منصور احمد ہاکی کا ایک اور درخشاں ستارہ ڈوب گیا
پاکستان ہاکی ٹیم کو چوتھی بار ہاکی کا عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے وہ گول کیپر منصور احمد تھے۔
پاکستان اور ہالینڈ کی ہاکی ٹیمیں ورلڈ کپ 1994ء کے فائنل میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، سڈنی گراؤنڈ تماشائیوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا ہے، دونوں ٹیمیں ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی بھر پور کوشش کرتی ہیں تاہم دونوں ٹیموں کے مضبوط دفاعی حصار کی وجہ سے مقررہ وقت پر مقابلہ 1-1گول سے برابر رہتا ہے، اس صورتحال کے بعد دونوں ٹیموں کو پانچ، پانچ پنالٹی سٹروکس دینے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
پاکستان کی طرف سے شہباز احمد سینئر اور شہباز جونیئر گیند کو جال کا راستہ دکھانے میں کامیاب رہتے ہیں تاہم ممتاز پنالٹی کارنر سپیشلسٹ بوولینڈر اپنی ٹیم کی طرف سے دوسرا پنالٹی سٹروک پول سے باہر پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک گول کی نفسیاتی برتری حاصل ہو جاتی ہے۔بعد ازاں طاہر زمان اور محمد عثمان بھی گیند کو گول پوسٹ کے اندر پھینک کر سکور4-3 کر دیتے ہیں، پاکستان کی طرف سے آخری پنالٹی سٹروک محمد شفقت لگاتے ہیں لیکن عجلت میں کچھوے کی رفتار سے پھینکی گئی گیند کو ڈچ گول کیپر باآسانی روک لیتا ہے۔
ہالینڈ کی ٹیم آخری پنالٹی سٹروکس پر گول کرنے میں کامیاب رہتی ہے، میچ 4-4 گول سے برابر ہو جاتا ہے اور پاکستانی ٹیم کے عالمی چیمپئن بننے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔اس نازک موقع پر پاکستانی گول کیپر ہالینڈ کے جیرون ڈیلمی کا پنالٹی سٹروک روک کر گرین شرٹس کو ایک بار پھر عالمی چیمپئن بنا دیتے ہیں، اس بڑی فتح کے بعد گراؤنڈ میں جشن کا سا سماں ہے، کھلاڑی اس گول کیپر کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور5میں سے 2پنالٹی سٹروکٹس روکنے پر اسے بھر پور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پاکستان ہاکی ٹیم کو چوتھی بار ہاکی کا عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے وہ گول کیپر منصور احمد تھے۔
وہی منصور احمد جو اب ہم میں نہیں رہے اور غربت، بیماری اور مہنگے علاج کا مقابلہ کرتے کرتے 49سال کی عمر میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے، جی ہاں، وہی منصور احمد جنہوں نے ورلڈ کپ کے ساتھ پاکستان کو لاہور میں ہالینڈ کے مایہ نازپنالٹی کارنر سپیشلسٹ بوویلنڈر کا گول روک کر چیمپیئنز ٹرافی جتوانے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا ، وہی منصور احمد جنہوں نے 338 بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 1992 میں بارسلونا اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ وہی منصورجب اٹلانٹا اولمپکس1996 سے قبل متعدد کھلاڑیوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف بغاوت کی تو اس مشکل وقت میں ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی اور وہی منصور احمد جنہیں ہاکی کے کھیل کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر حکومت پاکستان کی طرف سے 1988 میں صدارتی ایوارڈ اور 1994 میں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔
منصور احمد نے کئی پنالٹی سٹروکس روک کر ان بے ترتیب دھڑکنوں کو نارمل کیا لیکن 12 مئی کو خود ان کا اپنا دھڑکتا دل بند ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی پاکستانی ہاکی کی گول کیپنگ کا ایک یادگار باب بھی ختم ہوگیا۔ منصور احمد کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک دلیر گول کیپر تھے جو حریف فارورڈز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھیلتے تھے۔اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے وہ گیند پر بلا کی نظر رکھتے تھے اور فارورڈز کے لیے انھیں چکمہ دینا آسان نہ ہوتا تھا۔
اپنے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے منصور کے دنیا بھر میں لاکھوں پرستاروں موجود تھے، راقم بھی منصور کے کھیل کا مداح تھا تاہم میری ان سے پہلی باضابطہ ملاقات چند برس قبل نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں ہوئی، ورلڈ کپ کے بعد تاریخ میں پہلی بار اولمپکس 2016 کی دوڑ سے بھی باہر ہونے کے بعد پی ایچ ایف حکام کی طرف سے محمد اخلاق مرحوم اور منصور احمد پر مشتمل فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، راقم سپورٹس جرنلسٹ کی حثییت سے اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوا اور ناکامی کی وجوہات کے بارے میں اپنی آرا سے آگاہ کیا، یہ میٹنگ بعد ازاں گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی اور یہ سلسلہ ان کی آخری سانسوں تک جاری رہا۔
