ججز نظربندی کیس پرویزمشرف جوڈیشل ریمانڈ پر اپنے ہی فارم ہاؤس میں قید
مشرف کی ملاقاتوں،نقل وحرکت پر پابندی ہوگی اورکوئی بھی شخص کمشنر اسلام آبادکی ہدایات کےبغیر ان سے ملاقات نہیں کرسکے گا
ISLAMABAD:
چک شہزاد میں سابق صدر کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دیئے جانے کے بعد پولیس لائن سے ان کی رہائش گاہ میں منتقل کردیا گیا ہے۔
سابق صدر کو سخت سیکیورٹی میں چک شہزاد پہنچایا گیا جبکہ اس سے قبل پولیس اور جیل انتظامیہ کی بھاری نفری ان کے فارم ہاؤس میں تعینات کردی گئی ہے۔ اب وہاں جیل قوائد نافذ ہوں گے،قیدکے دوران پرویزمشرف کی ملاقاتوں اور نقل وحرکت پر پابندی ہوگی اس کے علاوہ کوئی بھی شخص کمشنر اسلام آباد کی تحریری ہدایات کے بغیر پرویز مشرف سے ملاقات نہیں کرسکے گا۔
سابق صدر کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے حکم پر جوڈیشنل ریمانڈ پر بھیجا گیا ہے، عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ عدالت میں پیش کئے گئے ریکارڈ کے مطابق پولیس نے ملزم سے تفتیش کر لی ہے، تفتیشی افسر نے ملزم کا بیان بھی ریکارڈ کر لیاہے، تفتیشی افسر کے مطابق ملزم سے مزید تفتیش کی ضرورت نہیں اس لئے سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا جائے اور 4 مئی کو ملزم کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے پولیس کی جانب سے سابق صدر کی رہائش گاہ کو جیل قرار دینے کی درخواست بھی کمشنر اسلام آباد کو بھجوا دی تھی جسے ضلعی انتظامیہ نے منظور کرتے ہوئے ان کے فارم ہاؤس کو ہی سب جیل قرار دے دیا تھا۔
اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کو جسٹس کوثر عباس زیدی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا،پیشی کے موقع پر پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ملزم سے تمام تفتیش مکمل کرلی گئی ہے اس لئے پولیس کو مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں اس لئے سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا جائے اور ان کی رہائش گاہ ہی جیل قرار دے دی جائے ۔
عدالت میں کیس کے درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرکے پورے ملک کو خوف میں مبتلا کردیا اور اس اقدام میں ملزم اکیلا ملوث نہیں۔ اس لئے پولیس ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر لے کر اس سے پوچھ گچھ کرے کہ اس کے ساتھ دیگر کون افراد ملوث تھے۔ درخواست گزار کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ججوں کو حبس بے جاء میں رکھنے، آئین کو توڑنے اور غیر قانونی کام کرنے پر پرویزمشرف پر انسداددہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 6 لاگوہوتی ہے ان کے تمام اقدامات پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے۔ مدعی کے وکیل نے ملزم کو بغیر ہتھکڑی عدالت میں پیش کرنے پر بھی اعتراض کیا۔ سابق صدر کے وکیل قمر افضل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا ہے اور انہوں نے اپنا بیان بھی قلمبند کروا دیا ہے۔
عدالت نے فریقین کے وکلاء کی جانب سے دیئے گئے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے پرویزمشرف کوعدالت سے لے جانے کی اجازت دے دی، کچھ دیر کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویزمشرف کو 4 مئی تک جوڈیشل ریمانڈپر بھیج دیا گیا۔
چک شہزاد میں سابق صدر کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دیئے جانے کے بعد پولیس لائن سے ان کی رہائش گاہ میں منتقل کردیا گیا ہے۔
سابق صدر کو سخت سیکیورٹی میں چک شہزاد پہنچایا گیا جبکہ اس سے قبل پولیس اور جیل انتظامیہ کی بھاری نفری ان کے فارم ہاؤس میں تعینات کردی گئی ہے۔ اب وہاں جیل قوائد نافذ ہوں گے،قیدکے دوران پرویزمشرف کی ملاقاتوں اور نقل وحرکت پر پابندی ہوگی اس کے علاوہ کوئی بھی شخص کمشنر اسلام آباد کی تحریری ہدایات کے بغیر پرویز مشرف سے ملاقات نہیں کرسکے گا۔
سابق صدر کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے حکم پر جوڈیشنل ریمانڈ پر بھیجا گیا ہے، عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ عدالت میں پیش کئے گئے ریکارڈ کے مطابق پولیس نے ملزم سے تفتیش کر لی ہے، تفتیشی افسر نے ملزم کا بیان بھی ریکارڈ کر لیاہے، تفتیشی افسر کے مطابق ملزم سے مزید تفتیش کی ضرورت نہیں اس لئے سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا جائے اور 4 مئی کو ملزم کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے پولیس کی جانب سے سابق صدر کی رہائش گاہ کو جیل قرار دینے کی درخواست بھی کمشنر اسلام آباد کو بھجوا دی تھی جسے ضلعی انتظامیہ نے منظور کرتے ہوئے ان کے فارم ہاؤس کو ہی سب جیل قرار دے دیا تھا۔
اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کو جسٹس کوثر عباس زیدی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا،پیشی کے موقع پر پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ملزم سے تمام تفتیش مکمل کرلی گئی ہے اس لئے پولیس کو مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں اس لئے سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا جائے اور ان کی رہائش گاہ ہی جیل قرار دے دی جائے ۔
عدالت میں کیس کے درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرکے پورے ملک کو خوف میں مبتلا کردیا اور اس اقدام میں ملزم اکیلا ملوث نہیں۔ اس لئے پولیس ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر لے کر اس سے پوچھ گچھ کرے کہ اس کے ساتھ دیگر کون افراد ملوث تھے۔ درخواست گزار کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ججوں کو حبس بے جاء میں رکھنے، آئین کو توڑنے اور غیر قانونی کام کرنے پر پرویزمشرف پر انسداددہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 6 لاگوہوتی ہے ان کے تمام اقدامات پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے۔ مدعی کے وکیل نے ملزم کو بغیر ہتھکڑی عدالت میں پیش کرنے پر بھی اعتراض کیا۔ سابق صدر کے وکیل قمر افضل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا ہے اور انہوں نے اپنا بیان بھی قلمبند کروا دیا ہے۔
عدالت نے فریقین کے وکلاء کی جانب سے دیئے گئے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے پرویزمشرف کوعدالت سے لے جانے کی اجازت دے دی، کچھ دیر کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویزمشرف کو 4 مئی تک جوڈیشل ریمانڈپر بھیج دیا گیا۔