کسٹمز میں شفاف احتساب کا فقدان اسمگلنگ میں اضافہ
کلیئرنس میں بلاجواز تاخیر سے اسپیڈ منی اداکرنے پرمجبور،شکایت پرافسران ہراساں کرتے ہیں
CARDIFF:
پاکستان کسٹمز میں ایگزامنیشن کلیئرنس کے ذمے دار پرنسپل اپریزر، اپریزر سمیت نچلے درجے کے دیگر افسران کیلیے احتساب کا شفاف نظام نہ ہونے کے سبب قانونی درآمدکنندگان اضطراب سے دوچار جبکہ مس ڈیکلریشن انڈرانوائسنگ اور اسمگلنگ میں ملوث عناصر پروان چڑھ رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ نچلے درجے کے کسٹمز افسران نے ہر کلکٹریٹ میں مبینہ طور پر اسپیڈمنی پول بنایا ہوا ہے اور کچھ افسران نے اسپیڈمنی لینے کیلیے ایجنٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو محکمہ کسٹمز کے اگرچہ ملازم نہیں ہیں لیکن تمام کسٹمز امور سے واقف ہوتے ہیں اورنچلے درجے کے افسران کی ہدایات کے مطابق معاونت کرتے ہیں جنہیں یہی افسران وصول شدہ اسپیڈ منی سے یومیہ اور ماہانہ اجرتیں بھی دیتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان کسٹمز افسران کی منفی اور غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے کسٹمز کی سطح پر قانونی درآمدات بتدریج محدود اور غیرقانونی درآمدات تیز ی سے فروغ پارہی ہیں۔
وی بوک درآمدکنندہ اور متعلقہ کسٹم افسر کے ساتھ رابطہ کیے بغیر کنسائمنٹس کی کلیئرنس کیلیے متعارف کیا گیا تھا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے متعلقہ کسٹمز افسر کی جب خواہش ہو وہ کسی بھی بہانے امپورٹر کو طلب کرتا ہے اور اس سے مبینہ طور پر اسپیڈمنی کا تقاضا کرتا ہے، اگر تقاضے کے مطابق اسپیڈمنی فراہم کی گئی تو مختلف نوعیت اعتراضات اور غیرضروری طورپر دستاویزات طلب کرکے کلِیئرنس میں بلاجواز تاخیرکی جاتی ہے جس سے ڈیمریج وڈیٹینشن چارجزکی مد میں اضافی بوجھ درآمدکنندہ کو برداشت کرناپڑتا ہے اور بسا اوقات درآمدکنندہ تقاضے کے مطابق اسپیڈمنی دینے پرمجبور ہوجاتاہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملتان کے ایک متاثرہ درآمدکنندہ نے اس سلسلے میں متعلقہ کلکٹر کسٹمز کوباقاعدہ ایک تحریری شکایت کی لیکن متعلقہ پرنسپل اپریزر کو جب اس شکایتی خط کا علم ہوا تو اس نے امپورٹر کسٹمز ہائوس طلب کرکے نہ صرف ہراساں کیا بلکہ اسے ایک کمرے میں قید کرکے اپنی مرضی کے تحریر کردہ کچھ دستاویزات پر بھی جبری طورپر دستخط کروائے حالانکہ قانون کے مطابق کسٹم افسر کودستاویزات کی طلبی یا دستاویزات پر دستخطوں کے لیے امپورٹر کو باقاعدہ خط ارسال کرنا پڑتا ہے اورامپورٹر کو بھی اس کا جواب تحریری طور پر دینا پڑتا ہے۔
قانونی درآمد کنندگان کا کہنا ہے کسٹمز کے وی بوک سسٹم کے باوجود کسٹمز افسران کی امپورٹرز کے ساتھ مستقل رابطوں اور نچلے درجے کے افسران کے منفی رویوں کی وجہ سے پاکستان میں کاروباری لاگت گھٹنے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ منظم گروہ کسٹم افسران کی ملی بھگت سے غیرقانونی سرگرمیوں کومنظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ قانونی درآمدکنندگان مستقل ہراساں اور مشکلات سے دوچار ہیں۔
قانونی درآمدکنندگان نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کسٹمز کی سطح پرایسا شفاف احتساب کانظام متعارف کرائیں کہ جس طرح درآمدکنندگان کو ان کی کسی غلطی یا بے قاعدگی پر سزا سنائی جاتی ہے بصورت دیگر ملک میں قانونی تجارت محدود سے محدود تر اور غیرقانونی تجارت واسمگلنگ کو مزیدتقویت ملے گی۔