منصور احمد نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی تکلیف میں گزارے، دل کی بیماری نے ان کا ایسا پیچھا کیا کہ وہ اس سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جوانی میں ہی وہ ہم سے یوں بچھڑ جائیں گے، یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ سابق گول کیپر کی بیماری کے دوران کسی نے بھی سنجیدہ بنیادوں پر کچھ نہ کیا، سب کی کوششیں محض خالی دعوؤں اورمیڈیا کی حد تک ہی محدود رہیں، کبھی منصور کو پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سے علاج کروانے کی خوشخبری سنائی گئی اورکبھی بتایا گیا کہ چین کے ماہر ڈاکٹران کا علاج معالجہ کریں گے، کبھی کہا گیا کہ سٹار کھلاڑی کا علاج بھارت میں کروایا جائے گا، کاش منصور نے وطن سے محبت کی بجائے دولت کمانے کو ترجیح دی ہوتی کاش منصور احمد نے بھی ہاکی پلیئر بننے کی بجائے سیاستدان، سوشل لیڈر، صنعتکار یا بیوروکریٹ بننے کا فیصلہ کیا ہوتا تو وہ بھی دنیا کے کسی بھی ملک بھی مہنگا ترین علاج کروانے کے بعد عام انسانوں کی طرح زندگی گزار رہا ہوتا۔
ہاکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کھیل نے سب سے زیادہ میڈلز پاکستان کی جھولی میں ڈالے اور یہ بات سچ بھی ہے، ہاکی وہ کھیل تھا جس سے وابستہ کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا، دنیا پاکستانی پلیئرز کے غیر معمولی کھیل کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی اور برملا کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، گرین شرٹس کا 4 بار ورلڈ کپ چیمپئن، 3مرتبہ اولمپکس چیمپئن، چیمپئنز ٹرافی3، سلطان اذلان شاہ کپ3، ایشین چیمپئن ٹرافی2 ، ایشیا کپ3، ایشین گیمز8 اور 3 بار ساؤتھ ایشین گیمز کا فاتح ہونا عام بات نہیں ہے۔
یقینی طور پر یہ ریکارڈقابل رشک بھی ہے اور قابل تعریف بھی، ان بڑی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ہماری ہاکی ٹیم کے مقابلے میں آنے والی ٹیمیں ذہنی طور پر پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی تھیں، یہ منصور احمد جیسے محب وطن لوگ ہی ہوتے تھے جو اس ملک کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں اترتے تھے اور سبز ہلالی پرچم کی نیک نامی کے لئے پیش پیش رہتے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے حقیقی ہیروز کے ساتھ کیا کیا۔گول کیپر قاسم خان کینسر اور استاد روڈا بیماری اورغربت کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
میکسیکو اولمپکس 1968ء کی فاتح گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے ہیرو اشفاق بھی منوں مٹی تلے دفن ہوچکے، محمد اخلاق بھی عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف لوٹ چکے،اسی میگا ایونٹ میں گرین شرٹس کو چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کرنے والے گول کیپر ذاکر حسین بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اسی طرح ہاکی سے وابستہ سابق اور موجودہ کھلاڑیوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کے دن پورا کرنے پر مجبور ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایشین گیمز، ایشیا کپ، اندرا گاندھی گولڈ کپ، بی ایم ڈبلیو ٹرافی سمیت 7 عالمی ایونٹس میں گولڈ میڈلزحاصل کرنے والے سابق اولمپئن زاہد شریف نے غربت سے تنگ آکر اپنے میڈلز فروخت کرنے کا اعلان کیا، ایکسپریس سے ایک نشست میں سابق اولمپئن زاہد شریف کا کہنا تھا کہ مجھے 7 انٹرنیشنل مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، ان بڑی کامیابیوں کے باوجود میرے مالی حالات یہ ہیں کہ فیسیں نہ ہونے کے وجہ سے میرے بچے سکول جانے سے قاصر ہیں، صدر مملکت، وزیر اعظم، گورنر پنجاب ، سپورٹس منسٹر، پاکستان سپورٹس بورڈ، پنجاب سپورٹس بورڈ اور سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو خطوط لکھ چکا ہوں ، کسی نے بھی مدد کرنا تو دور کی بات جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔
آج منصور احمد ہم میں موجود نہیں، لوگ سابق عظیم گول کیپر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کریں گے، اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے مرحوم کی ہاکی خدمات کی داستانیں اور قصے سنائیں گے اور پھر منصور کی سسکیوں اور آہوں بھری موت کو بھول کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں دوبارہ مگن ہو جائیں گے۔
پاکستان کی طرف سے شہباز احمد سینئر اور شہباز جونیئر گیند کو جال کا راستہ دکھانے میں کامیاب رہتے ہیں تاہم ممتاز پنالٹی کارنر سپیشلسٹ بوولینڈر اپنی ٹیم کی طرف سے دوسرا پنالٹی سٹروک پول سے باہر پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک گول کی نفسیاتی برتری حاصل ہو جاتی ہے۔بعد ازاں طاہر زمان اور محمد عثمان بھی گیند کو گول پوسٹ کے اندر پھینک کر سکور4-3 کر دیتے ہیں، پاکستان کی طرف سے آخری پنالٹی سٹروک محمد شفقت لگاتے ہیں لیکن عجلت میں کچھوے کی رفتار سے پھینکی گئی گیند کو ڈچ گول کیپر باآسانی روک لیتا ہے۔
ہالینڈ کی ٹیم آخری پنالٹی سٹروکس پر گول کرنے میں کامیاب رہتی ہے، میچ 4-4 گول سے برابر ہو جاتا ہے اور پاکستانی ٹیم کے عالمی چیمپئن بننے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔اس نازک موقع پر پاکستانی گول کیپر ہالینڈ کے جیرون ڈیلمی کا پنالٹی سٹروک روک کر گرین شرٹس کو ایک بار پھر عالمی چیمپئن بنا دیتے ہیں، اس بڑی فتح کے بعد گراؤنڈ میں جشن کا سا سماں ہے، کھلاڑی اس گول کیپر کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور5میں سے 2پنالٹی سٹروکٹس روکنے پر اسے بھر پور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پاکستان ہاکی ٹیم کو چوتھی بار ہاکی کا عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے وہ گول کیپر منصور احمد تھے۔
وہی منصور احمد جو اب ہم میں نہیں رہے اور غربت، بیماری اور مہنگے علاج کا مقابلہ کرتے کرتے 49سال کی عمر میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے، جی ہاں، وہی منصور احمد جنہوں نے ورلڈ کپ کے ساتھ پاکستان کو لاہور میں ہالینڈ کے مایہ نازپنالٹی کارنر سپیشلسٹ بوویلنڈر کا گول روک کر چیمپیئنز ٹرافی جتوانے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا ، وہی منصور احمد جنہوں نے 338 بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 1992 میں بارسلونا اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ وہی منصورجب اٹلانٹا اولمپکس1996 سے قبل متعدد کھلاڑیوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف بغاوت کی تو اس مشکل وقت میں ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی اور وہی منصور احمد جنہیں ہاکی کے کھیل کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر حکومت پاکستان کی طرف سے 1988 میں صدارتی ایوارڈ اور 1994 میں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔
منصور احمد نے کئی پنالٹی سٹروکس روک کر ان بے ترتیب دھڑکنوں کو نارمل کیا لیکن 12 مئی کو خود ان کا اپنا دھڑکتا دل بند ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی پاکستانی ہاکی کی گول کیپنگ کا ایک یادگار باب بھی ختم ہوگیا۔ منصور احمد کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک دلیر گول کیپر تھے جو حریف فارورڈز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھیلتے تھے۔اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے وہ گیند پر بلا کی نظر رکھتے تھے اور فارورڈز کے لیے انھیں چکمہ دینا آسان نہ ہوتا تھا۔
اپنے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے منصور کے دنیا بھر میں لاکھوں پرستاروں موجود تھے، راقم بھی منصور کے کھیل کا مداح تھا تاہم میری ان سے پہلی باضابطہ ملاقات چند برس قبل نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں ہوئی، ورلڈ کپ کے بعد تاریخ میں پہلی بار اولمپکس 2016 کی دوڑ سے بھی باہر ہونے کے بعد پی ایچ ایف حکام کی طرف سے محمد اخلاق مرحوم اور منصور احمد پر مشتمل فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، راقم سپورٹس جرنلسٹ کی حثییت سے اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوا اور ناکامی کی وجوہات کے بارے میں اپنی آرا سے آگاہ کیا، یہ میٹنگ بعد ازاں گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی اور یہ سلسلہ ان کی آخری سانسوں تک جاری رہا۔
