ہزارہ برادری انصاف کی منتظر

بلاشبہ ہزارہ برادری کی بلاجواز ہلاکتوں کے پس پردہ عناصر تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

بلاشبہ ہزارہ برادری کی بلاجواز ہلاکتوں کے پس پردہ عناصر تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ ہم آپ کا ساتھ چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ہمارے پاس ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کے لیے الفاظ نہیں ہیں، ہمارے مطابق یہ نسل کشی تھی اس لیے ازخود نوٹس لیا، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کی۔

کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو انتہاپسندوں سے بے پناہ خطرات ہیں اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے باعث درپیش غیر معمولی صورتحال سے متعلق کمیونٹی کو جن اذیتوں کا سامنا ہے وہ دردانگیز داستان خود چیف جسٹس اور ان کے بنچ نے سنی ہے اور عدلیہ کی یہ یقین دہانی کہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات ہوں گے بلاشبہ صوبائی حکومت کے لیے چشم کشا ہے۔ ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کرنے کے گھناؤنے جرم کا سلسلہ تاریخی سیاق وسباق کا حامل ہے، اس امن پسند برادری کو سولہویں صدی سے ہجرت، جبری غلامی، انسانی اسمگلنگ اور افغانستان کے مخدوش سیاسی حالات میں نامساعد جبر و بربریت کا سامنا رہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہزارہ برادری نے امن پسندی، قانون کی پاسداری، باہمی خیر سگالی اور یکجہتی کے قومی اصولوں اور جمہوری رویے سے کبھی انحراف نہیں کیا، مگر اس کے باوجود مظلومیت کی بھاری قیمت ادا کی۔

یہ بدقسمتی ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو دہشتگردی کے عفریت نے جکڑ لیا اور ہزارہ برادری سمیت دیگر پرامن اقلیتی اکائیوں کے خلاف انتہاپسندوں نے غیر انسانی کارروائیوں کا بازار گرم کیا جب کہ ریاستی رٹ تک کو چیلنج ہوا۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ 2012-17 میں ہزارہ کمیونٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم افسوس ناک قرار دیے گئے، کوئٹہ کو ان کے لیے haunted place بنایا گیا، ان پر وحشت طاری کردی گئی، گزشتہ چند مہینوں میں ہزارہ کمیونٹی کو ایک بار پھر ٹارگٹ کیا گیا جس کے خلاف ہزارہ لیڈرشپ، متاثرہ غمزدہ خاندان اور نوجوان نسل مجسم سوالیہ نشان بن گئے کہ ان کا قصور کیا ہے۔


بلاشبہ ہزارہ برادری کی بلاجواز ہلاکتوں کے پس پردہ عناصر تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، انہیں کسی قسم کی اسپیس نہیں ملنی چاہیے، اب تک کی تمام وارداتوں میں ملوث ملزموں کی گرفتاری یقینی بنائی جائے، اسی طرح عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان کو فرقہ وارانہ، مسلکی اور مذہبی انتہاپسندی کے دلدل اور اندھیرے سے نکالنے کے لیے سیکیورٹی ہائی الرٹ برقرار رکھا جائے، دہشتگروں کے نیٹ ورک صوبہ بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، نئی صوبائی حکومت صورتحال کا نئے سرے سے ادراک کرے اور ہزارہ عوام سے قریبی رابطہ کرکے ان کے دکھ شیئر کیے جائیں۔

ہزارہ برادری کے وکیل افتخار علی کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے باعث جانی نقصان کے ساتھ معاشی نقصان بھی ہوتا ہے، ہزارہ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا اور نہ ملازمتیں ملتی ہیں، ہزارہ افراد کی جائیدادوں کی قیمتیں گر چکی ہیں، ہمارے لوگ جان بچا کر آسٹریلیا چلے گئے ہیں جن کے شناختی کارڈ نادرا نے بلاک کردیے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ہزارہ برادری کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے، جو آدمی کاروبار نہیں کر سکتا وہ پاکستان میں رہ نہیں سکتا، تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کہ کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے ؟ وکیل نے دردناک حقائق بتائے کہ 20 برس سے ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے لیکن آج تک کوئی ملزم گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے، ایک ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو رہنے کا حق ہے۔ جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہزارہ خواتین کو بھی بے شمار مسائل ہیں، چیف جسٹس نے کہا وہ اس سلسلے میں پٹیشن فائل کریں، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے بتایا کہ شہر کی ہر گلی میں ہمارا خون بہایا گیا ہے، چیئرمین ہزارہ جرگہ قیوم چنگیزی نے بتایا کہ ہمارے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوئے، بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے جن دہشتگردوں کو سزا ملی، اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔

بلوچستان انتظامیہ کے سامنے ہزارہ کیس کھلی کتاب کی طرح ہے، اس کمیونٹی سمیت تمام مذہبی اور اقلیتی اکائیوں کے آئینی اور قانونی حقوق کا تحفظ ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے، بابائے قوم نے ایک ایسا پاکستان دیا جس میں تمام اقلیتوں اور نسلی شناخت رکھنے والی امن پسند اکائیوں کی مذہبی و عقیدہ کی آزادی کی آئین نے ضمانت دی گئی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ قانون حرکت میں آئے، دہشتگردوں کا تعاقب کیا جائے، خوف و ہراس کا خاتمہ ہو اور ٹارگٹ کلرز اور ان کے ماسٹر مائنڈ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے بھیانک نتائج کے لیے تیار رہیں۔ بلوچستان میں بدامنی اور پرامن لوگوں کی بلاجواز ہلاکت کا باب اب بند ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس کے ارشادات بلوچستان حکومت کے لیے کلیدی تلقین ہے، دہشتگردوں کے اصل ماسٹر مائنڈ مارے جاچکے تاہم افغانستان میں روپوش ان کے دہشتگرد بلوچستان میں موجود باقیات کی کمک کررہے ہیں، دہشتگردی کے سلسلے وہاں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ضرورت سہولت کاروں، کمک کاروں اور مسلح نیٹ ورک کے خاتمہ کی ہے، جس کے لیے پولیس، ایف سی اور لیویز کو آپریشن ردالفساد میکنزم سے اشتراک اور استفادہ کرتے ہوئے فیصلہ کن کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔
Load Next Story