ڈرون حملے آخر کب تک
2005 اور 2006 میں دو دو دفعہ ڈرون حملے ہوئے اور 2007 میں چار حملے کیے گئے.
موجودہ حکومت کے جانے کے بعد ایک تسلی تو ہوئی تھی کہ اور کچھ نہیں تو ڈرون حملوں سے تو ہماری جان چھوٹ ہی جائے گی۔ لیکن اتوار اور پھر بدھ کو ہونے والے حملے اور آ ٹھ افراد کی ہلاکت نے اس قوم کو بتادیا ہے کہ کرپٹ حکمرانوں سے اگر جان چھوٹ بھی گئی جو کہ بظاہر تو مشکل نظر آتا ہے، ان کے کیے ہوئے معاہدے تادیر ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے اور دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ کے نام پہ یونہی بے گناہوں کا خون بہتا رہے گا۔
ڈرون حملوں کا آغاز مشرف کے دور حکومت میں 2004 کو اس وقت ہوا جب جنرل مشرف نے امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بن کر غیر مشروط طور پرساتھ دیا۔ ایک برطانوی اخبار دی ٹائمز 18 فروری 2009 کو لکھتا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ 2011 میں جب امریکیوں نے 24 پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا اس کے بعد پاکستان نے امریکی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔18 جون 2004 میں پہلی دفعہ امریکا نے ڈرون طیارے سے ہمارے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں غیرسرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ 5 سے 8 افراد ہلاک ہوئے اور پھر یوں یہ سلسلہ چل ہی پڑا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی گئی۔
2005 اور 2006 میں دو دو دفعہ ڈرون حملے ہوئے اور 2007 میں چار حملے کیے گئے، جن میں غیر سرکاری ذرایع کے مطابق مبینہ طور پر 109 لوگ مارے گئے۔ 2008 میں جمہوری حکومت کے حلف اٹھاتے ہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی وقار اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا سے ڈرون حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کیا جاتا مگر اس کے برعکس ان حملوں کے رکنے کے بجائے ان میں مزید شدت آگئی اور اس طرح صرف 2008 میں 36 حملے کیے گئے جن میں مبینہ طور پر 219 سے 344 لوگ لقمہ اجل بنے اور 2009 میں 54 بار ان طیاروں کے ذریعے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں مختلف ذرایع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ 5 سو سے لے کر 721 تک ہلاکتیں ہوئیں۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے سال 2010 پاکستان کے لیے بدترین سال تھا جس میں امریکا نے قبائلی علاقوں میں 122 ڈرون حملے کیے اور عام اندازے کے مطابق چھ سو سے 1028 تک لوگ ان حملوں میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ان تمام حملوں میں آج تک کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں ان کے بارے میں تو کوئی حتمی اندازہ لگا ہی نہیں سکتا، خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ 12 سو سے 15 سو تک لوگ زخمی ہوئے۔ 2010 کا آغاز بھی امریکا نے ڈرون حملوں کی صورت میں ہمارے حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کیا کہ اگر ہمارے احکام نہیں مانو گے تو اپنا انجام بھی دیکھ لو اور ساتھ ہی ان حملوں کو کوئٹہ تک بڑھانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
2011 میں 72 حملے کیے گئے جن میں 366 سے 599 تک لوگ مارے گئے۔ 2012 میں 48 حملے ہوئے اور مارے جانیوالوں کی تعداد 222 سے ساڑھے 3 سو تک تھی اور سال 2013 میں ابھی تک یہ سلسلہ برقرار ہے اور اب تک 8 حملے کیے جاچکے ہیں جن میں 47 سے 58 تک لوگ مارے جا چکے ہیں۔ بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق اب تک 2004 سے شروع ہونے والے حملوں میں 2629 سے 3461 لوگ مارے گئے ہیں لیکن مقامی ذرایع مرنے والوں کی تعداد 4ہزار سے زیادہ بتاتے ہیں۔ حتمی اعداد ذرایع ابلاغ کی اس جگہ غیر موجودگی کے باعث آج تک پتا ہی نہیں لگ سکے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پہ ان میں سے اصل میں کتنی بے گناہ جانیںامریکا کی کھلم کھلا جارحیت کا شکار ہوکے منوں مٹی تلے دفن ہوگئیں۔
