بانوے سال کا وزیراعظم
ہمیں آج بانوے سال کے مہاتیرجیسے کسی شخص کی ضرورت ہے۔جواس ملک کی قسمت کافیصلہ کرے۔
نجیب رزاق2009ء میں ملائشیاء کاوزیراعظم بنا۔اسکاتعلق ملک کی سب سے طاقتورسیاسی پارٹی یوایم این او(u.m.n.o)سے تھا۔مہاتیرمحمدسے اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔نجیب نے دہائیاں مہاتیرمحمدکے ساتھ گزاری تھیں۔ملک کے سب سے طاقتورعہدہ پرپہنچانے میں مہاتیرکابہت ہاتھ تھا۔
نجیب کی ترقی کی بنیادایک سیاسی حادثہ تھا۔دراصل انورابراہیم وہ سیاستدان تھاجسے مہاتیر نے جانشین کے طورپرپیش کیاتھا۔مہاتیرکے دست راست ہونے کی بدولت پورے ملیشیاء کی بے مثال ترقی میں اسکابہت ہاتھ تھا۔مگرسیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بلکہ اب تولگتاہے کہ اس کھیل میں کوئی اصول بھی نہیں ہوتا۔دنیاکاسب سے ظالمانہ اورسنگدل کھیل سیاسی شطرنج ہے۔جس میں کوئی بھی کسی کادوست یادشمن نہیں ہوتا۔
سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کے ادنیٰ غلام ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں یہ رقیق کھیل تقسیمِ برصغیر سے جاری ہے اورخوب پھل پھول رہاہے۔نئے چہرے، پرانی بساط پرہمیشہ کی طرح سجائے جاتے ہیں۔ نتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی،کہ ملک میں ہرالیکشن یاسلیکشن کے بعدچندنئے اَرب پتی خاندان سامنے آجاتے ہیں۔ خیربات ملایشیاء کی ہورہی تھی۔مہاتیرنے محسوس کیاکہ انور ابراہیم وفاداری کے پورے تقاضے نہیں نبھارہا۔یہ تقریباًبارہ برس پہلے کی بات ہے۔
اختلافات اس حدتک بڑھ گئے کہ مہاتیرنے انورابراہیم پراخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات لگائے۔مہاتیراس وقت طاقت کے عروج پر تھا۔ابراہیم کوعدالت میں پیش کیا گیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ترقی پذیرملک کی طرح ملایشیاء کی عدالت میں بھی سیاسی قوتوں کے طابع تھیں۔ انورابراہیم کوتقریباپنتیس سال سزاہوگئی اورجیل چلا گیا۔انورابراہیم اختلافات کی سزاآج بھی بھگت رہا ہے اورجیل میں ہے۔
یہ وہ حادثہ تھاجس میں نجیب رزاق کوموقع ملااورمہاتیرنے اسے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔وزیراعظم بننے کے بعد،نجیب نے وہ سب کچھ کیا جو ہمارے جیسے معاشروں میں ہوتا ہے۔ اپنا خاندان، اپنی اولاد،اپنے حواری،سب دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹنے لگے۔یہ نہیں کہ نجیب کسی متوسط خاندان سے تعلق رکھتاتھا۔اس کی پوری فیملی سیاسی اور مالی طور پربہت مضبوط تھی۔ مگرحرص کے گھوڑے پر سوار ہو کر نجیب نے پورے ملک کوپیروں تلے روندناشروع کردیا۔
