کمانڈو کے دائو پیچ
میں کافی دنوں تک یہ بھی نہ سمجھ پاتا کہ انھوں نے میرے سوالوں کے جواب میں کوئی شعر پڑھ کر دراصل کہا کیا ہے۔
صاحبزادہ یعقوب علی خان ماشاء اللہ 95 برس کے ہو گئے ہیں۔ بڑھاپے کی وجہ سے انھوں نے اپنے گھر سے نکلنا بند کر دیا ہے۔ مگر میری اطلاع کے مطابق ان کا ذہن اب بھی بہت چست و رواں ہے۔ ان سے ملاقات کی خواہش کرنے والوں کی فہرست سامنے آتی ہے تو کچھ نام منتخب کر کے ملنے کا وقت دے دیتے ہیں۔ بہت دنوں سے میں بھی حاضر ہونے کی درخواست ڈالنا چاہ رہا تھا۔ ابھی تک عمل نہ کر پایا۔ میری کوتاہی اور بدنصیبی۔
اپنے خاندانی اور جرنیلی پسِ منظر کی وجہ سے یعقوب خان بڑے ''صاحب'' قسم کے آدمی ہیں۔ اُردو کے علاوہ سات زبانیں بڑی روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں۔ مگر سماجی تقریبات میں ہمیشہ دوسروں کی باتیں زیادہ سنتے رہے ہیں۔ ان سے بے تکلف ہو جانا تقریباََ ناممکنات میں سے ہے۔ ان کی جانی پہچانی کم گوئی اور لوگوں سے فاصلہ رکھنے کی عادت کے باوجود میں اپنی جوانی کے دنوں میں ان سے کہیں اتفاقاََ مل جانے کے بعد رپورٹروں والی حرکتیں کرنا شروع کر دیتا۔ پہلے پہل وہ صرف مسکرا کر آگے بڑھ جاتے۔ آہستہ آہستہ میرے ڈھیٹ پن سے مجبور ہو کر مجھے کافی دیر تک سن لیتے اور پھر غالب کا کوئی مصرعہ یا شعر سنا کر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔
میں کافی دنوں تک یہ بھی نہ سمجھ پاتا کہ انھوں نے میرے سوالوں کے جواب میں کوئی شعر پڑھ کر دراصل کہا کیا ہے۔ 1990ء کی ابتداء میں کسی تقریب کے دوران انھوں نے مجھے دیکھا تو خود آگے بڑھے اور مجھے شفیق اُستادوں کی طرح سمجھایا کہ میں نے اپنے ایک انگریزی کالم میں جو محاورہ لکھا تھا وہ میرے مضمون سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ میں جو کچھ اس کالم میں کہنا چاہ رہا تھا اسے ایک سطر میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا تھا۔ ان کی جانب سے اصلاح کا یوں آ جانا میں نے اپنے لیے بڑی رحمت سمجھا اور اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس دن کے بعد سے ان کے اِرد گرد منڈلانا بھی شروع ہو گیا۔
نومبر 1996ء میں جب سردار فاروق لغاری مرحوم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف کی تو صاحبزادہ صاحب عبوری حکومت کے وزیر خارجہ بنائے گئے۔ ان دنوں ہم صحافیوں کی اکثریت یہ طے کر بیٹھی تھی کہ صدر لغاری اپنی ہی جماعت کی اکثریت والی قومی اسمبلی توڑ کر نئی اسمبلی کے لیے انتخابات نوے دنوں میں نہیں کرائیں گے۔ کڑے احتساب کے نام پر عبوری حکومت کا دورانیہ کم از کم تین سال تک بڑھا دیا جائے گا۔ میں نے ان تمام امکانات کا ذکر اپنے ایک کالم میں لکھ دیا۔ جس دن وہ کالم شایع ہوا، اسی روز صاحبزادہ صاحب نے مجھے اپنے ہاں رات کے کھانے پر بلا لیا۔
وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ کھانے کی میز پر ان کی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کوئی بھی موجود نہ تھا۔ اس میز پر بیٹھ کر لاہور کی گلیوں کی میرے جیسی پیداوار کو یہ بھی پتہ چلا کہ بڑے لوگ کھانا کھاتے ہوئے کن لوازمات و تکلفات کا اہتمام کرتے ہیں۔ خیر اس ملاقات میں صاحبزادہ صاحب نے مجھے تقریباََ سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ چاہے کچھ ہو جائے انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ میں نے ان کی سوچ کی مخالفت میں بڑے دلائل دیے۔
انھوں نے سارے کے سارے بڑے صبر سے سنے اور آخر میں یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر اُبھرنے والے امکانات پر کچھ لکھنے سے پہلے مجھے وائٹ ہائوس اور امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمانوں کے وہ ریمارکس بغور پڑھنا چاہیے جو وہ وقتاََ فوقتاََ پاکستان کے بارے میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں دیا کرتے ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد میں نے گھر لوٹ کر ان دنوں سے متعلقہ ایسے ریمارکس ڈھونڈے اور سمجھ آ گئی۔ انتخابات واقعی وقت پر ہوئے اور نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔
