مولانا حسرت موہانی آزادی پسند رہنما
مولانا حسرت موہانی ایک بے مثل قلم کار بھی تھے۔
4 اکتوبر 1878 کو موہان ضلع اناؤ میں جنم لینے والے سید فضل الحسن تھے ، جنھوں نے بعد ازاں مولانا حسرت موہانی کے نام سے شہرت پائی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی پھر مزید تعلیم کے حصول کے لیے سرسید احمد کی قائم کردہ درسگاہ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ جہاں سے 1903 میں انھوں نے B.A کی ڈگری حاصل کی اور اسی برس اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے انھوں نے ایک ادبی رسالہ '' اردو معلی'' کی اشاعت کا آغازکیا۔ مولانا حسرت موہانی کو نوجوانی میں ہی شاعری سے لگاؤ تھا جب کہ وہ برصغیر کی آزادی کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لینے لگے تھے ۔
سیاست کے لیے انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیارکی ، البتہ جب انھوں نے نامور شعرائے کرام کے کلام کو یکجا کرنے کی سعی کی تو اس موقعے پر مولانا شبلی نعمانی نے ازراہ مذاق فرمایا ، تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بن گئے اور اب بنیے یعنی سوداگر بن گئے ہو جب کہ 1907 میں مولانا حسرت موہانی نے اردوئے معلی میں ایک مضمون شایع کیا جس کی اشاعت کے بعد اس وقت کے ہندوستان پر قابض برٹش سرکار نے 1908 میں ان پر بغاوت کا ایک مقدمہ قائم کردیا اوراسی باعث 23 جون 1908 کو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔
یہ نام نہاد مقدمہ کوئی چالیس روز تک چلا اور بالآخر 4 اگست 1908 کو مولانا حسرت موہانی کو 2 برس اسیری و پچاس روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی جب ان کو گرفتار کیا گیا تو ان کی اکلوتی اولاد بیٹی نعیمہ سخت علیل تھیں اور ان کے گھر پر ان کی اہلیہ و خادمہ کے علاوہ کوئی نہ تھا جیل میں اسیری کے آغاز میں جو چیزیں جیل حکام کی جانب سے انھیں دی گئیں وہ تھیں ایک لنگوٹ، ایک جانگیا، ایک کرتا، ایک ٹوپی، ایک ٹکڑا ٹاٹ، ایک کمبل، ایک لوٹا، ایک بالٹی۔ ان چیزوں کے علاوہ انھیں کوئی اور چیز اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہ تھی۔
ان حالات میں ان کی اہلیہ نشاط النسا کی جانب سے انھیں ایک خط موصول ہوا جس میں تحریر تھا کہ میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا، خبردار تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔ تم پر جو افتاد پڑی ہے اسے مردانہ وار برداشت کرنا۔ بعدازاں اپیل کی صورت میں ان کی سزا میں تخفیف کرکے ایک برس کردی گئی۔ جرمانے کی کثیر رقم ان کے بھائی نے ادا کی چنانچہ دوران اسیری انھوں نے یہ شعر کہا جوکہ کافی زیادہ مشہور ہوا۔ وہ شعر تھا:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
البتہ جون 1908 میں انھیں ایک برس بعد رہائی نصیب ہوئی ، وہ ایک سیاسی قیدی و ایک شاعر و قلم کار تھے پھر بھی اسیری کے دوران انھیں یومیہ ایک من گندم پیسنے کی سزا پر عمل درآمد کرنا پڑتا ۔ یہ سزا اس وقت تک جاری رہی جب تک ایک برس کی اسیری کی مدت پوری نہ ہوگئی۔ مولانا حسرت موہانی کی جیل یاترا کا سلسلہ برصغیر کی آزادی و قیام پاکستان تک جاری رہا وہ ترقی پسند تحریک سے بھی تادم آخر وابستہ رہے اور جب 1925 میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس وقت جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا پہلا اجلاس ہو رہا تھا تو وہ بھی اس اجلاس کی تیاریوں میں پیش پیش رہے اور استقبالیہ کمیٹی کے ممبران میں بھی شریک تھے۔ اسی ضمن میں ان کا ایک شعر زبان خاص و عام میں بہت مقبول ہوا وہ شعر ہے:
