میری ہر نظر تیری منتظر اولاد سے ملنے کی منتظر مائیں 

ماؤں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر۔

ماؤں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر۔ فوٹو: سوشل میڈیا

موبائل فون کی گھنٹی بجی تو بزرگ خاتون کے چہرے پر خوشی کے رنگ نمایاں ہوگئے۔ وہ لکڑی کی چھڑی ٹیکتی چلتی ہوئی میز تک پہنچیں اور فون اٹھاکر بات کرنے لگیں:''کیسے ہو؟ بہو کیسی ہے کب آؤگے؟ کتنے دن ہوگئے!'' اولاد کی آواز سن کر ماؤں کے دل میں کیسا سکون آجاتا ہے، یہ وہی ماں جان سکتی ہے جس کی اولاد علیحدہ رہتی ہو اور ماں ہمیشہ اولاد کی منتظر رہتی ہو۔

طلاق کے بعد ان بزرگ خاتون نے بھی اپنے بیٹے کو اپنا مقصدِ حیات جانا اور پورا جیون ملازمت اور گھریلو کاموں میں بسر کردیا۔ سادگی سے زندگی بسر کی، اپنی جمع پونجی سے بیٹے کے ہمراہ حج کا فریضہ ادا کیا، بیٹے نے شادی کا ارادہ کیا تو علیحدہ گھر میں رہائش کا فیصلہ کیا۔ یوں ماں تنہا رہ گئی۔ ہفتہ وار تعطیل کے دن ماں زیادہ تر وقت اپن بیٹے کی آمد کی منتظر رہتی تھی۔

اسی طرح ایک عالی شان مکان میں ایک بزرگ خاتون تنہا بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہتی تھیں، مگر سماعتیں ساتھ رکھے فون کی آواز کی منتظر رہتیں۔ دیار غیر میں مقیم اولاد کی یاد ستاتی تو کبھی اپنے ہی شہر میں مقیم بیٹے اور اس کے اہل خانہ کی منتظر رہتیں، کسی کا فون آجاتا تو تنہائی کا احساس کچھ کم ہوجاتا۔ شوہر کی وفات کے بعد کچھ دن تک تو کچھ اپنے ساتھ رہتے، آنا جانا بھی لگا رہا مگر پھر تنہائی رفیق بن گئی۔ تنہائی کا احساس مٹانے کو ہزار بہانے ڈھونڈتیں، کبھی خود کہیں چلی جاتیں تو کبھی کسی کو اپنے ہاں مدعو کرلیتیں۔ بیٹا آنے والا ہوتا تو بیٹے کی پسند کے کھانے بناتیں۔ بہو اور بچیوں کی پسند کو ہر حال میں پیش نظر رکھتیں۔ کبھی ان کے من پسند کھانے خود بناتیں تو کبھی بازار سے من پسند چیز منگوالیتیں۔ مگر چند گھنٹوں بعد جب وہ چلے جاتے تو دوبارہ وہی تنہائی دامن گیر ہوتی۔

یہ فرضی کہانیاں نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتیں ہیں۔ جدت پسند ماحول و معاشرے کے زیر اثر نوجوان زندگی کو اپنے ڈھب سے آزادانہ انداز میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ساس بہو، نند بھاوج یا دیورانی جٹھانی کے جھگڑوں سے تنگ آکر علیحدہ رہائش کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ بہ صورت دیگر مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کو باعث عزت و افتخار سمجھا جاتا تھا۔ مگر بدلتے زمانے نے سوچ میں تبدیلی لاکر اقدار پر اثر انداز ہونا شروع کردیا ہے۔ خوب صورت مشرقی اقدار و روایات کے بر خلاف اب نوجوان نسل شادی کی ابتدا سے ہی علیحدہ رہنے کو ترجیح دینے لگی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے حالات میں صورت حال اس قسم کی ہوجاتی ہے کہ اولاد والدین کے بجائے علیحدہ رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ مثلاً والدین میں علیحدگی کے بعد بچہ جو کبھی ماں اور کبھی باپ کے پاس زندگی کے دن گزار کر بڑا ہوتا ہے تو عموماً ایسے بچے ماں یا باپ کسی کے ہمراہ رہنے کے بجائے علیحدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح لے پالک بچے جنھوں نے بچپن سے جوانی اپنی سگی ماں کے ساتھ نہ گزاری ہو، وہ شادی کے بعد بھی سگی ماں کے ساتھ نہیں رہ پاتے۔

