سیاسی میڈیا ٹیموں کی اہمیت

حکمران جماعت جھوٹوں پر مشتمل ایک ایسی مضبوط میڈیا ٹیم رکھتی ہے کہ عوام کا اس سے متاثر ہونا یقینی ہوتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

جہاں کہیں جھوٹ کے موضوع پر کوئی بات ہورہی ہو تو وہاں ہٹلر کی پروپیگنڈا ٹیم کے سرخیل گوئبلز کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ آج کی سیاسی دنیا پروپیگنڈے کے محور پر گھوم رہی ہے جس سیاسی جماعت کی پروپیگنڈا ٹیم مضبوط ہوگی وہ لازماً رائے عامہ کو متاثر کرے گی۔ جھوٹ بولنا ایک آرٹ ہے، جو جھوٹا جس قدر پختہ جھوٹ کے ساتھ جھوٹ بولے گا عوام اس سے اتنے ہی متاثر ہوںگے۔

اس حوالے سے سیاسی پارٹیاں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔ لیکن حکمران جماعت جھوٹوں پر مشتمل ایک ایسی مضبوط میڈیا ٹیم رکھتی ہے کہ عوام کا اس سے متاثر ہونا یقینی ہوتا ہے اور اس حوالے سے ہمارے عوام کا حافظہ اس قدر خراب ہے کہ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حکمران کل کیا کہہ رہا تھا آج کیا کہہ رہا ہے۔ یہ تکنیک سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس قدر گہری جڑیں رکھتی ہے کہ بے چارہ جمہور حکمرانوں کے ہر جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتا ہے۔

حکمران اگر ہوشیار ہے اور پبلک کی نفسیات کو سمجھتا ہے تو اس قدر اعتماد کے ساتھ ایسے ایسے جھوٹ بولتا ہے کہ بڑے بڑے جھوٹے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس ماحول میں ہمارے عوام کا مزاج بھی ایسا بن گیا ہے کہ اعتماد سے بولنے والے بڑے بڑے جھوٹ کو وہ سچ سمجھ کر اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری اپوزیشن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس حالیہ پروپیگنڈا ٹیموں کا قحط ہے۔

اپوزیشن میں الگ الگ جماعتیں بھی ہیں اور ان کے اعتماد بھی ہیں۔ مجموعی طور پر ہماری اپوزیشن کی کوئی میڈیا ٹیم ہی نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کیا کررہی ہے کیا کرنا چاہتی ہے عوام اس سے قطعی لا علم ہیں۔ انفرادی طور پر پارٹی کا سربراہ جو ہانکتا ہے عوام میں اس سے واقف ہوتے ہیں باقی اﷲ اﷲ خیر صلا۔

اس وقت ملک کے 20 کروڑ عوام حکمران طبقات کی کارکردگی سے سخت مایوس ہیں اور وہ کوئی قابل اعتماد اپوزیشن چاہتے ہیں اسے عوام کی خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی اب اپنی امیدیں عمران خان سے وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں آج عمران خان ملک کا سب سے مقبول رہنما ماناجاتا ہے لیکن تحریک انصاف کی حماقت کہیں یا کم عقلی کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی میڈیا سیل ہے نہ میڈیا سیل کے تحت کام کرنے والی ٹیمیں ہیں۔

لے دے کر ایک چوہدری ہے۔ یہ نمک کا کھرا اپنی عقل اور بساط کے مطابق پارٹی کے ترجمان کے فرائض ادا کرتا ہے لیکن سرکاری درجنوں پروپیگنڈا ٹیموں کے سامنے اس غریب کا چراغ نہیں چلتا۔ سرکاری میڈیا ٹیموں نے اس قدر جارحانہ رویے اختیار کیے ہوئے ہیں کہ توہین عدالت ان کے لیے کوئی اہم بات نہیں رہی جس سے حکمران جماعت کے جارحانہ رویوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف پر مشتمل ٹیم اس قدر متاثر کن ہیں خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اس طرح اپنا موقف بیان کرتے ہیں کہ عوام کا متاثر ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس پوری میڈیا مہم کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کی خصوصاً پنجاب کے عوام کی بھاری اکثریت میاں برادران کے رام سحر میں گرفتار ہے اور حکومت کے الیکشن کے حوالے سے اعتماد کا عالم یہ ہے کہ وہ انتخابات میں ایک دن کی دیر بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔


اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ اشرافیہ کی حکومتوں کے تسلسل اور عوامی مسائل کی حالت زار کی وجہ سے عوام اشرافیائی حکومتوں سے سخت بیزار ہیں لیکن ایک اچھا متبادل اپنی میڈیا میں ناکام پالیسی کی وجہ سے عدم اعتماد کا شکار ہورہاہے۔

الیکشن دو ماہ کی دوری پر ہے اس مختصر عرصے میں اپوزیشن ایک منظم طریقے سے اس طرح اپنی مہم چلاسکے گی کہ ووٹر اس سے متاثر ہوسکے۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے اور اس کے پاس کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے لیکن جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ کسی انتخابات میں انھوں نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں۔ غالباً اسی خوف نے مذہبی جماعتوں کو دوبارہ متحد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل وجود میں آچکی ہے، مجلس کے پلیٹ فارم سے ایک بڑا جلسہ بھی کیا گیا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ مذہبی جماعتیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہیں ان کے پاس اﷲ کے دیے وسائل بھی موجود ہیں اور منظم نظریاتی کارکنوں کی ایک بھاری تعداد بھی موجود ہے، مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق جیسے مقررین بھی موجود ہیں لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ان کا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ کیا ان کرم فرماؤں نے کبھی اس کمزوری پر غور کیا ہے کبھی اس مایوس کن صورتحال کی تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے۔

پختونخوا میں فضل الرحمٰن کے معتقدین کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے جو اب تک قبائلی نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ مولانا بھی قبائلی نظام کی نمایندگی کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے نظریاتی گڑھ میں اجنبی بنے ہوئے ہیں اور وہاں عمران خان کی تحریک انصاف اقتدار میں ہے۔ مولانا سراج الحق پختونخوا حکومت چھوڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں اور ہوسکتا ہے ہمارا یہ کالم شایع ہونے تک جماعت اسلامی حکومت سے الگ ہوجائے لیکن اس سے تحریک انصاف کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

متحدہ مجلس عمل کی بھی کوئی ایسی میڈیا ٹیم نظر نہیں آتی جو عوام کو متاثر کرسکے۔ دوسری سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو مسلم لیگ ن کی پریشانی کا باعث بن سکے۔ تحریک انصاف ہی ایک واحد جماعت ہے جس سے میاں برادران خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ مینار پاکستان لاہور پر عمران خان نے بہت بڑا جلسہ کیا جلسوں کی حالیہ تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ کسی جماعت نے نہیں کیا لیکن اس کے باوجود نواز شریف مطمئن نظر آتے ہیں۔

میاں صاحب کرپشن کے الزامات میں بیٹی، داماد کے ساتھ ملوث ہیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ عدلیہ کی طرف سے ان پر پابندیاں عائد ہیں لیکن اس کے باوجود میاں صاحب اور ان کی دختر نیک اختر جلسوں پر جلسے کررہے ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم بناکر اس طرح پیش کررہے ہیں کہ عوام کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہورہی ہیں۔

جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے تحریک انصاف کے پاس کوئی ایسی تیز طرار میڈیا ٹیمیں موجود نہیں ہیں جو تحریک انصاف کے منشور اور پروگرام کو متاثر کن انداز میں پیش کریں اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ عمران نے خیبر پختونخوا میں جو ترقیاتی اور اصلاحی کام کیے ہیں اس سے بھی عوام لا علم ہیں کیونکہ تحریک انصاف کے پاس آج کی ضرورتوں کے مطابق میڈیا ٹیمیں ہی نہیں ہیں جو پختونخوا میں کیے گئے کاموں سے عوام کو روشناس کراسکیں۔

یہ ایک ایسی حماقت ہے جس کا نقصان تحریک انصاف کو ہورہاہے۔ عمران خان نے مینار پاکستان پر بہت بڑا جلسہ کیا لیکن میاں برادران کو اس کی بالکل پرواہ نہیں کیونکہ انھوں نے پنجاب کے عوام کو بوجوہ اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ان کی میڈیا ٹیمیں آج بھی متحرک ہیں۔
Load Next Story