100ارب کے ریفنڈز رواں سال جاری کردیں گے وزیر خزانہ
زیرالتواریفنڈ200 ارب،حکومت پورے برآمدی شعبے کوریبیٹ نہیں دے سکتی،مفتاح اسماعیل
PESHAWAR:
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت ریفنڈز کی مد میں رواں سال100 ارب روپے جاری کردے گی۔
مفتاح اسماعیل نے ہفتے کو کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کے دوران بتایا کہ ڈی ویلیوایشن سے ملکی برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اپریل 2018میں برآمدات 18 فیصدبڑھیں اور درآمدات میں2 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ مارچ میں برآمدات24 فیصد بڑھیں اور درآمدات میں 6 فیصد کا اضافہ ہوا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت رواں سال ملکی برآمدات کو23 ارب ڈالر اور اگلے سال28 ارب ڈالر تک پہنچانے کی خواہاں ہے۔ نٹ ویئر سیکٹرکو ڈی ٹی آرای کے تحت یارن درآمد کرنے کی اجازت دیدی جائے گی۔ برآمدی مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے متعدد خام مال کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی کی جارہی ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ فروٹ ویجیٹیبل پنکھاسازی سمیت دیگر شعبوں کوترقی دے کر ہم برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ اس سال پاکستان ایکسپورٹ بڑھانے والے ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ حکومت پورے ایکسپورٹ سیکٹر کو ریبیٹ نہیں دے سکتی۔ وفاقی حکومت گارنٹی دیتی ہے بزنس کمیونٹی ڈی سیلینیشن پلانٹ لگالیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کا مالی سال کے آغاز سے ہی خسارے کاشکار ہو جاتا ہے۔ وفاقی حکومت جو ٹیکس جمع کرتی ہے وہ قرضے کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ پہلی ترجیح افراط زر کو کنٹرول کرنا ہے۔ جو بھی رعایتی پیکج دیتے ہیں اس میں حکومت کو وصولی میں کمی بھی شامل ہوتی ہے۔ ملک کے تمام برآمدکنندگان مجموعی طورپر31 ارب روپے مالیت کے ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے ہیں جبکہ سگریٹ بنانے والی ایک کمپنی تمام ایکسپورٹرز سے زائد ٹیکس ادا کرتی ہے۔ حکومت کا مالی سال کے آغاز سے ہی خسارے کاشکار ہوجاتا ہے۔ وفاقی حکومت جو ٹیکس جمع کرتی ہے وہ قرضے کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ پہلی ترجیح افراط زر کو کنٹرول کرنا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کے الیکٹرک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کے گیس اور فرنس آئل کے ٹربائین چل رہے ہیں مگر انہوں نے سرمایہ کاری کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا نہیں کیا۔ کے الیکٹرک کی فلیٹ ایفیشنسی 30 سے بڑھ کر 37 فی صد ہوگئی ہے جبکہ لائین لاسز میں بھی کمی ہوئی ہے۔ کراچی کی لوڈ شیڈنگ میں سندھ کی صوبائی حکومت بھی ذمے دار ہے۔ کراچی واٹر بورڈ نے کے الیکٹرک کے 36 ارب روپے کی ادائیگی نہیں کی ہے، اگر یہ ادائیگی کی ہوتی تو سوئی سدرن کے پیسے بھی نہ واجب الادا ہوتے۔ اب کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک خرید رہی ہے اس لیے موجودہ انتظامیہ کی دلچسپی نہیں رہی ہے۔
قبل ازیں کونسل کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ اربوں روپے کے ریفنڈز کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کے چھوٹے ایکسپوٹرز کاوجود ختم ہورہاہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم برآمدی پیکیج کلیمز داخل کرنے والوں کو 3 ماہ سے ادائیگیاں نہیں ہورہی ہیں۔ مالیاتی بحران ختم کرنے کیلیے ریفنڈ پیمنٹ آرڈر کو بینکنگ انسٹرومنٹ بنایا جائے۔ اس موقع پر جاوید بلوانی نے بھی خطاب کیا۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت ریفنڈز کی مد میں رواں سال100 ارب روپے جاری کردے گی۔
