مُہرے خلائی مخلوق اور غداری کے سرٹیفکیٹ آخری قسط
دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی اور جاپان جتنے عرصے میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے تھے
PESHAWAR:
ملک کے قابل ترین جج صا حبا ن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھتے ہیں'' آخر میں ہم نے رائے ظاہر کی تھی کہ اگر کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل یحییٰ بہتر عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسٹرن کمانڈر کو ہدایت جاری کر دیتے کہ وہ16دسمبر کے بعد بھی مقابلہ جاری رکھیں تو بہت ممکن ہے کہ سیکیورٹی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کے لیے کوئی قابلِ اطمینان فیصلہ آجاتا۔اور ہندوستان ان کی وساطت سے اِس نیابتی(Proxy)جنگ کو غیر معینہ طوالت نہیں دے سکتاتھا۔
''اصولی طور پر تو یہ عمل اسی وقت شروع ہوجاناچاہیے تھا جب ہندوستان نے 21نومبر 1971کو پاکستانی سرحد کو عبور کر کے جارحیت کا ارتکاب کیا ۔اگر دشمن ہمارے مورچوں کے عقب میں پیراشوٹ فوجیں اتارے تو اُن سے کیسے نبٹاجائے ۔کھلی جنگ کے چوتھے دن بڑی بڑی قلعہ بندیا ں بغیر مقابلے کے چھوڑدی گئیں ۔مثلاًمغرب میں جیسور اور جھینی وا۔اور مشرق میں برہمن باڑیہ۔اگلے دن کومیلاکی قلعہ بندی چاروں طرف سے محاصرے میں آگئی۔حتیٰ کہ 9دسمبر کو ایک ڈویژنل کمانڈر اپنے فوجیوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر اپنی ذمّے داری کے علاقے سے فرار ہوگیا''
''ڈھاکا میں 26,400 باوردی فوجی موجود تھے۔اور اگر وہ چاہتے توکم ازکم دوہفتوں تک مزید مقابلہ کر سکتے تھے۔کیونکہ دشمن کو ڈھاکا میں اپنی فوجیں اکٹھی کر نے میں کم ازکم ایک ہفتہ لگ جاتا۔اور وہاں کی قلعہ بندیوں کو تسخیر کرنے میں مزید ایک ہفتہ درکار ہوتا۔اگرجنرل نیازی ایسی ہمّت کرنے میں اپنی جان بھی کھو دیتے تو بہادری کی تاریخ رقم کرتے۔جنرل نیازی کی عسکر ی ناکامیوں سے بھی زیادہ شرمناک ان کا وہ طرز ِعمل تھا جب وہ بڑے ادنیٰ انداز میں ہرذلّت پر راضی ہوتے گئے۔مثلاًہندوستان اورمکتی باہنی کی مشترکہ کمان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرنا۔وہ ہندوستانی فاتح جرنیل اروڑہ کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر خود موجود تھے۔
اپنے اے ڈی سی (ADC)کو حکم دیاکہ ہندوستانی جرنیل کو گارڈ آف آنر پیش کی جائے۔ جنرل نیازی نے ریس کورس گراؤنڈ میں عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی رسم میں شریک ہوکر ملک اور پاکستانی فوج کی عزت ہمیشہ کے لیے خاک میں ملادی ۔اگر انھیں سپر اندازی پر مجبور کیا گیاتھا، تو بھی ان کے لیے ہرگز مناسب نہ تھاکہ سپر اندازی کے ہرمرحلے میں اتنے شرمناک طرز ِ عمل کا مظاہرہ کرتے رہتے۔جولوگ ان واقعات کے عینی شاہد تھے ان کی مفصّل گواہی سننے کے بعد کمیشن کو یقین ہے کہ جنگ کے آخری دنوں میں جنرل نیازی اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے تھے''
''مشرقی پاکستان میں حالات کی رفتار اور جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل افسران کی ناقص کارکردگی اور صلاحیتّوں کے فقدان سے بہت مایوس ہوئے ہیں۔ بریگیڈیئرایس انصاری،23برگیڈ کے سابقہ کمانڈر، بریگیڈیئر منظور احمد 57بریگیڈ اور ڈویژن میں9 ڈویژن کے سابقہ کمانڈر اور بریگیڈ یئر عبدالقادر خان 36(وقتی) ڈویژن میں 94بریگیڈکے سابقہ کمانڈر۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی ملازمت کو برقرار رکھناعوامی مفاد میں نہیں ہے۔اس لیے انھیں ریٹائر کردیاجائے ۔''