پاکستان کسٹمز میں ایگزامنیشن کلیئرنس کے ذمے دار پرنسپل اپریزر، اپریزر سمیت نچلے درجے کے دیگر افسران کیلیے احتساب کا شفاف نظام نہ ہونے کے سبب قانونی درآمدکنندگان اضطراب سے دوچار جبکہ مس ڈیکلریشن انڈرانوائسنگ اور اسمگلنگ میں ملوث عناصر پروان چڑھ رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ نچلے درجے کے کسٹمز افسران نے ہر کلکٹریٹ میں مبینہ طور پر اسپیڈمنی پول بنایا ہوا ہے اور کچھ افسران نے اسپیڈمنی لینے کیلیے ایجنٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو محکمہ کسٹمز کے اگرچہ ملازم نہیں ہیں لیکن تمام کسٹمز امور سے واقف ہوتے ہیں اورنچلے درجے کے افسران کی ہدایات کے مطابق معاونت کرتے ہیں جنہیں یہی افسران وصول شدہ اسپیڈ منی سے یومیہ اور ماہانہ اجرتیں بھی دیتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان کسٹمز افسران کی منفی اور غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے کسٹمز کی سطح پر قانونی درآمدات بتدریج محدود اور غیرقانونی درآمدات تیز ی سے فروغ پارہی ہیں۔
وی بوک درآمدکنندہ اور متعلقہ کسٹم افسر کے ساتھ رابطہ کیے بغیر کنسائمنٹس کی کلیئرنس کیلیے متعارف کیا گیا تھا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے متعلقہ کسٹمز افسر کی جب خواہش ہو وہ کسی بھی بہانے امپورٹر کو طلب کرتا ہے اور اس سے مبینہ طور پر اسپیڈمنی کا تقاضا کرتا ہے، اگر تقاضے کے مطابق اسپیڈمنی فراہم کی گئی تو مختلف نوعیت اعتراضات اور غیرضروری طورپر دستاویزات طلب کرکے کلِیئرنس میں بلاجواز تاخیرکی جاتی ہے جس سے ڈیمریج وڈیٹینشن چارجزکی مد میں اضافی بوجھ درآمدکنندہ کو برداشت کرناپڑتا ہے اور بسا اوقات درآمدکنندہ تقاضے کے مطابق اسپیڈمنی دینے پرمجبور ہوجاتاہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملتان کے ایک متاثرہ درآمدکنندہ نے اس سلسلے میں متعلقہ کلکٹر کسٹمز کوباقاعدہ ایک تحریری شکایت کی لیکن متعلقہ پرنسپل اپریزر کو جب اس شکایتی خط کا علم ہوا تو اس نے امپورٹر کسٹمز ہائوس طلب کرکے نہ صرف ہراساں کیا بلکہ اسے ایک کمرے میں قید کرکے اپنی مرضی کے تحریر کردہ کچھ دستاویزات پر بھی جبری طورپر دستخط کروائے حالانکہ قانون کے مطابق کسٹم افسر کودستاویزات کی طلبی یا دستاویزات پر دستخطوں کے لیے امپورٹر کو باقاعدہ خط ارسال کرنا پڑتا ہے اورامپورٹر کو بھی اس کا جواب تحریری طور پر دینا پڑتا ہے۔
قانونی درآمد کنندگان کا کہنا ہے کسٹمز کے وی بوک سسٹم کے باوجود کسٹمز افسران کی امپورٹرز کے ساتھ مستقل رابطوں اور نچلے درجے کے افسران کے منفی رویوں کی وجہ سے پاکستان میں کاروباری لاگت گھٹنے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ منظم گروہ کسٹم افسران کی ملی بھگت سے غیرقانونی سرگرمیوں کومنظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ قانونی درآمدکنندگان مستقل ہراساں اور مشکلات سے دوچار ہیں۔
قانونی درآمدکنندگان نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کسٹمز کی سطح پرایسا شفاف احتساب کانظام متعارف کرائیں کہ جس طرح درآمدکنندگان کو ان کی کسی غلطی یا بے قاعدگی پر سزا سنائی جاتی ہے بصورت دیگر ملک میں قانونی تجارت محدود سے محدود تر اور غیرقانونی تجارت واسمگلنگ کو مزیدتقویت ملے گی۔