مفتاح اسماعیل نے ہفتے کو کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کے دوران بتایا کہ ڈی ویلیوایشن سے ملکی برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اپریل 2018میں برآمدات 18 فیصدبڑھیں اور درآمدات میں2 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ مارچ میں برآمدات24 فیصد بڑھیں اور درآمدات میں 6 فیصد کا اضافہ ہوا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت رواں سال ملکی برآمدات کو23 ارب ڈالر اور اگلے سال28 ارب ڈالر تک پہنچانے کی خواہاں ہے۔ نٹ ویئر سیکٹرکو ڈی ٹی آرای کے تحت یارن درآمد کرنے کی اجازت دیدی جائے گی۔ برآمدی مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے متعدد خام مال کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی کی جارہی ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ فروٹ ویجیٹیبل پنکھاسازی سمیت دیگر شعبوں کوترقی دے کر ہم برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ اس سال پاکستان ایکسپورٹ بڑھانے والے ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ حکومت پورے ایکسپورٹ سیکٹر کو ریبیٹ نہیں دے سکتی۔ وفاقی حکومت گارنٹی دیتی ہے بزنس کمیونٹی ڈی سیلینیشن پلانٹ لگالیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کا مالی سال کے آغاز سے ہی خسارے کاشکار ہو جاتا ہے۔ وفاقی حکومت جو ٹیکس جمع کرتی ہے وہ قرضے کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ پہلی ترجیح افراط زر کو کنٹرول کرنا ہے۔ جو بھی رعایتی پیکج دیتے ہیں اس میں حکومت کو وصولی میں کمی بھی شامل ہوتی ہے۔ ملک کے تمام برآمدکنندگان مجموعی طورپر31 ارب روپے مالیت کے ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے ہیں جبکہ سگریٹ بنانے والی ایک کمپنی تمام ایکسپورٹرز سے زائد ٹیکس ادا کرتی ہے۔ حکومت کا مالی سال کے آغاز سے ہی خسارے کاشکار ہوجاتا ہے۔ وفاقی حکومت جو ٹیکس جمع کرتی ہے وہ قرضے کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ پہلی ترجیح افراط زر کو کنٹرول کرنا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کے الیکٹرک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کے گیس اور فرنس آئل کے ٹربائین چل رہے ہیں مگر انہوں نے سرمایہ کاری کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا نہیں کیا۔ کے الیکٹرک کی فلیٹ ایفیشنسی 30 سے بڑھ کر 37 فی صد ہوگئی ہے جبکہ لائین لاسز میں بھی کمی ہوئی ہے۔ کراچی کی لوڈ شیڈنگ میں سندھ کی صوبائی حکومت بھی ذمے دار ہے۔ کراچی واٹر بورڈ نے کے الیکٹرک کے 36 ارب روپے کی ادائیگی نہیں کی ہے، اگر یہ ادائیگی کی ہوتی تو سوئی سدرن کے پیسے بھی نہ واجب الادا ہوتے۔ اب کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک خرید رہی ہے اس لیے موجودہ انتظامیہ کی دلچسپی نہیں رہی ہے۔
قبل ازیں کونسل کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ اربوں روپے کے ریفنڈز کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کے چھوٹے ایکسپوٹرز کاوجود ختم ہورہاہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم برآمدی پیکیج کلیمز داخل کرنے والوں کو 3 ماہ سے ادائیگیاں نہیں ہورہی ہیں۔ مالیاتی بحران ختم کرنے کیلیے ریفنڈ پیمنٹ آرڈر کو بینکنگ انسٹرومنٹ بنایا جائے۔ اس موقع پر جاوید بلوانی نے بھی خطاب کیا۔