''بنیادی اور ضمنی رپورٹوں کے پانچویں حصے کے پہلے باب میں 1971کی تباہ کن شکست کے اخلاقی پہلوؤں پر تفصیلی بحث کے بعد ہم نے اس رائے کا ظہار کیاہے کہ عوام کی انگشت نمائی،بلکہ ایسے الزامات کے عوامی یقین، میں ہمیں بھی کافی وزن لگتاہے کہ مارشل لاء کے فرائض کے دوران بہت سے سینئر فوجی افسران (بالخصوص چوٹی کے افسران) کرپشن ،شراب وشباب کی ہوس اور زر،زن ، زمین کے لالچ کا شکار ہوگئے۔جسکی وجہ سے نہ صرف ان کا جنگی رجحان (Will to fight) ختم ہوگیا۔بلکہ پیشہ ورانہ صلاحیتّں بھی کند ہوگئیں۔اور وہ اس قابل نہ رہے کہ کسی جنگ کے لڑنے میں اہم اور نازک فیصلے کر سکتے۔اس لیے ہم سفارش کرتے ہیں کہ
(i)حکومت تمام افواج کے افسران کے لیے لازمی قرار دے کہ وہ ایسے تمام منقولہ یاغیرمنقولہ اثاثوں کی فہرست داخل کریں۔جوان کے عزیزوں یا ان پر انحصار کرنے والوںDependants)) یاخودان کے نام پر گزشتہ دس برس میں بنائے گئے۔(مارشل لاء کی پچھلی دو حکومتوں نے انھیں اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیاتھا)۔ان اثاثوں کی چھان بین میں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی افسر نے اپنے وسائل سے زیادہ اثاثے اکٹھے کر لیے ہیں۔تو اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے۔
(ii)تینوں افواج مندرجہ ذیل مقاصدکے حصول کا مؤثر طریقِ کار وضع کریں۔
(ا) اَفسروں (بالخصوص اعلیٰ افسران )کے مذموم طرزِعمل سے اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
(ب)محکمانہ ترقیوں میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی کردارکو بھی مدِنظررکھاجائے۔
(ج)فوج کے تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین بھی شامل کیے جائیں ۔جس سے نوجوان ذہنوں میں مذہب، جمہوریت اور سیاسی
اداروںکے احترام میں اضافہ ہو۔
(د)فوجی طعام گاہوں (Army Messes)اور تقاریب میں شراب نوشی بند کردی جائے۔
(ر)جنسی بے راہ روی اور دیگر فاسد اعما ل پر کڑی گرفت ہونی چاہیے۔''
رپورٹ میں پاک بحریہ کو بہتراور جدید تر بنانے اور پاک فضائیہ کا کردار بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیاہے۔
رپورٹ کے چند مندرجات لکھنے کے بعد مسعود مفتی لکھتے ہیں ' '1971 کے ڈھاکا میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی شکست اور حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پرانے جمود کی علامت بن گئی ہے۔یہ رپورٹ کئی سیاسی اور فوجی حاکموں کے پاس امانت رہی ۔مگر ان ''امین ''لیڈروں نے ساری قوم کو بڑی مہارت اور منافقت سے ان لاحاصل قیاس آرائیوں میں الجھائے رکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کا
ذمّے دار کون تھا؟حالانکہ اس کا جواب ایک الماری یا چند دروازے کھولنے سے مل سکتاتھا۔جہا ں قوم کی یہ امانت خود انھوں نے ہی چھپائی ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے آخری دن (جس صدی میں علامہ اقبال ؒ نے صدیوں پر انے جمود کے خلاف صدابلند کی تھی)کمیشن کی یہ سفارشات پاکستان میں جزوی طورپر غیر مخفی کی گئی تھیں ۔مگر اب یہ سنگِ میل گزرے ہو ئے بھی کئی برس گزرگئے ہیں اور یہ جمود جاری ہے۔