اولاد سے دوری کا دکھ ماؤں کو ہر پل ستاتا ہے ماؤں کے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ اور سچی خوشی تو بس اپنی اولاد اور ان کی اولاد (پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں) میں پنہاں ہوتی ہے، یہی وجہ ہوتی ہے کہ اکثر مائیں خاموش رہنے لگتی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں اس ماں کے اندر کیسے دکھ بس گئے ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ در حقیقت ان کی اولاد ان کے ساتھ مل کر ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی، اسی لیے تو دکھ دل کی گہرائیوں میں جاکر چھپ جاتے ہیں جن کی تکلیف کو دوسروں کے سامنے تو ہنس کر سہتی رہتی ہے، لیکن رات ہوتے ہی اندھیرے کی پناہ پاکر آنکھوں کے رستے دکھ بہانے کی ایک ناکام کوشش رات بھر تکیے کو آنسوؤں سے بھگوتی رہتی ہے اور پھر کسی پل اپنی اولاد کو یاد کرتے کرتے ماں سوجاتی ہوگی۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ماں کی آنکھیں آنسو نہیں، بلکہ دکھ بہاتی ہیں۔ کبھی شوہر سے جدائی کا دکھ، کبھی اولاد کی بے نیازی کا دکھ، کبھی بہوؤں کی بے رخی کا دکھ، غرض اپنے رشتوں اولاد سے بے لوث پیار کے بدلے پیار کے اظہار کی چاہتوں کو یہ دکھ لے ڈوبتے ہیں کہ جس اولاد کی زندگی اور مستقبل بنانے کے لیے اپنا جیون تیاگ دیا، اپنی خوشیوں کی قربانی دی اپنی ذات کو فراموش کردیا، آج اس کو دیکھنے کے لیے نگاہیں ترستی ہیں اور اس کی آواز سننے کو سماعتیں بے چین رہتی ہیں۔

بیاہی بٹیاں بھی کافی دنوں تک میکے نہ آئیں تو مائیں ایسی ہی بے چین ہوجاتی ہیں۔ فون کرکے پوچھتی ہوںگی:''بیٹی کب آؤگی؟ کیا پکاؤں؟ تم بتاؤ تمہاری پسند کا کھانا بناکر رکھوںگی۔ بہت دن ہوگئے تم نے شکل نہیں دکھائی۔ تمہاری اور بچوں کی بہت یاد آرہی ہے''


مگر وہ بھی اپنی ہی سگی ماں سے ملنے کے لیے بھی بسا اوقات اپنے سسرال والوں کے اصولوں کی پابند ہوتی ہے یا شوہر کی اجازت کی منتظر رہتی ہے۔ کبھی پیشہ ورانہ ذمے داریاں اجازت نہیں دیتیں اور کبھی بچوں کی پڑھائی آڑے آجاتی ہے اور مہینوں مائیں بیٹیوں سے ملنے کی آس باندھے منتظر رہتی ہیں۔

آج کے دن اپنی ماں سے ضرور ملنے جائیں۔ ان کے تمام شکوے گلے دور کردیں۔ ان کے ہاتھ چوم کر ماتھے پر بوسہ دیں ان سے اپنے پیار کا اظہار کریں۔ ماؤں کو تحفوں کی چاہ نہیں ہوتی، اپنی اولاد کو سامنے دیکھ کر، اولاد کو خوش پر سکون دیکھ کر، ان کا پیار پاکر ماؤں کے دل میں وہ ٹھنڈک اتر آتی ہے جو ان کی آنکھوں میں نمی اور لبوں پر دعاؤں کے موتیوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ بہت خوش قسمت ہوتی ہے وہ اولاد جس کا دامن ان دعاؤں کے انمول موتیوں سے بھرا رہے۔ لہٰذا ماں سے پیار کیجیے، ان کی خدمت کیجیے اور ان دعاؤں سے اپنی زندگی سنوار لیجیے، اس سے قبل کہ وقت گزر جائے اور پھر صرف پچھتاوا رہ جائے۔ اس سے قبل آج ابھی اپنی ماں کی منتظر نگاہوں کو ٹھنڈک اور خوشی عطا کردیجیے۔ دنیا میں کوئی کسی کا اس طرح انتظار نہیں کرتا جس طرح ایک ماں کی نگاہیں اور سماعتیں اپنی اولاد کی منتظر رہتی ہیں اور دل میں ہر دم اولاد کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔ کبھی عبادتوں میں اپنی اولاد کی کامیابی کی دعائیں مانگتی ہے تو کبھی تسبیح کے دانوں پر ذکر الٰہی کرکے اولاد کی خوش حالی کی متمنی رہتی ہے۔

بقول شاعر ؎

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

 
Load Next Story