صرف آٹھ سال کی قلیل مدت میں ملک سے پانچ بلین ڈالر چوری کرکے لندن،امریکا اورفرانس منتقل کردیے۔ چندسال پہلے مہاتیرسے پوچھاگیاکہ زندگی کی سب سے سنگین غلطی کیاکی ہے۔جواب بالکل سادہ تھا۔نجیب کوملک کاوزیراعظم بنوانا۔
نجیب کامقصدصرف پیسے کمانایالوٹ مارکرناہی نہیں تھا۔بلکہ اس نے ایک ایسانظام ترتیب دیاجس میں اس کے متعلق تنقیدکرناناقابل معافی جرم تھابلکہ غداری کے زمرے میں دیکھاجاتاتھا۔حدتویہ ہے کہ ایک مایہ ناز کارٹونسٹ فہمی رضاکوچالیس برس کی قیدصرف اسلیے سنائی گئی کہ نجیب کے کارٹون بناکرایک جریدے میں چھاپے تھے۔ نجیب نے اپنے خلاف ہرآوازکومکمل خاموش کر دیا تھا۔
کسی میں جرات نہیں تھی کہ نجیب اوراس کی بیوی ریشما منصورکی کرپشن کے متعلق کوئی لفظ کہہ سکے۔ اپنے ملک کا مردِ آہن بن چکاتھا۔وائٹ ہاؤس سے لے کردنیاکے ہر طاقتور آدمی کاذاتی دوست۔دوسال پہلے،فرسٹ فیملی کی تصویریں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔بہترین ملبوسات، قیمتی ترین گھڑیاں،پرائیویٹ جیٹ طیارے اوردنیامیں مہنگی ترین سیروتفریح ان کے لیے روزمرہ کامعمول تھا۔
سیاسی طورپرBarisan National Coalitionملایشیاء کامضبوط ترین سیاسی گروہ تھا۔ ملک کے تمام طاقتوراوردولت مندخاندان اسکاحصہ تھے۔ نجیب اس کوالیشن کاسربراہ تھا۔مگرعام لوگوں میں اندر ہی اندرنفرت کالاواپک رہاتھا۔عرض کرتا چلوں۔ نجیب ووٹ کی طاقت سے ملک کے بلندترین عہدہ پر فائز ہوا تھا مگراسکاعملی رویہ قطعاًجمہوری نہیں تھا۔
کون کہتا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے آپ ایمانداراورمخلص سیاسی قیادت سامنے لاسکتے ہیں۔یہ صرف اورصرف ایک مفروضہ ہے جوطاقتورگروہ اوراشخاص عام لوگوں کی ذہنی تسکین کے لیے پیش کرتے ہیں۔انھیں بیوقوف بناتے ہیں۔ پھرملک کی دولت لوٹتے چلے جاتے ہیں۔ذاتی طور پرجمہوریت، بغیرعملی اقدام کے،ایک خوفناک دلدل ہے جس میں عام لوگ پھنس کرغرق ہوتے رہتے ہیں۔
امیرلوگ ان الفاظ سے کھیلناسیکھ چکے ہیں لہٰذااب جمہوریت کوایک مقدس درجہ دیاجارہاہے۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ صاحب،جمہوریت ایک مکمل نظام ہے۔صرف اور صرف الیکشن جیتنااسکاایک چھوٹاساحصہ ہے۔یہ ایک بھرپور ذمے داری ہے جسے کم ازکم تیسری دنیاکے ممالک میں نبھانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔دراصل ملایشیاء اور پاکستان بلکہ تمام ترقی پذیرممالک بالکل ایک جیسے ہیں۔
چندماہ پہلے،ملایشیاء کی ٹوٹی پھوٹی اپوزیشن کے سیاسی لوگ،مہاتیرکے پاس گئے اوراسے اپوزیشن لیڈر کے طورپرالیکشن لڑنے کی دعوت دی۔یہ لمحہ بے حداہم تھا۔ مہاتیربنیادی طورپراسی پارٹی سے تعلق رکھتاتھاجسکی حکومت تھی۔یادرہے کہ ملائشیاء میں"نیشنل کولیشن" کو اکسٹھ برس میں کوئی بھی ہرانھیں پایاتھا۔یہ ایک ناممکن کام تھا۔ مہاتیرکواپنے جانشین نجیب کی سفاکی کابھی بھرپور اندازہ تھا۔ یہ بھی احساس تھاکہ اس نے اپنے اصل سیاسی شاگردانورابراہیم کے ساتھ ظلم کیا ہے مگراس نے ایک سیاستدان بنکرنہیں،ایک بڑے بزرگ کی حیثیت سے سوچا۔
