نیکی کی نیت…

کبھی سوچا کہ ہمارے پاس اتنا کچھ ہے اس کے باوجود ہمیں مزید کی طلب رہتی ہے اور ہم اللہ سے مانگے چلے جاتے ہیں۔

Shireenhaider65@hotmail.com

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہم نیکی کی نیت کرتے ہیں... ویسے تو نیکی کی نیت کبھی کبھی ہی کی جاتی ہے، عموماً نیکیاں بغیر نیت کے ہی سرزد ہو جاتی ہیں) کسی کے حالات سنتے ہیںتو دل دکھ سے بھرجاتا ہے۔ سنتے ہیں کہ فلاں پر بڑی تنگدستی ہے، اگر ہو سکے تو اس کی مدد کر دیں، ہم پسیج جاتے ہیں اور فوراً سوچ لیتے ہیں کہ اس کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے، اس کے لیے جو ہو سکے وہ کرنا ہے۔ خواہ اس کے لیے ہمیں اپنے صدقہ زکوۃ میں سے رقم دینا پڑے یا پھر کسی سے اس کے کام کی سفارش کرنا پڑے۔

کبھی ہماری اس شخص سے اتفاقا ملاقات ہوجائے جس کے ساتھ نیکی کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اس کے حلیے سے دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ وہ اتنا بھی غریب ، محتاج نہیں ، ایسا کنگلا اورنادار دکھائی نہیں دے رہا، شکل سے مسکینی ٹپک نہیں رہی یا چہرے پر ضرورت مندوں جیسے تاثرات نہیں ہیںتو ہم دل میں ارادہ بدل لیتے ہیں، نیکی کرتے کرتے رک جاتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اصل میں ہم سمجھتے ہیں کہ چہرے پر مسکراہٹ یا لبوں پرہنسی صرف ان لوگوں کا حق ہے جن کے پاس سب کچھ ہے، انھیں کسی کی محتاجی نہیں اور کسی شے کی کمی نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ بد ترین حالات میں بھی مسکرانے کا فن جانتے ہیں، برے ترین حالات میں اپنے ایمان میںلغزش آنے دیتے ہیں نہ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف سے برداشت کا مادہ خاص طور پر ہم عام انسانوں سے زیادہ ملتا ہے اور ہم عام انسان سوچتے ہیں کہ اگر اسے غم ہے تو اس کا چہرہ حزنیہ کیوں نہیں ہے، اس کا رنگ پیلا پھٹک کیوں نہیں ہے؟ تکلیف ہے تو تڑپ کیوں نہیں رہا۔ غربت ہے یا کوئی مجبوری تو اس کے حلیے سے عیاں کیوں نہیں ہے، کیوں اس کے چہرے پر خاک نہیں اڑ رہی۔

ہم ایک چلتے پھرتے،ہنستے مسکراتے انسان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتے، سوچتے ہیں کہ اس کے تن پر لباس بھی پورا ہے اور لگتا ہے کہ اس نے پچھلے وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر کھایا ہے۔ پھر یاد آتا ہے، ابھی حال پوچھا تھا تو اس نے جواب میں کہا تھا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

اللہ کا شکر تو وہی ادا کرتا ہے نا کہ جس کے پاس سب کچھ ہو، وہ تو نہیں کہ جسے کوئی کمی ہو۔ ہم تو ایسے ہی کرتے ہیں نا! ذرا سی تکلیف ہو، کوئی دکھ یا چبھن ہو، کچھ چھن جائے ، کوئی کمی محسوس ہو تو اللہ تعالی سے شکوے اور شکایات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شکر کا لفظ تو زبان پر آتا ہی نہیں، سوچتے ہیں کہ کس چیز کا شکر ادا کریں، کیونکہ ہمیں ان نعمتوں کا احساس ہی نہیں جوہمارے پاس سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، جن کا موجود ہونا صرف اس وقت محسوس ہوتا ہے جب وہ ہم سے چھن جاتی ہیں۔

کبھی سوچا کہ ہمارے پاس اتنا کچھ ہے اس کے باوجود ہمیں مزید کی طلب رہتی ہے اور ہم اللہ سے مانگے چلے جاتے ہیں اور وہ پھر بھی دیتا چلا جاتا ہے، اس نے تو ہمیں کبھی نہیں کہا کہ اتناکچھ ہے تمہارے پاس پھر بھی مانگ رہے ہو۔ اس کی ناشکری بھی کرتے ہیں، لالچ بھی کرتے ہیں، دل میں یہ بھی خواہش کرتے ہیں دوسروں کے حصے کا بھی ہمیں دے دے اور وہ دیے جاتا ہے۔ سوچیں کہ کیوں ؟ اس کا کوئی نہ کوئی تو مقصد ہو گا، ہمیں جو کچھ مل رہا ہے یہ سب ہم نے کیا اپنی زندگی میں استعمال کرلینا ہے یا اس میں سے کچھ بھی ہمارے ساتھ جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں!!!!