ڈرون حملوں کی بظاہر حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بار پرزور مذمت کی گئی ہے اور دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بہت بار بیانات جاری کیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں یہ ہماری ملکی وقار پر حملہ ہے، ان کو کسی صورت میں بھی قبول نہیںکیا جا سکتا۔ ڈرون حملوں کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نہ صرف مذمتی قرار داد پاس کی گئی بلکہ ان حملوں کو ملکی سالمیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر بند کرانے کا پرزور مطالبہ بھی کیا گیا۔ مختلف دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کئی بار احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ لیکن اعلی سطح پر حکومتی بااثر لوگوں کا رویہ ایسا اطمینان بخش محسوس ہوتا ہے جیسے جو جیسے چل رہا ہے چلنے دو سب ٹھیک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے 4 اکتوبر 2008 میں یہ دعوی کیا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان خفیہ ڈیل ہے اور امریکا یہ حملے پاکستان کے تعاون سے کررہا ہے۔
امریکا کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ یہ حملے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں اور پاکستان اور امریکا کے تعاون سے ہورہے ہیں جن میں ہم نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور القاعدہ کے کئی اہم لیڈر مارے جا چکے ہیں۔ 25 مارچ 2010 کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قانونی مشیر نے ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جنگ القاعدہ اور طالبان کے خلاف ہے اور بین الااقوامی قانون کے مطابق امریکا اپنے دفاع کے لیے کہیں بھی کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے حالانکہ ان کی کانگریس کے کئی لوگ ان حملوں کی مخالفت کررہے ہیں، کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بڑھ رہی ہے۔
یونائٹیڈ نیشن نے بھی ان حملوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں 80 سے 90 فی صد لوگ بیگناہ مارے جارہے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہوگا جہاں انسانی زندگی سب سے ارزاں ہے، ان ڈرون حملوں کے نتائج آج ہر پاکستانی بھگت رہا ہے، ایک طرف وہ لوگ جو براہ راست ان کا نشانہ بن رہے ہیں، اور دوسری طرف آئے دن ہونیوالے خودکش حملوں کی صورت میں ساری قوم خمیازہ اٹھاتی ہے اور تب تک اٹھاتی رہے گی جب تک ہم بے بسی اور بے حسی سے یہ تماشا دیکھتے اور برداشت کرتے رہیں گے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت موجود ہے۔ قبائلی علاقوں میں بے گناہ عورتیں، بچے مر رہے ہیں لیکن حکمران ایک ارب ڈالر کی امداد کے لیے خاموش ہیں۔ جانے اس پاک زمیں پہ آخر خون ناحق کب تک بہتا رہے گا اور دہشتگردی کے نام پر ابھی اور کتنی زندگیاں موت کی آغوش میں چلی جائیں گی۔ آیندہ اقتدار کا منصب سنبھالنے والوں کو اس حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل اپنانا ہوگا ورنہ بے گناہوں کے خون کے دھبے ان کے دامن کو ہمیشہ داغدار ہی رکھیں گے۔
ڈرون حملوں کا آغاز مشرف کے دور حکومت میں 2004 کو اس وقت ہوا جب جنرل مشرف نے امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بن کر غیر مشروط طور پرساتھ دیا۔ ایک برطانوی اخبار دی ٹائمز 18 فروری 2009 کو لکھتا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ 2011 میں جب امریکیوں نے 24 پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا اس کے بعد پاکستان نے امریکی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔18 جون 2004 میں پہلی دفعہ امریکا نے ڈرون طیارے سے ہمارے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں غیرسرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ 5 سے 8 افراد ہلاک ہوئے اور پھر یوں یہ سلسلہ چل ہی پڑا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی گئی۔
2005 اور 2006 میں دو دو دفعہ ڈرون حملے ہوئے اور 2007 میں چار حملے کیے گئے، جن میں غیر سرکاری ذرایع کے مطابق مبینہ طور پر 109 لوگ مارے گئے۔ 2008 میں جمہوری حکومت کے حلف اٹھاتے ہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی وقار اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا سے ڈرون حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کیا جاتا مگر اس کے برعکس ان حملوں کے رکنے کے بجائے ان میں مزید شدت آگئی اور اس طرح صرف 2008 میں 36 حملے کیے گئے جن میں مبینہ طور پر 219 سے 344 لوگ لقمہ اجل بنے اور 2009 میں 54 بار ان طیاروں کے ذریعے قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں مختلف ذرایع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ 5 سو سے لے کر 721 تک ہلاکتیں ہوئیں۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے سال 2010 پاکستان کے لیے بدترین سال تھا جس میں امریکا نے قبائلی علاقوں میں 122 ڈرون حملے کیے اور عام اندازے کے مطابق چھ سو سے 1028 تک لوگ ان حملوں میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ان تمام حملوں میں آج تک کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں ان کے بارے میں تو کوئی حتمی اندازہ لگا ہی نہیں سکتا، خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ 12 سو سے 15 سو تک لوگ زخمی ہوئے۔ 2010 کا آغاز بھی امریکا نے ڈرون حملوں کی صورت میں ہمارے حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کیا کہ اگر ہمارے احکام نہیں مانو گے تو اپنا انجام بھی دیکھ لو اور ساتھ ہی ان حملوں کو کوئٹہ تک بڑھانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