12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ اُلٹا تو میں صاحبزادہ صاحب کو ملنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ بالآخر میرا ان سے ایک دعوت میں ٹاکرا ہو گیا جہاں صرف تین چار اور لوگ موجود تھے۔ ان سب کی موجودگی میں صاحبزادہ یعقوب خان صاحب سے میں صرف یہ سوال کرتا رہا کہ وہ جنرل مشرف کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ میرے سوالوں کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے ایک اور مہمان کے ساتھ ٹالسٹائی کے War and Peace کی باریکیاں اور فلسفیانہ گہرائی بیان کرتے رہے۔
کھانا ختم ہو گیا اور میں ایک مؤدب شخص کا روپ دھارے انھیں ان کی گاڑی تک چھوڑنے گیا۔ بائیں ہاتھ والی پچھلی نشست پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے مجھے انگریز میں پوچھا کہ میں واقعی جنرل مشرف کو جاننا چاہتا ہوں۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو انھوں نے "He is a Commando. All Tactics, No Strategy" آسان اُردو میں اس فقرے کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف ایک کمانڈو ہے۔ ایسے لوگ کسی گہری حکمت عملی کے بغیر بس اپنے دائو پیچ دکھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ صاحبزادہ یعقوب علی کے اس فقرے کی ادائیگی کے بعد جنرل مشرف نے نو سال تک بڑے ٹھاٹھ سے اس ملک پر حکومت کی۔
میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ اس کمانڈو کو سمجھنے میں صاحبزادہ جیسے زیرک اور تجربہ کار بزرگ بھی ناکام رہے۔ مگر اب دو تین روز سے میں اپنی اس سوچ پر شرمندہ ہو رہا ہوں۔ بالآخر ثابت ہو گیا کہ جنرل مشرف کوئی گہری حکمت عملی سوچنے کی صلاحیت سے قطعی محروم ہیں۔ بس آنیاں جانیاں ہیں اور پھرتیاں۔ ایک بات پر لیکن میں اب بھی اصرار کروں گا اور وہ یہ کہ ایک کمانڈو کو یقیناً کرتب بازی دکھانے کا ذرا زیادہ شوق ہوتا ہے۔ مگر کہیں بھی جانے سے پہلے وہ Exit Strategy یعنی باہر نکلنے کا راستہ بھی اپنے ذہن میں رکھتا ہے۔ یہ راستہ موجود ہو تو دھماکے کر کے مصیبت کی گھڑی میں عافیت کے ساتھ وہاں سے باہر نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ مشرف بھی شاید بچ نکلیں گے۔ کیوں اور کیسے؟ میں نہیں جانتا۔
اپنے خاندانی اور جرنیلی پسِ منظر کی وجہ سے یعقوب خان بڑے ''صاحب'' قسم کے آدمی ہیں۔ اُردو کے علاوہ سات زبانیں بڑی روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں۔ مگر سماجی تقریبات میں ہمیشہ دوسروں کی باتیں زیادہ سنتے رہے ہیں۔ ان سے بے تکلف ہو جانا تقریباََ ناممکنات میں سے ہے۔ ان کی جانی پہچانی کم گوئی اور لوگوں سے فاصلہ رکھنے کی عادت کے باوجود میں اپنی جوانی کے دنوں میں ان سے کہیں اتفاقاََ مل جانے کے بعد رپورٹروں والی حرکتیں کرنا شروع کر دیتا۔ پہلے پہل وہ صرف مسکرا کر آگے بڑھ جاتے۔ آہستہ آہستہ میرے ڈھیٹ پن سے مجبور ہو کر مجھے کافی دیر تک سن لیتے اور پھر غالب کا کوئی مصرعہ یا شعر سنا کر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔
میں کافی دنوں تک یہ بھی نہ سمجھ پاتا کہ انھوں نے میرے سوالوں کے جواب میں کوئی شعر پڑھ کر دراصل کہا کیا ہے۔ 1990ء کی ابتداء میں کسی تقریب کے دوران انھوں نے مجھے دیکھا تو خود آگے بڑھے اور مجھے شفیق اُستادوں کی طرح سمجھایا کہ میں نے اپنے ایک انگریزی کالم میں جو محاورہ لکھا تھا وہ میرے مضمون سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ میں جو کچھ اس کالم میں کہنا چاہ رہا تھا اسے ایک سطر میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا تھا۔ ان کی جانب سے اصلاح کا یوں آ جانا میں نے اپنے لیے بڑی رحمت سمجھا اور اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس دن کے بعد سے ان کے اِرد گرد منڈلانا بھی شروع ہو گیا۔