دارالحکومت کی جیل میں گیا اور انور ابراہیم سے ہاتھ جوڑکرمعافی مانگی۔وعدہ کیاکہ حکومت میں آنے کے تھوڑے عرصے کے بعدوہ ملک کا وزیراعظم ہوگا۔ انور ابراہیم اورمہاتیرکی صلح ہوگئی یاایک تصفیہ طے پایا۔ مہاتیر نے اس کے بعداپوزیشن کی قیادت سنبھالی اور2018ء کے الیکشن میں آنے کااعلان کر دیا۔ بانوے سال کے بابے نے چنددن پہلے نجیب کے مضبوط ترین گروہ کوسیاسی طورپربدترین شکست دی۔ آج وہ ملایشیاء کامنتخب وزیراعظم ہے۔
کیاآپ جانتے ہیں کہ مہاتیرنے عہدے کاحلف لینے کے بعدکیافیصلہ کیا۔ایک نکاتی ایجنڈا۔کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنے کابے باک اعلان۔نجیب نے ایم بی ڈی فنڈ کے اندرخوفناک خوردبوردکی تھی۔صرف اس کے اکاؤنٹ میں سات سوملین ڈالراسی فنڈسے منتقل ہوئے تھے۔ ایک سعودی شہزادے نے ملائشین حکومت کوخط بھی لکھا تھاکہ یہ اس کی طرف سے نجیب کوتحفے کے طورپردی گئی ہے۔
بین الاقوامی اداروں کے حساب سے نجیب، اس کی بیوی اورٹوڈیوں نے پانچ ارب ڈالرکی لوٹ مارکی تھی۔ مہاتیرنے سب سے پہلے بڑے مگرمچھ پرہاتھ ڈالا۔ نجیب کے ملک چھوڑنے پرپابندی لگادی۔ایک دن پہلے،اس کی بیوی کے گھرپرچھاپہ ماراگیا تو ریشما صاحبہ کے پچاس ہینڈبیگ ضبط کیے گئے۔"برکن"کے بنے ہوئے فقط ایک بیگ کی قیمت دولاکھ ڈالرتھی۔آپ بیگز کی قیمت کاتخمینہ خودلگالیجئے۔
بوڑھامہاتیراپنے ملک کے تمام مگرمچھوں پرہاتھ ڈال رہاہے۔ملایشیاء کے ملکی ادارے سیاسی لوگوں سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ جائیدادیں،روپیہ،پیسہ،ہیرے جواہرات اوربینک بیلنس کہاں سے آئے۔دولت کاماخذکیاہے۔چندسال میں اربوں ڈالرکیسے اورکس کاروبارسے حاصل کیے گئے۔ آج مہاتیردوبارہ اپنے پرانے عہدے پر فائز، ملک میں صفائی ستھرائی کے کام میں جت گیاہے۔اس کے نتائج اگلے چندہفتوں میں دنیاکے سامنے آجائینگے۔
عرض ہے کہ ملایشیاء میں صرف پانچ بلین ڈالرکی چوری پرقیامت برپاہے۔مگرہمارے پیارے ملک سے کئی سوارب ڈالرچوری کیے گئے ہیں۔ستربرس کی تاریخ میں صرف چوری،ڈاکے اورلوٹ مار ہے۔14اگست کوملک بنااوراسی دن سے "سیٹلمنٹ" کے زمینی فراڈشروع ہوگئے۔ملک کی اوائل عمری میں جوبھیانک خوردبرداورجعل سازی ہوئی وہ"جعلی کلیمز" اورزمین سے منسلک تھی۔
