سیاستدان اور…
پاکستان کے غریب عوام جو 12500 ارب روپے کے قرضوںکے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں
آج کل پاکستان میں الیکشن کا دور دورہ ہے، ہر طرف عام آدمی اور سیاستدان الیکشن کی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں، سیاستدان الیکشن جیتنے کے لیے ہر ممکن کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابات شفاف کروانے میں مصروف نظر آ رہے ہیں، جیسے کہ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھاکہ نئے بیلٹ پیپر میں ووٹر کو اختیار ہو گا کہ وہ تمام امیدواروں کو مسترد کردے، اگر ووٹرز کو کوئی امیدوار پسند نہیں تو خالی خانہ پر مہر لگا دیں۔بعدازاں قانونی پیچیدگیوں کے باعث خالی خانہ شامل کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا گیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ بیلٹ پیپر پر خالی خانہ متعارف کرانے کا فیصلہ ہوا تھا تاکہ ووٹرز ناپسندیدہ امیدواروں کے خلاف بھی رائے کا اظہار کرسکیں۔اگر خالی خانہ شامل کر لیا جاتا تو 51 فیصد ووٹ آنے پر متعلقہ حلقے کا الیکشن کالعدم ہو جاتا اور دوبارہ انتخاب کرایاجاتا، بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے کے لیے آرڈیننس جاری کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ممکن ہے کہ حیران کن باتیں حیرت انگیز نتائج پیش کر دیتیں اورسارے خانے خالی رہ جاتے اور صرف خالی خانہ پُر ہوجاتے۔ اس وقت ملک میں وہ تمام باتیں ہورہی ہیں جو ملک کی تاریخ میں کبھی نہ ہوئی تھیں، عوام سیاستدانوں سے کافی ناامید نظر آرہے ہیں، ہر رہنما تبدیلی کی بات کرتا ہے مگر تبدیلی نہیں آتی، جس کی وجہ سے عوام مایوس نظر آتے ہیں اور بولتے دکھائی دیتے ہیں تبدیلی عوام کے لیے نہیں بلکہ سیاستدانوں کے لیے ضرور آجاتی ہے اور عوام ویسے کے ویسے ہی رہ جاتے ہیں، غریب عوام کا پیسہ یہ سیاستدان اپنے اوپر لگادیتے ہیں اور عوام کو خواب تبدیلی کے دکھاتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں تبدیلی لانے کے دعویدار سیاسی رہنمائوں کو سیکیورٹی کے نام پر بلاجواز اور غیر معمولی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے غریب عوام جو 12500 ارب روپے کے قرضوںکے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، بعض سیاستدانوں کی سیکیورٹی کے نام پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں بعض مخصوص سیاستدانوں کی سکیورٹی پر 40 کروڑ 68 لاکھ 79 ہزار روپے، فریال تالپور پر 5 کروڑ 67 لاکھ 90 ہزار خرچ ہو رہے ہیں۔ ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر سیاسی رہنمائوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے، تاہم سیکیورٹی امور سے وابستہ اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران کا موقف ہے کہ سیاسی رہنمائوں کو 3 یا 4 سے زیادہ پولیس اہلکار فراہم نہیں کیے جانے چاہئیں، جب کہ قومی رہنمائوں جنھیں زیادہ سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں ان کی حفاظت کے لیے 10 سے 15 اہلکار تعینات ہونے چاہئیں۔
یہ ہمارے سیاستدان جو ماشاء اﷲ خود بہت پیسہ، زمین، جاگیریں رکھنے والے ہیں یہ اپنی سیکیورٹی پر غریب عوام کا پیسہ کیوں لگاتے ہیں؟ اپنا پیسہ بھی تو لگا سکتے ہیں، یہ صرف غریب عوام کو تبدیلی کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں اور اپنے لیے تبدیلی لے کر آجاتے ہیں، سیکیورٹی کی اس لسٹ میں بہت سے سیاستدان ہیں جن پر غریب عوام کا پیسہ لگایا جارہا ہے۔ ہمارے ملک میں کافی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، غریب عوام ملک کے سیاستدانوں سے کافی مایوس ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن میں خواجہ سرا حصہ لیںگے، ہم نے پاکستان میں مرد اور عورت دونوں کی حکومت دیکھی اس بار ان خواجہ سرا کو الیکشن میں انتخابات لڑتے دیکھا جائے گا، عوام اپنے سیاستدانوں سے بے حد مایوس ہیںکہ کہیں یہ خواجہ سرا بازی تو نہیں لے جائیںگے، یہ انتخابات کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ خواجہ سرا کہاں تک پہنچتے ہیں، بلا شبہ یہ پاکستانی سیاست کا نیا باب ہے، عدالت عظمیٰ نے2011ء میں حکومت کو ملک بھر میں بسنے والے تقریباً5لاکھ خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے اور انھیں ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ کرنے کے احکامات صادر کیے تھے اور اسی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں خواجہ سرائوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں اس الیکشن میں وہ تمام چیزیں ہورہی ہیں جو ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھیں، اس بار کا الیکشن عوام اور ملک کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، پاکستان کی تاریخ میں خواجہ سرائوں کا انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ نیا ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک میں گزشتہ دو دہائیوں سے خواجہ سرا نہ صرف اسمبلیوں کے رکن منتخب ہورہے ہیں بلکہ میئر کے طورپر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، بھارت، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، نیوزی لینڈ، فرانس، پولینڈ جیسے ممالک میں خواجہ سرا منتخب ہوئے ہیں۔
اس الیکشن میں پہلی بار کئی خواجہ سرا انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، یہ پاکستان کی تاریخ کا نیا باب ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جیسے دوسرے ممالک کے خواجہ سرائوں کو کامیابی نصیب ہوئی ہے کیا ہمارے پاکستان کے خواجہ سرائوں کو وہ کامیابی نصیب ہوگی یا نہیں، وہ تو اس الیکشن کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ووٹ اس بار کون زیادہ لے کر جائے گا، کون سا حلقہ بازی لے کر جائے گا اور کون سا حلقہ خواجہ سرائوں سے ہارے گا۔ دیکھتے ہیں کہ آمدہ الیکشن میں خواجہ سرا بازی لے جائیںگے یا پھر ہمارے سیاستدان ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیںگے، بہت سارے سوالات عوام کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں، ان کے جوابات تو عوام کو انتخابات کے بعد ہی ملیںگے۔
یہ انتخابات بظاہر ایسا دکھائی دے رہے ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں انقلابی اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے نئی تبدیلی رونما ہوجائے گی، ہر سیاسی جماعت انتخابات جیتنے کے لیے بڑی بڑی باتیں یعنی کہ اپنے اپنے منشور پیش کرچکی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اب تو پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہوجائے گا مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہونے والا، اتنے سالوں سے ہم اپنے سیاستدانوں سے صرف بڑی بڑی باتیں ہی سن رہے ہیں، عمل ہوتے ابھی تک نہیں دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے دیا اور محمد علی جناح نے اس تصور کو عملی جامہ پہنا دیا، آج پاکستان کے وجود کو چھیاسٹھ برس بیت چکے ہیں مگر ملک میں ایک انتشار کی سی صورت ہے، کیونکہ جیسے جیسے پاکستان کی عمر بڑھتی گئی اور جیسے جیسے پاکستان کو سیاستدان ملتے رہے وہ صرف اور صرف بڑی بڑی باتیں کرنا تو جانتے تھے مگر عمل کرنا ہمیشہ بھول جاتے تھے، اس ہی لیے پاکستان کے ارد گرد جتنے ممالک ہیں انھوںنے تو کافی ترقی کرلی اور پاکستان ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں کافی پیچھے رہ گیا۔
کیا ہی خلفائے راشدین کا دور تھا، جب غریب عوام کا ایک ایک پیسہ امانت سمجھا جاتا تھا، مجھے یہاں حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ آپ خلیفہ وقت تھے، عید آنے والی تھی، آپ کے اور آپ کے بیوی بچوں کے پاس عید کے نئے کپڑے تک نہیں تھے، آپ کی بیوی نے بولاکہ بچے جب عید کی نماز کے لیے مسجد جائیںگے تو دوسرے بچوں کو نئے کپڑے پہنا دیکھ کر پریشان ہوں گے، آپ کچھ انتظام کردیں، آپ سوچ میں پڑ گئے، آپ نے بیت المال سے اپنی تنخواہ ایڈوانس طلب کی، بیت المال کے عمال نے کہا آپ مجھے گارنٹی دیتے ہیں کہ آپ اگلے ماہ تک زندہ رہیںگے،اگر نہیں تو پھر کیوں غریب عوام پر ظلم کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا یا خدا تو نے مجھے گناہ کرنے اور ظلم کرنے سے بچالیا جو میں اپنی جان پر کررہاتھا آپ عید کے دن اپنے بچوں کو پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نمازکے لیے لے کر گئے۔