2011 میں 72 حملے کیے گئے جن میں 366 سے 599 تک لوگ مارے گئے۔ 2012 میں 48 حملے ہوئے اور مارے جانیوالوں کی تعداد 222 سے ساڑھے 3 سو تک تھی اور سال 2013 میں ابھی تک یہ سلسلہ برقرار ہے اور اب تک 8 حملے کیے جاچکے ہیں جن میں 47 سے 58 تک لوگ مارے جا چکے ہیں۔ بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق اب تک 2004 سے شروع ہونے والے حملوں میں 2629 سے 3461 لوگ مارے گئے ہیں لیکن مقامی ذرایع مرنے والوں کی تعداد 4ہزار سے زیادہ بتاتے ہیں۔ حتمی اعداد ذرایع ابلاغ کی اس جگہ غیر موجودگی کے باعث آج تک پتا ہی نہیں لگ سکے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پہ ان میں سے اصل میں کتنی بے گناہ جانیںامریکا کی کھلم کھلا جارحیت کا شکار ہوکے منوں مٹی تلے دفن ہوگئیں۔
ڈرون حملوں کی بظاہر حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بار پرزور مذمت کی گئی ہے اور دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بہت بار بیانات جاری کیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں یہ ہماری ملکی وقار پر حملہ ہے، ان کو کسی صورت میں بھی قبول نہیںکیا جا سکتا۔ ڈرون حملوں کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نہ صرف مذمتی قرار داد پاس کی گئی بلکہ ان حملوں کو ملکی سالمیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر بند کرانے کا پرزور مطالبہ بھی کیا گیا۔ مختلف دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کئی بار احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ لیکن اعلی سطح پر حکومتی بااثر لوگوں کا رویہ ایسا اطمینان بخش محسوس ہوتا ہے جیسے جو جیسے چل رہا ہے چلنے دو سب ٹھیک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے 4 اکتوبر 2008 میں یہ دعوی کیا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان خفیہ ڈیل ہے اور امریکا یہ حملے پاکستان کے تعاون سے کررہا ہے۔
امریکا کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ یہ حملے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں اور پاکستان اور امریکا کے تعاون سے ہورہے ہیں جن میں ہم نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور القاعدہ کے کئی اہم لیڈر مارے جا چکے ہیں۔ 25 مارچ 2010 کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قانونی مشیر نے ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جنگ القاعدہ اور طالبان کے خلاف ہے اور بین الااقوامی قانون کے مطابق امریکا اپنے دفاع کے لیے کہیں بھی کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے حالانکہ ان کی کانگریس کے کئی لوگ ان حملوں کی مخالفت کررہے ہیں، کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بڑھ رہی ہے۔
یونائٹیڈ نیشن نے بھی ان حملوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں 80 سے 90 فی صد لوگ بیگناہ مارے جارہے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہوگا جہاں انسانی زندگی سب سے ارزاں ہے، ان ڈرون حملوں کے نتائج آج ہر پاکستانی بھگت رہا ہے، ایک طرف وہ لوگ جو براہ راست ان کا نشانہ بن رہے ہیں، اور دوسری طرف آئے دن ہونیوالے خودکش حملوں کی صورت میں ساری قوم خمیازہ اٹھاتی ہے اور تب تک اٹھاتی رہے گی جب تک ہم بے بسی اور بے حسی سے یہ تماشا دیکھتے اور برداشت کرتے رہیں گے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت موجود ہے۔ قبائلی علاقوں میں بے گناہ عورتیں، بچے مر رہے ہیں لیکن حکمران ایک ارب ڈالر کی امداد کے لیے خاموش ہیں۔ جانے اس پاک زمیں پہ آخر خون ناحق کب تک بہتا رہے گا اور دہشتگردی کے نام پر ابھی اور کتنی زندگیاں موت کی آغوش میں چلی جائیں گی۔ آیندہ اقتدار کا منصب سنبھالنے والوں کو اس حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل اپنانا ہوگا ورنہ بے گناہوں کے خون کے دھبے ان کے دامن کو ہمیشہ داغدار ہی رکھیں گے۔