منصور احمد نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی تکلیف میں گزارے، دل کی بیماری نے ان کا ایسا پیچھا کیا کہ وہ اس سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جوانی میں ہی وہ ہم سے یوں بچھڑ جائیں گے، یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ سابق گول کیپر کی بیماری کے دوران کسی نے بھی سنجیدہ بنیادوں پر کچھ نہ کیا، سب کی کوششیں محض خالی دعوؤں اورمیڈیا کی حد تک ہی محدود رہیں، کبھی منصور کو پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سے علاج کروانے کی خوشخبری سنائی گئی اورکبھی بتایا گیا کہ چین کے ماہر ڈاکٹران کا علاج معالجہ کریں گے، کبھی کہا گیا کہ سٹار کھلاڑی کا علاج بھارت میں کروایا جائے گا، کاش منصور نے وطن سے محبت کی بجائے دولت کمانے کو ترجیح دی ہوتی کاش منصور احمد نے بھی ہاکی پلیئر بننے کی بجائے سیاستدان، سوشل لیڈر، صنعتکار یا بیوروکریٹ بننے کا فیصلہ کیا ہوتا تو وہ بھی دنیا کے کسی بھی ملک بھی مہنگا ترین علاج کروانے کے بعد عام انسانوں کی طرح زندگی گزار رہا ہوتا۔
ہاکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کھیل نے سب سے زیادہ میڈلز پاکستان کی جھولی میں ڈالے اور یہ بات سچ بھی ہے، ہاکی وہ کھیل تھا جس سے وابستہ کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا، دنیا پاکستانی پلیئرز کے غیر معمولی کھیل کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی اور برملا کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، گرین شرٹس کا 4 بار ورلڈ کپ چیمپئن، 3مرتبہ اولمپکس چیمپئن، چیمپئنز ٹرافی3، سلطان اذلان شاہ کپ3، ایشین چیمپئن ٹرافی2 ، ایشیا کپ3، ایشین گیمز8 اور 3 بار ساؤتھ ایشین گیمز کا فاتح ہونا عام بات نہیں ہے۔
یقینی طور پر یہ ریکارڈقابل رشک بھی ہے اور قابل تعریف بھی، ان بڑی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ہماری ہاکی ٹیم کے مقابلے میں آنے والی ٹیمیں ذہنی طور پر پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی تھیں، یہ منصور احمد جیسے محب وطن لوگ ہی ہوتے تھے جو اس ملک کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں اترتے تھے اور سبز ہلالی پرچم کی نیک نامی کے لئے پیش پیش رہتے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے حقیقی ہیروز کے ساتھ کیا کیا۔گول کیپر قاسم خان کینسر اور استاد روڈا بیماری اورغربت کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
میکسیکو اولمپکس 1968ء کی فاتح گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے ہیرو اشفاق بھی منوں مٹی تلے دفن ہوچکے، محمد اخلاق بھی عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف لوٹ چکے،اسی میگا ایونٹ میں گرین شرٹس کو چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کرنے والے گول کیپر ذاکر حسین بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اسی طرح ہاکی سے وابستہ سابق اور موجودہ کھلاڑیوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کے دن پورا کرنے پر مجبور ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایشین گیمز، ایشیا کپ، اندرا گاندھی گولڈ کپ، بی ایم ڈبلیو ٹرافی سمیت 7 عالمی ایونٹس میں گولڈ میڈلزحاصل کرنے والے سابق اولمپئن زاہد شریف نے غربت سے تنگ آکر اپنے میڈلز فروخت کرنے کا اعلان کیا، ایکسپریس سے ایک نشست میں سابق اولمپئن زاہد شریف کا کہنا تھا کہ مجھے 7 انٹرنیشنل مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، ان بڑی کامیابیوں کے باوجود میرے مالی حالات یہ ہیں کہ فیسیں نہ ہونے کے وجہ سے میرے بچے سکول جانے سے قاصر ہیں، صدر مملکت، وزیر اعظم، گورنر پنجاب ، سپورٹس منسٹر، پاکستان سپورٹس بورڈ، پنجاب سپورٹس بورڈ اور سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو خطوط لکھ چکا ہوں ، کسی نے بھی مدد کرنا تو دور کی بات جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔
آج منصور احمد ہم میں موجود نہیں، لوگ سابق عظیم گول کیپر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کریں گے، اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے مرحوم کی ہاکی خدمات کی داستانیں اور قصے سنائیں گے اور پھر منصور کی سسکیوں اور آہوں بھری موت کو بھول کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں دوبارہ مگن ہو جائیں گے۔