آج آپ کوجوپشتینی رئیس گھرانے اکڑی ہوئی گردنوں کے ساتھ نظرآرہے ہیں ان میں سے اکثریت بٹوارے کے بعداپنے بزرگوں کی جعل سازی کی بدولت امیرہوئے ہیں۔ہرایک کو معلوم ہے کہ ڈاکے کن لوگوں نے مارے اورکس پیریڈ میں مارے۔مگراب ان کے متعلق بات کرنی ناممکن ہے۔ ان میں سے اکثریت اس ملک میں بلندترین سطح پر موجود ہے۔پختہ بات کرتاہوں۔ہمارے ملک میں کرپشن کی بنیاد،صنعتی سرمایہ کاروں نے نہیں رکھی بلکہ ان عیاربندوں نے رکھی جنکی پہنچ پاکستان اور ہندوستان کے ریونیوریکارڈتک تھی۔
درست ہے کہ صنعت کاروں نے بھی پیسے کمانے میں کسی سے رعایت نہیں کی مگرکرپشن کی بنیادانھوں نے نہیں رکھی۔وہ اس کھیل میں بعدمیں شامل ہوئے۔خصوصی ایوب خان کے دورمیں۔جب حکومت فیکٹریاں بنابناکر،آسان شرائط پرسوداگروں کے حوالے کررہی تھی۔اسی بھاگ دوڑمیں دودرجن خاندان سامنے آئے۔جنکے پاس ملک کے اسی فیصدمالی وسائل تھے۔بھٹوکی فیکٹریوں کوحکومتی تحویل میں لینااسی کرپشن کوکم یاختم کرنے کاایک قدم تھا۔خیربھٹوکی نیشنلائزیشن پالیسی سے بھی ملک کوبہت نقصان پہنچا۔
گزشتہ تیس سال میں سیاست کوجوہری طورپرپیسے کاکھیل بنادیاگیا۔کرپشن کوذاتی ترقی کی سیڑھی بناکراقتدارپرووٹ کے ذریعے قبضہ کرنے کاوہ کھلواڑ شروع ہواکہ ملک دھڑام سے پستی کی طرف گامزن ہوگیا۔یہ سفرآج بھی جاری ہے۔یہاں کوئی بھی اپنی دولت کاحساب نہیں دے سکتا۔نہ سیاستدان،نہ فوجی جنرل،نہ صنعتکار،نہ سرکاری ملازم اورنہ تاجر۔ کرپشن کے اس سیلاب کو کس طرح روکاجائے۔اس کے لیے ہمارے پاس کوئی ٹھوس پالیسی موجودنہیں ہے۔
ہمیں آج بانوے سال کے مہاتیرجیسے کسی شخص کی ضرورت ہے۔جواس ملک کی قسمت کافیصلہ کرے۔ کرپشن کوجڑسے اُکھاڑے اوراپنے سے بہترجانشین کو حکومت دیکرواپس چلا جائے۔اگریہ نہ ہوا، تو طاقت، پیسہ اور اقتدار کا ملعون کھیل جاری رہیگا۔بغیررُکے مسلسل چلتارہیگا!
نجیب کی ترقی کی بنیادایک سیاسی حادثہ تھا۔دراصل انورابراہیم وہ سیاستدان تھاجسے مہاتیر نے جانشین کے طورپرپیش کیاتھا۔مہاتیرکے دست راست ہونے کی بدولت پورے ملیشیاء کی بے مثال ترقی میں اسکابہت ہاتھ تھا۔مگرسیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بلکہ اب تولگتاہے کہ اس کھیل میں کوئی اصول بھی نہیں ہوتا۔دنیاکاسب سے ظالمانہ اورسنگدل کھیل سیاسی شطرنج ہے۔جس میں کوئی بھی کسی کادوست یادشمن نہیں ہوتا۔
سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کے ادنیٰ غلام ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں یہ رقیق کھیل تقسیمِ برصغیر سے جاری ہے اورخوب پھل پھول رہاہے۔نئے چہرے، پرانی بساط پرہمیشہ کی طرح سجائے جاتے ہیں۔ نتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی،کہ ملک میں ہرالیکشن یاسلیکشن کے بعدچندنئے اَرب پتی خاندان سامنے آجاتے ہیں۔ خیربات ملایشیاء کی ہورہی تھی۔مہاتیرنے محسوس کیاکہ انور ابراہیم وفاداری کے پورے تقاضے نہیں نبھارہا۔یہ تقریباًبارہ برس پہلے کی بات ہے۔