نومبر 1996ء میں جب سردار فاروق لغاری مرحوم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف کی تو صاحبزادہ صاحب عبوری حکومت کے وزیر خارجہ بنائے گئے۔ ان دنوں ہم صحافیوں کی اکثریت یہ طے کر بیٹھی تھی کہ صدر لغاری اپنی ہی جماعت کی اکثریت والی قومی اسمبلی توڑ کر نئی اسمبلی کے لیے انتخابات نوے دنوں میں نہیں کرائیں گے۔ کڑے احتساب کے نام پر عبوری حکومت کا دورانیہ کم از کم تین سال تک بڑھا دیا جائے گا۔ میں نے ان تمام امکانات کا ذکر اپنے ایک کالم میں لکھ دیا۔ جس دن وہ کالم شایع ہوا، اسی روز صاحبزادہ صاحب نے مجھے اپنے ہاں رات کے کھانے پر بلا لیا۔
وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ کھانے کی میز پر ان کی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کوئی بھی موجود نہ تھا۔ اس میز پر بیٹھ کر لاہور کی گلیوں کی میرے جیسی پیداوار کو یہ بھی پتہ چلا کہ بڑے لوگ کھانا کھاتے ہوئے کن لوازمات و تکلفات کا اہتمام کرتے ہیں۔ خیر اس ملاقات میں صاحبزادہ صاحب نے مجھے تقریباََ سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ چاہے کچھ ہو جائے انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ میں نے ان کی سوچ کی مخالفت میں بڑے دلائل دیے۔
انھوں نے سارے کے سارے بڑے صبر سے سنے اور آخر میں یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر اُبھرنے والے امکانات پر کچھ لکھنے سے پہلے مجھے وائٹ ہائوس اور امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمانوں کے وہ ریمارکس بغور پڑھنا چاہیے جو وہ وقتاََ فوقتاََ پاکستان کے بارے میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں دیا کرتے ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد میں نے گھر لوٹ کر ان دنوں سے متعلقہ ایسے ریمارکس ڈھونڈے اور سمجھ آ گئی۔ انتخابات واقعی وقت پر ہوئے اور نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔
12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ اُلٹا تو میں صاحبزادہ صاحب کو ملنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ بالآخر میرا ان سے ایک دعوت میں ٹاکرا ہو گیا جہاں صرف تین چار اور لوگ موجود تھے۔ ان سب کی موجودگی میں صاحبزادہ یعقوب خان صاحب سے میں صرف یہ سوال کرتا رہا کہ وہ جنرل مشرف کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ میرے سوالوں کو قطعی نظرانداز کرتے ہوئے ایک اور مہمان کے ساتھ ٹالسٹائی کے War and Peace کی باریکیاں اور فلسفیانہ گہرائی بیان کرتے رہے۔
کھانا ختم ہو گیا اور میں ایک مؤدب شخص کا روپ دھارے انھیں ان کی گاڑی تک چھوڑنے گیا۔ بائیں ہاتھ والی پچھلی نشست پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے مجھے انگریز میں پوچھا کہ میں واقعی جنرل مشرف کو جاننا چاہتا ہوں۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو انھوں نے "He is a Commando. All Tactics, No Strategy" آسان اُردو میں اس فقرے کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف ایک کمانڈو ہے۔ ایسے لوگ کسی گہری حکمت عملی کے بغیر بس اپنے دائو پیچ دکھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ صاحبزادہ یعقوب علی کے اس فقرے کی ادائیگی کے بعد جنرل مشرف نے نو سال تک بڑے ٹھاٹھ سے اس ملک پر حکومت کی۔
میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ اس کمانڈو کو سمجھنے میں صاحبزادہ جیسے زیرک اور تجربہ کار بزرگ بھی ناکام رہے۔ مگر اب دو تین روز سے میں اپنی اس سوچ پر شرمندہ ہو رہا ہوں۔ بالآخر ثابت ہو گیا کہ جنرل مشرف کوئی گہری حکمت عملی سوچنے کی صلاحیت سے قطعی محروم ہیں۔ بس آنیاں جانیاں ہیں اور پھرتیاں۔ ایک بات پر لیکن میں اب بھی اصرار کروں گا اور وہ یہ کہ ایک کمانڈو کو یقیناً کرتب بازی دکھانے کا ذرا زیادہ شوق ہوتا ہے۔ مگر کہیں بھی جانے سے پہلے وہ Exit Strategy یعنی باہر نکلنے کا راستہ بھی اپنے ذہن میں رکھتا ہے۔ یہ راستہ موجود ہو تو دھماکے کر کے مصیبت کی گھڑی میں عافیت کے ساتھ وہاں سے باہر نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ مشرف بھی شاید بچ نکلیں گے۔ کیوں اور کیسے؟ میں نہیں جانتا۔