سیاسی جماعتوں کا تعلیم میں بہتری لانے کے عزم کا اعادہ

اس بات کو یقینی بنایا جاۓ کہ 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچے تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول نہ چھوڑیں۔

اس بات کو یقینی بنایا جاۓ کہ 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچے تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول نہ چھوڑیں۔

تاریخ سازآل پارٹیز کانفرنس کے دوران ملک کی سیاسی جماعتوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیم فراہم کی تاکہ طالبعلموں میں سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکے۔

پاکستان کے تمام بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کرنے کیلئے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اسلام آباد میں جمع ہوئی۔ اعلانِ عمل کے نام سے منعقد ہونے والی اس تاریخ ساز کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک ِانصاف، نیشنل پارٹی (این پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جماعت ِاسلامی، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی)، ایم کیو ایم۔پاکستان، پاکستان مسلم لیگ (ق)، جمیعت علمائے اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بی این پی۔ مینگل کی قیادت نےتمام سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قومی تعلیمی اصلاحات کےبنیادی ایجنڈے پر اتفاق کرنے کا عہد کیا ہے۔



تعلیمی مہم الف اعلان کی جانب سے منعقد کی جانے والی اس کانفرنس میں پنجاب کے وزیر برائے اسکول ایجوکیشن رانا مشہود، خیبرپختونخواہ کے وزیرِ تعلیم محمد عاطف خان، عوامی نیشنل پارٹی کے افرسیاب خٹک اور سردار حسین بابک، پاکستان تحریک ِ انصاف کے چوہدری محمد سرور، پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے ڈاکٹر عذرا پیچوہو، ایم کیو ایم۔پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور فیصل سبزواری، جمیعت علماءِ اسلام کے ایم پی اے نور سلیم خان، بی این پی۔مینگل کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ، پاک سرزمین پارٹی کے جنرل سیکرٹری رضا ہارون، قومی وطن پارٹی کی ایم پی اے انیسہ زیب طاہر خیلی ،نیشنل پارٹی کے سینیٹر محمد اکرم اور پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی نائب صدر اجمل وزیر خان نے شرکت کی۔

پورے ملک کی سیاسی قیادت کے اس منفرداجتماع میں اسکولوں میں سیکھنے کے معیار کےنتائج میں بہتری لانے اور 5 سے 16 سال کے ہر پاکستانی بچے کو تعلیم دینے کی ریاست کی ذمہ داری پر بحث کی گئی۔ اس نشست میں حصہ لینے والی سیاسی قیادت نےتعلیم کےبنیادی اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کرنے کا عہد کیا جس میں درج ذیل نکات شامل ہیں۔


  • جی ڈی پی کے 4 فیصد کے ہدف کے حصول کیلئے وفاقی اور صوبائی تعلیمی بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا جائے گا جس کے ساتھ ساتھ مختص کئے جانے والے بجٹ کو موثر اور شفاف طریقے سے خرچ کرنے کیلئے گورننس میں خاطرخواہ اصلاحات کی جائیں گی۔



  • قومی سطح پر اعدادوشمار کے ایک ایسے نظام کا قیام کیا جائے گا جو تمام اقسام کے اسکولوں میں داخل تمام بچوں کے اعدادوشمار جمع کرے اور اصلاحات میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے یہ اعدادوشمار کی عوامی سطح پر شائع کئے جائیں گے۔



  • کارکردگی اور ٹریننگ کی بنیاد پراساتذہ کی ترقی اور ملازمت سے پہلے اور ملازمت کے درمیان ٹریننگ کو لازم قرار دیا جائے گا۔




  • جغرافیائی محلِ وقوع یا نظامِ تعلیم سے قطع نظر ہر پاکستانی بچے کا تیسری، پانچویں اور آٹھویں جماعت کی سطح پرکم سے کم قومی تعلیمی معیار پر ٹیسٹ لیا جائے گا۔



  • مدرسوں میں داخل بچوں سمیت 5 سے 16 سال کی عمر کےتمام بچوں کےتعلیم مکمل کئے بغیر اسکول (پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول) نہ چھوڑنے کو یقینی بنایا جائے گا اورپرائمری سے مڈل تک کی تعلیم مکمل کرنے والے بچوں میں صنفی مساوات کو یقینی بنایا جائے گا۔



  • صنفی مساوات، تکمیل کی شرح، پرائمری سے آگے کی تعلیم، معیارِ تعلیم اور انفرا سٹرکچرکی بنیاد پرتعلیم میں خراب کارکردگی دکھانے والی یونین کونسلز کو 'تعلیمی لحاظ سے پسماندہ علاقے' قرار دیا جائے گا۔



اس اصلاحاتی ایجنڈے کی تفصیلات چارٹر آف ایجوکیشن میں موجود ہیں جس پر کانفرنس میں موجود تمام سیاسی قائدین نے دستخط کئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس چارٹر کو اپنے اپنے انتخابی منشوروں میں مناسب جگہ دینے کاعزم کیا ہے۔ سیاسی قائدین نے آنے والے عام انتخابات کے بعد وزیرِ اعلٰی کے حلف اٹھانے کے 100 دن کے اندر چارٹر پر عمل درآمد کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔



اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک ِ انصاف کے رہنماء چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا ' پاکستان جیسے ملک میں جہاں دوکروڑ تیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، عام انتخابات کے بعد قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ تمام بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے اور تعلیم دینے کیلئے ہمیں واضح اہداف متعین کرنے ہوں گے'۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا تھا ' قانون سازی کے حوالے سےمفت اور لازمی تعلیم کے قوانین سے آگے جانا ہوگا اور معیارِ تعلیم، اساتذہ کی فراہمی اور بجٹ کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کرنی ہوگی'۔



خیبر پختونخواہ کے وزیرِ تعلیم محمد عاطف خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا 'تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اعلانِ عمل پر دستخط کرنا چاہیے تاکہ انتخابات کے بعد پاکستانی ووٹر ز ان کی جوابدہی کرسکیں'۔

پنجاب کے وزیرِ تعلیم برائے اسکول ایجوکیشن رانا مشہود کا کہنا تھا '2013 سے لے کر اب تک پچھلے پانچ سالوںمیں تما م حکومتوں نے تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور پنجاب نے معیارِ تعلیم کو اپنی اصلاحات میں سب سے زیادہ ترجیح دی ہے'۔
Load Next Story