ایسے ہوتے ہیں حکمران، صرف اور صرف ملک اور عوام کا سوچتے ہیں، اپنا ہر گز نہیں سوچتے اگر ہم آج کے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو سب کے سب نااہل قرار دیے جاتے اگر خالی خانہ شامل کیا جاتا تو مجھے امید ہے کہ عوام کی بڑی تعداد خالی خانہ پر مہر لگا دیتی۔
اس بار ملک کے تاریخی،انقلابی انتخابات مختلف چیزوں کے درمیان ہیں، سیاستدان، خواجہ سرا، اب دیکھنا یہ ہے کہ کون بازی جیتے گا؟ میں آپ ہم سب منتظر ہیں الیکشن کے بعد آنے والے نتائج کے لیے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ بیلٹ پیپر پر خالی خانہ متعارف کرانے کا فیصلہ ہوا تھا تاکہ ووٹرز ناپسندیدہ امیدواروں کے خلاف بھی رائے کا اظہار کرسکیں۔اگر خالی خانہ شامل کر لیا جاتا تو 51 فیصد ووٹ آنے پر متعلقہ حلقے کا الیکشن کالعدم ہو جاتا اور دوبارہ انتخاب کرایاجاتا، بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے کے لیے آرڈیننس جاری کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ممکن ہے کہ حیران کن باتیں حیرت انگیز نتائج پیش کر دیتیں اورسارے خانے خالی رہ جاتے اور صرف خالی خانہ پُر ہوجاتے۔ اس وقت ملک میں وہ تمام باتیں ہورہی ہیں جو ملک کی تاریخ میں کبھی نہ ہوئی تھیں، عوام سیاستدانوں سے کافی ناامید نظر آرہے ہیں، ہر رہنما تبدیلی کی بات کرتا ہے مگر تبدیلی نہیں آتی، جس کی وجہ سے عوام مایوس نظر آتے ہیں اور بولتے دکھائی دیتے ہیں تبدیلی عوام کے لیے نہیں بلکہ سیاستدانوں کے لیے ضرور آجاتی ہے اور عوام ویسے کے ویسے ہی رہ جاتے ہیں، غریب عوام کا پیسہ یہ سیاستدان اپنے اوپر لگادیتے ہیں اور عوام کو خواب تبدیلی کے دکھاتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں تبدیلی لانے کے دعویدار سیاسی رہنمائوں کو سیکیورٹی کے نام پر بلاجواز اور غیر معمولی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے غریب عوام جو 12500 ارب روپے کے قرضوںکے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، بعض سیاستدانوں کی سیکیورٹی کے نام پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں بعض مخصوص سیاستدانوں کی سکیورٹی پر 40 کروڑ 68 لاکھ 79 ہزار روپے، فریال تالپور پر 5 کروڑ 67 لاکھ 90 ہزار خرچ ہو رہے ہیں۔ ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر سیاسی رہنمائوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے، تاہم سیکیورٹی امور سے وابستہ اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران کا موقف ہے کہ سیاسی رہنمائوں کو 3 یا 4 سے زیادہ پولیس اہلکار فراہم نہیں کیے جانے چاہئیں، جب کہ قومی رہنمائوں جنھیں زیادہ سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں ان کی حفاظت کے لیے 10 سے 15 اہلکار تعینات ہونے چاہئیں۔
یہ ہمارے سیاستدان جو ماشاء اﷲ خود بہت پیسہ، زمین، جاگیریں رکھنے والے ہیں یہ اپنی سیکیورٹی پر غریب عوام کا پیسہ کیوں لگاتے ہیں؟ اپنا پیسہ بھی تو لگا سکتے ہیں، یہ صرف غریب عوام کو تبدیلی کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں اور اپنے لیے تبدیلی لے کر آجاتے ہیں، سیکیورٹی کی اس لسٹ میں بہت سے سیاستدان ہیں جن پر غریب عوام کا پیسہ لگایا جارہا ہے۔ ہمارے ملک میں کافی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، غریب عوام ملک کے سیاستدانوں سے کافی مایوس ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن میں خواجہ سرا حصہ لیںگے، ہم نے پاکستان میں مرد اور عورت دونوں کی حکومت دیکھی اس بار ان خواجہ سرا کو الیکشن میں انتخابات لڑتے دیکھا جائے گا، عوام اپنے سیاستدانوں سے بے حد مایوس ہیںکہ کہیں یہ خواجہ سرا بازی تو نہیں لے جائیںگے، یہ انتخابات کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ خواجہ سرا کہاں تک پہنچتے ہیں، بلا شبہ یہ پاکستانی سیاست کا نیا باب ہے، عدالت عظمیٰ نے2011ء میں حکومت کو ملک بھر میں بسنے والے تقریباً5لاکھ خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے اور انھیں ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ کرنے کے احکامات صادر کیے تھے اور اسی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں خواجہ سرائوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں اس الیکشن میں وہ تمام چیزیں ہورہی ہیں جو ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھیں، اس بار کا الیکشن عوام اور ملک کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، پاکستان کی تاریخ میں خواجہ سرائوں کا انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ نیا ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک میں گزشتہ دو دہائیوں سے خواجہ سرا نہ صرف اسمبلیوں کے رکن منتخب ہورہے ہیں بلکہ میئر کے طورپر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، بھارت، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، نیوزی لینڈ، فرانس، پولینڈ جیسے ممالک میں خواجہ سرا منتخب ہوئے ہیں۔