اختلافات اس حدتک بڑھ گئے کہ مہاتیرنے انورابراہیم پراخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات لگائے۔مہاتیراس وقت طاقت کے عروج پر تھا۔ابراہیم کوعدالت میں پیش کیا گیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ترقی پذیرملک کی طرح ملایشیاء کی عدالت میں بھی سیاسی قوتوں کے طابع تھیں۔ انورابراہیم کوتقریباپنتیس سال سزاہوگئی اورجیل چلا گیا۔انورابراہیم اختلافات کی سزاآج بھی بھگت رہا ہے اورجیل میں ہے۔
یہ وہ حادثہ تھاجس میں نجیب رزاق کوموقع ملااورمہاتیرنے اسے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔وزیراعظم بننے کے بعد،نجیب نے وہ سب کچھ کیا جو ہمارے جیسے معاشروں میں ہوتا ہے۔ اپنا خاندان، اپنی اولاد،اپنے حواری،سب دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹنے لگے۔یہ نہیں کہ نجیب کسی متوسط خاندان سے تعلق رکھتاتھا۔اس کی پوری فیملی سیاسی اور مالی طور پربہت مضبوط تھی۔ مگرحرص کے گھوڑے پر سوار ہو کر نجیب نے پورے ملک کوپیروں تلے روندناشروع کردیا۔
صرف آٹھ سال کی قلیل مدت میں ملک سے پانچ بلین ڈالر چوری کرکے لندن،امریکا اورفرانس منتقل کردیے۔ چندسال پہلے مہاتیرسے پوچھاگیاکہ زندگی کی سب سے سنگین غلطی کیاکی ہے۔جواب بالکل سادہ تھا۔نجیب کوملک کاوزیراعظم بنوانا۔
نجیب کامقصدصرف پیسے کمانایالوٹ مارکرناہی نہیں تھا۔بلکہ اس نے ایک ایسانظام ترتیب دیاجس میں اس کے متعلق تنقیدکرناناقابل معافی جرم تھابلکہ غداری کے زمرے میں دیکھاجاتاتھا۔حدتویہ ہے کہ ایک مایہ ناز کارٹونسٹ فہمی رضاکوچالیس برس کی قیدصرف اسلیے سنائی گئی کہ نجیب کے کارٹون بناکرایک جریدے میں چھاپے تھے۔ نجیب نے اپنے خلاف ہرآوازکومکمل خاموش کر دیا تھا۔
کسی میں جرات نہیں تھی کہ نجیب اوراس کی بیوی ریشما منصورکی کرپشن کے متعلق کوئی لفظ کہہ سکے۔ اپنے ملک کا مردِ آہن بن چکاتھا۔وائٹ ہاؤس سے لے کردنیاکے ہر طاقتور آدمی کاذاتی دوست۔دوسال پہلے،فرسٹ فیملی کی تصویریں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔بہترین ملبوسات، قیمتی ترین گھڑیاں،پرائیویٹ جیٹ طیارے اوردنیامیں مہنگی ترین سیروتفریح ان کے لیے روزمرہ کامعمول تھا۔
سیاسی طورپرBarisan National Coalitionملایشیاء کامضبوط ترین سیاسی گروہ تھا۔ ملک کے تمام طاقتوراوردولت مندخاندان اسکاحصہ تھے۔ نجیب اس کوالیشن کاسربراہ تھا۔مگرعام لوگوں میں اندر ہی اندرنفرت کالاواپک رہاتھا۔عرض کرتا چلوں۔ نجیب ووٹ کی طاقت سے ملک کے بلندترین عہدہ پر فائز ہوا تھا مگراسکاعملی رویہ قطعاًجمہوری نہیں تھا۔