کیونکہ خواص یہی چاہتے ہیں کہ عوام اس سانحے کو بھول جائیں ۔اور بھولے رہیں ۔شاید 1971 جتناہی بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے عوام کا جمود زدہ درباری کلچر بڑے رضاکارانہ انداز میں خود فراموشی اور خود فریبی کے اس ڈرامے میں خواص کا شریک رہااوراس سانحے پرہر کوئی کچھ کہنے، سننے، بولنے اور لکھنے سے گریز ہی کرتارہا۔اس دوران جرم کرنے والے عناصر پھولتے پھلتے رہے ۔اورباقی ماندہ پاکستان پر ان کی گرفت اس حد تک مضبوط ہو گئی ہے کہ اس کے تمام اداروں کی بلاروک ٹوک توڑ پھوڑ سے اپنی دانست میں اپنے اقتدار کو دوام دے سکتے ہیں۔ اس زعم میں اب ان کی اگلی نسل بھی فتح کا یہی میلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔۔''
'' دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی اور جاپان جتنے عرصے میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے تھے۔ اس سے کہیں زیادہ عرصے تک ہمارے خواص اپنی ساری قوت اس جمود کا ڈھکن دبانے میں مصروف کرتے رہے، اور حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر عملی کارروائی بھی اسی کے نیچے دبی رہی۔یہ صورتِ حال اس وقت تک جاری رہے گی۔جب تک عوام اپنے آپ کو خواص کی غلامی سے آزاد کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے۔
دریں اثناء منافق مُہرے استعمال ہوتے رہیں گے پرخلوص پاکستانی چہرے دیکھتے رہیں گے اور اس مملکتِ خداداد پر مخفی ہاتھ حسبِ سابق اپنی خدائی کرتے رہیں گے ۔یہ منظر نامہ جاری رہے گا۔جب تک ہماری قوم ایسے ہاتھوں اور ایسے مُہروں کی اندھی اطاعت ترک کر کے اپنی قسمت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں نہیں لے لیتی''۔ دیکھتے ہیں یہ قوم اپنی قسمت کی باگ ڈور 2018میں ہی اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے یا اس کے لیے کچھ اور انتظار کر نا ہوگا۔
جب بھی چند جرنیلوں کی ہوس اِقتدار جاگتی ہے تو وہ سیاست میں دخل دینے لگتے ہیں، جو فوج اور ملک دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والے رہنماہر محفل اور ہر جلسے میں خلائی مخلوق کا ذکر کرکے فوج کی سیاست میں دخل انداز ی کی نشاندہی کررہے ہیں موجودہ وزیر اعظم نے بھی مخفی چہروں کی سیاست میں دخل اندازی کی تصدیق کی ہے۔ عمران خان صاحب اور جناب محمود خان اچکزئی صاحب نے بھی صاف الفاظ میں فوج کی سیاست بازی کا ذکر کیا ہے اور کچھ فوجی افسروں کے نام بھی لیے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اتنے ذمے دار افراداگر بات کررہے ہیں تو یہ بے بنیاد تو نہیں ہوگی ۔سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ فوج جب بھی سیاست میں حصہ لیتی ہے ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ذمّے دار سیاستدانوں کے بیان سن کراور باخبر صحافیوں کی تحریریں پڑھکر دل گہری تشویش میں ڈوب جاتا ہے۔ کیا اب بھی کچھ جرنیل اس خوفناک کھیل سے بازآنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ کیا جسدِ قومی پر مزید گھاؤ لگیں گے ؟ کیا وطنِ عزیز مزید صدمے برداشت کریگا ؟کیا جنرل باجوہ صاحب قوم کے خدشات دور فرمائیں گے؟