اللہ تعالی کو بھی تو معلوم ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے اورہمیںاس کی حقیقتاً ضرورت ہے بھی نہیں، پھر وہ کیوں مزید دیے چلا جاتا ہے... اس لیے کہ ہم اس کی خواہش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بے نیاز ہے،ا س کے در سے کوئی مانگنے والا خالی نہیں لوٹتا، اس کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی اس سے مانگے اور وہ اس کی فریاد نہ سنے۔ کسی کو فوراً نواز دیتا ہے، کسی کو بعد میں، کسی کو نہیں کیونکہ صرف وہ جانتا ہے کہ کس کے لیے کیا ، کب، کتنا اور کس طرح درست ہے۔

ہم اتنے بے نیاز کیوں نہیں ہوسکتے... دیتے وقت بار بار ہاتھ کیوں رک جاتا ہے اور دل دلیلیں دینے لگتا ہے؟


اس کی نرالی ادا ہے، وہ اس کارخانۂ قدرت میں ہر ایک کو جدا جدا انداز سے آزماتا ہے۔ کسی کو بن مانگے دے کر، کسی کو مانگنے پر بھی نہ دے کر، کسی کو کم دے کر، کسی کو اس کی ضرورت سے زیادہ دے کر، کسی کو دینے کے بعد چھین کر اور کسی کو چھن جانے کے بعد غیر متوقع دے کر۔ یہی دنیا کا تماشہ ہے کہ ہم سب دولت کی دوڑ میں شریک ہیں ، اس کی آزمائش کو نہیں سمجھ پاتے۔

کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں اللہ تعالی یوں دیتا ہے کہ ہم اسے سنبھال بھی نہیں پاتے اور وہ ہماری ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے، وہ ہمیں کیوں ملتا ہے؟ جانے کتنے ہی لوگ اپنی زندگی میں ہر لمحے دولت جمع کرنے میں مصروف رہتے اور خزانوں کے انبار اپنے پیچھے چھوڑ کر دنیا سے چلے جاتے ہیں، انھیں اس خزانے کو نہ خود پر خرچ کرنا نصیب ہوتا ہے نہ ہی اپنے ہاتھ سے کسی کو دے کر اپنے اعمال نامے میں کچھ نیکیاں جمع کرنے کی توفیق۔

ہم اللہ سے سب کچھ مانگتے ہیں مگر نہیں مانگتے تو اس بات کی توفیق کہ اللہ ہمیں اپنے ہی دیے ہوئے میں سے دوسروں کو دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم سب منگتے ہیں مگر دینے والے کے انداز نرالے کہ کسی کو وہ کسی وسیلے سے دیتا ہے اورکسی کو کسی طریقے سے، اس نے ہم انسانوں کو ہی ایک دوسرے کے لیے وسیلہ بھی بنایا ہے۔ وہ اس لیے بھی دیتا ہے کہ ہم اس میں دوسروں کو بھی شریک کریں مگر ہم اتنے تھڑدلے کہ لالچ میں پڑ جاتے ہیں، اپنی اگلی عمر کا ہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ بڑھاپے میں ہمارا کیا ہو گا، سو جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں۔

اسلام میں زکوۃ کا جو نظام متعارف کروایا گیا اور اسے اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن قرار دیا گیا، ایک مالی عبادت۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ جن کے پاس مال و دولت ایک مقررہ حد سے زائد ہے وہ اس میں سے ان لوگوں کو دیں، ان سے خوشیاں بانٹیں جو اس کے مستحق ہیں اور اپنی سفید پوشی اور عزت نفس کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ زکوۃ کے نفاذ کے لیے نصاب کے آپ کے پاس ہونے کی مدت ایک سال رمضان سے اگلے سال رمضان تک کی مقرر کی گئی ہے مگر زکوۃ دینے کے لیے یکم رمضان کا انتظار کرنے کی شرط نہیں ہے، زکوۃ ہم سال میں کبھی بھی دے سکتے ہیں ۔

پورے سال پر پھیلا کر زکوۃ دینے سے دینے والے کی جیب پر بوجھ کم پڑتا ہے اور لینے والے کی ضرورت اسی وقت پوری ہوجاتی ہے جب اسے ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے مال اور زیور پر زکوۃ کا حساب لگوا کر اگر اس کے مطابق ہر ماہ کچھ رقم نکالتے رہیںتو ہمیں سہولت رہے گی، بہتر ہے کہ اس مقدار سے زیادہ ہی نکالتے رہیں، جب وہ ہمیں بے حساب دیتا ہے تو ہم اس کی راہ میں دیتے ہوئے کیوں ہچکچائیں۔

جہاں کوئی ضرورت مند نظر آئے، جتنا کر سکیں اس کے لیے کریں یہ سوچے بغیر کریں کہ کوئی اور بھی اس کی مددکر رہا ہے اور یہ کہ اسے اتنی ضرورت ہے نہیں اور وہ شکل سے ضرورت مند لگ بھی نہیں رہا۔ جو کچھ بھی اللہ کی خوشنودی کے لیے کریں، اس کی نیت کر کے کریں، نیکی بغیر نیت کے آپ کے اچھے اعمال میں تو شمار ہو گی مگر ہمیں معلوم ہے کہ نیک کام کی نیت کرنے کا بھی اجر ہے، اگر چہ ہم وہ کام سر انجام نہ بھی دے سکیں ۔

اپنے مال ، وقت اور صلاحیتوں میں سے اپنے قرابت داروں اور مستحق رشتہ داروں کو ان کا حصہ دیں ۔ آپ کے مال میں سے جو کچھ آپ کی ضرورت سے زائد ہے، یا وہ جو آپ زکوۃ کی مد میں نکالتے ہیں، اس کے سب سے پہلے مستحقین آپ کے قریبی لوگ ہیں۔ خاندان سے، برادری سے اور اس کے بعد محلے دار یا وہ سفید پوش لوگ جنھیں آپ انھی میں سے کسی کے حوالے سے جانتے ہیں۔

خوشیاں اور دولت ایک ہی طرح سے بانٹنے سے بڑھتی ہیں، جو کچھ آپ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں، اس کا اجر ایک طرف مگر اللہ تعالی دینے والے کو اس سے دس گنا دیتا ہے جو اس کے نام پر دے ۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے مال کے ذریعے خوشیوں میں شامل کریں، ان کے لیے نہ صرف ماہ رمضان کی ضروریات کا اہتمام کریں بلکہ انھیں عید کی خوشیوں میں بھی حصہ دار بنائیں۔
Load Next Story