کون کہتا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے آپ ایمانداراورمخلص سیاسی قیادت سامنے لاسکتے ہیں۔یہ صرف اورصرف ایک مفروضہ ہے جوطاقتورگروہ اوراشخاص عام لوگوں کی ذہنی تسکین کے لیے پیش کرتے ہیں۔انھیں بیوقوف بناتے ہیں۔ پھرملک کی دولت لوٹتے چلے جاتے ہیں۔ذاتی طور پرجمہوریت، بغیرعملی اقدام کے،ایک خوفناک دلدل ہے جس میں عام لوگ پھنس کرغرق ہوتے رہتے ہیں۔
امیرلوگ ان الفاظ سے کھیلناسیکھ چکے ہیں لہٰذااب جمہوریت کوایک مقدس درجہ دیاجارہاہے۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ صاحب،جمہوریت ایک مکمل نظام ہے۔صرف اور صرف الیکشن جیتنااسکاایک چھوٹاساحصہ ہے۔یہ ایک بھرپور ذمے داری ہے جسے کم ازکم تیسری دنیاکے ممالک میں نبھانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔دراصل ملایشیاء اور پاکستان بلکہ تمام ترقی پذیرممالک بالکل ایک جیسے ہیں۔
چندماہ پہلے،ملایشیاء کی ٹوٹی پھوٹی اپوزیشن کے سیاسی لوگ،مہاتیرکے پاس گئے اوراسے اپوزیشن لیڈر کے طورپرالیکشن لڑنے کی دعوت دی۔یہ لمحہ بے حداہم تھا۔ مہاتیربنیادی طورپراسی پارٹی سے تعلق رکھتاتھاجسکی حکومت تھی۔یادرہے کہ ملائشیاء میں"نیشنل کولیشن" کو اکسٹھ برس میں کوئی بھی ہرانھیں پایاتھا۔یہ ایک ناممکن کام تھا۔ مہاتیرکواپنے جانشین نجیب کی سفاکی کابھی بھرپور اندازہ تھا۔ یہ بھی احساس تھاکہ اس نے اپنے اصل سیاسی شاگردانورابراہیم کے ساتھ ظلم کیا ہے مگراس نے ایک سیاستدان بنکرنہیں،ایک بڑے بزرگ کی حیثیت سے سوچا۔
دارالحکومت کی جیل میں گیا اور انور ابراہیم سے ہاتھ جوڑکرمعافی مانگی۔وعدہ کیاکہ حکومت میں آنے کے تھوڑے عرصے کے بعدوہ ملک کا وزیراعظم ہوگا۔ انور ابراہیم اورمہاتیرکی صلح ہوگئی یاایک تصفیہ طے پایا۔ مہاتیر نے اس کے بعداپوزیشن کی قیادت سنبھالی اور2018ء کے الیکشن میں آنے کااعلان کر دیا۔ بانوے سال کے بابے نے چنددن پہلے نجیب کے مضبوط ترین گروہ کوسیاسی طورپربدترین شکست دی۔ آج وہ ملایشیاء کامنتخب وزیراعظم ہے۔
کیاآپ جانتے ہیں کہ مہاتیرنے عہدے کاحلف لینے کے بعدکیافیصلہ کیا۔ایک نکاتی ایجنڈا۔کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنے کابے باک اعلان۔نجیب نے ایم بی ڈی فنڈ کے اندرخوفناک خوردبوردکی تھی۔صرف اس کے اکاؤنٹ میں سات سوملین ڈالراسی فنڈسے منتقل ہوئے تھے۔ ایک سعودی شہزادے نے ملائشین حکومت کوخط بھی لکھا تھاکہ یہ اس کی طرف سے نجیب کوتحفے کے طورپردی گئی ہے۔
بین الاقوامی اداروں کے حساب سے نجیب، اس کی بیوی اورٹوڈیوں نے پانچ ارب ڈالرکی لوٹ مارکی تھی۔ مہاتیرنے سب سے پہلے بڑے مگرمچھ پرہاتھ ڈالا۔ نجیب کے ملک چھوڑنے پرپابندی لگادی۔ایک دن پہلے،اس کی بیوی کے گھرپرچھاپہ ماراگیا تو ریشما صاحبہ کے پچاس ہینڈبیگ ضبط کیے گئے۔"برکن"کے بنے ہوئے فقط ایک بیگ کی قیمت دولاکھ ڈالرتھی۔آپ بیگز کی قیمت کاتخمینہ خودلگالیجئے۔