میاں نواز شریف کا متنازعہ انٹرویو
میاں نواز شریف نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو کے دوران جو بات کہی ہے (یا جو منسوب ہوئی ہے) وہ میرے خیال میں ملک کے سابق وزیراعظم کو ہرگز نہیں کہنی چاہیے تھی ۔ اس لیے کہ میں اور میرا گھرانہ بھارت کو دشمن سمجھتے ہیںاوراس سے (موجودہ بھارتی قیادت کے ہوتے ہوئے) کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کے بہت سے پڑھے لکھے افراد وہی بات کرتے ہیں جو میاں نواز شریف نے کی ہے اور وہ سمجھتے ہیںکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز یا کچھ کالعدم تنظیموں کی حرکتوں سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے، ان تنظیموں کو کسی ادارے کی سپورٹ نہیں ملنی چاہیے۔ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں اس میں بھی وزن ہے وہ بھی ملک کی خیر خواہی کے لیے ہی ایسی باتیں کرتے ہیں ، ان کی باتیں سن کر کیا انھیں غدار قرار دے دیا جائے ؟ ایسی ہی باتیں کئی فوجی جرنیل کہہ چکے ہیں ، جنرل محمود درانی ، میڈیا پر یہ باتیں کرچکے ہیں۔
جنرل مشرف بھی یہ باتیں کرتا رہا ہے ،انھیں تو کسی نے غدار نہ کہا ، نواز شریف نے یہ بات کی تو تمام ریٹائرڈ جرنیلوں نے ٹی وی اسکرینوں پر اسے غداری کے سرٹیفکیٹ دینے شروع کردیے ہیں ۔ میرے خیال میں بھارت کے معاملے میں نواز شریف اور عمران خان دونوں کا مؤقف بڑا نرم ہے ۔ راقم کشمیر کا معاملہ حل ہونے سے پہلے بھارت سے دوستی کے حق میںنہیں ہے ، مگر جو لوگ ہمسایوں سے دوستی کی بات کرتے ہیں، انھیں ملک دشمن قرار دے دینا انتہائی غلط اور احمقانہ سوچ ہے۔ بہرحال سابق وزیر اعظم کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔
ملک کے قابل ترین جج صا حبا ن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھتے ہیں'' آخر میں ہم نے رائے ظاہر کی تھی کہ اگر کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل یحییٰ بہتر عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسٹرن کمانڈر کو ہدایت جاری کر دیتے کہ وہ16دسمبر کے بعد بھی مقابلہ جاری رکھیں تو بہت ممکن ہے کہ سیکیورٹی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کے لیے کوئی قابلِ اطمینان فیصلہ آجاتا۔اور ہندوستان ان کی وساطت سے اِس نیابتی(Proxy)جنگ کو غیر معینہ طوالت نہیں دے سکتاتھا۔
''اصولی طور پر تو یہ عمل اسی وقت شروع ہوجاناچاہیے تھا جب ہندوستان نے 21نومبر 1971کو پاکستانی سرحد کو عبور کر کے جارحیت کا ارتکاب کیا ۔اگر دشمن ہمارے مورچوں کے عقب میں پیراشوٹ فوجیں اتارے تو اُن سے کیسے نبٹاجائے ۔کھلی جنگ کے چوتھے دن بڑی بڑی قلعہ بندیا ں بغیر مقابلے کے چھوڑدی گئیں ۔مثلاًمغرب میں جیسور اور جھینی وا۔اور مشرق میں برہمن باڑیہ۔اگلے دن کومیلاکی قلعہ بندی چاروں طرف سے محاصرے میں آگئی۔حتیٰ کہ 9دسمبر کو ایک ڈویژنل کمانڈر اپنے فوجیوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر اپنی ذمّے داری کے علاقے سے فرار ہوگیا''
