سود کی شرح میں ڈیڑھ فیصد کمی اسٹیٹ بینک

سرمایہ کاری میں مسلسل چوتھے سال کمی تشویشناک ہے،معیشت کی آئندہ پیداواری استعداد مفلوج ہونے کا خدشہ ہے،گورنر یاسین انور

سرمایہ کاری میں مسلسل چوتھے سال کمی تشویشناک ہے، معیشت کی آئندہ پیداواری استعداد مفلوج ہونے کا خدشہ ہے، گورنر یاسین انور، آئندہ 2ماہ کیلیے مانیٹری پالیسی جاری۔ فوٹو فائل

اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود 12فیصد میں 150بیسس پوائنٹس کمی کرکے 10.5 فیصد کردی اور کہا ہے کہ بجلی کے بحران سے معیشت متاثر ہورہی ہے اورمہنگائی بڑھے گی، حکومت بینکوں سے قرضہ لیکر مسلسل اسٹیٹ بینک کے قوانین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔

گزشتہ مالی سال کا خسارہ1300ارب روپے سے بھی تجاوز کرگیا،زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو نہیں، ترکی سے ستمبر اور چین سے دسمبر میں مقامی کرنسیوں میں تجارت کا آغاز ہوگا، مسلسل چوتھے سال سرمایہ کاری میں کمی پریشان کن ہے،مانیٹری پالیسی کے اثرات دیگر عوام کی وجہ سے محدود ہورہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر یاسین انور نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا اور پالیسی ریٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ افراط زر کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اورمالی سال 13ء کے لیے 10.5 فیصد کی پیش گوئی کی گئی ہے اور نجی شعبے کے کاروباری اداروں کو قرضہ تیزی سے کم ہوا ہے، اس کی بنا پر حقیقی شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے زری پالیسی کا فیصلہ کرتے وقت نجی شعبے کے قرضے اورمعیشت میں سرمایہ کاری کی کیفیت کو نسبتاً زیادہ وزن دیا ہے کیونکہ مالی سال 13ء کی متوقع گرانی ہدف سے کچھ زیادہ رہے گی،حکومتی قرضے روکے گئے تو معیشت مزید غیرمستحکم ہوگی۔یاسین انور نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال 13ء کے لیے اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کے 10 سے 11 فیصد کی حدود میں رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو مالی سال 13ء کے اعلان کردہ ہدف 9.5 فیصد سے زیادہ ہے تاہم بہت حد تک اسٹیٹ بینک سے قرض گیری کے سلسلے میں مالیاتی ضبط، تخمین شدہ بیرونی رقوم کی آمد اور تنصیب شدہ گنجائش کا استعمال بڑھانے کے لیے توانائی کی قلت کی صورتحال میں بہتری پر انحصار ہوگا۔


انھوں نے کہا کہ مسلسل چوتھے سال نجی سرمایہ کاری میں 13 فیصد سکڑاؤ بطور خاص پریشان کن ہے، مجموعی سرمایہ کاری بطور فیصد جی ڈی پی مالی سال 12ء میں گر کر 12.5 فیصد ہوگئی ہے جو معیشت کی آئندہ پیداواری استعداد کو مفلوج کرسکتی ہے۔ گورنرنے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال 13ء کے لیے حقیقی جی ڈی پی کی نمو3 سے 4 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو سال کے ہدف اورملک کے معاشی امکانات سے کافی کم ہے،معاشی نمو کو بحال کرنے کے لیے ایک داخلی اصلاحی عمل پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے جس کے تحت بنیادی ڈھانچے، پیداواریت اور نظم و نسق کو بہتر بنایا جائے،نجی شعبے کی جانب سے قرضوں سے استفادہ سرمایہ کاری کا ایک اہم جزو ہے، نجی شعبے کے قرضے میں مطلوبہ توسیع اور سرکاری شعبے کی بینکاری نظام سے قرض لینے کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر امانتوں میں مسلسل اضافہ اور مجموعی مالی گہرائی میں بہتری لازمی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مالی سال 12ء میں جدولی بینکوں سے مالیاتی قرض گیری 50 فیصد بڑھ گئی،ان بھاری اور بعض اوقات غیرمتوقع قرضوں نے نہ صرف نجی شعبے کے لیے قرضے کی گنجائش ختم کردی بلکہ زری انتظام کے حوالے سے بھی دشواریاں پیدا کیں۔ گورنرنے کہا کہ مالی سال 13ء کے پہلے ماہ کے دوران 198 ارب روپے کی واپسی کے پیش نظر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مالیاتی حکام نے اسٹیٹ بینک سے قرض گیری گھٹانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

جولائی 2012ء میں دو ٹی بل نیلامیوں میں خاصی بلند قرض گیری کی وجہ سے یہ ممکن ہوا جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے سیالیت کا ادخال بھی 7 اگست 2012ء تک بڑھ کر 423 ارب روپے ہوگیا تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایس بی پی ایکٹ کی شقوں پر محتاط انداز میں مسلسل عملدرآمد کے لیے، جس میں جدولی بینکوں سے متجاوز قرض گیری کے حوالے سے معیشت پر منفی اثرات نہ ہوں، جامع مالیاتی اصلاحات کے ذریعے مالیاتی خسارے میں مسلسل کمی کی ضرورت ہوگی۔

یاسین انور نے کہا کہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی حالیہ وصولی سے مالی سال 13ء کے بجٹ کو کچھ سہارا ملے گا تاہم زری استحکام اور معاشی نمو کو پائیدار بنانے کی خاطر محاصل اور اخراجات کے درمیان ساختی اصلاحات کے ذریعے خلیج پُر کرنے کے لیے مربوط کوششیں ضروری ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ برآمدی وصولیوں میں مقدار کی وجہ سے 3.2 فیصد کی کمی اور درآمدی ادائیگیوں میں نرخوں کی وجہ سے 12.3 فیصد کے اضافے نے تجارتی خسارے کو مالی سال 12ء میں جی ڈی پی کے 6.7 فیصد یا 15.4 ارب ڈالر تک پہنچا دیا تاہم 13.2 ارب ڈالر کی بھرپور ترسیلات زر نے بیرونی جاری کھاتے کے خسارے کو 4.5 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے 2 فیصد تک محدود رکھا،یرونی جاری کھاتے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے خالص سرمایہ جاتی اور مالی بہاؤ کم کم رہے یعنی صرف 1.5 ارب ڈالر۔ زیادہ پریشان کن امر یہ تھا کہ خالص نجی سرمایہ کاری رقوم کی آمد، بیرونی براہ رست اور جزدانی سرمایہ کاریاں مالی سال 12ء میں کم ہوکر 59 کروڑ ڈالر رہ گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اصل میں رقوم کی آمد کے امکانات پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے تاکہ معیشت اگلے چند برسوں کے دوران قرضے کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر اکٹھے کرسکے،اہم معاشی اظہاریوں میں بہتری کے لیے توانائی اور مالیات کے شعبوں میں جامع اور معتبر اصلاحات کی ضرورت ہوگی، معاشی پالیسی سازی کے قانونی ڈھانچوں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ (1956ء) اور مالیاتی ذمے داری اور تحدید قرضہ ایکٹ (2005ء) کی پابندی کی بھی اہمیت ہے، معاشی اصلاح اور قوانین پر پابندی کی تحریک سے معیشت اس بہتر توازن کی جانب گامزن ہوسکتی ہے جس میں پست اور مستحکم گرانی کے ساتھ بلند اور پائیدار نمو ہو۔
Load Next Story