بوڑھامہاتیراپنے ملک کے تمام مگرمچھوں پرہاتھ ڈال رہاہے۔ملایشیاء کے ملکی ادارے سیاسی لوگوں سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ جائیدادیں،روپیہ،پیسہ،ہیرے جواہرات اوربینک بیلنس کہاں سے آئے۔دولت کاماخذکیاہے۔چندسال میں اربوں ڈالرکیسے اورکس کاروبارسے حاصل کیے گئے۔ آج مہاتیردوبارہ اپنے پرانے عہدے پر فائز، ملک میں صفائی ستھرائی کے کام میں جت گیاہے۔اس کے نتائج اگلے چندہفتوں میں دنیاکے سامنے آجائینگے۔
عرض ہے کہ ملایشیاء میں صرف پانچ بلین ڈالرکی چوری پرقیامت برپاہے۔مگرہمارے پیارے ملک سے کئی سوارب ڈالرچوری کیے گئے ہیں۔ستربرس کی تاریخ میں صرف چوری،ڈاکے اورلوٹ مار ہے۔14اگست کوملک بنااوراسی دن سے "سیٹلمنٹ" کے زمینی فراڈشروع ہوگئے۔ملک کی اوائل عمری میں جوبھیانک خوردبرداورجعل سازی ہوئی وہ"جعلی کلیمز" اورزمین سے منسلک تھی۔
آج آپ کوجوپشتینی رئیس گھرانے اکڑی ہوئی گردنوں کے ساتھ نظرآرہے ہیں ان میں سے اکثریت بٹوارے کے بعداپنے بزرگوں کی جعل سازی کی بدولت امیرہوئے ہیں۔ہرایک کو معلوم ہے کہ ڈاکے کن لوگوں نے مارے اورکس پیریڈ میں مارے۔مگراب ان کے متعلق بات کرنی ناممکن ہے۔ ان میں سے اکثریت اس ملک میں بلندترین سطح پر موجود ہے۔پختہ بات کرتاہوں۔ہمارے ملک میں کرپشن کی بنیاد،صنعتی سرمایہ کاروں نے نہیں رکھی بلکہ ان عیاربندوں نے رکھی جنکی پہنچ پاکستان اور ہندوستان کے ریونیوریکارڈتک تھی۔
درست ہے کہ صنعت کاروں نے بھی پیسے کمانے میں کسی سے رعایت نہیں کی مگرکرپشن کی بنیادانھوں نے نہیں رکھی۔وہ اس کھیل میں بعدمیں شامل ہوئے۔خصوصی ایوب خان کے دورمیں۔جب حکومت فیکٹریاں بنابناکر،آسان شرائط پرسوداگروں کے حوالے کررہی تھی۔اسی بھاگ دوڑمیں دودرجن خاندان سامنے آئے۔جنکے پاس ملک کے اسی فیصدمالی وسائل تھے۔بھٹوکی فیکٹریوں کوحکومتی تحویل میں لینااسی کرپشن کوکم یاختم کرنے کاایک قدم تھا۔خیربھٹوکی نیشنلائزیشن پالیسی سے بھی ملک کوبہت نقصان پہنچا۔
گزشتہ تیس سال میں سیاست کوجوہری طورپرپیسے کاکھیل بنادیاگیا۔کرپشن کوذاتی ترقی کی سیڑھی بناکراقتدارپرووٹ کے ذریعے قبضہ کرنے کاوہ کھلواڑ شروع ہواکہ ملک دھڑام سے پستی کی طرف گامزن ہوگیا۔یہ سفرآج بھی جاری ہے۔یہاں کوئی بھی اپنی دولت کاحساب نہیں دے سکتا۔نہ سیاستدان،نہ فوجی جنرل،نہ صنعتکار،نہ سرکاری ملازم اورنہ تاجر۔ کرپشن کے اس سیلاب کو کس طرح روکاجائے۔اس کے لیے ہمارے پاس کوئی ٹھوس پالیسی موجودنہیں ہے۔
ہمیں آج بانوے سال کے مہاتیرجیسے کسی شخص کی ضرورت ہے۔جواس ملک کی قسمت کافیصلہ کرے۔ کرپشن کوجڑسے اُکھاڑے اوراپنے سے بہترجانشین کو حکومت دیکرواپس چلا جائے۔اگریہ نہ ہوا، تو طاقت، پیسہ اور اقتدار کا ملعون کھیل جاری رہیگا۔بغیررُکے مسلسل چلتارہیگا!