''ڈھاکا میں 26,400 باوردی فوجی موجود تھے۔اور اگر وہ چاہتے توکم ازکم دوہفتوں تک مزید مقابلہ کر سکتے تھے۔کیونکہ دشمن کو ڈھاکا میں اپنی فوجیں اکٹھی کر نے میں کم ازکم ایک ہفتہ لگ جاتا۔اور وہاں کی قلعہ بندیوں کو تسخیر کرنے میں مزید ایک ہفتہ درکار ہوتا۔اگرجنرل نیازی ایسی ہمّت کرنے میں اپنی جان بھی کھو دیتے تو بہادری کی تاریخ رقم کرتے۔جنرل نیازی کی عسکر ی ناکامیوں سے بھی زیادہ شرمناک ان کا وہ طرز ِعمل تھا جب وہ بڑے ادنیٰ انداز میں ہرذلّت پر راضی ہوتے گئے۔مثلاًہندوستان اورمکتی باہنی کی مشترکہ کمان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرنا۔وہ ہندوستانی فاتح جرنیل اروڑہ کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر خود موجود تھے۔
اپنے اے ڈی سی (ADC)کو حکم دیاکہ ہندوستانی جرنیل کو گارڈ آف آنر پیش کی جائے۔ جنرل نیازی نے ریس کورس گراؤنڈ میں عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی رسم میں شریک ہوکر ملک اور پاکستانی فوج کی عزت ہمیشہ کے لیے خاک میں ملادی ۔اگر انھیں سپر اندازی پر مجبور کیا گیاتھا، تو بھی ان کے لیے ہرگز مناسب نہ تھاکہ سپر اندازی کے ہرمرحلے میں اتنے شرمناک طرز ِ عمل کا مظاہرہ کرتے رہتے۔جولوگ ان واقعات کے عینی شاہد تھے ان کی مفصّل گواہی سننے کے بعد کمیشن کو یقین ہے کہ جنگ کے آخری دنوں میں جنرل نیازی اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے تھے''
''مشرقی پاکستان میں حالات کی رفتار اور جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل افسران کی ناقص کارکردگی اور صلاحیتّوں کے فقدان سے بہت مایوس ہوئے ہیں۔ بریگیڈیئرایس انصاری،23برگیڈ کے سابقہ کمانڈر، بریگیڈیئر منظور احمد 57بریگیڈ اور ڈویژن میں9 ڈویژن کے سابقہ کمانڈر اور بریگیڈ یئر عبدالقادر خان 36(وقتی) ڈویژن میں 94بریگیڈکے سابقہ کمانڈر۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی ملازمت کو برقرار رکھناعوامی مفاد میں نہیں ہے۔اس لیے انھیں ریٹائر کردیاجائے ۔''
''بنیادی اور ضمنی رپورٹوں کے پانچویں حصے کے پہلے باب میں 1971کی تباہ کن شکست کے اخلاقی پہلوؤں پر تفصیلی بحث کے بعد ہم نے اس رائے کا ظہار کیاہے کہ عوام کی انگشت نمائی،بلکہ ایسے الزامات کے عوامی یقین، میں ہمیں بھی کافی وزن لگتاہے کہ مارشل لاء کے فرائض کے دوران بہت سے سینئر فوجی افسران (بالخصوص چوٹی کے افسران) کرپشن ،شراب وشباب کی ہوس اور زر،زن ، زمین کے لالچ کا شکار ہوگئے۔جسکی وجہ سے نہ صرف ان کا جنگی رجحان (Will to fight) ختم ہوگیا۔بلکہ پیشہ ورانہ صلاحیتّں بھی کند ہوگئیں۔اور وہ اس قابل نہ رہے کہ کسی جنگ کے لڑنے میں اہم اور نازک فیصلے کر سکتے۔اس لیے ہم سفارش کرتے ہیں کہ
(i)حکومت تمام افواج کے افسران کے لیے لازمی قرار دے کہ وہ ایسے تمام منقولہ یاغیرمنقولہ اثاثوں کی فہرست داخل کریں۔جوان کے عزیزوں یا ان پر انحصار کرنے والوںDependants)) یاخودان کے نام پر گزشتہ دس برس میں بنائے گئے۔(مارشل لاء کی پچھلی دو حکومتوں نے انھیں اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیاتھا)۔ان اثاثوں کی چھان بین میں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی افسر نے اپنے وسائل سے زیادہ اثاثے اکٹھے کر لیے ہیں۔تو اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے۔
(ii)تینوں افواج مندرجہ ذیل مقاصدکے حصول کا مؤثر طریقِ کار وضع کریں۔
(ا) اَفسروں (بالخصوص اعلیٰ افسران )کے مذموم طرزِعمل سے اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