لازم ہے ہند میں آئین سوویت
دو چار برس میں ہو کہ دس بیس برس میں
مولانا حسرت موہانی ایک بے مثل قلم کار بھی تھے چنانچہ 1909 میں جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو احباب کے بے حد اصرار پر انھوں نے جیل میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات کو قسط وار اپنے رسالے' اردو معلی' میں شایع کیا اور یہ سلسلہ 13 اقساط پر مشتمل تھا اور جنوری 1910 تک چھپتا رہا۔ ان کے یہ مضامین حسرت قید فرنگ میں کے نام سے کتابی شکل میں بھی 1918 میں چھاپے گئے۔
بحیثیت ایک ترقی پسند قلم کار ایک شاعر مزاحمتی ادب تخلیق کرنے وایک آزادی پسند سیاست دان مولانا حسرت موہانی13 مئی 1951 کو اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے گوکہ ان کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری مگر انھوں نے تمام تر مصائب کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا۔ انھوں نے 1903 سے برصغیر کی آزادی 1947 تک 44 برس تک سامراج برٹش سرکارکے خلاف جدوجہد کی اور تقسیم کے بعد بھی بھارت میں قیام کرنا مناسب جانا اور آزادی کے بعد بھی کوئی 3 برس 9 ماہ تک حیات رہے مگر تمام تر جدوجہد کے عوض کوئی صلہ طلب نہ کیا تمام عمر ترقی پسند نظریات پر قائم رہنے والے مولانا حسرت موہانی کے عشق رسول عربیؐ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کا نام گرامی جب ان کی سماعتوں سے ٹکراتا تو وہ محبت و عقیدت سے سرشار ہوکر آبدیدہ ہوجاتے۔
وفات کے وقت ان کی عمر عزیز 72 برس 7 ماہ 9 یوم تھی گوکہ اس برس یعنی 2018 کی 13 مئی کو ان کی 67 ویں برسی منائی جا رہی ہے مگر یہ حقیقت بھی ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ مولانا حسرت موہانی بھی بلاشبہ ناقدری کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ جب بھی کسی آزادی پسند کا نام سامنے آتا ہے تو دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس حریت پسند کا مذہب کیا تھا؟ اس کے سیاسی نظریات کیا تھے؟ بہرکیف ہم مولانا حسرت موہانی کو ان کی 67 برسی کے موقعے پر پوری عقیدت کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
سیاست کے لیے انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیارکی ، البتہ جب انھوں نے نامور شعرائے کرام کے کلام کو یکجا کرنے کی سعی کی تو اس موقعے پر مولانا شبلی نعمانی نے ازراہ مذاق فرمایا ، تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بن گئے اور اب بنیے یعنی سوداگر بن گئے ہو جب کہ 1907 میں مولانا حسرت موہانی نے اردوئے معلی میں ایک مضمون شایع کیا جس کی اشاعت کے بعد اس وقت کے ہندوستان پر قابض برٹش سرکار نے 1908 میں ان پر بغاوت کا ایک مقدمہ قائم کردیا اوراسی باعث 23 جون 1908 کو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔
یہ نام نہاد مقدمہ کوئی چالیس روز تک چلا اور بالآخر 4 اگست 1908 کو مولانا حسرت موہانی کو 2 برس اسیری و پچاس روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی جب ان کو گرفتار کیا گیا تو ان کی اکلوتی اولاد بیٹی نعیمہ سخت علیل تھیں اور ان کے گھر پر ان کی اہلیہ و خادمہ کے علاوہ کوئی نہ تھا جیل میں اسیری کے آغاز میں جو چیزیں جیل حکام کی جانب سے انھیں دی گئیں وہ تھیں ایک لنگوٹ، ایک جانگیا، ایک کرتا، ایک ٹوپی، ایک ٹکڑا ٹاٹ، ایک کمبل، ایک لوٹا، ایک بالٹی۔ ان چیزوں کے علاوہ انھیں کوئی اور چیز اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہ تھی۔
