کے لیے کیا جاتا تھا، جب کہ سعید امرت کا کھانا نہایت کم مرچوں کا روزانہ ان کے گھر سے آیا کرتا تھا اور وہ اپنے گھر کی ایک روٹی اور گھر سے آیا ہوا سالن ہی کھاتے تھے کہ انھیں ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق پرہیزی کھانا کھانے کی عادت ہو گئی تھی، کبھی کبھی کراچی فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے کچھ عہدیدار جن میں صلاح الدین پراچہ، یوکملانی اور اے۔آر سلوٹ بھی ہوتے تھے رومان کے دفتر میں مشوروں کے لیے آ جایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور فلمی صحافی بھی تھا۔
ایک دن معین اختر بہت سارے کارڈز لے کر سعید امرت کے دفتر میں آیا اور پھر پتہ چلا کہ وہ کارڈز اس کی شادی کے کارڈز ہیں۔ معین اختر ہمارے دوستوں میں وہ واحد نوجوان ساتھی تھا جس کی شادی بہت جلدی ہو رہی تھی اور اس شادی کے لیے معین اختر کے والد نے معین اختر کو یہ کہہ کر پابند کر دیا تھا کہ بس اب تم شادی کے بندھن میں بندھ جاؤ ہم نہیں چاہتے کہ تم جس پروفیشن میں ہو اس پروفیشن میں تم راہ راست سے بھٹک جاؤ۔ معین اختر کے والد ایک سخت مزاج انسان ضرور تھے مگر وہ اپنے بچوں کی پرورش میں کسی قسم کی کوتاہی پسند نہیں کرتے تھے۔ معین اختر اتنی جلدی شادی کرنا تو نہیں چاہتا تھا مگر والد کے حکم کے آگے اس کی ایک نہیں چلی تھی۔
اس نے سر تسلیم خم کر دیا تھا اور پھر چند دنوں کے بعد معین اختر دولہا بنا، دوستوں کے درمیان موجود تھا۔ معین اختر کی شادی میں مقامی فنکاروں فلمی صحافیوں کے ساتھ ساتھ سعید امرت نے بھی خاص طور پر شرکت کی تھی۔پھر کچھ عرصے بعد میں بھی لاہور چلا گیا اور وہاں کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگیا تھا مگر جب بھی سال کے بعد عید یا بقر عید پر کراچی اپنے گھر والوں سے ملنے آتا تھا تو سعید امرت کی بیٹھک میں ضرور حاضری دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں جیسے ہی رومان کے دفتر میں داخل ہوا تو سعید امرت کہنے لگے یونس ہمدم! آدھا گھنٹہ پہلے اگر تم آتے تو تمہاری اداکار جلیل افغانی صاحب سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ پھر انھوں نے دلچسپ انداز میں بتایا کہ ہم نے آج جلیل افغانی سے کہا۔
افغانی صاحب! آپ جب بھی ہمارے دفتر میں آتے ہیں آپ کو جھک کر آنا پڑتا ہے ہمیں بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اپنے دفتر کے کمرے کی چوکھٹ اب کچھ بڑی کروا دیں تاکہ آیندہ آپ کو جھک کر نہ آنا پڑے تو جواب میں ان کا بلند قہقہہ اتنا گونجا تھا کہ شاید اوپر والی منزل پر رہنے والوں کو زلزلے کا گمان ہوا تھا۔ یہ سن کر میں بھی ہنس پڑا تھا۔ مجھے یہ ایک اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں جب پورے بارہ برس کے بعد لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آیا تو سعید امرت نے میرے بارے میں ایک باکس کی صورت میں بڑی سی خبر لگائی تھی جس کا عنوان تھا یونس ہمدم بارہ برس کے بن باس کے بعد واپس کراچی آگئے۔
اور پھر کراچی آتے ہی میرے والد صاحب نے اسی سال مجھے بھی شادی کی زنجیر میں باندھ کر دوبارہ لاہور نہ جانے کا اٹل فیصلہ سنا دیا تھا اور میری شادی میں بھی سعید امرت کے ساتھ کراچی کے تقریباً سارے ہی اہم فنکاروں نے شرکت کی تھی اور ولیمے کی رات ایک شاندار فنکشن کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں لاہور سے خاص طور پر اداکارہ سنگیتا، ہمایوں قریشی اور گلوکار اخلاق احمد نے خود شرکت کی تھی۔ بڑے عرصے کے بعد مجھے گزشتہ دنوں اس گلی سے گزرتے ہوئے فرید پبلشر کی طرف جانا تھا جس گلی میں رومان کا دفتر تھا تو میں بھی ماضی میں چلا گیا تھا اور سعید امرت کی بیٹھک یاد آ گئی تھی۔