اس الیکشن میں پہلی بار کئی خواجہ سرا انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، یہ پاکستان کی تاریخ کا نیا باب ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جیسے دوسرے ممالک کے خواجہ سرائوں کو کامیابی نصیب ہوئی ہے کیا ہمارے پاکستان کے خواجہ سرائوں کو وہ کامیابی نصیب ہوگی یا نہیں، وہ تو اس الیکشن کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ووٹ اس بار کون زیادہ لے کر جائے گا، کون سا حلقہ بازی لے کر جائے گا اور کون سا حلقہ خواجہ سرائوں سے ہارے گا۔ دیکھتے ہیں کہ آمدہ الیکشن میں خواجہ سرا بازی لے جائیںگے یا پھر ہمارے سیاستدان ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیںگے، بہت سارے سوالات عوام کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں، ان کے جوابات تو عوام کو انتخابات کے بعد ہی ملیںگے۔
یہ انتخابات بظاہر ایسا دکھائی دے رہے ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں انقلابی اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے نئی تبدیلی رونما ہوجائے گی، ہر سیاسی جماعت انتخابات جیتنے کے لیے بڑی بڑی باتیں یعنی کہ اپنے اپنے منشور پیش کرچکی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اب تو پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہوجائے گا مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہونے والا، اتنے سالوں سے ہم اپنے سیاستدانوں سے صرف بڑی بڑی باتیں ہی سن رہے ہیں، عمل ہوتے ابھی تک نہیں دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے دیا اور محمد علی جناح نے اس تصور کو عملی جامہ پہنا دیا، آج پاکستان کے وجود کو چھیاسٹھ برس بیت چکے ہیں مگر ملک میں ایک انتشار کی سی صورت ہے، کیونکہ جیسے جیسے پاکستان کی عمر بڑھتی گئی اور جیسے جیسے پاکستان کو سیاستدان ملتے رہے وہ صرف اور صرف بڑی بڑی باتیں کرنا تو جانتے تھے مگر عمل کرنا ہمیشہ بھول جاتے تھے، اس ہی لیے پاکستان کے ارد گرد جتنے ممالک ہیں انھوںنے تو کافی ترقی کرلی اور پاکستان ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں کافی پیچھے رہ گیا۔
کیا ہی خلفائے راشدین کا دور تھا، جب غریب عوام کا ایک ایک پیسہ امانت سمجھا جاتا تھا، مجھے یہاں حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ آپ خلیفہ وقت تھے، عید آنے والی تھی، آپ کے اور آپ کے بیوی بچوں کے پاس عید کے نئے کپڑے تک نہیں تھے، آپ کی بیوی نے بولاکہ بچے جب عید کی نماز کے لیے مسجد جائیںگے تو دوسرے بچوں کو نئے کپڑے پہنا دیکھ کر پریشان ہوں گے، آپ کچھ انتظام کردیں، آپ سوچ میں پڑ گئے، آپ نے بیت المال سے اپنی تنخواہ ایڈوانس طلب کی، بیت المال کے عمال نے کہا آپ مجھے گارنٹی دیتے ہیں کہ آپ اگلے ماہ تک زندہ رہیںگے،اگر نہیں تو پھر کیوں غریب عوام پر ظلم کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا یا خدا تو نے مجھے گناہ کرنے اور ظلم کرنے سے بچالیا جو میں اپنی جان پر کررہاتھا آپ عید کے دن اپنے بچوں کو پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نمازکے لیے لے کر گئے۔
ایسے ہوتے ہیں حکمران، صرف اور صرف ملک اور عوام کا سوچتے ہیں، اپنا ہر گز نہیں سوچتے اگر ہم آج کے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو سب کے سب نااہل قرار دیے جاتے اگر خالی خانہ شامل کیا جاتا تو مجھے امید ہے کہ عوام کی بڑی تعداد خالی خانہ پر مہر لگا دیتی۔
اس بار ملک کے تاریخی،انقلابی انتخابات مختلف چیزوں کے درمیان ہیں، سیاستدان، خواجہ سرا، اب دیکھنا یہ ہے کہ کون بازی جیتے گا؟ میں آپ ہم سب منتظر ہیں الیکشن کے بعد آنے والے نتائج کے لیے۔