(ب)محکمانہ ترقیوں میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی کردارکو بھی مدِنظررکھاجائے۔
(ج)فوج کے تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین بھی شامل کیے جائیں ۔جس سے نوجوان ذہنوں میں مذہب، جمہوریت اور سیاسی
اداروںکے احترام میں اضافہ ہو۔
(د)فوجی طعام گاہوں (Army Messes)اور تقاریب میں شراب نوشی بند کردی جائے۔
(ر)جنسی بے راہ روی اور دیگر فاسد اعما ل پر کڑی گرفت ہونی چاہیے۔''
رپورٹ میں پاک بحریہ کو بہتراور جدید تر بنانے اور پاک فضائیہ کا کردار بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیاہے۔
رپورٹ کے چند مندرجات لکھنے کے بعد مسعود مفتی لکھتے ہیں ' '1971 کے ڈھاکا میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی شکست اور حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پرانے جمود کی علامت بن گئی ہے۔یہ رپورٹ کئی سیاسی اور فوجی حاکموں کے پاس امانت رہی ۔مگر ان ''امین ''لیڈروں نے ساری قوم کو بڑی مہارت اور منافقت سے ان لاحاصل قیاس آرائیوں میں الجھائے رکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کا
ذمّے دار کون تھا؟حالانکہ اس کا جواب ایک الماری یا چند دروازے کھولنے سے مل سکتاتھا۔جہا ں قوم کی یہ امانت خود انھوں نے ہی چھپائی ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے آخری دن (جس صدی میں علامہ اقبال ؒ نے صدیوں پر انے جمود کے خلاف صدابلند کی تھی)کمیشن کی یہ سفارشات پاکستان میں جزوی طورپر غیر مخفی کی گئی تھیں ۔مگر اب یہ سنگِ میل گزرے ہو ئے بھی کئی برس گزرگئے ہیں اور یہ جمود جاری ہے۔
کیونکہ خواص یہی چاہتے ہیں کہ عوام اس سانحے کو بھول جائیں ۔اور بھولے رہیں ۔شاید 1971 جتناہی بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے عوام کا جمود زدہ درباری کلچر بڑے رضاکارانہ انداز میں خود فراموشی اور خود فریبی کے اس ڈرامے میں خواص کا شریک رہااوراس سانحے پرہر کوئی کچھ کہنے، سننے، بولنے اور لکھنے سے گریز ہی کرتارہا۔اس دوران جرم کرنے والے عناصر پھولتے پھلتے رہے ۔اورباقی ماندہ پاکستان پر ان کی گرفت اس حد تک مضبوط ہو گئی ہے کہ اس کے تمام اداروں کی بلاروک ٹوک توڑ پھوڑ سے اپنی دانست میں اپنے اقتدار کو دوام دے سکتے ہیں۔ اس زعم میں اب ان کی اگلی نسل بھی فتح کا یہی میلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔۔''
'' دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی اور جاپان جتنے عرصے میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے تھے۔ اس سے کہیں زیادہ عرصے تک ہمارے خواص اپنی ساری قوت اس جمود کا ڈھکن دبانے میں مصروف کرتے رہے، اور حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر عملی کارروائی بھی اسی کے نیچے دبی رہی۔یہ صورتِ حال اس وقت تک جاری رہے گی۔جب تک عوام اپنے آپ کو خواص کی غلامی سے آزاد کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے۔