ان حالات میں ان کی اہلیہ نشاط النسا کی جانب سے انھیں ایک خط موصول ہوا جس میں تحریر تھا کہ میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا، خبردار تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔ تم پر جو افتاد پڑی ہے اسے مردانہ وار برداشت کرنا۔ بعدازاں اپیل کی صورت میں ان کی سزا میں تخفیف کرکے ایک برس کردی گئی۔ جرمانے کی کثیر رقم ان کے بھائی نے ادا کی چنانچہ دوران اسیری انھوں نے یہ شعر کہا جوکہ کافی زیادہ مشہور ہوا۔ وہ شعر تھا:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
البتہ جون 1908 میں انھیں ایک برس بعد رہائی نصیب ہوئی ، وہ ایک سیاسی قیدی و ایک شاعر و قلم کار تھے پھر بھی اسیری کے دوران انھیں یومیہ ایک من گندم پیسنے کی سزا پر عمل درآمد کرنا پڑتا ۔ یہ سزا اس وقت تک جاری رہی جب تک ایک برس کی اسیری کی مدت پوری نہ ہوگئی۔ مولانا حسرت موہانی کی جیل یاترا کا سلسلہ برصغیر کی آزادی و قیام پاکستان تک جاری رہا وہ ترقی پسند تحریک سے بھی تادم آخر وابستہ رہے اور جب 1925 میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس وقت جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا پہلا اجلاس ہو رہا تھا تو وہ بھی اس اجلاس کی تیاریوں میں پیش پیش رہے اور استقبالیہ کمیٹی کے ممبران میں بھی شریک تھے۔ اسی ضمن میں ان کا ایک شعر زبان خاص و عام میں بہت مقبول ہوا وہ شعر ہے:
لازم ہے ہند میں آئین سوویت
دو چار برس میں ہو کہ دس بیس برس میں
مولانا حسرت موہانی ایک بے مثل قلم کار بھی تھے چنانچہ 1909 میں جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو احباب کے بے حد اصرار پر انھوں نے جیل میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات کو قسط وار اپنے رسالے' اردو معلی' میں شایع کیا اور یہ سلسلہ 13 اقساط پر مشتمل تھا اور جنوری 1910 تک چھپتا رہا۔ ان کے یہ مضامین حسرت قید فرنگ میں کے نام سے کتابی شکل میں بھی 1918 میں چھاپے گئے۔
بحیثیت ایک ترقی پسند قلم کار ایک شاعر مزاحمتی ادب تخلیق کرنے وایک آزادی پسند سیاست دان مولانا حسرت موہانی13 مئی 1951 کو اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے گوکہ ان کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری مگر انھوں نے تمام تر مصائب کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا۔ انھوں نے 1903 سے برصغیر کی آزادی 1947 تک 44 برس تک سامراج برٹش سرکارکے خلاف جدوجہد کی اور تقسیم کے بعد بھی بھارت میں قیام کرنا مناسب جانا اور آزادی کے بعد بھی کوئی 3 برس 9 ماہ تک حیات رہے مگر تمام تر جدوجہد کے عوض کوئی صلہ طلب نہ کیا تمام عمر ترقی پسند نظریات پر قائم رہنے والے مولانا حسرت موہانی کے عشق رسول عربیؐ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کا نام گرامی جب ان کی سماعتوں سے ٹکراتا تو وہ محبت و عقیدت سے سرشار ہوکر آبدیدہ ہوجاتے۔
وفات کے وقت ان کی عمر عزیز 72 برس 7 ماہ 9 یوم تھی گوکہ اس برس یعنی 2018 کی 13 مئی کو ان کی 67 ویں برسی منائی جا رہی ہے مگر یہ حقیقت بھی ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ مولانا حسرت موہانی بھی بلاشبہ ناقدری کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ جب بھی کسی آزادی پسند کا نام سامنے آتا ہے تو دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس حریت پسند کا مذہب کیا تھا؟ اس کے سیاسی نظریات کیا تھے؟ بہرکیف ہم مولانا حسرت موہانی کو ان کی 67 برسی کے موقعے پر پوری عقیدت کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