اغوا برائے تاوان میں مبینہ طور پر ملوث پولیس افسران کیخلاف درخواست پر نوٹس
معلومات پرایس آئی یوکا افسرنکلا،مقدمہ درج کرنےاورتاوان کی رقم واپس دلوانےکی درخواست پرمحکمہ داخلہ ودیگرسےجواب طلب.
لاہور:
سندھ ہائی کورٹ نے اغوا برائے تاوان میں ملوث ایس آئی یو افسران کے خلاف کارروائی کیلیے دائر درخواست پر محکمہ داخلہ،آئی جی سندھ،ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کمنٹس طلب کرلیے۔
ظہور احمد اور محمدآصف خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار تاجر ہیں اور سونے کا کاروبار کرتے ہیں، 21 مئی 2012 کو درخواست گزار ظہور اور شبیر احمد کو بانٹوا اسپتال سے اغوا کیا گیا، ملزمان ان پر تشدد کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک نامعلوم مقام پر منتقل کرکے دو کروڑ روپے تاوان طلب کیا، اس دوران اغوا کار انھیں مسلسل ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے فائرنگ بھی کرتے رہے، بالآخر اغوا کاروں سے 80 لاکھ روپے میں معاملہ طے پایا اور تاوان کی رقم کی ادائیگی پر 23 مئی کو ظہور احمد کو کباڑی مارکیٹ اور شبیر احمد کو رنچھوڑ لائن کے علاقے میں پھینک دیا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق چند روز قبل انھوں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک اغوا کار کو انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا تو ٹی وی چینل کے دفتر سے معلوم ہوا کہ وہ ایس آئی یو کا افسر ہے، مزید معلومات حاصل کرنے پر اغوا کاروں کی شناخت سب انسپکٹرسعادت بٹ، اے ایس آئی راشد اور کانسٹیبل چیمہ اور فہیم کے ناموں سے ہوئی ہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ افسران و اہلکاروں کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کرایا جائے اور تاوان کی رقم 80لاکھ روپے واپس دلوائی جائے، فاضل بینچ نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی ہے کہ درخواست گزاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اغوا برائے تاوان میں ملوث ایس آئی یو افسران کے خلاف کارروائی کیلیے دائر درخواست پر محکمہ داخلہ،آئی جی سندھ،ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کمنٹس طلب کرلیے۔
ظہور احمد اور محمدآصف خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار تاجر ہیں اور سونے کا کاروبار کرتے ہیں، 21 مئی 2012 کو درخواست گزار ظہور اور شبیر احمد کو بانٹوا اسپتال سے اغوا کیا گیا، ملزمان ان پر تشدد کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک نامعلوم مقام پر منتقل کرکے دو کروڑ روپے تاوان طلب کیا، اس دوران اغوا کار انھیں مسلسل ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے فائرنگ بھی کرتے رہے، بالآخر اغوا کاروں سے 80 لاکھ روپے میں معاملہ طے پایا اور تاوان کی رقم کی ادائیگی پر 23 مئی کو ظہور احمد کو کباڑی مارکیٹ اور شبیر احمد کو رنچھوڑ لائن کے علاقے میں پھینک دیا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق چند روز قبل انھوں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک اغوا کار کو انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا تو ٹی وی چینل کے دفتر سے معلوم ہوا کہ وہ ایس آئی یو کا افسر ہے، مزید معلومات حاصل کرنے پر اغوا کاروں کی شناخت سب انسپکٹرسعادت بٹ، اے ایس آئی راشد اور کانسٹیبل چیمہ اور فہیم کے ناموں سے ہوئی ہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ افسران و اہلکاروں کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کرایا جائے اور تاوان کی رقم 80لاکھ روپے واپس دلوائی جائے، فاضل بینچ نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی ہے کہ درخواست گزاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