دریں اثناء منافق مُہرے استعمال ہوتے رہیں گے پرخلوص پاکستانی چہرے دیکھتے رہیں گے اور اس مملکتِ خداداد پر مخفی ہاتھ حسبِ سابق اپنی خدائی کرتے رہیں گے ۔یہ منظر نامہ جاری رہے گا۔جب تک ہماری قوم ایسے ہاتھوں اور ایسے مُہروں کی اندھی اطاعت ترک کر کے اپنی قسمت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں نہیں لے لیتی''۔ دیکھتے ہیں یہ قوم اپنی قسمت کی باگ ڈور 2018میں ہی اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے یا اس کے لیے کچھ اور انتظار کر نا ہوگا۔
جب بھی چند جرنیلوں کی ہوس اِقتدار جاگتی ہے تو وہ سیاست میں دخل دینے لگتے ہیں، جو فوج اور ملک دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والے رہنماہر محفل اور ہر جلسے میں خلائی مخلوق کا ذکر کرکے فوج کی سیاست میں دخل انداز ی کی نشاندہی کررہے ہیں موجودہ وزیر اعظم نے بھی مخفی چہروں کی سیاست میں دخل اندازی کی تصدیق کی ہے۔ عمران خان صاحب اور جناب محمود خان اچکزئی صاحب نے بھی صاف الفاظ میں فوج کی سیاست بازی کا ذکر کیا ہے اور کچھ فوجی افسروں کے نام بھی لیے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اتنے ذمے دار افراداگر بات کررہے ہیں تو یہ بے بنیاد تو نہیں ہوگی ۔سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ فوج جب بھی سیاست میں حصہ لیتی ہے ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ذمّے دار سیاستدانوں کے بیان سن کراور باخبر صحافیوں کی تحریریں پڑھکر دل گہری تشویش میں ڈوب جاتا ہے۔ کیا اب بھی کچھ جرنیل اس خوفناک کھیل سے بازآنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ کیا جسدِ قومی پر مزید گھاؤ لگیں گے ؟ کیا وطنِ عزیز مزید صدمے برداشت کریگا ؟کیا جنرل باجوہ صاحب قوم کے خدشات دور فرمائیں گے؟
میاں نواز شریف کا متنازعہ انٹرویو
میاں نواز شریف نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو کے دوران جو بات کہی ہے (یا جو منسوب ہوئی ہے) وہ میرے خیال میں ملک کے سابق وزیراعظم کو ہرگز نہیں کہنی چاہیے تھی ۔ اس لیے کہ میں اور میرا گھرانہ بھارت کو دشمن سمجھتے ہیںاوراس سے (موجودہ بھارتی قیادت کے ہوتے ہوئے) کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کے بہت سے پڑھے لکھے افراد وہی بات کرتے ہیں جو میاں نواز شریف نے کی ہے اور وہ سمجھتے ہیںکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز یا کچھ کالعدم تنظیموں کی حرکتوں سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے، ان تنظیموں کو کسی ادارے کی سپورٹ نہیں ملنی چاہیے۔ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں اس میں بھی وزن ہے وہ بھی ملک کی خیر خواہی کے لیے ہی ایسی باتیں کرتے ہیں ، ان کی باتیں سن کر کیا انھیں غدار قرار دے دیا جائے ؟ ایسی ہی باتیں کئی فوجی جرنیل کہہ چکے ہیں ، جنرل محمود درانی ، میڈیا پر یہ باتیں کرچکے ہیں۔
جنرل مشرف بھی یہ باتیں کرتا رہا ہے ،انھیں تو کسی نے غدار نہ کہا ، نواز شریف نے یہ بات کی تو تمام ریٹائرڈ جرنیلوں نے ٹی وی اسکرینوں پر اسے غداری کے سرٹیفکیٹ دینے شروع کردیے ہیں ۔ میرے خیال میں بھارت کے معاملے میں نواز شریف اور عمران خان دونوں کا مؤقف بڑا نرم ہے ۔ راقم کشمیر کا معاملہ حل ہونے سے پہلے بھارت سے دوستی کے حق میںنہیں ہے ، مگر جو لوگ ہمسایوں سے دوستی کی بات کرتے ہیں، انھیں ملک دشمن قرار دے دینا انتہائی غلط اور احمقانہ سوچ ہے۔ بہرحال سابق وزیر اعظم کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